میری مسجد کو ہاتھ نہ لگائیں

مغرب مذہبی انتہا پسندی میں مسلمانوں کے نام پر انتہا پسندی کرنیوالوں سے بڑھ کر شدت پسند واقع ہوا ہے۔

qakhs1@gmail.com

فرانس میں متنازعہ ہفت روزہ جریدے ''چارلی ایبدو'' پر نقاب پوش حملہ آوروں نے اس مجلے کے دفتر میں گھس کر فائرنگ کر دی جس سے متعدد افراد جاں بحق ہوئے جس میں ایک مسلمان پولیس اہلکار بھی شامل تھا۔ اس حملے کو حضرت محمد ﷺ کے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کا ردعمل قرار دیا گیا ہے۔

جب کہ اس حملے سے ایک گھنٹہ پیشتر 'چارلی ایبدو' نے اپنا ٹوئیٹر مائیکرو بلاگ جاری کیا تھا جس میں داعش کے رہنما البغدادی کا خاکہ تھا اور لکھا تھا ''صحت مند رہو اور سب اچھا ہو۔'' قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ دولت اسلامیہ (داعش) کے ریڈیو نے حملہ آوروں کو ہیرو قرار دیا ہے۔ دفتر پر حملے کی مذمت اور اسلام فوبیا کی شکار مملکتوں نے ایک ایسی ریلی کا انعقاد کیا جس میں معصوم2500 مسلمانوں کے قاتل اسرائیلی وزیر اعظم نتن ہائیونے شریک ہو کر مسلم امہ کو ایک پیغام دیا کہ مسلم امہ کے خلاف ہر قسم کی کارروائی و ردعمل میں یہود و نصاری شانہ بہ شانہ ہیں۔ حیرانی اس بات پر تھی کہ اس ریلی میں مسلم ملک سے تعلق رکھنے والے ترکی کے وزیر اعظم نے بھی شرکت کی اور اس وقت تو خاموش رہے لیکن بعد میں اسرائیل کی ریلی کی شمولیت پر بھڑکے اور یورپی ممالک کے متنازعہ کردار کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ مسلم امہ اپنے تمام تر اختلافات کے باوجود حضرت محمد ﷺ سے یکساں اور بڑھ چڑھ کر محبت کرتے ہیں اور ناموس رسالت ﷺ کے لیے جان دینے سے لے کر لینے تک کسی سمجھوتے پر رضا مند نہیں ہو سکتے۔ اسلام فوبیا کے شکار ممالک اور ان کے عوام مسلمانوں کی حضرت محمد ﷺ سے مسلمانوں کی انسیت اور محبت کی تمام تر گہرائیوں کو سمجھنے کے باوجود ایسا عمل دانستہ کر جاتے ہیں جس سے دنیا بھر میں کونے کونے میں رہنے والے اربوں مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے اور ناموس رسالت ﷺ کے لیے ہر عمل کے لیے پہل کرنا اپنی لیے سعادت سمجھتے ہیں۔

مغرب مذہبی انتہا پسندی میں مسلمانوں کے نام پر انتہا پسندی کرنیوالوں سے بڑھ کر شدت پسند واقع ہوا ہے۔ اقوام عالم کی توجہ کے لیے اس بات کا اظہاریہ ضروری ہے کہ ہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے اگر مغرب اسلام فوبیا کے خوف سے باہر نہیں نکل سکا ہے تو اس میں مسلمانوں سے زیادہ خود ان کے ردعمل اور پالیساں ہیں مثال کے طور پر سویڈن کے مختلف شہروں میں ہزاروں افراد نے مساجد پر ہونیوالے حملوں کے خلاف پر امن مظاہرے کیے۔ سخت سردی کے باوجود ہزاروں افراد جن میں سویڈش خواتین اور بچے بھی شامل تھے مظاہروں میں شریک ہو کر مساجد کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔ دارالحکومت اسٹاک ہولم میں ہزاروں مظاہرین سویڈش پارلیمنٹ اور شاہی محل کے سامنے جمع ہوئے اور مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نے ایک بہت بڑا بینر اٹھا رکھا تھا جس پر لکھا تھا ''میری مسجد کو ہاتھ نہ لگائیں۔''

مسلمانوں کی ایک غلط تصویر اور منفی تاثر کو فروغ دیا جا رہا ہے کہ مسلمان سخت گیر اور معتدل نہیں ہیں۔ اس میں رنگ بھرنے کے لیے داعش کی جانب سے شام اور عراق میں حالیہ کاروائیاں اور نائیجریا، پاکستان اور افغانستان میں شدت پسند اور بوکو حرام جیسی تنظیموں کی جانب سے متشدد رجحان نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ سویڈن سے ڈیڑھ سو زائد مسلم نوجوان شام اور عراق کی جنگ میں حصہ لینے گئے اور ان میں پاکستانی نوجوان بھی شامل ہیں۔ علاوہ ازیں اس خطے میں اسلامی ریاست کے قیام کے اعلان پر بھی مساجد پر حملوں کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ مساجد پر حملوں کا رجحان تشویش ناک حد تک بڑھتا جا رہا ہے۔


