آتشزدگی کے واقعات کا سدباب
کبھی کبھار پیش آنیوالے ان واقعات میں عموماً جانوں کا ضیاع بھی بہت کم ہوتا تھا
پہلے ملک میں آتشزدگی کے واقعات عموماً گوداموں، کارخانوں، دفتروں، جھونپڑیوں اور آتش بازی کا سامان تیار کرنیوالے گھروں میں ہوا کرتے تھے جن میں بعض اوقات انشورنس کی رقم حاصل کرنے، مال و متاع اور ریکارڈ میں خوردبرد اور بدعنوانی کر کے اس کے ثبوت مٹانے کے عوامل کارفرما ہوتے تھے۔
کبھی کبھار پیش آنیوالے ان واقعات میں عموماً جانوں کا ضیاع بھی بہت کم ہوتا تھا۔ مگر پچھلے ایک عشرے سے ملک کے بڑے شہروں خاص طور پر کراچی اور لاہور میں آتشزدگی کے ہولناک واقعات پیش آ رہے ہیں جن میں تخریبی کارروائیوں اور دہشتگردی کے شبے کا اظہار بھی کیا جاتا رہا ہے اگر ایسا ہے تو مستقبل میں بھی اس قسم کے مزید واقعات رونما ہو سکتے ہیں۔
چند سال پیشتر کلفٹن کے کانٹینینٹل ٹریڈ سینٹر اور لاہور کی شاہ عالم مارکیٹ آتشزدگی سے جل کر راکھ ہو گئی تھی جہاں فائر بریگیڈ کا عملہ آگ بجھانے اور پھنسے ہوئے افراد کو نکالنے میں ناکام رہا۔ فضائیہ کے ہیلی کاپٹروں نے آگ بجھانے اور پھنسے ہوئے لوگوں کو نکالنے میں مدد کی تھی۔ پاکستان کی تاریخ میں آتشزدگی کا سب سے بڑا اور ہولناک واقعہ 2 سال قبل بلدیہ گارمنٹ فیکٹری میں پیش آیا تھا جہاں سیکڑوں محنت کش رات بھر جلتے رہے موبائل فون پر ان کے گھر والوں سے رابطے میں رہے۔
مرنے والے اور ان کے ورثا امداد کے لیے آہ و فغاں کرتے رہے مگر متعلقہ ادارے مکمل بے بس و بے سرو سامانی اور صورتحال سے نمٹنے کی صلاحیتوں کے محروم نظر آئے۔ حادثے کو تخریب کاری اور بھتہ گیری کا شاخسانہ اور مالکان کی بے حسی اور ہٹ دھرمی بھی قرار دیا گیا مگر آج تک مالکان سے لے کر متعلقہ محکموں کے ذمے دار اداروں میں سے کسی کے خلاف کوئی کارروائی دیکھنے میں نہیں آئی، تاہم مرنے والوں کے لواحقین آج بھی انصاف و امداد کے منتظر ہیں۔
بلدیہ فیکٹری کے سانحے کے بعد پاکستان کی سب سے بڑی ٹمبر مارکیٹ میں ہولناک آتشزدگی کا واقعہ پیش آیا جس نے چشم زدن میں 400 سے زائد دکانیں اور 200 سے زائد گھروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اربوں روپے کی قیمتی لکڑیاں راکھ کا ڈھیر بن گئیں جس نے تونگروں کو سائل بنا دیا ایک دکان پر لگنے والی آگ اس طرح بے قابو ہوئی کہ لوگوں کو اپنے بیوی بچوں کے ساتھ گھر بار چھوڑ کر نکلنا پڑا وہ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنا کاروباری اثاثہ گھروں کا مال و اسباب شعلوں کی نذر ہوتا دیکھ کر بلک بلک کے روتے رہے رات سڑکوں اور اسکولوں میں گزاری۔ امدادی عملہ 2 گھنٹے کی تاخیر سے جائے وقوعہ پر پہنچا فائر بریگیڈ کی جو 2 گاڑیاں جائے وقوعہ پر پہنچیں تھیں۔
