غیرمسلم شہریوں کے مسائل
پاکستان کے آئین میں بھی مختلف شقیں اسی نوعیت کی آزادی کا اظہار کرتی ہیں۔
جدید دنیا میں شہریت کے اصول خاصی حد تک واضح ہوچکے ہیں۔مہذب دنیا میں شہری ہونے کے لیے مطلوبہ شرائط میں کسی فرد کے عقیدے یا نسلی ولسانی شناخت کاکوئی تعلق نہیں ہوتاہے،بلکہ ریاست اور اس کے آئین سے وفاداری اوراس ملک میں قیام کی مدت شہریت کے مختلف مدارج کا تعین کرتی ہے۔ہر ملک میں شہریوں کو اپنے عقائد پر عمل پیرا ہونے اوران کا پرچارکرنے کی آزادی حاصل ہوتی ہے۔
پاکستان کے آئین میں بھی مختلف شقیں اسی نوعیت کی آزادی کا اظہار کرتی ہیں۔ مگرعملاً ایسا نہیں ہو پا رہا۔جس کی وجہ سے وہ کمیونیٹیزجوآبادی کے لحاظ سے بہت ہی قلیل اور عقیدے کے اعتبارسے غیر مسلم ہیں، ان گنت مسائل کا شکار ہیں۔
پاکستان کی سپریم کورٹ نے19جون 2014ء کو غیر مسلموں کے حقوق کے بارے میں ایک تاریخی فیصلہ دیا۔جس میں غیر مسلموںکی بحیثیت پاکستانی شہری کئی اہم حقوق کی آئینی ضمانت کی تشریح اور تفہیم کی گئی ہے۔اس فیصلے نے آئین کی شقوں 20،21اور22 کی ازسرنو تشریح کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ آئین کی شق20اپنے مندرجات کے اعتبار سے کسی دوسری آئینی شق سے نہ تو مشروط ہے اور نہ اس کے تابع۔اسی طرح آئین کی شق21اور22میں حکومت اور شہریوں کوواضح ہدایات دی گئی ہیں کہ مذہب کی بنیاد پرکسی شہری یا کمیونٹی پر نہ تو کوئی اضافی ٹیکس عائدکیاجا سکتا ہے اور نہ ہی کسی ایک عقیدے کے ماننے والے کو دوسرے عقائد کا نصاب پڑھنے پرمجبورکیاجاسکتاہے ۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے پاکستان میں عقیدے کی بنیاد پرجاری بعض امتیازی سلوک اور روایات کوغیر قانونی قرار دے کر ان کی بیخ کنی کرکے معاشرے میں جمہوری اقدار کے فروغ کی راہ ہموار کی ہے۔آئین میں شہریوں کے حقوق سے متعلق شقیں واضح ہیں مگر ان پر عمل درآمد کا میکنزم اس قدر کمزور اور فرسودہ ہے کہ عوام کو ان قوانین کے ثمرات سے بہرہ مند ہونے کا موقع نہیں مل پاتا۔خرابی بسیارکا ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ ہم نے جمہوریت کو صرف انتخابی عمل تک محدود سمجھ لیا ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں جمہوری اقدار اور روایات کے فروغ پر توجہ نہیں دی جا رہی۔
نتیجتاً غیر مسلم اقلیتیں تو دور کی بات خود مسلم اکثریت بھی بنیادی شہری حقوق سے محروم چلی آرہی ہے۔اب اگر آئین کی شق20ہی کا جائزہ لیں تواس کی دو ذیلی شقیں ہیں۔20(A) میں واضح طور پر تحریر ہے کہ ''ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کا پرچار اور تبلیغ کرنے کا پورا حق حاصل ہوگا۔'' اسی طرح شق 20(B) کے مطابق ''ہر مذہبی جماعت،گروہ اور فرقہ کو اپنے مذہبی ادارے قائم کرنے،انھیں برقرار رکھنے اور ان کا آزادانہ انتظام چلانے کا حق حاصل ہوگا۔'' مگر اس شق پرمختلف غیر ریاستی حلقوں کے دباؤ اور خود حکومت کی غیر سنجیدگی کے باعث عمل درآمد نہیں ہورہا۔
