بھارت کا جارحانہ رویّہ
ڈوول کے ڈاکٹرائن میں پاکستان کو بوجہ یا بلاوجہ شدید ترین تکلیف سے دوچار کرنا ہے۔ ان کے نزدیک پاکستان ایک مصنوعی ملک ہے
بھارت کی پالیسی جو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول (Ajit Doval)کی معاونت سے تشکیل دی ہے اس میں -1 بھارت کے قومی مفاد کا دفاع کرنا اس سے قطع نظر کہ دوسری طاقت اس بارے میں کیا سوچتی ہے -
2 پاکستان یا اس کے لیڈروں کو ان کے بقا کے لیے کوئی ''لائف لائن'' نہیں دینی-3 بھارتی مسلمانوں کی حساسیت کے بارے میں کوئی تشویش ظاہر نہیں کرنی اور نہ ہی پاکستان کے ساتھ ان کی وابستگی سے کوئی اثر لینا چاہیے کیونکہ ان خیالی زنجیروں سے (بھارت کے 18 کروڑ مسلمان) بھارت کو باندھ نہیں سکتے۔ بھارت کو جنوبی ایشیا میں اپنی بالادستی ظاہر کرنے کے لیے اپنی اقتصادی اور فوجی طاقت کی نمائش کرنا چاہیے۔ چنانچہ بھارت پاکستان کو اپنی مرضی کے راستے پر چلانے کے لیے تمام ذرایع استعمال کرے گا۔ بھارت نے پاکستان کے لیے جس ''لائف لائن'' کا ذکر کیا ہے اس سے قارئین کو اپنے سانس نہیں روکنے چاہئیں اس کا سیدھا سادا مطلب ہے کہ پاک فوج کو سرحدوں پر اس قدر مصروف کر دیا جائے کہ سیاسی لیڈر بھارت کی ہر بات ماننے پر مجبور ہو جائیں۔ جہاں تک سری لنکا کی نئی حکومت کی آزادی کا تعلق ہے جس نے اپنے پیشرو راجا پاکشے کی حکومت کو نکال باہر کیا وہ ڈوول کی زیر نگرانی ''را'' کی بڑی کامیابی تھی۔
ڈوول کے ڈاکٹرائن میں پاکستان کو بوجہ یا بلاوجہ شدید ترین تکلیف سے دوچار کرنا ہے۔ ان کے نزدیک پاکستان ایک مصنوعی ملک ہے۔ اس نے یہ دھمکی بھی دی ہے کہ اگر بھارت میں ممبئی جیسا کوئی اور واقعہ ہوا تو پاکستان بلوچستان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ پاکستان کو توڑنے کے لیے ہر ممکن اقدام کرنا نہ تو حیرت کی بات ہے اور نہ ہی غیر متوقع ہے۔
سیالکوٹ کے قریب ورکنگ باؤنڈری پر مسلسل مارٹر کے گولے پھینک کر کئی پاکستانی شہریوں کو عید کے دن ہلاک کر دیا گیا۔ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے بھارتی نژاد شہریوں اور تارکین وطن بھارتی باشندوں کو کامیابی کے ساتھ اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے میں مودی اسرائیل کی نقل کر رہے ہیں تا کہ ان ممالک میں جہاں یہ لوگ مقیم ہیں وہاں بھارت کی اقتصادی اور سیاسی برتری کا اثر ڈالا جائے تاکہ بھارت کی طاقت کا اظہار ہو سکے اور اس کے ساتھ ہی بھارت کے نرم تاثر کو بھی اجاگر کیا جائے۔ بھارت کے سویلین سیاسی آقاؤں کے اشاروں پر بھارتی فوج چلنے کے لیے تیار ہے۔