ان میں سے ایک میں پانی موجود نہیں تھا دوسری میں واپس جا کر آنے کا ڈیزل نہیں تھا۔ ابھی کراچی کی ٹمبر مارکیٹ میں لگنے والی آگ کے شعلے پوری طرح ٹھنڈے نہ ہونے پائے تھے کہ لاہور کے چار منزلہ تجارتی مرکز انارکلی مارکیٹ پلازہ میں آگ لگ گئی جس نے 13 انسانی زندگیوں کو نگل لیا لوگ اپنے پیاروں کو بے بسی اور بے کسی سے زندہ جلتا دیکھتے رہے امداد کے لیے دہائیاں دیتے رہے۔
مارکیٹ میں گھڑیوں، بیٹریوں اور تھنر کے باعث آگ بڑی تیزی سے پھیلی جب کہ مارکیٹ کا ایک ہی دروازہ اور تنگ گلیاں ہونے کی وجہ سے امدادی کاموں میں بھی رکاوٹ پیش آئی۔ بعض افراد کو دیواریں توڑ کر باہر نکالا گیا۔ جب کہ سانحہ بلدیہ کے وقت یہ بات سامنے آئی تھی کہ لواحقین متعلقہ اداروں سے فریاد کرتے رہے کہ دیواروں کو توڑ کر ان کے پھنسے ہوئے لوگوں کو باہر نکالا جائے مگر فیکٹری مالکان نے ایسا نہیں کرنے دیا۔ ابھی سانحہ ٹمبر مارکیٹ اور انارکلی کی حرارت کم نہ ہونے پائی تھی کہ پاکستان اسٹیل ملز کے نزدیک مسافر بس اور ٹینکر میں تصادم کا خوفناک اور روح فرسا واقعہ پیش آیا۔ اس حادثے میں 45 افراد جل کر اس طرح خاکستر ہوئے کہ DNA ٹیسٹ کے سوا ان کی شناخت کی کوئی صورت باقی نہ رہی۔ اس واقعے کی اطلاع پر پولیس اور ایمبولینس تو موقع پر پہنچ گئی تھیں لیکن شعلوں میں لپٹی بس میں جلتے لوگوں کو باہر نکالنے میں کامیاب نہ ہو سکیں جب کہ کافی دیر بعد ایک فائر بریگیڈ کی گاڑی پہنچی تو اس نے آگ پر قابو پا لیا لیکن جب تک کافی دیر ہو چکی تھی۔
کراچی ٹمبر مارکیٹ کے سانحے کے بعد فائر بریگیڈ کے سربراہ نے کوتاہی تسلیم کر لی کہ ''جس کی وجہ سے آگ بھڑک اٹھی اگر تیزی سے پانی کی سپلائی برقرار رہتی تو اتنا نقصان نہ ہوتا۔ لوگ یہ بات کہنے میں حق بجانب ہیں کہ انتظامیہ کی کوتاہی رہی ہے۔'' لیکن سندھ کے وزیر بلدیات نے کہا کہ سانحہ ٹمبر مارکیٹ پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ نہیں کرنے دیں گے اور یہ کہ حکومت سندھ نے 3 ارب روپے سے 180 فائر ٹینڈر کی خریداری کا فیصلہ کیا تھا لیکن عدالت نے اس پر حکم امتناعی دے دیا ہے۔ گویا اس سانحے کی ذمے داری عدالتوں کے کاندھوں پر بھی جاتی ہے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب بھی کوئی ناگہانی مصیبت آ جائے تو حکومت اور شہری ادارے بے بسی و بے حسی اور غیر ذمے داری کے مرتکب نظر آتے ہیں۔ شہریوں اور متاثرین کو سب سے زیادہ غصہ اور شکایتیں ان ہی محکموں سے ہوتی ہیں۔ ان سانحات پر روایتی طور پر حکومت اور سیاسی رہنماؤں کی طرف سے اظہار افسوس اور حادثے کی تحقیقات کے لیے کمیٹیاں بنا دینے اور وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ، گورنر، کمشنر کی جانب سے متعلقہ اداروں سے 24 یا 48 گھنٹوں میں رپورٹ طلب کیے جانے کے سوا کوئی کارروائی دیکھنے میں نہیں آتی آج تک کسی بھی حادثے کے کسی بھی ذمے دار کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا گیا ہے۔