اس صورتحال نے غیر مسلموں سمیت مسلمانوں کی بعض چھوٹی کمیونٹیزکو انتہائی زد پذیرصورتحال سے دوچارکردیا ہے۔اگر اپنی توجہ غیر مسلموں کے مسائل کو سمجھنے تک محدود رکھیں،توہم دیکھتے ہیں کہ ملک کے مختلف حصوں میں ان کی مختلف کمیونٹیاں مختلف نوعیت کے مسائل اور خطرات) (Threatsکا شکار ہیں۔پنجاب کے کچھ اضلاع میں جہاں غیر مسلم کمیونٹی زمینداری سے وابستہ ہونے کے سبب قدرے خوشحال ہے ،وہاںان پر توہین مذہب کے الزامات عائد کرکے انھیں زچ کرنے کی کوشش کے واقعات بھی ہو چکے ہیں۔کسی بھی ہونے یا انہونے واقعے کو بہانہ بناکر کسی بھی غیر مسلم شہری پرتوہین مذہب کا مقدمہ درج کرانے اور ان کی آبادیوں اور عبادت گاہوں کو نذر آتش کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ حکومت ملزمان کو کیفرکردار تک پہنچانے کے بلندآہنگ دعوے کرتی ہے، مگر کسی ایک واقعے میں ملوث افراد کے خلاف آج تک کوئی کارروائی نہیں ہوسکی۔
جس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ عناصر مزید دیدہ دلیری کے ساتھ ایسی کارروائیوں میں ملوث ہو سکتے ہیں۔ سندھ میںجہاں ہندوخوشحال اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے مقابلے میںنسبتاً زیادہ تعداد میں آباد ہیں، انھیں دوسرے طریقوں سے تنگ کیا جا رہا ہے۔شمالی سندھ کے بعض اضلاع بالخصوص کشمور، کندھ کوٹ،شکارپور، جیکب آباد وغیرہ میں خوشحال ہندوؤں کا اغواء برائے تاوان نے وبائی مرض کی شکل اختیار کرلی ہے۔جب کہ چند برسوں کے دوران خوبصورت اور کم عمر ہندولڑکیوں کو اغوا کرکے ان کے ساتھ جنسی زیادتی یا جبراً ان کا مسلمان لڑکوں سے نکاح پڑھوانے کا نیا مظہر سامنے آیا ہے۔اس عمل میں بھی علاقے کی با اثر سیاسی شخصیات کے ملوث ہونے کے شواہد سامنے آئے ہیں۔اس صورتحال کے نتیجے میں دولت مند ہندو یورپ اور امریکا کی طرف جارہے ہیں جب کہ کم آمدنی والے ہندو خاندان بھارت منتقل ہونے پر مجبور ہورہے ہیں۔مگر وفاقی اور صوبائی حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔
غیر مسلموں کے علاوہ خود مسلمانوں کی مختلف چھوٹی اور سیاسی طور پر غیر فعال کمیونٹیز کو بھی نشانہ بنانے کا کھیل بھی جاری ہے۔ عقائد کی بنیاد پر ٹارگٹ کلنگ کئی برسوں سے جاری ہے۔ جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس کا سبب دو دوست ممالک کے درمیان ہونے والی پراکسی جنگ ہے، جو پاکستان میں لڑی جا رہی ہے۔لیکن اسباب کچھ ہی کیوں نہ ہوں، حکومت اس عمل کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام ہے۔اس کے علاوہ چند برسوں کے دوران تجارت کے شعبے سے وابستہ ایک انتہائی غیر سیاسی اور پرامن کمیونٹی کو ہراساں کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ان کے رہائشی علاقوں پر بم حملے اور بعض رہنماؤں کو قتل کیاگیا۔
نتیجتاً ان کے دولت مند افراد اپنا کاروبار بیرون ملک منتقل کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔اس کے علاوہ اس کی عبادت گاہوں اور دیگر املاک کو نقصان پہنچانے کے علاوہ ان کی متحرک اور فعال شخصیات کا قتل بھی معمول کی بات بن چکی ہے مگر حکومت ان شہریوں کوتحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہے۔ ایک اہم مسئلہ جس پر توجہ نہیں دی جارہی وہ یہ کہ1951 کی مردم شماری کے مطابق متحدہ پاکستان میں غیر مسلم آبادی15فیصد کے لگ بھگ تھی۔پاکستان سے علیحدگی کے بعد بنگلہ دیش میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق وہاں غیر مسلم آبادی8فیصدسامنے آئی۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ بقیہ7فیصد آبادی پاکستان میں ہونا چاہیے۔
