سندھ میں تعلیم کی بدحالی
پورے ملک میں سرکاری اسکولوں میں تعلیمی اداروں کی صورتحال تسلی بخش نہیں ہے۔
KARACHI:
سندھ میں 5 سے 9 سال کے بچوں کی تعداد 67 لاکھ (6.7 ملین) ہے۔ اس میں سے 25 لاکھ (2.5 ملین) بچے اسکول جاتے ہیں۔ حکومتِ سندھ اپنے بجٹ کا 21 فیصد تعلیم پر خرچ کرتی ہے۔ ایشین ہیومین رائٹس کمیشن (AHRC) نے ایک ویب سائٹ پر ارشاد سلیم کی ایک رپورٹ شایع کی ہے۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سندھ میں سب سے زیادہ گھوسٹ اسکول بے نظیر آباد (سابقہ نوابشاہ) ضلع میں ہیں۔ ملک میں اب بھی 40 ہزار گھوسٹ اسکول ہیں جن میں سے 5 ہزار سندھ میں ہیں۔ سندھ میں تعلیمی بجٹ کا 5 فیصد حصہ اسکولوں کی مرمت پر خرچ ہوتا ہے۔ سندھ کے تقریباً 2 فیصد سے زیادہ اسکولوں کی اپنی لائبریریاں ہیں ۔ سندھ حکومت کے تعلیمی بجٹ کا 93 فیصد حصہ اساتذہ اور غیر تدریسی عملے کی تنخواہوں پر خرچ ہوتا ہے۔ کراچی سے متصل ضلع ٹھٹھہ تعلیمی حوالے سے بدترین صورتحال کا شکار ہے۔ ٹھٹھہ کے 33 فیصد اسکولوں میں بیت الخلاء کی سہولت نہیں جب کہ 17 فیصد اسکولوں میں طلبا کو صاف پانی پینے کے مواقعے ملتے ہیں۔
ایک غیر سرکاری تنظیم منزلِ پاکستان نے سندھ میں پرائمری اسکولوں کی صورتحال پر ایک جامع رپورٹ تیار کی ہے۔ اس رپورٹ کی تیاری کے لیے سندھ ایجوکیشن مینیجمنٹ انفارمیشن سسٹم (2012-2013) تعلیم کی صورتحال کے بارے میں سالانہ رپورٹ اور پاکستان سوشل اینڈ لیونگ اسٹینڈرڈ منیجر 2012سے اعداد و شمار حاصل کیے گئے ہیں۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ لاڑکانہ ضلع میں محکمہ تعلیم کی کارکردگی بہتر ہوئی ہے۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ سندھ کے ضلع مٹیاری میں سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کا انرولمنٹ سب سے زیادہ ہے جب کہ شکارپور اور بدین میں انرولمنٹ کی شرح سب سے کم ہے۔
کراچی میں سرکاری اسکولوں میں داخلہ لینے کی شرح کم ہے۔ پورے ملک میں سرکاری اسکولوں میں تعلیمی اداروں کی صورتحال تسلی بخش نہیں ہے۔ خیبر پختون خواہ میں طالبان کا نشانہ ہی اسکول ہیں۔ پنجاب میں سرکاری تعلیمی اداروں کی صورتحال کچھ بہتر ہے مگر ذرایع ابلاغ میں شایع ہونے والی خبروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی حکومت محض چند تعلیمی اسکیموں پر خصوصی توجہ دیتی ہے، باقی اسکول بدانتظامی کا شکار ہیں اور بنیادی سہولتیں نہ ہونے کی بناء پر طلبا کے لیے سرکاری اسکولوں میں کوئی خاطرخواہ کشش نہیں ہے۔
بلوچستان ایک طرف مذہبی انتہاپسندی اور دوسری طرف بلوچ علیحدگی پسندوں اور سیکیورٹی ایجنسیوں کے اساتذہ کو ٹارگٹ کلنگ کرنے کی بناء پر تعلیمی امور میں پسماندگی کا شکار ہے مگر سندھ میں حالات قدرے بہتر ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت گزشتہ 6 برسوں سے برسرِ اقتدار ہے۔ پیپلز پارٹی نے پانچ سال تک وفاق میں بھی حکومت کی ہے مگر سندھ کا تعلیمی شعبہ سب سے زیادہ انحطاط کا شکار ہے۔ اگرچہ پیپلز پارٹی کے دورِ اقتدار میں بہت سی یونیورسٹیاں قائم ہوئیں، خاص طور پر میڈیکل کی تعلیم کے لیے کالجوں کے قیام پر زور رہا مگر یونیورسٹیاں قائم کرنے کے باوجود محکمہ تعلیم بدانتظامی اور کرپشن کی بدترین شکل بنا ہوا ہے۔