مودی کے ہندوتوا کے عزم کو پورا کرنے کی پاکستانی فوجیوں اور شہریوں کو مارا جائے تا کہ بھارت پر مسلمانوں کی ایک ہزار سال تک حکومت کا انتقام لیا جا سکے۔اجیت ڈوول نے چھ سے آٹھ سال تک پاکستان میں بھارتی ہائی کمیشن کے ساتھ ''انڈرکوّر'' جاسوس کے طور پر کام کیا اور 2005ء میں وہ انٹیلی جنس بیورو (IB) کے خفیہ کارروائیوں کے شعبہ کے سربراہ کے طور پر ریٹائر ہو گیا۔ بعد ازاں اس نے دائیں بازو کے ہندو قومیت پرستوں کے ساتھ مل کر وی وی کنا نندہ انٹرنیشنل فاؤنڈیشن (Vivekananda) قائم کی جو کہ تھنک ٹینک کے طور پر کام کرتی ہے۔
اس کا قیام 2009ء میں عمل میں آیا۔ ڈوول اس کا بانی رکن ہے۔ آئی بی میں اس کا سابق کولیگ ہبا رام کہتا ہے ''کہ ڈوول اپنے کام میں پیشہ ورانہ ذمے داریوں کے بجائے اپنے دل میں بھری ہوئی غیر ہندوؤں کے خلاف انتہائی سخت نفرت سے کام لیتا ہے جو کہ اس کی ہندوؤں کی انتہائی متعصب تنظیم آر ایس ایس کے ساتھ گہری وابستگی کا نتیجہ ہے۔ اس وقت بھارت کی خارجہ پالیسی پر ڈوول کا مکمل کنٹرول ہو گیا ہے اور اپنے اس جنون کو پروان چڑھانے کے لیے اس کے پاس تمام تر وسائل بھی موجود ہیں۔ حسن قریشی نے 15 جولائی 2014ء کو ایک مقالہ لکھا تھا جس کا عنوان تھا ''وہ بھارتی جو پاکستان کو تباہ کرنا چاہتا ہے''۔ اس کا عنوان پڑھ کر اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ پھر کیا ہوا بھارت میں تو بہت سے ایسے لوگ ہونگے جو پاکستان کو تباہ کرنا چاہتے ہونگے اور ایسے لوگ ہمیشہ سے تھے اور ہمیشہ رہیں گے۔
یہ بہت افسوسناک حقیقت ہے۔ لیکن ڈوول ان لوگوں سے مختلف ہے۔ اس کو سب چیزوں کا پتہ ہے۔ اس کے پاس مہارت بھی ہے اور سب سے اہم بات یہ کہ اب اس کے پاس وسائل اور طاقت بھی ہے جس سے وہ نہ صرف پاکستانی عوام کو بلکہ بھارت کی لاتعداد اور بے یارو مدد گار اقلیتوں کو بھی جس قدر چاہے نقصان پہنچا سکتا ہے اور وہ پہلے ایسا کر بھی چکا ہے۔ لہذا خیبر سے کیرالہ تک تمام امن پسند لوگوں کو بیٹھ کر نہایت احتیاط سے سوچنا چاہیے۔ بھارت پاکستان اور چین کے ساتھ پنجہ آزمائی کر چکا ہے جب کہ ایک معروف بھارتی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ اگر بھارت کی چین کے ساتھ لڑائی ہوئی تو اس میں دونوں کا نقصان ہو گا جب کہ پاکستان کے ساتھ لڑائی کی صورت میں نقصان پاکستان کا نہیں بلکہ صرف بھارت کا ہو گا۔
ایسے خفیہ آپریشن جن کی منصوبہ بندی کسی اور نے کی ہو لیکن ان پر عمل درآمد کوئی دوسرا کرے تو اسے ''جعلی جھنڈا'' یا کالا جھنڈا' آپریشنFalse Flag or Black Flag کا نام دیا جاتا ہے۔ خواہ ان کو یہ علم ہو یا نہ ہو کہ ''جعلی جھنڈے کی دہشت گردی'' بھی اسی ضمن میں آتی ہے۔ اس صورت میں بہت سی چیزیں ایک سے زیادہ بار کر دی جاتی ہیں۔
پولینڈ کی سرحد پر ایک واقعہ ہوا تھا جس میں کنسنٹریشن کیمپوں کے قیدیوں کو پولینڈ کی فوجی یونیفارم پہنا کر ان سے جرمنی کی سرحدی چوکی پر حملہ کروایا گیا جس کے نتیجے میں جرمنی کو پولینڈ کے خلاف جنگ کرنے کا بہانہ مل گیا۔ 1953ء میں سی آئی اے نے ایران میں ''جعلی جھنڈے'' کے ساتھ مسجدوں اور عوامی نمایندوں پر حملے کرائے جن کا الزام ایرانی کمیونسٹوں پر عاید کیا گیا جو حکومت کے وفادار تھے، تا کہ وزیراعظم مصدق کی حکومت کا تختہ الٹا جا سکے۔
