ملعون
کوئی ڈھائی عشرے قبل بھی مغرب ہی نےگستاخ اوردریدہ دہن سلمان رشدی کوتیار کیا تھا،مسلمانوں کوزِچ کرنے اورآزمانے کے لیے۔
''جو لوگ خدا اور اس کے پیغمبرؐ کو رنج پہنچاتے ہیں، ان پر خدا دنیا اور آخرت میں لعنت کرتا ہے اور ان کے لیے اس نے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔'' (سورۃ الاحزاب)
اللہ کے آخری رسولؐ سے مسلمانوں کی جو محبت ہے، مغربی و امریکی اخبار نویسوں اور دانشوروں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی۔ وہ دانستہ اِسے سمجھنا چاہتے ہیں نہ اس حساس معاملے کو اپنی پیشہ وارانہ اخلاقیات کا جزوِ ناگزیر بنانے پر تیار ہیں؛ چنانچہ شیطانیاں کرتے ہیں اور اللہ کی زمین پر فساد پیدا کر رہے ہیں۔ اسے وہ ''آزادیِٔ اظہار'' کا نام دیتے ہیں۔ اسی کے تحت وہ حرمتِ رسولؐ پر حملہ آور ہونے کی دانستہ غلیظ حرکتوں کے مرتکب ہوتے ہیں اور امتِ اسلامیہ کے دل دکھاتے ہیں۔
یہ گستاخ دراصل حضور نبی کریمؐ سے عداوت رکھنے والے ملعون ابو لہب کی ذرّیت ہیں۔ سرکارِ دو عالمؐ کے دور ہی میں ابولہب نامی ایک گستاخ پر اللہ کی لعنت شدت سے برسی اور وہ دوسروں کے لیے عبرت کا نشان بن کر رہ گیا۔ اس گستاخ پر اللہ کا غضب ان الفاظ میں برسا (مفہوم) ''ٹوٹ جائیں ابولہب کے دونوں ہاتھ اور وہ تباہ و برباد ہو گیا۔'' (سورۃ اللہب) اس سورئہ مبارکہ کی شکل میں بے ادبوں کے لیے تاقیامت وارننگ ہے۔
خالقِ کائنات کو بھی عظمتِ رسولؐ کا اتنا پاس ہے کہ قرآنِ حکیم میں حکم فرما دیا کہ ''اے اہلِ ایمان، اپنی آوازیں پیغمبرؐ کی آواز سے اونچی نہ کرو، اور جس طرح آپس میں ایک دوسرے سے زور سے بولتے ہو (اس طرح) اُن کے روبرو زور سے نہ بولا کرو (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے اعمال ضایع ہو جائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو۔'' (سورۃ الحجرات) جس ابو لہب کی گستاخیوں کو اللہ کریم برداشت نہ کر سکے، اس ابولہب کی معنوی اولاد یعنی آج کے بعض مغربی گستاخ مصنفین اور کارٹونسٹ امتِ محمدیہ کے غیض و غضب سے کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں؟ بجائے اس کے کہ یہ مغربی و امریکی، جو اپنی بے پناہ ذہانت سے چاند ستاروں پر کمندیں ڈال چکے ہیں، علم و عرفان کی روشنی میں تمیز و تہذیب سیکھیں، وہ جان بوجھ کر مسلمانوں کے دلوں سے کھیل رہے ہیں، جیسا کہ فرانسیسی جریدے نے دل آزار حرکت کی ہے۔
یہ شرارِ بُو لہبی بار بار سر اٹھاتا اور عاشقانِ رسولؐ کا امتحان لیتا ہے۔ یہ ہر زمانے اور ہر دَور میں ابھرتا اور سرکشی کرتا رہا ہے۔ اللہ کے آخری نبیؐ کے پروانوں نے ہمیشہ اپنی جانوں پر کھیل کر اسے گُل کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ کچھ عرصہ کے لیے زیرِ زمین چلا جاتا ہے لیکن اپنی مفسدانہ جبلّت کے تحت پھر سے ابھر آتا ہے۔ متحدہ ہندوستان میں بھی یہ کئی بار ابھرا اور کئی بار اس کا سر کچلا گیا۔ مغرب میں مستشرقین کی شکل میں اس کی با رہا تخلیق ہوئی۔ مسلمان اہلِ علم نے دانش و دلیل کی بنیاد پر ان کا مقابلہ کیا۔ سرسید احمد خان علیہ رحمہ بھی اُن عاشقانِ رسولؐ میں شامل ہیں جنہوں نے گستاخ مستشرقین کی گستاخیوں اور دریدہ دہنیوں کا جواب دینے کے لیے اپنا مال بھی اللہ کی راہ میں خرچ کیا اور حرمتِ رسولؐ کے تحفظ کے لیے ہندوستان سے ولائیت جا کر دندان شکن جواب دیا۔