سابق وزیر تعلیم پیر مظہر الحق کے دورِ وزارت میں چپراسی سے لے کر اعلیٰ افسران تک کی آسامیاں مارکیٹ میں فروخت ہوئیں۔ 5 ہزار سے زیادہ ایسے افراد کو بطور اساتذہ بھرتی کیا گیا جو عالمی بینک کے طے کردہ معیار کے امتحان کو پاس نہیں کرسکے تھے۔ سندھ پبلک سروس کمیشن کی حرمت کو پامال کیا گیا۔ سندھ پبلک سروس کمیشن کے امتحانات اور انٹرویوز میں بدعنوانیوں کی خبروں نے صورتحال کو مزید خراب کردیا۔ اب تو صورتحال اتنی خراب ہے کہ جسٹس آغا رفیق نے سفارش اور دباؤ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سندھ پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین کے عہدے سے استعفیٰ دیدیا۔ کہا جاتا ہے کہ جسٹس آغا رفیق نے اپنے آپ کو ہر قسم کے دباؤ سے بچانے کے لیے ایک شاندار مثال قائم کی تھی کہ اپنی بیٹی اور داماد پر کمیشن کا امتحان دینے پر پابندی لگادی تھی مگر وہ اپنی ذاتی مثال کو بھی غیر جانبداریت برقرار رکھنے کے لیے ڈھال نہیں بنا سکے۔
سندھ میں 5 ہزار اسکولوں پر طالبان یا علیحدگی پسندوں نے قبضہ نہیں کیا بلکہ بااثر وڈیرے ان اسکولوں کی عمارتوں پر قابض ہیں۔ ان بااثر افراد میں سے کچھ کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے جب کہ کچھ کا تعلق مسلم لیگ پیر پگارا اور دیگر جماعتوں سے بتایا جاتا ہے۔ بظاہر تو پیپلز پارٹی مسلم لیگ اور دیگر جماعتیں ان بااثر افراد کی سرپرستی سے انکار کرتی ہیں مگر جب بھی اعلیٰ ترین سطح پر ان اسکولوں کی بازیابی کے بارے میں فیصلہ ہوتا ہے پراسرار قوتیں ان فیصلوں پر عملدرآمد نہیں ہونے دیتیں۔ بے نظیر آباد تو سابق صدر زرداری کا آبائی شہر ہے۔
وہ بھی اب بے بس نظر آنے لگے ہیں۔ ایک صحافی کا کہنا ہے کہ ان گھوسٹ اسکولوں میں اساتذہ اور غیر تدریسی عملے کا باقاعدہ تقرر ہوتا ہے۔ یہ اساتذہ یا تو بااثر افراد کے کارندے ہیں جو دو فرائض انجام دیتے ہیں یا وہ اساتذہ ہیں جو کئی ملازمتیں کرتے ہیں اور اپنی تنخواہ کا ایک خطیر حصہ محکمہ تعلیم کے افسران کو ادا کرتے ہیں۔ یہی اساتذہ انتخابات کے دوران انتخابی عملے کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ یوں منتخب ایم این اے اور ایم پی اے ان افراد کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔
سابق وزیر تعلیم پیر مظہر الحق کے یہ الزام حقیقت پر مبنی ہیں کہ ان میں سے کئی اساتذہ مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلز کے نمایندوں کے فرائض انجام دیتے ہیں اسی بناء پر حکام ان کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ اس مجموعی صورتحال میں ریاست تعلیم پر اخراجات بھی کرتی ہے مگر نتائج صفر نکل رہے ہیں۔
