نیا خیبرپختونخوا بنانے کا عزم
خیبرپختونخوا کی حکومت تعلیم، صحت اور پولیس کے نظام سمیت مختلف اہم شعبوں میں اصلاحات کے عمل کا آغاز کر رہی ہے۔
KARACHI:
مئی 2013 کے عام انتخابات میں خیبرپختونخوا کے عوام نے پاکستان تحریک انصاف کو تبدیلی کے حق میں بھاری اکثریت سے ووٹ دے کر کامیاب کرایا تھا، لیکن برسر اقتدار آنے کے کچھ ہی عرصے بعد وہ احتجاجی سیاست میں الجھ گئی اور عوام سے کیا ہوا اپنا وعدہ بھول گئی۔
بڑی خوشی کی بات ہے کہ بالآخر تحریک انصاف نے مبینہ دھاندلی کے خلاف اپنے 126 روزہ دھرنے کو خیرباد کہتے ہوئے احتجاجی سیاست کو ترک کرکے تعمیری سیاست کی روش اختیار کی ہے ،اپنی پارٹی کے ''دھرنا کنونشن'' سے خطاب کرتے ہوئے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے مثبت رویہ اختیار کرتے ہوئے حکومت کی راہ میں کوئی روڑے نہ اٹکانے کے فیصلے کا اعلان کیا تاکہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کو کامیابی سے ہمکنار کرایا جاسکے۔
انھوں نے بالکل واضح الفاظ میں اپنا موقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ ''اب ہماری تمام توانائیاں کے پی کے کی گورننس کی بہتری پر مرکوز ہوں گی۔'' ان کا کہنا تھا کہ اب ہم اپنے حریفوں کو اپنی کارکردگی کے ذریعے نیچا دکھائیں گے اور ثابت کریں گے کہ کے پی کے کا طرز حکمرانی دیگر تینوں صوبوں کے طرز حکمرانی کے مقابلے میں سب سے بہتر ہے۔
خیبرپختونخوا کی حکومت تعلیم، صحت اور پولیس کے نظام سمیت مختلف اہم شعبوں میں اصلاحات کے عمل کا آغاز کر رہی ہے۔ دوسری جانب ماحولیات کی بہتری کے حوالے سے ایک انقلابی تبدیلی آنے والی ہے جس کے تحت صوبے بھر میں شجرکاری کی زوردار مہم چلا کر ایک بلین درخت لگائے جائیں گے۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ اصل تبدیلی لوکل باڈیز الیکشن کے بعد لوکل گورنمنٹ سسٹم کے ذریعے آئے گی جس کے بعد گاؤں دیہات کی سطح تک اقتدار کی منتقلی کا عمل اپنے اختتام کو پہنچے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر قیادت عوام کی خدمت کے لیے مخلص ہو تو کام کرنے کے مواقعے کی نہ کوئی حد ہے اور نہ کوئی شمار۔
عمران خان کے مخالفین کا ان پر سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ خان صاحب ضدی ہیں اور اپنی بات کے آگے ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں ہوتے۔ لیکن اب انھوں نے اپنے طرز عمل میں نمایاں تبدیلی کے ذریعے اپنے تمام مخالفین کے منہ بند کردیے ہیں اور ثابت کردیا ہے کہ عوام کے مجموعی مفاد اور ملک و قوم کی بہتری کی خاطر وہ اپنے کئی مطالبات سے دست بردار ہونے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔
مثلاً انھوں نے اپنے اس مطالبے کو ترک کردیا کہ مئی 2013 کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے الزام کی چھان بین کرنے والے کمیشن کے قیام سے قبل وزیر اعظم میاں نواز شریف وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہوجائیں کیونکہ یہ پیشگی شرط کسی بھی معاملہ فہمی کی راہ میں حائل ایک بہت بڑی رکاوٹ بن گئی تھی۔ پھر اس کے بعد سانحہ پشاور کے بعد انھوں نے ملک و قوم کی آواز میں آواز ملاکر دہشت گردی کے خلاف جنگ کی حمایت بھی کردی۔ خان صاحب کے اس تبدیل شدہ طرز عمل سے ان کی سیاسی بلوغت کی بالکل واضح طور پر عکاسی ہوتی ہے جوکہ ایک اچھا اور لائق تحسین رویہ ہے۔