لیکن یہ بات یورپی یونین کے میڈیا کی سمجھ میں آتی ہے نہ شمالی امریکا کے آزاد روش صحافیوں کے پلّے پڑتی ہے۔ وہ اسلامیانِ عالم کے دلوں کو تڑپانے اور بھڑکانے کے لیے بار بار گستاخی کرتے ہیں اور ضد پر بھی اُترے ہوئے ہیں۔ فرانسیسی جریدے، جس کی گستاخیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے سارا یورپ پیرس میں اکٹھا ہو گیا ہے، نے عالمی لعنتوںکے باوجود جس ضِد کے ساتھ گستاخ خاکے مکرر شایع کیے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ مغرب اور اس کے حکمران ملّتِ اسلامیہ کے اجتماعی احساسات و جذبات کو کوئی وقعت دینے پر سرے سے تیار ہی نہیں۔
فرانسیسی ہفت روزہ کو گستاخانہ اسلوب اپناتے ہوئے فرانس میں بسنے والے پچاس لاکھ مسلمانوں کے جذبات کا ذرا خیال بھی نہ آیا۔ ہم کتنے ہی گم گشتہ راہ اور بے عمل مسلمان ہو جائیں، یہ نوبت نہیں آ سکتی کہ سرکارؐ کے گستاخوں کو اپنا دوست خیال کریں یا ان کی گستاخیوں کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر سکیں۔ پیرس کے غریب مضافات میں بسنے والے ایک بائیس سالہ مسلمان نے نہایت سادگی سے ایک فرانسیسی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ''اے اہلِ فرانس، ہمارے پاس تحفظ ہے نہ روزگار، ہمیں آپ عزت دیتے ہیں نہ برابری کا احساس۔ ایسے میں ہم آخری پیغمبرؐ اور اپنے پیارے نبیؐ سے محبت بھی نہ کریں؟ آپ ہم سے ہمارا یہ مقدس سہارا بھی چھین لینا چاہتے ہیں؟ خدا کی قسم! ایسا ہو گا نہ ہو سکتا ہے۔ ہم حرمتِ رسولؐ پر کٹ مریں گے لیکن گستاخیاں برداشت نہیں کریں گے۔''
کوئی ڈھائی عشرے قبل بھی مغرب ہی نے گستاخ اور دریدہ دہن سلمان رشدی کو تیار کیا تھا، مسلمانوں کو زِچ کرنے اور آزمانے کے لیے۔ افسوس، امریکا اور یورپی ممالک نے شیطانی کتاب کے مصنف کو سینے سے لگا کر رکھا لیکن اربوں مسلمانوں کے سینوں میں نفرت کی آگ بھر دی۔ ڈنمارک سے مگر ایک گستاخ اخبار نے پھر سر اٹھایا۔ وہ بھی فرانسیسی جریدے کی طرح ایک غیر معروف چیتھڑا سا تھا جس نے شہرت کے حصول کے لیے گستاخ خاکے شایع کرنے کی گندی جسارت کی۔
سارا عالم اسلام، خصوصاً پاکستان اِس کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا۔ ہمارے ہاں تو کئی لوگ مارے گئے اور کروڑوں اربوں کی سرکاری و غیر سرکاری املاک نذرِ آتش کر دی گئیں لیکن ہم اور ہمارے مسلمان حکمران ڈنمارک اور اس کے اخبار کا کچھ بھی بگاڑ نہ سکے۔ وقت گزرا تو سب کچھ فراموش کر دیا گیا۔ اسی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اس بار توہین کا مرتکب ایک فرانسیسی جریدہ سامنے آ کھڑا ہوا ہے۔