سابق سٹی ناظم کے دور میں سرچ اینڈ ریسکیو اکیڈمی کا قیام عمل میں آیا تھا۔ اس سلسلے میں ہیوسٹن نے کروڑوں روپے کے جدید آلات فراہم کیے تھے اور 84 رضاکاروں کو غیر ملکی ماہرین نے سانحات میں پھنسے لوگوں کی جان بچانے کی تربیت بھی دی تھی یہ اکیڈمی گزشتہ 6 ماہ سے بند پڑی ہے مشینری بیکار پڑی زنگ آلود ہو رہی ہے۔ ان میں دیوار توڑنے والی مشینری اور آتشزدگی کو روکنے والے آلات شامل ہیں۔ تربیت اور آلات نہ ہونے کی وجہ سے درجنوں فائر فائٹر اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں انھیں عوام کے اشتعال و عتاب کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے آتشزدگی کے پے در پے بڑے بڑے واقعات نے متعلقہ اداروں کی پول کھول کر رکھ دی ہے۔
جس سے شہری شدید عدم تحفظ کا شکار ہیں خاص طور پر کراچی جیسے میگا سٹی میں جہاں لاتعداد کثیر المنزلہ عمارات کے نیچے پلاسٹک، کپڑے، کیمیکل، ٹیلی فون، موبائل، الیکٹرانکس سامان اور دیگر آگ پکڑنے والی اشیا کی پوری پوری مارکیٹیں قائم ہیں جہاں ننگے اور غیر معیاری تاروں کے جال بچھے ہوئے ہیں ۔ عمارتوں کی غیر معیاری و ناقص تعمیرات ہیں جن میں انخلا کے مطلوبہ راستے بھی نہیں ہیں ۔
عمارتوں کے اندر اور باہر کچروں کے ڈھیر اور تجاوزات قائم ہیں جن کے گرد رات کو جرائم پیشہ اور نشئی افراد منڈلاتے نظر آتے ہیں۔ فائر بریگیڈ گاڑیوں کی مطلوبہ تعداد، ان کی فٹنس، آلات، فیول اور پانی کا نہ ہونا، عمارتوں کی تعمیر اور وائرنگ میں غیر معیاری میٹریل استعمال ہونا، عمارتوں میں ایمرجنسی اخراج کے راستے، آگ بجھانے کے آلات، ریت و پانی کی بالٹیاں نہ ہونا عمارتوں کے اطراف میں تجاوزات اور ٹریفک جام ہونے کی وجہ سے امدادی کاموں میں دشواری پیش آنا رہائشی علاقوں میں آتش بازی کا سامان، کھلا پٹرول اور LPG کی فروخت، آبادی کے درمیان CNG اسٹیشنز کا قیام حکومتی اداروں کی ناکامی و نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ گاڑیوں کی فٹنس سے لے کر تجارتی و کمرشل اداروں اور رہائشی عمارتوں کے لیے معیارات مقرر اور قوانین موجود ہیں۔