مگر پاکستان میں اقلیتوں کی کل آبادی 3فیصد سے کچھ زیادہ ہونے پر اصرار کیا جا رہا ہے۔بیرون ملک نقل مکانی کرنے والوں کے ریکارڈ سے بھی اتنی بڑی تعداد میں شہریوں کی منتقلی کے شواہد نہیں ملتے۔ لہٰذا سوال پیدا ہوتا ہے کہ 4فیصد غیر مسلم آبادی کہاں گئی؟اگر غیر مسلموں کی گزشتہ40برسوں کے دوران آبادی کی شرح میں اضافہ کو صفر بھی تسلیم کرلیا جائے تو بھی ان کی آبادی کی شرح اس تیزی سے کم نہیں ہوسکتی۔اس اہم مسئلے پر حکومت کے علاوہ سول سوسائٹی کو بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ یہ ایک اہم قومی نوعیت کا مسئلہ ہے۔
مختلف سماجی تنظیموں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں عوام کے مختلف طبقات بالخصوص غیر مسلم آبادی کو ان کے بنیادی شہری حقوق دلاوانے کے لیے اپنی سرگرمیاں تیز کردی ہیں۔اس سلسلے میںپاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ(پائلر) نے پیش رفت کرتے ہوئے ملک بھر میں مشاورتی نشستوں کے انعقاد کے علاوہ دستگیر کے نام سے مفت قانونی معاونت کا مرکز بھی ملک کے13شہروں میںقائم کردیاہے۔جہاں ماہر وکلاء غیر مسلم آبادی کو بلامعاوضہ قانونی امداد فراہم کریں گے۔ HRCPسمیت سول سوسائٹی کی مختلف تنظیمیں اپنا کردار ادا کررہی ہیں، لیکن سب سے زیادہ ذمے داری حکومت پر عائد ہوتی ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر عمل درآمد کو یقینی بناکر غیر مسلم آبادی کو درپیش مسائل سے نجات دلانے اور ان میں اس ملک کے مساوی شہری ہونے کے احساس کو پختہ کرے۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ایک جمہوری اور مہذب معاشرے میںکسی شہری کا عقیدہ، نظریہ، قومی یا لسانی تقسیم اس کے حقوق کے حصول کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتی۔ لیکن معاملہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران اور سیاسی قیادتوں میں بصیرت اور دور اندیشی کا فقدان ہے۔ انھیں ایڈہاک ازم کی بنیاد پر فیصلے کرنے کی عادت ہوچکی ہے۔اس لیے ان کے فیصلے نہ تو کبھی پائیدار ہوتے ہیں اور نہ ہی دیرپا۔چونکہ پورے معاشرے میں فکری انتہاء پسندی کی جڑیں خاصی مضبوط ہوچکی ہیں یا کردی گئی ہیں، اس لیے اختلافی نقطہ نظر سننے اور برداشت کرنے کی کسی میں سکت نہیں ہے۔لہٰذا غلط فیصلوں کی نشاندہی اور ان سے اختلاف کرنے والی آوازیں محض'' نقارخانے میں طوطی کی آواز'' ثابت ہوتی ہیں یا پھر مختلف غیر ریاستی عناصر اس آواز کو ہمیشہ کے لیے بندکردیتے ہیں۔