جدید زمانے میں 52 سے زائد اسلامی ممالک کی موجودگی اور مسلم دنیا کی دوسری بڑی آبادی ہونے کے باوجود بعض غیر مسلم ممالک کے بعض اخبارات و جرائد اس لیے بار بار گستاخیوں میں سر اٹھا رہے ہیں کہ وہ ملتِ اسلامیہ کی کمزوریوں، ہمارے معاشی انحطاط، ہمارے عدم اتحاد اور ہماری فرقہ وارانہ دشمنیوں سے آگاہ اور آشنا ہیں۔ ہمارے حکمران کہتے ہیں کہ ''او آئی سی'' ایسے ادارے کو بروئے کار آنا چاہیے، اس کے پلیٹ فارم سے مغرب سے مکالمہ کیا جائے تا کہ گستاخانِ رسولؐ کا خاتمہ اور تدارک کیا جا سکے۔ وہ او آئی سی جو یو این او کی زیادتیوں کا کبھی مقابلہ نہیں کر سکتی۔
جس نے عراق اور ایران کی دس سالہ خوں ریز جنگ ختم کرانے میں ناکامی کا منہ دیکھا، جو صدام حسین کو کویت پر چڑھ دوڑنے سے روک سکی نہ وہاں سے صدامی فوجیں نکالنے میں کامیاب ہو سکی، وہ او آئی سی جو شام و عراق کی آگ بجھانے میں ناکام ہے، جو 36 برس سے ایران اور سعودی عرب کی سلگتی آگ کو گُل نہ کر سکی، جو اسلام دشمن طاقتوں کی سازشوں سے پہلے پاکستان، پھر انڈونیشیا اور پھر سوڈان کو تقسیم ہونے سے نہ بچا سکی، جو افغانستان سے جارح روسی اور امریکی فوجیں نکال سکی نہ عراق سے امریکی، جو ''داعش'' کی دہشت گردیوں کا خاتمہ کرنے میں کامل شکست کھا چکی ہے۔۔۔ کیا ایسی لاغر، کمزور، نحیف، بے جان اور بے دل ''او آئی سی'' سے یہ توقعات وابستہ کی جا سکتی ہیں کہ وہ اور اس کے وابستہ رکن مسلم ممالک آگے بڑھیں گے اور مسیحی مغرب کے طاقتور ممالک میں بسنے والے گستاخوں کا ناطقہ بند کر سکیں گے؟
اللہ کے آخری رسولؐ سے مسلمانوں کی جو محبت ہے، مغربی و امریکی اخبار نویسوں اور دانشوروں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی۔ وہ دانستہ اِسے سمجھنا چاہتے ہیں نہ اس حساس معاملے کو اپنی پیشہ وارانہ اخلاقیات کا جزوِ ناگزیر بنانے پر تیار ہیں؛ چنانچہ شیطانیاں کرتے ہیں اور اللہ کی زمین پر فساد پیدا کر رہے ہیں۔ اسے وہ ''آزادیِٔ اظہار'' کا نام دیتے ہیں۔ اسی کے تحت وہ حرمتِ رسولؐ پر حملہ آور ہونے کی دانستہ غلیظ حرکتوں کے مرتکب ہوتے ہیں اور امتِ اسلامیہ کے دل دکھاتے ہیں۔
یہ گستاخ دراصل حضور نبی کریمؐ سے عداوت رکھنے والے ملعون ابو لہب کی ذرّیت ہیں۔ سرکارِ دو عالمؐ کے دور ہی میں ابولہب نامی ایک گستاخ پر اللہ کی لعنت شدت سے برسی اور وہ دوسروں کے لیے عبرت کا نشان بن کر رہ گیا۔ اس گستاخ پر اللہ کا غضب ان الفاظ میں برسا (مفہوم) ''ٹوٹ جائیں ابولہب کے دونوں ہاتھ اور وہ تباہ و برباد ہو گیا۔'' (سورۃ اللہب) اس سورئہ مبارکہ کی شکل میں بے ادبوں کے لیے تاقیامت وارننگ ہے۔