درجنوں قوانین اور متعلقہ اداروں کے لاکھوں ملازمین موجود ہیں جن کی منصبی ذمے داری ہے کہ وہ ان معیارات اور قوانین پر سختی سے عمل کرائیں مگر ان کی دلچسپی مفاد عامہ کے بجائے اپنے مفادات پر مرکوز ہوتی ہے۔ کسی بھی حادثے کی صورت میں انھیں سزا تو نہیں ملتی البتہ یہ فائدہ ضرور ہو جاتا ہے کہ اس حادثے کے جواز میں ان کی بلیک میلنگ اور رشوتوں کے نرخ ضرور بڑھ جاتے ہیں۔
کبھی کبھار پیش آنیوالے ان واقعات میں عموماً جانوں کا ضیاع بھی بہت کم ہوتا تھا۔ مگر پچھلے ایک عشرے سے ملک کے بڑے شہروں خاص طور پر کراچی اور لاہور میں آتشزدگی کے ہولناک واقعات پیش آ رہے ہیں جن میں تخریبی کارروائیوں اور دہشتگردی کے شبے کا اظہار بھی کیا جاتا رہا ہے اگر ایسا ہے تو مستقبل میں بھی اس قسم کے مزید واقعات رونما ہو سکتے ہیں۔
چند سال پیشتر کلفٹن کے کانٹینینٹل ٹریڈ سینٹر اور لاہور کی شاہ عالم مارکیٹ آتشزدگی سے جل کر راکھ ہو گئی تھی جہاں فائر بریگیڈ کا عملہ آگ بجھانے اور پھنسے ہوئے افراد کو نکالنے میں ناکام رہا۔ فضائیہ کے ہیلی کاپٹروں نے آگ بجھانے اور پھنسے ہوئے لوگوں کو نکالنے میں مدد کی تھی۔ پاکستان کی تاریخ میں آتشزدگی کا سب سے بڑا اور ہولناک واقعہ 2 سال قبل بلدیہ گارمنٹ فیکٹری میں پیش آیا تھا جہاں سیکڑوں محنت کش رات بھر جلتے رہے موبائل فون پر ان کے گھر والوں سے رابطے میں رہے۔
مرنے والے اور ان کے ورثا امداد کے لیے آہ و فغاں کرتے رہے مگر متعلقہ ادارے مکمل بے بس و بے سرو سامانی اور صورتحال سے نمٹنے کی صلاحیتوں کے محروم نظر آئے۔ حادثے کو تخریب کاری اور بھتہ گیری کا شاخسانہ اور مالکان کی بے حسی اور ہٹ دھرمی بھی قرار دیا گیا مگر آج تک مالکان سے لے کر متعلقہ محکموں کے ذمے دار اداروں میں سے کسی کے خلاف کوئی کارروائی دیکھنے میں نہیں آئی، تاہم مرنے والوں کے لواحقین آج بھی انصاف و امداد کے منتظر ہیں۔
بلدیہ فیکٹری کے سانحے کے بعد پاکستان کی سب سے بڑی ٹمبر مارکیٹ میں ہولناک آتشزدگی کا واقعہ پیش آیا جس نے چشم زدن میں 400 سے زائد دکانیں اور 200 سے زائد گھروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اربوں روپے کی قیمتی لکڑیاں راکھ کا ڈھیر بن گئیں جس نے تونگروں کو سائل بنا دیا ایک دکان پر لگنے والی آگ اس طرح بے قابو ہوئی کہ لوگوں کو اپنے بیوی بچوں کے ساتھ گھر بار چھوڑ کر نکلنا پڑا وہ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنا کاروباری اثاثہ گھروں کا مال و اسباب شعلوں کی نذر ہوتا دیکھ کر بلک بلک کے روتے رہے رات سڑکوں اور اسکولوں میں گزاری۔ امدادی عملہ 2 گھنٹے کی تاخیر سے جائے وقوعہ پر پہنچا فائر بریگیڈ کی جو 2 گاڑیاں جائے وقوعہ پر پہنچیں تھیں۔