تاہم اس کے معنی ہرگز یہ نہ نکالے جائیں کہ خان صاحب نے گھبرا کر یا اکتا کر گزشتہ عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی چھان بین اور جوڈیشل تحقیقات کرانے کے اپنے بنیادی مطالبے سے ہاتھ اٹھا لیا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کو اس سلسلے میں کسی بھی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ معاملہ صرف جوڈیشل کمیشن کی Terms of Reference کے طے نہ ہو پانے کی وجہ سے التوا کا شکار ہے۔ پی ٹی آئی اپنے اس مطالبے پر بدستور مصر ہے کہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کی جانے والی مبینہ انتخابی دھاندلی ثابت نہ ہونے کی صورت میں بھی محض دھاندلی ثابت ہوجانے کے بعد بھی وزیر اعظم کو استعفیٰ دے دینا چاہیے۔
اگر غیر جانب دارانہ تجزیہ بھی کیا جائے تو یہ حقیقت ناقابل تردید ہے کہ انتخابی دھاندلی خواہ کسی بھی طریقے سے اور کسی بھی طور پر کیوں نہ کی جائے، یہ جمہوریت کے لیے سم قاتل ہے۔ جمہوریت کی روح کا بنیادی تقاضا یہی ہے کہ انتخابات قطعی منصفانہ، غیر جانبدارانہ، آزاد اور شفاف ہونے چاہئیں تاکہ اقتدار عوام کے اصل نمایندوں کو منتقل ہوسکے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اب تک ایسا ممکن نہیں ہوسکا ہے جس کی وجہ سے جمہوری نظام کو اعتماد اور استحکام میسر نہیں آسکا ہے اور جو بھی حکومت برسر اقتدار آتی رہتی ہے اس کی نیّا ہر وقت ڈولتی ہی رہتی ہے۔
یہ امر باعث اطمینان ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں میں اس بات پر قطعی اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ آیندہ عام انتخابات کے آزادانہ، منصفانہ، غیر جانبدارانہ اور شفاف انعقاد کے لیے انتخابی اصلاحات کا جلد ازجلد مکمل ہوجانا ازحد ضروری ہے۔ اس کے لیے اولین شرط یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کو صحیح معنوں میں ایک آزاد، خودمختار اور بااختیار ادارہ بنایا جائے جس کی مثال ہمارے پڑوسی ملک بھارت کے الیکشن کمیشن کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے۔
بھارت کے الیکشن کمیشن کی اصل قوت چیف الیکشن کمشنر کے منصب میں مضمر ہے جنھیں نہ صرف مطلوبہ قواعد و ضوابط وضع کرنے بلکہ انتظامیہ کے کسی بھی اہلکار کے کہیں بھی تبادلے کی مکمل اتھارٹی حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت بشمول حکمراں پارٹی کی یہ مجال نہیں کہ اپنے من پسند افسران اور اہل کاروں کو اپنی مرضی سے تعینات کرواسکے۔ وطن عزیز میں چونکہ اقربا پروری اور سفارش کلچر عام ہے لہٰذا الیکشن کمشنر آف پاکستان کا زیادہ سے زیادہ بااختیار ہونا انتہائی ضروری ہے۔ جعلی ووٹنگ کے تدارک کے لیے بھارت کی طرز پر الیکٹرانک ووٹنگ کا نظام متعارف کرانا بھی بہت ضروری ہے جس کی پی ٹی آئی کی جانب سے بھی بڑی حمایت کی جا رہی ہے۔