خالقِ کائنات کو بھی عظمتِ رسولؐ کا اتنا پاس ہے کہ قرآنِ حکیم میں حکم فرما دیا کہ ''اے اہلِ ایمان، اپنی آوازیں پیغمبرؐ کی آواز سے اونچی نہ کرو، اور جس طرح آپس میں ایک دوسرے سے زور سے بولتے ہو (اس طرح) اُن کے روبرو زور سے نہ بولا کرو (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے اعمال ضایع ہو جائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو۔'' (سورۃ الحجرات) جس ابو لہب کی گستاخیوں کو اللہ کریم برداشت نہ کر سکے، اس ابولہب کی معنوی اولاد یعنی آج کے بعض مغربی گستاخ مصنفین اور کارٹونسٹ امتِ محمدیہ کے غیض و غضب سے کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں؟ بجائے اس کے کہ یہ مغربی و امریکی، جو اپنی بے پناہ ذہانت سے چاند ستاروں پر کمندیں ڈال چکے ہیں، علم و عرفان کی روشنی میں تمیز و تہذیب سیکھیں، وہ جان بوجھ کر مسلمانوں کے دلوں سے کھیل رہے ہیں، جیسا کہ فرانسیسی جریدے نے دل آزار حرکت کی ہے۔
یہ شرارِ بُو لہبی بار بار سر اٹھاتا اور عاشقانِ رسولؐ کا امتحان لیتا ہے۔ یہ ہر زمانے اور ہر دَور میں ابھرتا اور سرکشی کرتا رہا ہے۔ اللہ کے آخری نبیؐ کے پروانوں نے ہمیشہ اپنی جانوں پر کھیل کر اسے گُل کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ کچھ عرصہ کے لیے زیرِ زمین چلا جاتا ہے لیکن اپنی مفسدانہ جبلّت کے تحت پھر سے ابھر آتا ہے۔ متحدہ ہندوستان میں بھی یہ کئی بار ابھرا اور کئی بار اس کا سر کچلا گیا۔ مغرب میں مستشرقین کی شکل میں اس کی با رہا تخلیق ہوئی۔ مسلمان اہلِ علم نے دانش و دلیل کی بنیاد پر ان کا مقابلہ کیا۔ سرسید احمد خان علیہ رحمہ بھی اُن عاشقانِ رسولؐ میں شامل ہیں جنہوں نے گستاخ مستشرقین کی گستاخیوں اور دریدہ دہنیوں کا جواب دینے کے لیے اپنا مال بھی اللہ کی راہ میں خرچ کیا اور حرمتِ رسولؐ کے تحفظ کے لیے ہندوستان سے ولائیت جا کر دندان شکن جواب دیا۔
لیکن یہ بات یورپی یونین کے میڈیا کی سمجھ میں آتی ہے نہ شمالی امریکا کے آزاد روش صحافیوں کے پلّے پڑتی ہے۔ وہ اسلامیانِ عالم کے دلوں کو تڑپانے اور بھڑکانے کے لیے بار بار گستاخی کرتے ہیں اور ضد پر بھی اُترے ہوئے ہیں۔ فرانسیسی جریدے، جس کی گستاخیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے سارا یورپ پیرس میں اکٹھا ہو گیا ہے، نے عالمی لعنتوںکے باوجود جس ضِد کے ساتھ گستاخ خاکے مکرر شایع کیے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ مغرب اور اس کے حکمران ملّتِ اسلامیہ کے اجتماعی احساسات و جذبات کو کوئی وقعت دینے پر سرے سے تیار ہی نہیں۔
فرانسیسی ہفت روزہ کو گستاخانہ اسلوب اپناتے ہوئے فرانس میں بسنے والے پچاس لاکھ مسلمانوں کے جذبات کا ذرا خیال بھی نہ آیا۔ ہم کتنے ہی گم گشتہ راہ اور بے عمل مسلمان ہو جائیں، یہ نوبت نہیں آ سکتی کہ سرکارؐ کے گستاخوں کو اپنا دوست خیال کریں یا ان کی گستاخیوں کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر سکیں۔ پیرس کے غریب مضافات میں بسنے والے ایک بائیس سالہ مسلمان نے نہایت سادگی سے ایک فرانسیسی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ''اے اہلِ فرانس، ہمارے پاس تحفظ ہے نہ روزگار، ہمیں آپ عزت دیتے ہیں نہ برابری کا احساس۔ ایسے میں ہم آخری پیغمبرؐ اور اپنے پیارے نبیؐ سے محبت بھی نہ کریں؟ آپ ہم سے ہمارا یہ مقدس سہارا بھی چھین لینا چاہتے ہیں؟ خدا کی قسم! ایسا ہو گا نہ ہو سکتا ہے۔ ہم حرمتِ رسولؐ پر کٹ مریں گے لیکن گستاخیاں برداشت نہیں کریں گے۔''