جیسے سویڈیش جریدے دی لوکل نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ''سویڈن 'اسلام فوبیا' کی لپیٹ میں دکھائی دیتا ہے۔'' 2014ء میں دارلحکومت اسٹاک ہولم سمیت ملک بھر میں مساجد کو نشانہ بنانے کی 14 وارداتیں ہوئیں۔ جب کہ یکم جنوری سمیت امسال مساجد پر حملوں کے تین واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ مقامی پولیس کے مطابق مساجد کی دیواروں پر سویڈن میں مقیم مسلمانوں کو ملک چھوڑنے کے لیے قتل کی دہمکیاں دی گئی ہیں۔ برطانیہ کے روزنامہ انڈیپنڈنٹ نے ایک خبر شایع کی کہ (2013ء تک) برطانیہ میں مسلمانوں اور مساجد پر 140 حملے کیے گئے۔ اس روزنامے کی رپورٹ کے مطابق شدت پسندوں نے 9 مساجد پر حملے کیے ہیں، مسلمانوں کی توہین کی ہے اور انٹر نیٹ پر مسلمانوں کے خلاف لکھا ہے۔

یہ واقعات لندن میں ایک برطانوی شہری کے قتل کے بعد شروع ہوئے تھے جس میں نسل پرست تنظیم کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف مظاہرے کیے گئے اور مساجد پر حملے بھی ہوئے۔ فرانس کے مختلف شہروں میں انتہا پسندوں نے مساجد پر حملے کیے اور حالیہ جریدے پر حملے کے واقعے کے بعد دو مساجد کو آگ لگا کر شہید کر دیا گیا۔ فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پیرس سے مغرب کی جانب شہر لامان میں واقع ایک مسجد پر بغیر بارود کے تین دستی بم پھینکے گئے اس کے علاوہ ایک دوسرے علاقے پورت لانوول میں شام کی نماز کے فوری بعد مسجد کے ہال کی جانب فائرنگ کی گئی۔

اس کے علاوہ ملک کے مشرقی شہر ویلنفرانش سر ساون میں ایک مسجد کے قریب واقع کباب کی دکان میں دہماکا ہوا۔ اس سے پہلے فرانس کے ہمسایہ ملک جرمنی کے مختلف شہروں میں 'مغرب کی اسلامائزیشن' کے خلاف اسلام مخالف یورپی تنظیم ' پیگیڈا ' (پیٹریاٹک یورپئینز اگینسٹ اسلامایزیشن) اور اس تنظیم کے مخالفین نے جلوس نکالے، پیگیڈا کا دعوی ہے کہ جرمنی پر ایک لحاظ سے مسلمانوں اور دیگر تارکین وطن سے قبضہ کر لیا ہے۔ ترک وزیر اعظم نے ترکی کے سفارت خانے میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ''ہم توقع کرتے ہیں کہ اسی طرح کی حسیاست کا مظاہرہ مسلمانوں کی مساجد پر حملوں اور اسلام فوبیا کے بارے میں بھی کیا جائے گا۔'' فرانس کے صدر اولاندو کا ماننا ہے کہ ''جریدے کے آفس پر حملے میں ملوث حملہ آوروں کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔'' ترک وزیر اعظم احمد داؤد اوغلو کی اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ''یہ دہشت گرد کسی مسلم ملک میں پروان نہیں چڑھے بلکہ فرانس پیرس کے اپنے ماحول کی پیداوار ہیں۔

اس لیے اس ماحول کا جائزہ لینا چاہیے۔'' اہم بات بھی یہی ہے کہ فلسطین، شام اور عراق میں بھی دہشت گردی ہے ایسے بھی ایک نظر سے دیکھنا ضروری ہے۔ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اس بات پر سب متفق ہیں لیکن بدقسمتی سے مسلمانوں کے ساتھ پوری دنیا میں امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ امریکا و افغانستان میں توہین قرآن کے واقعات، ناروے، فرانس میں توہین آمیز خاکوں کی اشاعت، بھارت سمیت دیگر ممالک میں مساجد پر حملے، مسلمانوں کے شعار پر چین، فرانس میں پابندی، حجاب اور دیگر اسلامی راویتوں پر غیر مسلم ممالک کی شدت پسندی کی ایک بڑی مثال چین سے لی جا سکتی ہے اس کے ایک شہر میں مسلمان خواتین کے برقعہ اوڑھنے پر اس لیے پابندی عائد کر دی گئی کیونکہ اس سے مذہبی انتہا پسندی کو فروغ ملے گا۔

بھارت میں مذہب کے نام پر مساجد میں خنزیر پھینکے جانے کے واقعات اور یورپ میں مذہبی شدت پسندوں کی جانب سے مساجد کے حملوں میں کوئی فرق اس لیے نہیں ہے کیونکہ ان کا مائنڈ سیٹ ایک ہی ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ مغرب اور اسلام مخالف قوتوں کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے کہ جب ان سے اسلام کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مقبولیت برداشت نہیں ہوتی اور نہ مساجد۔ اسلام تو خود سلامتی اور امن کا دین ہے جس کی روح میں پیام امن، محبت اور پیار ہے۔ اس لیے براہِ مہربانی ''میری مسجد کو ہاتھ نہ لگائیں۔''
Load Next Story