آگ اور ٹر یفک حادثات
ہمارا رب بڑا منصف ومہرباں ہے ہم اس سے درگزر کی امید رکھتے ہیں.
COLOMBO:
جب اس کے ادھ جلے ہوئے جسم کو کانپتے ہاتھوں مجھے سہارا دے کر اٹھانا پڑا کہ وہاں اورکوئی مدد کو نہ تھا تو اس کے جسم کے جلے ہوئے گوشت سے کسی چیرتی ہوئی لکڑی کی ہلکی سی آواز سنائی دی یہ آواز بہت مد ھم سی تھی جو صرف اٹھانے والا ہی محسوس و سن سکتا تھا۔ اس آوازکو میں کبھی نہیں بھول سکتی یہ ایک بیس سالہ لڑکی کے جل جانے کی کہانی تھی، ہمارے پڑوس کی ایک خوبصورت اور پیاری سی لڑکی،جس کا گھر میں کسی بات پر جھگڑا ہوا۔
اس نے خود کو جلا کرخود سوزی کی کوشش کی خدا جانے وہ خود جلی یا اسے جلا دیا گیا پھرکئی دن کی موت و زیست کی کشمکش کے بعد آخرکار موت نے اسے پر سکون ابدی نیند بخش دی لیکن! اس کا انداز بانکپن ،معصوم صورت اور پھر اس کی تکلیف دہ موت میں کبھی نہیں بھول پائی۔ اف خدایا ! موت تو بذات خود ایک مشکل کیفیت ہے اور اگر کوئی آگ سے جل کر اس دنیا سے رخصت ہوا، اس کا تصورہی بہت کربناک واذیت ناک ہے۔ اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو نارجہنم سے بچنے کی تاکید ہے، جس کی شدت حرارت دنیا کی آگ سے کئی سوگنا زیادہ ہے۔
ہمارا رب بڑا منصف ومہرباں ہے ہم اس سے درگزر کی امید رکھتے ہیں لیکن ہم خود کبھی منصف بن کر دوسروں کو نار جہنم بھیجنے کا فیصلہ کر لیتے ہیں۔ جیسا کہ کوٹ رادھا کشن مین واقعہ پیش آیا جب قرآن کی بے حرمتی کے الزام میں شھباز مسیح اور اس کی بیوی شمع بی بی کو اسی بھٹے کی آگ میں پھینک دیا گیا جس پر وہ میاں بیوی سارا دن مزدوری کیا کرتے تھے شمع بی بی کو آگ کی موت سے بہت خوف آتا تھا۔اسے نہیں معلوم تھا کہ آگ کی موت اس کے مقدر میں اس کے ہم وطنوں نے لکھ دی ہے۔
پانی ،لکڑی،چاندی،سونے،کوئلے، پتھر یا لوہے کی طرح آگ بذات خود کوئی شے نہیں بلکہ مادی اشیاء کے درمیان کیمیاوی عمل کی ایک کیفیت ہے ان کا درجہ حرارت ہے، جو آتش گیر مادے پٹرول،مٹی کے تیل وغیرہ کے سا تھ مل کر آگ کی صورت اختیار کرتی ہے پھر سب کچھ جلا کر خاکستر کر دیتی ہے مجھے یہ سب اس لیے بھی یاد آرہا ہے کہ گزشتہ چند سالوں کے دوران کئی وا قعات میںوطن عزیز کے درجنوں لوگوں کو آگ سے را کھ ہوتے تواتر سے دیکھ رہی ہوں یہ کس کی غفلت ہے کس کا قصور ہے کہ ملک کے بے گناہ شہری اس اذیت ناک موت کی نذر ہو رہے ہیں۔
ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہیں، سوچنے کا مقام ہے ایک کے بعد ایک آتش زدگی کے واقعے کی خبرسننے کو مل رہی ہے کہیں املاک کا نقصان ہورہا ہے لوگوں کی زندگی بھرکی کمائی منٹوں میں راکھ کا ڈھیر بن رہی ہے۔ سب سے بڑھ کر انسانی جانیں جل کر خاکستر ہو رہی ہیںکوئی ان غریب محنت کشوں کے دل سے پوچھے جن کے پیارے اس اذیت ناک موت سے دوچار ہوکر زندگی کی بازی ہارگئے ان کی ساری زندگی ویران ہی ویران ہے جب تک جیئںگے قطرہ قطرہ مرنے والے کی کرب واذیت کی آگ کو محسوس کرکے سلگتے رہیں گے۔ اس سے قبل ان 67سالوں میں تواتر سے اتنے واقعات رونما کبھی نہیں ہوئے تھے بعض حادثوں میں تو نہ مدعی نہ گواہ !فرشتے آسمان سے اتر کر اس کی ذمے داری تو لینے سے رہے۔