حالانکہ وقت اور حالات نے ثابت کیا ہے کہ جن آوازوں کو ضعیف و ناتواں سمجھ کر نظرانداز یا ختم کیا جاتا رہا ہے، وہی درست ثابت ہوئی ہیں۔یہی وہ آوازیں ہیں،جنہوں نے حکمرانوںکو بروقت تنبیہ کرکے خواب خرگوش سے جگانے کی ہمیشہ کوشش کی ہے۔مگر حکمرانوں نے انھیںکبھی وقت پر درخوراعتناء نہیں سمجھا۔اگر وہ خود کوئی فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو کم از کم عدالت عظمیٰ کے فیصلہ ہی پرعملدرآمد کو یقینی بنانے کی کوشش کرلیں۔
پاکستان کے آئین میں بھی مختلف شقیں اسی نوعیت کی آزادی کا اظہار کرتی ہیں۔ مگرعملاً ایسا نہیں ہو پا رہا۔جس کی وجہ سے وہ کمیونیٹیزجوآبادی کے لحاظ سے بہت ہی قلیل اور عقیدے کے اعتبارسے غیر مسلم ہیں، ان گنت مسائل کا شکار ہیں۔
پاکستان کی سپریم کورٹ نے19جون 2014ء کو غیر مسلموں کے حقوق کے بارے میں ایک تاریخی فیصلہ دیا۔جس میں غیر مسلموںکی بحیثیت پاکستانی شہری کئی اہم حقوق کی آئینی ضمانت کی تشریح اور تفہیم کی گئی ہے۔اس فیصلے نے آئین کی شقوں 20،21اور22 کی ازسرنو تشریح کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ آئین کی شق20اپنے مندرجات کے اعتبار سے کسی دوسری آئینی شق سے نہ تو مشروط ہے اور نہ اس کے تابع۔اسی طرح آئین کی شق21اور22میں حکومت اور شہریوں کوواضح ہدایات دی گئی ہیں کہ مذہب کی بنیاد پرکسی شہری یا کمیونٹی پر نہ تو کوئی اضافی ٹیکس عائدکیاجا سکتا ہے اور نہ ہی کسی ایک عقیدے کے ماننے والے کو دوسرے عقائد کا نصاب پڑھنے پرمجبورکیاجاسکتاہے ۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے پاکستان میں عقیدے کی بنیاد پرجاری بعض امتیازی سلوک اور روایات کوغیر قانونی قرار دے کر ان کی بیخ کنی کرکے معاشرے میں جمہوری اقدار کے فروغ کی راہ ہموار کی ہے۔آئین میں شہریوں کے حقوق سے متعلق شقیں واضح ہیں مگر ان پر عمل درآمد کا میکنزم اس قدر کمزور اور فرسودہ ہے کہ عوام کو ان قوانین کے ثمرات سے بہرہ مند ہونے کا موقع نہیں مل پاتا۔خرابی بسیارکا ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ ہم نے جمہوریت کو صرف انتخابی عمل تک محدود سمجھ لیا ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں جمہوری اقدار اور روایات کے فروغ پر توجہ نہیں دی جا رہی۔
نتیجتاً غیر مسلم اقلیتیں تو دور کی بات خود مسلم اکثریت بھی بنیادی شہری حقوق سے محروم چلی آرہی ہے۔اب اگر آئین کی شق20ہی کا جائزہ لیں تواس کی دو ذیلی شقیں ہیں۔20(A) میں واضح طور پر تحریر ہے کہ ''ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کا پرچار اور تبلیغ کرنے کا پورا حق حاصل ہوگا۔'' اسی طرح شق 20(B) کے مطابق ''ہر مذہبی جماعت،گروہ اور فرقہ کو اپنے مذہبی ادارے قائم کرنے،انھیں برقرار رکھنے اور ان کا آزادانہ انتظام چلانے کا حق حاصل ہوگا۔'' مگر اس شق پرمختلف غیر ریاستی حلقوں کے دباؤ اور خود حکومت کی غیر سنجیدگی کے باعث عمل درآمد نہیں ہورہا۔