ڈوول 'جعلی پرچم' کے ذریعے جو کارروائیاں کرانا چاہتا ہے وہ اسی پر الٹی پڑیں گی کیونکہ 2 نومبر کے واہگہ بارڈر کے واقعے اور 16 دسمبر کے پشاور کے واقعے کو ان دہشت گردوں کی کارروائی قرار دیا گیا ہے جو کابل کے کنٹرول میں ہیں۔ اسی طرح افغانستان کی طرف سے ایسے واقعات کا الزام پاکستان پر لگایا جاتا ہے۔ کابل میں ان 5 افراد کو گرفتار کر لیا گیا جنہوں نے پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں بچوں کے قتل عام کی منصوبہ بندی کی۔ اس سے انکشاف ہوا کہ ہمارے بچوں کی ہلاکت میں بھارت کی خفیہ ایجنسی 'را' نہایت ظالمانہ انداز میں ملوث تھی۔ اس کے جواب میں ہمارا ردعمل کیا ہونا چاہیے؟ ہمارا جواب بہت نپا تلا ہونا چاہیے۔
الفاظ میں بھی اور عمل میں بھی۔ بھارت اپنی جنگی مہم ''کولڈ اسٹار'' کے عنوان سے شروع کر رہا ہے جس میں دس سے بارہ تک مشینی بریگیڈ حصہ لیں گے۔ اب ہمیں یہ سوچنا ہے کہ اگر انھوں نے حفاظتی لائن کو عبور کر لیا تو کیا ہم ان کی خدمت میں پھولوں کے ہار پیش کریں گے یا گلدستے؟ یا پھر ہم ہمیں اپنی آزادی کے دفاع کی خاطر روایتی ہتھیاروں کے بجائے غیر روایتی جوہری ہتھیار استعمال کرنا ہونگے۔
اگرچہ جنوبی ایشیا میں امن و امان اور دوستانہ تعلقات کی خواہش بدستور موجود ہے لیکن بھارت کے مقابلے میں ہمیں ایٹمی ہولوکاسٹ میں جان دینا بخوشی قبول ہے نہ کہ اگلے ہزار سال کے لیے مودی ڈوول ہندوتوا کی شاؤنیت کا شکار بن جائیں۔
2 پاکستان یا اس کے لیڈروں کو ان کے بقا کے لیے کوئی ''لائف لائن'' نہیں دینی-3 بھارتی مسلمانوں کی حساسیت کے بارے میں کوئی تشویش ظاہر نہیں کرنی اور نہ ہی پاکستان کے ساتھ ان کی وابستگی سے کوئی اثر لینا چاہیے کیونکہ ان خیالی زنجیروں سے (بھارت کے 18 کروڑ مسلمان) بھارت کو باندھ نہیں سکتے۔ بھارت کو جنوبی ایشیا میں اپنی بالادستی ظاہر کرنے کے لیے اپنی اقتصادی اور فوجی طاقت کی نمائش کرنا چاہیے۔ چنانچہ بھارت پاکستان کو اپنی مرضی کے راستے پر چلانے کے لیے تمام ذرایع استعمال کرے گا۔ بھارت نے پاکستان کے لیے جس ''لائف لائن'' کا ذکر کیا ہے اس سے قارئین کو اپنے سانس نہیں روکنے چاہئیں اس کا سیدھا سادا مطلب ہے کہ پاک فوج کو سرحدوں پر اس قدر مصروف کر دیا جائے کہ سیاسی لیڈر بھارت کی ہر بات ماننے پر مجبور ہو جائیں۔ جہاں تک سری لنکا کی نئی حکومت کی آزادی کا تعلق ہے جس نے اپنے پیشرو راجا پاکشے کی حکومت کو نکال باہر کیا وہ ڈوول کی زیر نگرانی ''را'' کی بڑی کامیابی تھی۔