کراچی میں تعلیمی شعبے کی رپورٹنگ کرنے والے ایک کہنہ مشق صحافی کا کہنا ہے کہ کراچی میں بھی ایسے اساتذہ موجود ہیں جو اسکول نہیں جاتے، صرف تنخواہ کے چیک وصول کرنے جاتے ہیں۔ ان اساتذہ کو سندھ میں اقتدار میں آنے والی سیاسی جماعتوں نے بھرتی کرایا تھا۔ ان میں سے چند تو وہ ہیں جو محکمہ تعلیم میں ہی دو دو نوکریاں کرتے ہیں۔ ان اسکولوں کے ہیڈ ماسٹر اور دیگر افسران اپنے اور اپنے خاندان کے تحفظ کے لیے خاموشی کو اپنا ہتھیار جانتے ہیں۔ محکمہ تعلیم نے اپنے فرائض سے غفلت کا حل یہ نکالا ہے کہ وہ اسکولوں کو غیر سرکاری تنظیموں کو گود دے رہا ہے۔ کراچی ساؤتھ میں ایک معروف فنکار نے ایک اسکول کو گود لیا ہوا ہے۔
کراچی ساؤتھ میں ہی 30 سال سے فرائض انجام دینے والی ایک استاد جو آج کل رنچھوڑ لائن اسکول کی ہیڈ ماسٹر ہیں گزشتہ دو برسوں سے یہ واویلا کررہی ہے کہ ان کے اسکول کی انگریزی اور ریاضی پڑھانے والی استانیوں کو اسی این جی او کے اسکول میں بھیج دیا گیا ہے اور کوئی دوسرا استاد فراہم نہیں کیا گیا۔ یوں اب میٹرک کا امتحان دینے والے بچوں کے مستقبل کا کیا ہوگا؟
پرویز مشرف کی حکومت نے سرکاری شعبے کو محدود کرنے اور تعلیم کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کی پالیسی تیار کی تھی۔ اس بناء پر ارباب رحیم کی حکومت نے کئی سرکاری اسکول غیر سرکاری شعبے کے حوالے کردیے تھے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت اس پالیسی پر عمل کرکے اپنی اساسی دستاویز سے انحراف کررہی ہے جب کہ 18ویں ترمیم کے بعد این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کی آمدنی بڑھ گئی ہے۔ یہ آمدنی تعلیم، صحت اور بنیادی انفرااسٹرکچر کی ترقی پر خرچ ہونی چاہیے۔
پیپلزپارٹی کے سینیٹر رضا ربانی یہ بات فخر سے بیان کرتے ہیں کہ ان کی حکومت نے 18ویں ترمیم میں آرٹیکل 25A کو شامل کرایا۔ اس آرٹیکل کے تحت ریاست ہر شہری کو میٹرک تک تعلیم دینے کی پابند ہے مگر پیپلز پارٹی خود اس شق کو پامال کرے تو اس کا فائدہ صرف طالع آزما قوتوں کو ہوگا۔ پیپلز پارٹی کو اس رپورٹ کا سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہیے۔ سندھ میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرکے محکمہ تعلیم کی جدید خطوط پر تشکیل ہونی چاہیے۔ حکومت گھوسٹ اسکولوں کے خاتمے، غیر حاضر اساتذہ کے ادارے کو ختم کرنے ، ہر سطح پر میرٹ اور احتساب کے نظام کے لیے جامع منصوبہ بندی کرے۔
سندھ میں 5 سے 9 سال کے بچوں کی تعداد 67 لاکھ (6.7 ملین) ہے۔ اس میں سے 25 لاکھ (2.5 ملین) بچے اسکول جاتے ہیں۔ حکومتِ سندھ اپنے بجٹ کا 21 فیصد تعلیم پر خرچ کرتی ہے۔ ایشین ہیومین رائٹس کمیشن (AHRC) نے ایک ویب سائٹ پر ارشاد سلیم کی ایک رپورٹ شایع کی ہے۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سندھ میں سب سے زیادہ گھوسٹ اسکول بے نظیر آباد (سابقہ نوابشاہ) ضلع میں ہیں۔ ملک میں اب بھی 40 ہزار گھوسٹ اسکول ہیں جن میں سے 5 ہزار سندھ میں ہیں۔ سندھ میں تعلیمی بجٹ کا 5 فیصد حصہ اسکولوں کی مرمت پر خرچ ہوتا ہے۔ سندھ کے تقریباً 2 فیصد سے زیادہ اسکولوں کی اپنی لائبریریاں ہیں ۔ سندھ حکومت کے تعلیمی بجٹ کا 93 فیصد حصہ اساتذہ اور غیر تدریسی عملے کی تنخواہوں پر خرچ ہوتا ہے۔ کراچی سے متصل ضلع ٹھٹھہ تعلیمی حوالے سے بدترین صورتحال کا شکار ہے۔ ٹھٹھہ کے 33 فیصد اسکولوں میں بیت الخلاء کی سہولت نہیں جب کہ 17 فیصد اسکولوں میں طلبا کو صاف پانی پینے کے مواقعے ملتے ہیں۔