اس صورتحال نے غیر مسلموں سمیت مسلمانوں کی بعض چھوٹی کمیونٹیزکو انتہائی زد پذیرصورتحال سے دوچارکردیا ہے۔اگر اپنی توجہ غیر مسلموں کے مسائل کو سمجھنے تک محدود رکھیں،توہم دیکھتے ہیں کہ ملک کے مختلف حصوں میں ان کی مختلف کمیونٹیاں مختلف نوعیت کے مسائل اور خطرات) (Threatsکا شکار ہیں۔پنجاب کے کچھ اضلاع میں جہاں غیر مسلم کمیونٹی زمینداری سے وابستہ ہونے کے سبب قدرے خوشحال ہے ،وہاںان پر توہین مذہب کے الزامات عائد کرکے انھیں زچ کرنے کی کوشش کے واقعات بھی ہو چکے ہیں۔کسی بھی ہونے یا انہونے واقعے کو بہانہ بناکر کسی بھی غیر مسلم شہری پرتوہین مذہب کا مقدمہ درج کرانے اور ان کی آبادیوں اور عبادت گاہوں کو نذر آتش کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ حکومت ملزمان کو کیفرکردار تک پہنچانے کے بلندآہنگ دعوے کرتی ہے، مگر کسی ایک واقعے میں ملوث افراد کے خلاف آج تک کوئی کارروائی نہیں ہوسکی۔
جس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ عناصر مزید دیدہ دلیری کے ساتھ ایسی کارروائیوں میں ملوث ہو سکتے ہیں۔ سندھ میںجہاں ہندوخوشحال اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے مقابلے میںنسبتاً زیادہ تعداد میں آباد ہیں، انھیں دوسرے طریقوں سے تنگ کیا جا رہا ہے۔شمالی سندھ کے بعض اضلاع بالخصوص کشمور، کندھ کوٹ،شکارپور، جیکب آباد وغیرہ میں خوشحال ہندوؤں کا اغواء برائے تاوان نے وبائی مرض کی شکل اختیار کرلی ہے۔جب کہ چند برسوں کے دوران خوبصورت اور کم عمر ہندولڑکیوں کو اغوا کرکے ان کے ساتھ جنسی زیادتی یا جبراً ان کا مسلمان لڑکوں سے نکاح پڑھوانے کا نیا مظہر سامنے آیا ہے۔اس عمل میں بھی علاقے کی با اثر سیاسی شخصیات کے ملوث ہونے کے شواہد سامنے آئے ہیں۔اس صورتحال کے نتیجے میں دولت مند ہندو یورپ اور امریکا کی طرف جارہے ہیں جب کہ کم آمدنی والے ہندو خاندان بھارت منتقل ہونے پر مجبور ہورہے ہیں۔مگر وفاقی اور صوبائی حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔
غیر مسلموں کے علاوہ خود مسلمانوں کی مختلف چھوٹی اور سیاسی طور پر غیر فعال کمیونٹیز کو بھی نشانہ بنانے کا کھیل بھی جاری ہے۔ عقائد کی بنیاد پر ٹارگٹ کلنگ کئی برسوں سے جاری ہے۔ جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس کا سبب دو دوست ممالک کے درمیان ہونے والی پراکسی جنگ ہے، جو پاکستان میں لڑی جا رہی ہے۔لیکن اسباب کچھ ہی کیوں نہ ہوں، حکومت اس عمل کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام ہے۔اس کے علاوہ چند برسوں کے دوران تجارت کے شعبے سے وابستہ ایک انتہائی غیر سیاسی اور پرامن کمیونٹی کو ہراساں کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ان کے رہائشی علاقوں پر بم حملے اور بعض رہنماؤں کو قتل کیاگیا۔
نتیجتاً ان کے دولت مند افراد اپنا کاروبار بیرون ملک منتقل کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔اس کے علاوہ اس کی عبادت گاہوں اور دیگر املاک کو نقصان پہنچانے کے علاوہ ان کی متحرک اور فعال شخصیات کا قتل بھی معمول کی بات بن چکی ہے مگر حکومت ان شہریوں کوتحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہے۔ ایک اہم مسئلہ جس پر توجہ نہیں دی جارہی وہ یہ کہ1951 کی مردم شماری کے مطابق متحدہ پاکستان میں غیر مسلم آبادی15فیصد کے لگ بھگ تھی۔پاکستان سے علیحدگی کے بعد بنگلہ دیش میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق وہاں غیر مسلم آبادی8فیصدسامنے آئی۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ بقیہ7فیصد آبادی پاکستان میں ہونا چاہیے۔