ان میں سے ایک میں پانی موجود نہیں تھا دوسری میں واپس جا کر آنے کا ڈیزل نہیں تھا۔ ابھی کراچی کی ٹمبر مارکیٹ میں لگنے والی آگ کے شعلے پوری طرح ٹھنڈے نہ ہونے پائے تھے کہ لاہور کے چار منزلہ تجارتی مرکز انارکلی مارکیٹ پلازہ میں آگ لگ گئی جس نے 13 انسانی زندگیوں کو نگل لیا لوگ اپنے پیاروں کو بے بسی اور بے کسی سے زندہ جلتا دیکھتے رہے امداد کے لیے دہائیاں دیتے رہے۔
مارکیٹ میں گھڑیوں، بیٹریوں اور تھنر کے باعث آگ بڑی تیزی سے پھیلی جب کہ مارکیٹ کا ایک ہی دروازہ اور تنگ گلیاں ہونے کی وجہ سے امدادی کاموں میں بھی رکاوٹ پیش آئی۔ بعض افراد کو دیواریں توڑ کر باہر نکالا گیا۔ جب کہ سانحہ بلدیہ کے وقت یہ بات سامنے آئی تھی کہ لواحقین متعلقہ اداروں سے فریاد کرتے رہے کہ دیواروں کو توڑ کر ان کے پھنسے ہوئے لوگوں کو باہر نکالا جائے مگر فیکٹری مالکان نے ایسا نہیں کرنے دیا۔ ابھی سانحہ ٹمبر مارکیٹ اور انارکلی کی حرارت کم نہ ہونے پائی تھی کہ پاکستان اسٹیل ملز کے نزدیک مسافر بس اور ٹینکر میں تصادم کا خوفناک اور روح فرسا واقعہ پیش آیا۔ اس حادثے میں 45 افراد جل کر اس طرح خاکستر ہوئے کہ DNA ٹیسٹ کے سوا ان کی شناخت کی کوئی صورت باقی نہ رہی۔ اس واقعے کی اطلاع پر پولیس اور ایمبولینس تو موقع پر پہنچ گئی تھیں لیکن شعلوں میں لپٹی بس میں جلتے لوگوں کو باہر نکالنے میں کامیاب نہ ہو سکیں جب کہ کافی دیر بعد ایک فائر بریگیڈ کی گاڑی پہنچی تو اس نے آگ پر قابو پا لیا لیکن جب تک کافی دیر ہو چکی تھی۔
کراچی ٹمبر مارکیٹ کے سانحے کے بعد فائر بریگیڈ کے سربراہ نے کوتاہی تسلیم کر لی کہ ''جس کی وجہ سے آگ بھڑک اٹھی اگر تیزی سے پانی کی سپلائی برقرار رہتی تو اتنا نقصان نہ ہوتا۔ لوگ یہ بات کہنے میں حق بجانب ہیں کہ انتظامیہ کی کوتاہی رہی ہے۔'' لیکن سندھ کے وزیر بلدیات نے کہا کہ سانحہ ٹمبر مارکیٹ پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ نہیں کرنے دیں گے اور یہ کہ حکومت سندھ نے 3 ارب روپے سے 180 فائر ٹینڈر کی خریداری کا فیصلہ کیا تھا لیکن عدالت نے اس پر حکم امتناعی دے دیا ہے۔ گویا اس سانحے کی ذمے داری عدالتوں کے کاندھوں پر بھی جاتی ہے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب بھی کوئی ناگہانی مصیبت آ جائے تو حکومت اور شہری ادارے بے بسی و بے حسی اور غیر ذمے داری کے مرتکب نظر آتے ہیں۔ شہریوں اور متاثرین کو سب سے زیادہ غصہ اور شکایتیں ان ہی محکموں سے ہوتی ہیں۔ ان سانحات پر روایتی طور پر حکومت اور سیاسی رہنماؤں کی طرف سے اظہار افسوس اور حادثے کی تحقیقات کے لیے کمیٹیاں بنا دینے اور وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ، گورنر، کمشنر کی جانب سے متعلقہ اداروں سے 24 یا 48 گھنٹوں میں رپورٹ طلب کیے جانے کے سوا کوئی کارروائی دیکھنے میں نہیں آتی آج تک کسی بھی حادثے کے کسی بھی ذمے دار کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا گیا ہے۔