ہمارے ہاں کے دستور کے مطابق کچھ دن یہ خبریں اخبار و میڈیا میں نظرآنے کے بعد اوجھل ہوجاتی ہیں نہ تدارک پر عمل ہوتا ہے نہ ہی گناہ گاروں کوکیے کی سزا ملتی ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا گیارہ ستمبر 2012ء کو کراچی کی ایک گارمنٹ فیکٹری میں آگ لگی جس کے نتیجے میں 289افراد جل کو راکھ کا ڈھیر بن گئے ابھی یہ آگ ٹھنڈی بھی نہ ہوئی تھی کہ لاہور کی ایک جوتے بنانے والی فیکٹری میں آگ لگی جس میں وہاں کام کرنے والے 30 ملازم جل کر جاں بحق ہو گئے تھے۔ کراچی ائیر پورٹ پر تخریب کاری کے دوران کئی قیمتی جانیں کولڈ اسٹوریج میں آگ لگنے سے جل کر راکھ ہوگئی تھیں اس بے کسی کی موت کو پوری قوم میڈیا پر دیکھتی ہے۔ اپنی بے بسی پر سلگتی ہیں کہ کچھ کر نہیں پاتی ہمارے وسائل کمیاب ہیں۔ فائر بریگیڈ عملے کے پاس جدید سہولتوں کا فقدان ہے آگ بجھانے والی گاڑیاں وقت پر پہنچنے کی کوشش کے باوجود نہیں آ پاتی یوں جانی و مالی نقصان بھی زیادہ ہوتا ہے ۔
اسی طرح سی این جی اور پٹرول کی قیمتوں میں معمولی فرق کے لالچ میں ٹریفک حادثات میں جل کر مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے جس کی وجہ گاڑیوں میں لگے سلنڈر گیس کا پھٹنا ہے۔ مئی 2013 ء میں اسکول وین میں لگے گیس سلنڈر کے پھٹنے سے سترہ معصوم بچے جل کر راکھ کا ڈھیر بن گئے تھے۔
اس طرح کے درجنوں واقعات ہم اس سے پہلے بھی روڈ ایکسیڈینٹ میں مرنے اور زخمی ہو نے والوں کی خبریں پڑھتے رہتے تھے اگر ہم پورے سال کا جائزہ لیں تو ہر ماہ ایک بڑا ٹریفک حادثہ ہمارے ملک کا المیہ بن چکا ہے کسی دانا کا قول ہے کسی قوم کی سماجی واخلا قی حالت جاننی ہو تو اس ملک کی سڑکوں پر چلنے والی ٹریفک کو دیکھ لو ہم اپنی سڑکوں پرنظر ڈا لتے ہیں تو ٹریفک حادثات کی وجوہات میں ڈرائیور کی غفلت، سڑکوں کی خراب حالت،گاڑی تیز رفتاری سے چلا کر سبقت لے جانے کی عادت،گاڑیوں میں ضرورت سے زیادہ مسافروںکو سوار کرلینا اور سی این جی سلنڈر کی موجودگی تباہی کا باعث بنتی ہے چند ماہ پیشترگاڑی کی تیز رفتاری کے باعث خیر پور ٹریفک حادثے جس میں 85افراد اپنی جان سے گئے ۔
مارچ 2014 ء میں بلوچستان جانے والی دو بسوں اور آئل ٹینکر کے درمیان تصادم سے بس میں آگ لگ گئی،بد نصیب مسافروںکو گاڑی سے نکلنے کی بھی مہلت نہ ملی سب جل کر خاک ہو گئے۔ چند دن قبل شکار پور جانے والی بس آئل ٹینکر سے ٹکرا گئی جس سے 64افراد جل کر راکھ ہوگئے۔ ڈاکٹر سیمی جمالی کے مطابق تمام مسافروں کی نعشیں اس قدر جلی ہوئی تھیں کہ ان کی پہچان مشکل ہے ۔تھوڑی دیر کو اگر سوچا جائے کس قدر افسوس ناک واقعات ہمارے ہاں آئے دن پیش آ رہے ہیں۔
ایک ساتھ اتنے لوگوں کی بے بسی کی کربناک موت محض ذرا سی لاپروائی کے باعث ہو رہی ہے مگر ہم کس قدر بے حس ہو چکے ہیں آگ کے سرد ہونے کے بعد ہمارے جذبات واحساسات بھی ٹھنڈے ہوجاتے ہیں اور حکومتی رویے، تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ بھی سرد خانے میں ڈال دی جاتی ہے لیکن ایسے کتنے ہوں گے جو اس چیری ہوئی لکڑی کی آوازکو کبھی بھلا نہ پائیں گے یقینا بہت سارے ہوں گے۔