کوئی ڈھائی عشرے قبل بھی مغرب ہی نے گستاخ اور دریدہ دہن سلمان رشدی کو تیار کیا تھا، مسلمانوں کو زِچ کرنے اور آزمانے کے لیے۔ افسوس، امریکا اور یورپی ممالک نے شیطانی کتاب کے مصنف کو سینے سے لگا کر رکھا لیکن اربوں مسلمانوں کے سینوں میں نفرت کی آگ بھر دی۔ ڈنمارک سے مگر ایک گستاخ اخبار نے پھر سر اٹھایا۔ وہ بھی فرانسیسی جریدے کی طرح ایک غیر معروف چیتھڑا سا تھا جس نے شہرت کے حصول کے لیے گستاخ خاکے شایع کرنے کی گندی جسارت کی۔
سارا عالم اسلام، خصوصاً پاکستان اِس کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا۔ ہمارے ہاں تو کئی لوگ مارے گئے اور کروڑوں اربوں کی سرکاری و غیر سرکاری املاک نذرِ آتش کر دی گئیں لیکن ہم اور ہمارے مسلمان حکمران ڈنمارک اور اس کے اخبار کا کچھ بھی بگاڑ نہ سکے۔ وقت گزرا تو سب کچھ فراموش کر دیا گیا۔ اسی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اس بار توہین کا مرتکب ایک فرانسیسی جریدہ سامنے آ کھڑا ہوا ہے۔
جدید زمانے میں 52 سے زائد اسلامی ممالک کی موجودگی اور مسلم دنیا کی دوسری بڑی آبادی ہونے کے باوجود بعض غیر مسلم ممالک کے بعض اخبارات و جرائد اس لیے بار بار گستاخیوں میں سر اٹھا رہے ہیں کہ وہ ملتِ اسلامیہ کی کمزوریوں، ہمارے معاشی انحطاط، ہمارے عدم اتحاد اور ہماری فرقہ وارانہ دشمنیوں سے آگاہ اور آشنا ہیں۔ ہمارے حکمران کہتے ہیں کہ ''او آئی سی'' ایسے ادارے کو بروئے کار آنا چاہیے، اس کے پلیٹ فارم سے مغرب سے مکالمہ کیا جائے تا کہ گستاخانِ رسولؐ کا خاتمہ اور تدارک کیا جا سکے۔ وہ او آئی سی جو یو این او کی زیادتیوں کا کبھی مقابلہ نہیں کر سکتی۔
جس نے عراق اور ایران کی دس سالہ خوں ریز جنگ ختم کرانے میں ناکامی کا منہ دیکھا، جو صدام حسین کو کویت پر چڑھ دوڑنے سے روک سکی نہ وہاں سے صدامی فوجیں نکالنے میں کامیاب ہو سکی، وہ او آئی سی جو شام و عراق کی آگ بجھانے میں ناکام ہے، جو 36 برس سے ایران اور سعودی عرب کی سلگتی آگ کو گُل نہ کر سکی، جو اسلام دشمن طاقتوں کی سازشوں سے پہلے پاکستان، پھر انڈونیشیا اور پھر سوڈان کو تقسیم ہونے سے نہ بچا سکی، جو افغانستان سے جارح روسی اور امریکی فوجیں نکال سکی نہ عراق سے امریکی، جو ''داعش'' کی دہشت گردیوں کا خاتمہ کرنے میں کامل شکست کھا چکی ہے۔۔۔ کیا ایسی لاغر، کمزور، نحیف، بے جان اور بے دل ''او آئی سی'' سے یہ توقعات وابستہ کی جا سکتی ہیں کہ وہ اور اس کے وابستہ رکن مسلم ممالک آگے بڑھیں گے اور مسیحی مغرب کے طاقتور ممالک میں بسنے والے گستاخوں کا ناطقہ بند کر سکیں گے؟