مگر پاکستان میں اقلیتوں کی کل آبادی 3فیصد سے کچھ زیادہ ہونے پر اصرار کیا جا رہا ہے۔بیرون ملک نقل مکانی کرنے والوں کے ریکارڈ سے بھی اتنی بڑی تعداد میں شہریوں کی منتقلی کے شواہد نہیں ملتے۔ لہٰذا سوال پیدا ہوتا ہے کہ 4فیصد غیر مسلم آبادی کہاں گئی؟اگر غیر مسلموں کی گزشتہ40برسوں کے دوران آبادی کی شرح میں اضافہ کو صفر بھی تسلیم کرلیا جائے تو بھی ان کی آبادی کی شرح اس تیزی سے کم نہیں ہوسکتی۔اس اہم مسئلے پر حکومت کے علاوہ سول سوسائٹی کو بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ یہ ایک اہم قومی نوعیت کا مسئلہ ہے۔
مختلف سماجی تنظیموں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں عوام کے مختلف طبقات بالخصوص غیر مسلم آبادی کو ان کے بنیادی شہری حقوق دلاوانے کے لیے اپنی سرگرمیاں تیز کردی ہیں۔اس سلسلے میںپاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ(پائلر) نے پیش رفت کرتے ہوئے ملک بھر میں مشاورتی نشستوں کے انعقاد کے علاوہ دستگیر کے نام سے مفت قانونی معاونت کا مرکز بھی ملک کے13شہروں میںقائم کردیاہے۔جہاں ماہر وکلاء غیر مسلم آبادی کو بلامعاوضہ قانونی امداد فراہم کریں گے۔ HRCPسمیت سول سوسائٹی کی مختلف تنظیمیں اپنا کردار ادا کررہی ہیں، لیکن سب سے زیادہ ذمے داری حکومت پر عائد ہوتی ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر عمل درآمد کو یقینی بناکر غیر مسلم آبادی کو درپیش مسائل سے نجات دلانے اور ان میں اس ملک کے مساوی شہری ہونے کے احساس کو پختہ کرے۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ایک جمہوری اور مہذب معاشرے میںکسی شہری کا عقیدہ، نظریہ، قومی یا لسانی تقسیم اس کے حقوق کے حصول کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتی۔ لیکن معاملہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران اور سیاسی قیادتوں میں بصیرت اور دور اندیشی کا فقدان ہے۔ انھیں ایڈہاک ازم کی بنیاد پر فیصلے کرنے کی عادت ہوچکی ہے۔اس لیے ان کے فیصلے نہ تو کبھی پائیدار ہوتے ہیں اور نہ ہی دیرپا۔چونکہ پورے معاشرے میں فکری انتہاء پسندی کی جڑیں خاصی مضبوط ہوچکی ہیں یا کردی گئی ہیں، اس لیے اختلافی نقطہ نظر سننے اور برداشت کرنے کی کسی میں سکت نہیں ہے۔لہٰذا غلط فیصلوں کی نشاندہی اور ان سے اختلاف کرنے والی آوازیں محض'' نقارخانے میں طوطی کی آواز'' ثابت ہوتی ہیں یا پھر مختلف غیر ریاستی عناصر اس آواز کو ہمیشہ کے لیے بندکردیتے ہیں۔
حالانکہ وقت اور حالات نے ثابت کیا ہے کہ جن آوازوں کو ضعیف و ناتواں سمجھ کر نظرانداز یا ختم کیا جاتا رہا ہے، وہی درست ثابت ہوئی ہیں۔یہی وہ آوازیں ہیں،جنہوں نے حکمرانوںکو بروقت تنبیہ کرکے خواب خرگوش سے جگانے کی ہمیشہ کوشش کی ہے۔مگر حکمرانوں نے انھیںکبھی وقت پر درخوراعتناء نہیں سمجھا۔اگر وہ خود کوئی فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تو کم از کم عدالت عظمیٰ کے فیصلہ ہی پرعملدرآمد کو یقینی بنانے کی کوشش کرلیں۔