خیبرپختونخوا میں تبدیلی کی ہوا چل چکی ہے اور وقفے وقفے سے تازہ ہوا کے جھونکے آرہے ہیں۔ تازہ خبر یہ ہے کہ صوبے کے چاروں اضلاع میں غریب غربا کے مفت علاج معالجے کے لیے حکومت کی جانب سے سوشل ہیلتھ پروٹیکشن اسکیم کا آغاز کیا جانے والا ہے۔ اس سلسلے میں خیبرپختونخوا کی حکومت اور اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن آف پاکستان کے درمیان حال ہی میں ایک معاہدہ طے پایا ہے۔ پاکستان میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی اسکیم ہوگی جس سے مردان، چترال، مالاکنڈ اور کوہاٹ کے 30 فیصد غریب لوگوں کو فائدہ پہنچے گا۔ اس کے علاوہ اس اسکیم کے تحت حکومت مستحق افراد کو سالانہ 9,700 روپے فی کس پریمیم بھی ادا کرے گی۔
اس سلسلے میں حکومت کی جانب سے منتخب غریب خاندانوں میں فی خاندان 25,000 روپے سالانہ خرچ کیے جائیں گے۔ شعبہ صحت آیندہ پانچ ماہ میں خاندانوں کی رجسٹریشن شروع کردے گا۔ اس کے بعد متعلقہ خاندانوں کو ہیلتھ کارڈز جاری کردیے جائیں گے تاکہ وہ علاج معالجے کی سہولتوں سے استفادہ کرسکیں۔ اس کے علاوہ اسپتالوں میں آنے والی زچگی کے مسائل سے دوچار غریب خواتین کو ٹرانسپورٹ الاؤنس کے طور پر فی کس ایک ہزار روپے کی رقم بھی ادا کی جائے گی۔
خیبرپختونخوا میں تعلیم کے شعبے میں بھی انقلابی قدم اٹھائے جا رہے ہیں۔ صوبے کے ہائر ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ نے پبلک سیکٹر کی جامعات کے لیے یکساں قواعد و ضوابط مرتب کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں قومی اور بین الاقوامی یونیورسٹیوں کے بہترین قواعد و ضوابط کو شامل کیا جائے گا۔ اس اقدام کا بنیادی مقصد تعلیم کے نظام کو بہترین خطوط پر استوار کرنا ہے تاکہ صوبے کے تعلیمی معیار کو بلند سے بلند تر کیا جاسکے۔ ان تمام اقدامات سے صاف ظاہر ہے کہ عمران خان نے خیبرپختونخوا کو نیا کے پی کے بنانے کا پختہ عزم کر رکھا ہے جس کی سب سے اہم اور قابل ذکر علامت اس صوبے میں وی آئی پی کلچر کا خاتمہ ہے۔
مئی 2013 کے عام انتخابات میں خیبرپختونخوا کے عوام نے پاکستان تحریک انصاف کو تبدیلی کے حق میں بھاری اکثریت سے ووٹ دے کر کامیاب کرایا تھا، لیکن برسر اقتدار آنے کے کچھ ہی عرصے بعد وہ احتجاجی سیاست میں الجھ گئی اور عوام سے کیا ہوا اپنا وعدہ بھول گئی۔
بڑی خوشی کی بات ہے کہ بالآخر تحریک انصاف نے مبینہ دھاندلی کے خلاف اپنے 126 روزہ دھرنے کو خیرباد کہتے ہوئے احتجاجی سیاست کو ترک کرکے تعمیری سیاست کی روش اختیار کی ہے ،اپنی پارٹی کے ''دھرنا کنونشن'' سے خطاب کرتے ہوئے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے مثبت رویہ اختیار کرتے ہوئے حکومت کی راہ میں کوئی روڑے نہ اٹکانے کے فیصلے کا اعلان کیا تاکہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کو کامیابی سے ہمکنار کرایا جاسکے۔
انھوں نے بالکل واضح الفاظ میں اپنا موقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ ''اب ہماری تمام توانائیاں کے پی کے کی گورننس کی بہتری پر مرکوز ہوں گی۔'' ان کا کہنا تھا کہ اب ہم اپنے حریفوں کو اپنی کارکردگی کے ذریعے نیچا دکھائیں گے اور ثابت کریں گے کہ کے پی کے کا طرز حکمرانی دیگر تینوں صوبوں کے طرز حکمرانی کے مقابلے میں سب سے بہتر ہے۔