سابق سٹی ناظم کے دور میں سرچ اینڈ ریسکیو اکیڈمی کا قیام عمل میں آیا تھا۔ اس سلسلے میں ہیوسٹن نے کروڑوں روپے کے جدید آلات فراہم کیے تھے اور 84 رضاکاروں کو غیر ملکی ماہرین نے سانحات میں پھنسے لوگوں کی جان بچانے کی تربیت بھی دی تھی یہ اکیڈمی گزشتہ 6 ماہ سے بند پڑی ہے مشینری بیکار پڑی زنگ آلود ہو رہی ہے۔ ان میں دیوار توڑنے والی مشینری اور آتشزدگی کو روکنے والے آلات شامل ہیں۔ تربیت اور آلات نہ ہونے کی وجہ سے درجنوں فائر فائٹر اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں انھیں عوام کے اشتعال و عتاب کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے آتشزدگی کے پے در پے بڑے بڑے واقعات نے متعلقہ اداروں کی پول کھول کر رکھ دی ہے۔
جس سے شہری شدید عدم تحفظ کا شکار ہیں خاص طور پر کراچی جیسے میگا سٹی میں جہاں لاتعداد کثیر المنزلہ عمارات کے نیچے پلاسٹک، کپڑے، کیمیکل، ٹیلی فون، موبائل، الیکٹرانکس سامان اور دیگر آگ پکڑنے والی اشیا کی پوری پوری مارکیٹیں قائم ہیں جہاں ننگے اور غیر معیاری تاروں کے جال بچھے ہوئے ہیں ۔ عمارتوں کی غیر معیاری و ناقص تعمیرات ہیں جن میں انخلا کے مطلوبہ راستے بھی نہیں ہیں ۔
عمارتوں کے اندر اور باہر کچروں کے ڈھیر اور تجاوزات قائم ہیں جن کے گرد رات کو جرائم پیشہ اور نشئی افراد منڈلاتے نظر آتے ہیں۔ فائر بریگیڈ گاڑیوں کی مطلوبہ تعداد، ان کی فٹنس، آلات، فیول اور پانی کا نہ ہونا، عمارتوں کی تعمیر اور وائرنگ میں غیر معیاری میٹریل استعمال ہونا، عمارتوں میں ایمرجنسی اخراج کے راستے، آگ بجھانے کے آلات، ریت و پانی کی بالٹیاں نہ ہونا عمارتوں کے اطراف میں تجاوزات اور ٹریفک جام ہونے کی وجہ سے امدادی کاموں میں دشواری پیش آنا رہائشی علاقوں میں آتش بازی کا سامان، کھلا پٹرول اور LPG کی فروخت، آبادی کے درمیان CNG اسٹیشنز کا قیام حکومتی اداروں کی ناکامی و نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ گاڑیوں کی فٹنس سے لے کر تجارتی و کمرشل اداروں اور رہائشی عمارتوں کے لیے معیارات مقرر اور قوانین موجود ہیں۔
درجنوں قوانین اور متعلقہ اداروں کے لاکھوں ملازمین موجود ہیں جن کی منصبی ذمے داری ہے کہ وہ ان معیارات اور قوانین پر سختی سے عمل کرائیں مگر ان کی دلچسپی مفاد عامہ کے بجائے اپنے مفادات پر مرکوز ہوتی ہے۔ کسی بھی حادثے کی صورت میں انھیں سزا تو نہیں ملتی البتہ یہ فائدہ ضرور ہو جاتا ہے کہ اس حادثے کے جواز میں ان کی بلیک میلنگ اور رشوتوں کے نرخ ضرور بڑھ جاتے ہیں۔