کچھ منظر ماضی کے

کچھ منظر ماضی کے

کچھ منظر ماضی کے۔ فوٹو : فائل

HONOLULU:


انسان اور حیوان کے درمیان فرق صرف تربیت اور عقل وشعور کا ہے۔ اگر تربیت اور عقل کو نکال دیا جائے، تو یہ انسان بھی کسی حیوان کے ہی ہم پلہ ہو جاتا ہے۔ اسی عقل کو دوش ہے، جو اسے باہمی مساوات کا درس دیتی ہے، رنگ ونسل اور عقائد سے ماورا ہو کر کم سے کم انسان کی بلند سطح پر سب کو ایک ہی پیمانے پر تولتی ہے۔ بات اگر اس سے اِدھر یا اُدھر ہو تو توازن بگڑ جاتا ہے۔ اس تصویر کا منظر ایسا ہی کچھ ہے، جہاں فرق صرف اس باڑ کا ہے، جس کے اندر یہ سیاہ فام بچی ہے اور باہر لوگ اسے دل چسپی سے تماشا بنائے ہوئے ہیں۔۔۔ سبب یہ ہے کہ یہ بچی بطور ''حیوان'' آئی ہوئی ہے اور لوگ اپنی ہی جیسی ایک بچی کو ''انسانی چڑیا گھر'' میں دیکھ کر لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ یہ منظر1958 ء میں بیلجیئم میں تصویر ہوا۔



ایجادات بہ تدریج اپنی شکل وصورت وضع کرتی ہیں، آج کی کسی ایجاد کے پس منظر میں جھانکیے، تو معلوم ہوگا کہ آج کی اتنی دیدہ زیب شکل میں موجود چیزیں ماضی میں کس قدر ترقی پذیر تھیں۔ جدت کے ساتھ ساتھ ان کے حجم اور پھیلائو کی بابت بھی کس قدر بہتری آئی۔ اس تصویر کا شمار بھی کچھ ایسے ہی مناظر میں ہوتا ہے، جس میں دو طبیب ایک کم سن بچے کو ایکسرے کے عمل سے گزار رہے ہیں۔ ایکسرے کی دریافت 1865ء میں اس وقت ہوئی جب Wilhelm Conrad Roentgen (1845-1923) جرمنی میں اپنی تجربہ گاہ میں مصروف عمل تھے۔ اس کے بعد طب کی دنیا میں اس کا استعمال ہونے لگا۔



کناٹ پلیس (Connaught Place) ہندوستان کی راج دہانی نئی دہلی میں واقع ایک بہت بڑا تجارتی مرکز ہے۔ 1952ء میں کیمرے کی آنکھ نے یہ منظر تب محفوظ کیا، جب بھارتی یوم جمہوریہ کی پریڈ ہو رہی تھی۔ ہندوستان میں یوم جمہوریہ 26 جنوری کو منایا جاتا ہے۔ کناٹ پلیس کی تعمیر برطانوی ہند کے زمانے میں ہوئی۔ اس کا نام Duke of Connaught and Strathearn کے نام پر ہے۔ اس تاریخی عمارت کی تعمیر 1933ء میں مکمل ہوئی۔




یہ وہ آنکھیں ہیں، جنہوں نے 6 اگست 1945ء کی اس دہشت گردی کو دیکھا، جو ہیروشیما پر جوہری حملے کی صورت میں نازل ہوئی۔۔۔ ایک ہزار سورجوں سے بھی زیادہ قیامت خیز روشنی کا جھماکا اتنا شدید تھا کہ وہ ایک لاکھ انسانوں کی زندگیوں کے ساتھ اس منظر کو دیکھنے والی آنکھوں کی روشنی بھی ہمیشہ کے لیے لے گیا۔ یہ معصوم آنکھیں بھی اسی ''جرم'' میں بینائی سے محروم ہوئیں۔۔۔ دنیا کا یہ سب سے مہلک حملہ امریکا کی جانب سے کیا گیا، جس میں ایک لاکھ سے زاید لوگ لقمہ اَجل بنے۔



سائبیریا میں جب سرما آتا ہے، تو زندگی کی روانی بھی منجمد ہونے لگتی ہے۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سردیوں میں وہاں سے پرندوں کی بہت بڑی تعداد پاکستان کے ساحلی علاقوں کا رخ کرتی ہے اور جب وہاں سرد موسم کی شدت کم ہونے لگتی ہے، تو لوٹ جاتی ہے۔ زیر نظر تصویر 1960ء کے سرما کی ہے، جب سائبیریا میں اس قدر برف پڑی کہ بجلی کے کھمبے تک اس برف میں اپنے سِروں تک دھنس گئے ہیں اور بجلی کے تار بھی اس برف میں دفن ہو رہے ہیں۔



''فون پر کیسے بات کی جائے؟'' یہ ورق 1950ء کے عشرے کی ایک نصابی کتاب کا ہے، جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ ٹیلی فون پر بات کس طرح کی جاتی ہے۔ تصویر کی مدد سے ٹیلی فون کے مختلف حصوں کے نام بھی بتائے گئے ہیں۔ لگ بھگ 65 برس قبل جس چیز کے طریقۂ استعمال بتانے کے لیے نصاب میں شامل کرنا پڑا، آج عالم یہ ہے کہ وہ زندگی میں سانس لینے کی طرح بنیادی سی چیز محسوس ہوتی ہے اور بچے چلنے، پھرنے اور بولنے چالنے کی طرح جدید سے جدید فون کا استعمال بھی بہ آسانی سیکھ لیتے ہیں۔
Load Next Story