خیبرپختونخوا کی حکومت تعلیم، صحت اور پولیس کے نظام سمیت مختلف اہم شعبوں میں اصلاحات کے عمل کا آغاز کر رہی ہے۔ دوسری جانب ماحولیات کی بہتری کے حوالے سے ایک انقلابی تبدیلی آنے والی ہے جس کے تحت صوبے بھر میں شجرکاری کی زوردار مہم چلا کر ایک بلین درخت لگائے جائیں گے۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ اصل تبدیلی لوکل باڈیز الیکشن کے بعد لوکل گورنمنٹ سسٹم کے ذریعے آئے گی جس کے بعد گاؤں دیہات کی سطح تک اقتدار کی منتقلی کا عمل اپنے اختتام کو پہنچے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر قیادت عوام کی خدمت کے لیے مخلص ہو تو کام کرنے کے مواقعے کی نہ کوئی حد ہے اور نہ کوئی شمار۔
عمران خان کے مخالفین کا ان پر سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ خان صاحب ضدی ہیں اور اپنی بات کے آگے ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں ہوتے۔ لیکن اب انھوں نے اپنے طرز عمل میں نمایاں تبدیلی کے ذریعے اپنے تمام مخالفین کے منہ بند کردیے ہیں اور ثابت کردیا ہے کہ عوام کے مجموعی مفاد اور ملک و قوم کی بہتری کی خاطر وہ اپنے کئی مطالبات سے دست بردار ہونے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔
مثلاً انھوں نے اپنے اس مطالبے کو ترک کردیا کہ مئی 2013 کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے الزام کی چھان بین کرنے والے کمیشن کے قیام سے قبل وزیر اعظم میاں نواز شریف وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہوجائیں کیونکہ یہ پیشگی شرط کسی بھی معاملہ فہمی کی راہ میں حائل ایک بہت بڑی رکاوٹ بن گئی تھی۔ پھر اس کے بعد سانحہ پشاور کے بعد انھوں نے ملک و قوم کی آواز میں آواز ملاکر دہشت گردی کے خلاف جنگ کی حمایت بھی کردی۔ خان صاحب کے اس تبدیل شدہ طرز عمل سے ان کی سیاسی بلوغت کی بالکل واضح طور پر عکاسی ہوتی ہے جوکہ ایک اچھا اور لائق تحسین رویہ ہے۔
تاہم اس کے معنی ہرگز یہ نہ نکالے جائیں کہ خان صاحب نے گھبرا کر یا اکتا کر گزشتہ عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی چھان بین اور جوڈیشل تحقیقات کرانے کے اپنے بنیادی مطالبے سے ہاتھ اٹھا لیا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کو اس سلسلے میں کسی بھی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ معاملہ صرف جوڈیشل کمیشن کی Terms of Reference کے طے نہ ہو پانے کی وجہ سے التوا کا شکار ہے۔ پی ٹی آئی اپنے اس مطالبے پر بدستور مصر ہے کہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کی جانے والی مبینہ انتخابی دھاندلی ثابت نہ ہونے کی صورت میں بھی محض دھاندلی ثابت ہوجانے کے بعد بھی وزیر اعظم کو استعفیٰ دے دینا چاہیے۔
اگر غیر جانب دارانہ تجزیہ بھی کیا جائے تو یہ حقیقت ناقابل تردید ہے کہ انتخابی دھاندلی خواہ کسی بھی طریقے سے اور کسی بھی طور پر کیوں نہ کی جائے، یہ جمہوریت کے لیے سم قاتل ہے۔ جمہوریت کی روح کا بنیادی تقاضا یہی ہے کہ انتخابات قطعی منصفانہ، غیر جانبدارانہ، آزاد اور شفاف ہونے چاہئیں تاکہ اقتدار عوام کے اصل نمایندوں کو منتقل ہوسکے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اب تک ایسا ممکن نہیں ہوسکا ہے جس کی وجہ سے جمہوری نظام کو اعتماد اور استحکام میسر نہیں آسکا ہے اور جو بھی حکومت برسر اقتدار آتی رہتی ہے اس کی نیّا ہر وقت ڈولتی ہی رہتی ہے۔