ڈوول کے ڈاکٹرائن میں پاکستان کو بوجہ یا بلاوجہ شدید ترین تکلیف سے دوچار کرنا ہے۔ ان کے نزدیک پاکستان ایک مصنوعی ملک ہے۔ اس نے یہ دھمکی بھی دی ہے کہ اگر بھارت میں ممبئی جیسا کوئی اور واقعہ ہوا تو پاکستان بلوچستان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ پاکستان کو توڑنے کے لیے ہر ممکن اقدام کرنا نہ تو حیرت کی بات ہے اور نہ ہی غیر متوقع ہے۔
سیالکوٹ کے قریب ورکنگ باؤنڈری پر مسلسل مارٹر کے گولے پھینک کر کئی پاکستانی شہریوں کو عید کے دن ہلاک کر دیا گیا۔ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے بھارتی نژاد شہریوں اور تارکین وطن بھارتی باشندوں کو کامیابی کے ساتھ اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے میں مودی اسرائیل کی نقل کر رہے ہیں تا کہ ان ممالک میں جہاں یہ لوگ مقیم ہیں وہاں بھارت کی اقتصادی اور سیاسی برتری کا اثر ڈالا جائے تاکہ بھارت کی طاقت کا اظہار ہو سکے اور اس کے ساتھ ہی بھارت کے نرم تاثر کو بھی اجاگر کیا جائے۔ بھارت کے سویلین سیاسی آقاؤں کے اشاروں پر بھارتی فوج چلنے کے لیے تیار ہے۔
مودی کے ہندوتوا کے عزم کو پورا کرنے کی پاکستانی فوجیوں اور شہریوں کو مارا جائے تا کہ بھارت پر مسلمانوں کی ایک ہزار سال تک حکومت کا انتقام لیا جا سکے۔اجیت ڈوول نے چھ سے آٹھ سال تک پاکستان میں بھارتی ہائی کمیشن کے ساتھ ''انڈرکوّر'' جاسوس کے طور پر کام کیا اور 2005ء میں وہ انٹیلی جنس بیورو (IB) کے خفیہ کارروائیوں کے شعبہ کے سربراہ کے طور پر ریٹائر ہو گیا۔ بعد ازاں اس نے دائیں بازو کے ہندو قومیت پرستوں کے ساتھ مل کر وی وی کنا نندہ انٹرنیشنل فاؤنڈیشن (Vivekananda) قائم کی جو کہ تھنک ٹینک کے طور پر کام کرتی ہے۔
اس کا قیام 2009ء میں عمل میں آیا۔ ڈوول اس کا بانی رکن ہے۔ آئی بی میں اس کا سابق کولیگ ہبا رام کہتا ہے ''کہ ڈوول اپنے کام میں پیشہ ورانہ ذمے داریوں کے بجائے اپنے دل میں بھری ہوئی غیر ہندوؤں کے خلاف انتہائی سخت نفرت سے کام لیتا ہے جو کہ اس کی ہندوؤں کی انتہائی متعصب تنظیم آر ایس ایس کے ساتھ گہری وابستگی کا نتیجہ ہے۔ اس وقت بھارت کی خارجہ پالیسی پر ڈوول کا مکمل کنٹرول ہو گیا ہے اور اپنے اس جنون کو پروان چڑھانے کے لیے اس کے پاس تمام تر وسائل بھی موجود ہیں۔ حسن قریشی نے 15 جولائی 2014ء کو ایک مقالہ لکھا تھا جس کا عنوان تھا ''وہ بھارتی جو پاکستان کو تباہ کرنا چاہتا ہے''۔ اس کا عنوان پڑھ کر اگر آپ یہ سوچتے ہیں کہ پھر کیا ہوا بھارت میں تو بہت سے ایسے لوگ ہونگے جو پاکستان کو تباہ کرنا چاہتے ہونگے اور ایسے لوگ ہمیشہ سے تھے اور ہمیشہ رہیں گے۔