جب اس کے ادھ جلے ہوئے جسم کو کانپتے ہاتھوں مجھے سہارا دے کر اٹھانا پڑا کہ وہاں اورکوئی مدد کو نہ تھا تو اس کے جسم کے جلے ہوئے گوشت سے کسی چیرتی ہوئی لکڑی کی ہلکی سی آواز سنائی دی یہ آواز بہت مد ھم سی تھی جو صرف اٹھانے والا ہی محسوس و سن سکتا تھا۔ اس آوازکو میں کبھی نہیں بھول سکتی یہ ایک بیس سالہ لڑکی کے جل جانے کی کہانی تھی، ہمارے پڑوس کی ایک خوبصورت اور پیاری سی لڑکی،جس کا گھر میں کسی بات پر جھگڑا ہوا۔
اس نے خود کو جلا کرخود سوزی کی کوشش کی خدا جانے وہ خود جلی یا اسے جلا دیا گیا پھرکئی دن کی موت و زیست کی کشمکش کے بعد آخرکار موت نے اسے پر سکون ابدی نیند بخش دی لیکن! اس کا انداز بانکپن ،معصوم صورت اور پھر اس کی تکلیف دہ موت میں کبھی نہیں بھول پائی۔ اف خدایا ! موت تو بذات خود ایک مشکل کیفیت ہے اور اگر کوئی آگ سے جل کر اس دنیا سے رخصت ہوا، اس کا تصورہی بہت کربناک واذیت ناک ہے۔ اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو نارجہنم سے بچنے کی تاکید ہے، جس کی شدت حرارت دنیا کی آگ سے کئی سوگنا زیادہ ہے۔
ہمارا رب بڑا منصف ومہرباں ہے ہم اس سے درگزر کی امید رکھتے ہیں لیکن ہم خود کبھی منصف بن کر دوسروں کو نار جہنم بھیجنے کا فیصلہ کر لیتے ہیں۔ جیسا کہ کوٹ رادھا کشن مین واقعہ پیش آیا جب قرآن کی بے حرمتی کے الزام میں شھباز مسیح اور اس کی بیوی شمع بی بی کو اسی بھٹے کی آگ میں پھینک دیا گیا جس پر وہ میاں بیوی سارا دن مزدوری کیا کرتے تھے شمع بی بی کو آگ کی موت سے بہت خوف آتا تھا۔اسے نہیں معلوم تھا کہ آگ کی موت اس کے مقدر میں اس کے ہم وطنوں نے لکھ دی ہے۔
پانی ،لکڑی،چاندی،سونے،کوئلے، پتھر یا لوہے کی طرح آگ بذات خود کوئی شے نہیں بلکہ مادی اشیاء کے درمیان کیمیاوی عمل کی ایک کیفیت ہے ان کا درجہ حرارت ہے، جو آتش گیر مادے پٹرول،مٹی کے تیل وغیرہ کے سا تھ مل کر آگ کی صورت اختیار کرتی ہے پھر سب کچھ جلا کر خاکستر کر دیتی ہے مجھے یہ سب اس لیے بھی یاد آرہا ہے کہ گزشتہ چند سالوں کے دوران کئی وا قعات میںوطن عزیز کے درجنوں لوگوں کو آگ سے را کھ ہوتے تواتر سے دیکھ رہی ہوں یہ کس کی غفلت ہے کس کا قصور ہے کہ ملک کے بے گناہ شہری اس اذیت ناک موت کی نذر ہو رہے ہیں۔
ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہیں، سوچنے کا مقام ہے ایک کے بعد ایک آتش زدگی کے واقعے کی خبرسننے کو مل رہی ہے کہیں املاک کا نقصان ہورہا ہے لوگوں کی زندگی بھرکی کمائی منٹوں میں راکھ کا ڈھیر بن رہی ہے۔ سب سے بڑھ کر انسانی جانیں جل کر خاکستر ہو رہی ہیںکوئی ان غریب محنت کشوں کے دل سے پوچھے جن کے پیارے اس اذیت ناک موت سے دوچار ہوکر زندگی کی بازی ہارگئے ان کی ساری زندگی ویران ہی ویران ہے جب تک جیئںگے قطرہ قطرہ مرنے والے کی کرب واذیت کی آگ کو محسوس کرکے سلگتے رہیں گے۔ اس سے قبل ان 67سالوں میں تواتر سے اتنے واقعات رونما کبھی نہیں ہوئے تھے بعض حادثوں میں تو نہ مدعی نہ گواہ !فرشتے آسمان سے اتر کر اس کی ذمے داری تو لینے سے رہے۔