یہ امر باعث اطمینان ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں میں اس بات پر قطعی اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ آیندہ عام انتخابات کے آزادانہ، منصفانہ، غیر جانبدارانہ اور شفاف انعقاد کے لیے انتخابی اصلاحات کا جلد ازجلد مکمل ہوجانا ازحد ضروری ہے۔ اس کے لیے اولین شرط یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کو صحیح معنوں میں ایک آزاد، خودمختار اور بااختیار ادارہ بنایا جائے جس کی مثال ہمارے پڑوسی ملک بھارت کے الیکشن کمیشن کی صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے۔
بھارت کے الیکشن کمیشن کی اصل قوت چیف الیکشن کمشنر کے منصب میں مضمر ہے جنھیں نہ صرف مطلوبہ قواعد و ضوابط وضع کرنے بلکہ انتظامیہ کے کسی بھی اہلکار کے کہیں بھی تبادلے کی مکمل اتھارٹی حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت بشمول حکمراں پارٹی کی یہ مجال نہیں کہ اپنے من پسند افسران اور اہل کاروں کو اپنی مرضی سے تعینات کرواسکے۔ وطن عزیز میں چونکہ اقربا پروری اور سفارش کلچر عام ہے لہٰذا الیکشن کمشنر آف پاکستان کا زیادہ سے زیادہ بااختیار ہونا انتہائی ضروری ہے۔ جعلی ووٹنگ کے تدارک کے لیے بھارت کی طرز پر الیکٹرانک ووٹنگ کا نظام متعارف کرانا بھی بہت ضروری ہے جس کی پی ٹی آئی کی جانب سے بھی بڑی حمایت کی جا رہی ہے۔
خیبرپختونخوا میں تبدیلی کی ہوا چل چکی ہے اور وقفے وقفے سے تازہ ہوا کے جھونکے آرہے ہیں۔ تازہ خبر یہ ہے کہ صوبے کے چاروں اضلاع میں غریب غربا کے مفت علاج معالجے کے لیے حکومت کی جانب سے سوشل ہیلتھ پروٹیکشن اسکیم کا آغاز کیا جانے والا ہے۔ اس سلسلے میں خیبرپختونخوا کی حکومت اور اسٹیٹ لائف انشورنس کارپوریشن آف پاکستان کے درمیان حال ہی میں ایک معاہدہ طے پایا ہے۔ پاکستان میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی اسکیم ہوگی جس سے مردان، چترال، مالاکنڈ اور کوہاٹ کے 30 فیصد غریب لوگوں کو فائدہ پہنچے گا۔ اس کے علاوہ اس اسکیم کے تحت حکومت مستحق افراد کو سالانہ 9,700 روپے فی کس پریمیم بھی ادا کرے گی۔
اس سلسلے میں حکومت کی جانب سے منتخب غریب خاندانوں میں فی خاندان 25,000 روپے سالانہ خرچ کیے جائیں گے۔ شعبہ صحت آیندہ پانچ ماہ میں خاندانوں کی رجسٹریشن شروع کردے گا۔ اس کے بعد متعلقہ خاندانوں کو ہیلتھ کارڈز جاری کردیے جائیں گے تاکہ وہ علاج معالجے کی سہولتوں سے استفادہ کرسکیں۔ اس کے علاوہ اسپتالوں میں آنے والی زچگی کے مسائل سے دوچار غریب خواتین کو ٹرانسپورٹ الاؤنس کے طور پر فی کس ایک ہزار روپے کی رقم بھی ادا کی جائے گی۔
خیبرپختونخوا میں تعلیم کے شعبے میں بھی انقلابی قدم اٹھائے جا رہے ہیں۔ صوبے کے ہائر ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ نے پبلک سیکٹر کی جامعات کے لیے یکساں قواعد و ضوابط مرتب کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں قومی اور بین الاقوامی یونیورسٹیوں کے بہترین قواعد و ضوابط کو شامل کیا جائے گا۔ اس اقدام کا بنیادی مقصد تعلیم کے نظام کو بہترین خطوط پر استوار کرنا ہے تاکہ صوبے کے تعلیمی معیار کو بلند سے بلند تر کیا جاسکے۔ ان تمام اقدامات سے صاف ظاہر ہے کہ عمران خان نے خیبرپختونخوا کو نیا کے پی کے بنانے کا پختہ عزم کر رکھا ہے جس کی سب سے اہم اور قابل ذکر علامت اس صوبے میں وی آئی پی کلچر کا خاتمہ ہے۔