یہ بہت افسوسناک حقیقت ہے۔ لیکن ڈوول ان لوگوں سے مختلف ہے۔ اس کو سب چیزوں کا پتہ ہے۔ اس کے پاس مہارت بھی ہے اور سب سے اہم بات یہ کہ اب اس کے پاس وسائل اور طاقت بھی ہے جس سے وہ نہ صرف پاکستانی عوام کو بلکہ بھارت کی لاتعداد اور بے یارو مدد گار اقلیتوں کو بھی جس قدر چاہے نقصان پہنچا سکتا ہے اور وہ پہلے ایسا کر بھی چکا ہے۔ لہذا خیبر سے کیرالہ تک تمام امن پسند لوگوں کو بیٹھ کر نہایت احتیاط سے سوچنا چاہیے۔ بھارت پاکستان اور چین کے ساتھ پنجہ آزمائی کر چکا ہے جب کہ ایک معروف بھارتی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ اگر بھارت کی چین کے ساتھ لڑائی ہوئی تو اس میں دونوں کا نقصان ہو گا جب کہ پاکستان کے ساتھ لڑائی کی صورت میں نقصان پاکستان کا نہیں بلکہ صرف بھارت کا ہو گا۔
ایسے خفیہ آپریشن جن کی منصوبہ بندی کسی اور نے کی ہو لیکن ان پر عمل درآمد کوئی دوسرا کرے تو اسے ''جعلی جھنڈا'' یا کالا جھنڈا' آپریشنFalse Flag or Black Flag کا نام دیا جاتا ہے۔ خواہ ان کو یہ علم ہو یا نہ ہو کہ ''جعلی جھنڈے کی دہشت گردی'' بھی اسی ضمن میں آتی ہے۔ اس صورت میں بہت سی چیزیں ایک سے زیادہ بار کر دی جاتی ہیں۔
پولینڈ کی سرحد پر ایک واقعہ ہوا تھا جس میں کنسنٹریشن کیمپوں کے قیدیوں کو پولینڈ کی فوجی یونیفارم پہنا کر ان سے جرمنی کی سرحدی چوکی پر حملہ کروایا گیا جس کے نتیجے میں جرمنی کو پولینڈ کے خلاف جنگ کرنے کا بہانہ مل گیا۔ 1953ء میں سی آئی اے نے ایران میں ''جعلی جھنڈے'' کے ساتھ مسجدوں اور عوامی نمایندوں پر حملے کرائے جن کا الزام ایرانی کمیونسٹوں پر عاید کیا گیا جو حکومت کے وفادار تھے، تا کہ وزیراعظم مصدق کی حکومت کا تختہ الٹا جا سکے۔
ڈوول 'جعلی پرچم' کے ذریعے جو کارروائیاں کرانا چاہتا ہے وہ اسی پر الٹی پڑیں گی کیونکہ 2 نومبر کے واہگہ بارڈر کے واقعے اور 16 دسمبر کے پشاور کے واقعے کو ان دہشت گردوں کی کارروائی قرار دیا گیا ہے جو کابل کے کنٹرول میں ہیں۔ اسی طرح افغانستان کی طرف سے ایسے واقعات کا الزام پاکستان پر لگایا جاتا ہے۔ کابل میں ان 5 افراد کو گرفتار کر لیا گیا جنہوں نے پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں بچوں کے قتل عام کی منصوبہ بندی کی۔ اس سے انکشاف ہوا کہ ہمارے بچوں کی ہلاکت میں بھارت کی خفیہ ایجنسی 'را' نہایت ظالمانہ انداز میں ملوث تھی۔ اس کے جواب میں ہمارا ردعمل کیا ہونا چاہیے؟ ہمارا جواب بہت نپا تلا ہونا چاہیے۔
الفاظ میں بھی اور عمل میں بھی۔ بھارت اپنی جنگی مہم ''کولڈ اسٹار'' کے عنوان سے شروع کر رہا ہے جس میں دس سے بارہ تک مشینی بریگیڈ حصہ لیں گے۔ اب ہمیں یہ سوچنا ہے کہ اگر انھوں نے حفاظتی لائن کو عبور کر لیا تو کیا ہم ان کی خدمت میں پھولوں کے ہار پیش کریں گے یا گلدستے؟ یا پھر ہم ہمیں اپنی آزادی کے دفاع کی خاطر روایتی ہتھیاروں کے بجائے غیر روایتی جوہری ہتھیار استعمال کرنا ہونگے۔
اگرچہ جنوبی ایشیا میں امن و امان اور دوستانہ تعلقات کی خواہش بدستور موجود ہے لیکن بھارت کے مقابلے میں ہمیں ایٹمی ہولوکاسٹ میں جان دینا بخوشی قبول ہے نہ کہ اگلے ہزار سال کے لیے مودی ڈوول ہندوتوا کی شاؤنیت کا شکار بن جائیں۔