ہمارے ہاں کے دستور کے مطابق کچھ دن یہ خبریں اخبار و میڈیا میں نظرآنے کے بعد اوجھل ہوجاتی ہیں نہ تدارک پر عمل ہوتا ہے نہ ہی گناہ گاروں کوکیے کی سزا ملتی ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا گیارہ ستمبر 2012ء کو کراچی کی ایک گارمنٹ فیکٹری میں آگ لگی جس کے نتیجے میں 289افراد جل کو راکھ کا ڈھیر بن گئے ابھی یہ آگ ٹھنڈی بھی نہ ہوئی تھی کہ لاہور کی ایک جوتے بنانے والی فیکٹری میں آگ لگی جس میں وہاں کام کرنے والے 30 ملازم جل کر جاں بحق ہو گئے تھے۔ کراچی ائیر پورٹ پر تخریب کاری کے دوران کئی قیمتی جانیں کولڈ اسٹوریج میں آگ لگنے سے جل کر راکھ ہوگئی تھیں اس بے کسی کی موت کو پوری قوم میڈیا پر دیکھتی ہے۔ اپنی بے بسی پر سلگتی ہیں کہ کچھ کر نہیں پاتی ہمارے وسائل کمیاب ہیں۔ فائر بریگیڈ عملے کے پاس جدید سہولتوں کا فقدان ہے آگ بجھانے والی گاڑیاں وقت پر پہنچنے کی کوشش کے باوجود نہیں آ پاتی یوں جانی و مالی نقصان بھی زیادہ ہوتا ہے ۔
اسی طرح سی این جی اور پٹرول کی قیمتوں میں معمولی فرق کے لالچ میں ٹریفک حادثات میں جل کر مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے جس کی وجہ گاڑیوں میں لگے سلنڈر گیس کا پھٹنا ہے۔ مئی 2013 ء میں اسکول وین میں لگے گیس سلنڈر کے پھٹنے سے سترہ معصوم بچے جل کر راکھ کا ڈھیر بن گئے تھے۔
اس طرح کے درجنوں واقعات ہم اس سے پہلے بھی روڈ ایکسیڈینٹ میں مرنے اور زخمی ہو نے والوں کی خبریں پڑھتے رہتے تھے اگر ہم پورے سال کا جائزہ لیں تو ہر ماہ ایک بڑا ٹریفک حادثہ ہمارے ملک کا المیہ بن چکا ہے کسی دانا کا قول ہے کسی قوم کی سماجی واخلا قی حالت جاننی ہو تو اس ملک کی سڑکوں پر چلنے والی ٹریفک کو دیکھ لو ہم اپنی سڑکوں پرنظر ڈا لتے ہیں تو ٹریفک حادثات کی وجوہات میں ڈرائیور کی غفلت، سڑکوں کی خراب حالت،گاڑی تیز رفتاری سے چلا کر سبقت لے جانے کی عادت،گاڑیوں میں ضرورت سے زیادہ مسافروںکو سوار کرلینا اور سی این جی سلنڈر کی موجودگی تباہی کا باعث بنتی ہے چند ماہ پیشترگاڑی کی تیز رفتاری کے باعث خیر پور ٹریفک حادثے جس میں 85افراد اپنی جان سے گئے ۔
مارچ 2014 ء میں بلوچستان جانے والی دو بسوں اور آئل ٹینکر کے درمیان تصادم سے بس میں آگ لگ گئی،بد نصیب مسافروںکو گاڑی سے نکلنے کی بھی مہلت نہ ملی سب جل کر خاک ہو گئے۔ چند دن قبل شکار پور جانے والی بس آئل ٹینکر سے ٹکرا گئی جس سے 64افراد جل کر راکھ ہوگئے۔ ڈاکٹر سیمی جمالی کے مطابق تمام مسافروں کی نعشیں اس قدر جلی ہوئی تھیں کہ ان کی پہچان مشکل ہے ۔تھوڑی دیر کو اگر سوچا جائے کس قدر افسوس ناک واقعات ہمارے ہاں آئے دن پیش آ رہے ہیں۔
ایک ساتھ اتنے لوگوں کی بے بسی کی کربناک موت محض ذرا سی لاپروائی کے باعث ہو رہی ہے مگر ہم کس قدر بے حس ہو چکے ہیں آگ کے سرد ہونے کے بعد ہمارے جذبات واحساسات بھی ٹھنڈے ہوجاتے ہیں اور حکومتی رویے، تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ بھی سرد خانے میں ڈال دی جاتی ہے لیکن ایسے کتنے ہوں گے جو اس چیری ہوئی لکڑی کی آوازکو کبھی بھلا نہ پائیں گے یقینا بہت سارے ہوں گے۔