ایک غیر سرکاری تنظیم منزلِ پاکستان نے سندھ میں پرائمری اسکولوں کی صورتحال پر ایک جامع رپورٹ تیار کی ہے۔ اس رپورٹ کی تیاری کے لیے سندھ ایجوکیشن مینیجمنٹ انفارمیشن سسٹم (2012-2013) تعلیم کی صورتحال کے بارے میں سالانہ رپورٹ اور پاکستان سوشل اینڈ لیونگ اسٹینڈرڈ منیجر 2012سے اعداد و شمار حاصل کیے گئے ہیں۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ لاڑکانہ ضلع میں محکمہ تعلیم کی کارکردگی بہتر ہوئی ہے۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ سندھ کے ضلع مٹیاری میں سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کا انرولمنٹ سب سے زیادہ ہے جب کہ شکارپور اور بدین میں انرولمنٹ کی شرح سب سے کم ہے۔
کراچی میں سرکاری اسکولوں میں داخلہ لینے کی شرح کم ہے۔ پورے ملک میں سرکاری اسکولوں میں تعلیمی اداروں کی صورتحال تسلی بخش نہیں ہے۔ خیبر پختون خواہ میں طالبان کا نشانہ ہی اسکول ہیں۔ پنجاب میں سرکاری تعلیمی اداروں کی صورتحال کچھ بہتر ہے مگر ذرایع ابلاغ میں شایع ہونے والی خبروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی حکومت محض چند تعلیمی اسکیموں پر خصوصی توجہ دیتی ہے، باقی اسکول بدانتظامی کا شکار ہیں اور بنیادی سہولتیں نہ ہونے کی بناء پر طلبا کے لیے سرکاری اسکولوں میں کوئی خاطرخواہ کشش نہیں ہے۔
بلوچستان ایک طرف مذہبی انتہاپسندی اور دوسری طرف بلوچ علیحدگی پسندوں اور سیکیورٹی ایجنسیوں کے اساتذہ کو ٹارگٹ کلنگ کرنے کی بناء پر تعلیمی امور میں پسماندگی کا شکار ہے مگر سندھ میں حالات قدرے بہتر ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت گزشتہ 6 برسوں سے برسرِ اقتدار ہے۔ پیپلز پارٹی نے پانچ سال تک وفاق میں بھی حکومت کی ہے مگر سندھ کا تعلیمی شعبہ سب سے زیادہ انحطاط کا شکار ہے۔ اگرچہ پیپلز پارٹی کے دورِ اقتدار میں بہت سی یونیورسٹیاں قائم ہوئیں، خاص طور پر میڈیکل کی تعلیم کے لیے کالجوں کے قیام پر زور رہا مگر یونیورسٹیاں قائم کرنے کے باوجود محکمہ تعلیم بدانتظامی اور کرپشن کی بدترین شکل بنا ہوا ہے۔
سابق وزیر تعلیم پیر مظہر الحق کے دورِ وزارت میں چپراسی سے لے کر اعلیٰ افسران تک کی آسامیاں مارکیٹ میں فروخت ہوئیں۔ 5 ہزار سے زیادہ ایسے افراد کو بطور اساتذہ بھرتی کیا گیا جو عالمی بینک کے طے کردہ معیار کے امتحان کو پاس نہیں کرسکے تھے۔ سندھ پبلک سروس کمیشن کی حرمت کو پامال کیا گیا۔ سندھ پبلک سروس کمیشن کے امتحانات اور انٹرویوز میں بدعنوانیوں کی خبروں نے صورتحال کو مزید خراب کردیا۔ اب تو صورتحال اتنی خراب ہے کہ جسٹس آغا رفیق نے سفارش اور دباؤ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سندھ پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین کے عہدے سے استعفیٰ دیدیا۔ کہا جاتا ہے کہ جسٹس آغا رفیق نے اپنے آپ کو ہر قسم کے دباؤ سے بچانے کے لیے ایک شاندار مثال قائم کی تھی کہ اپنی بیٹی اور داماد پر کمیشن کا امتحان دینے پر پابندی لگادی تھی مگر وہ اپنی ذاتی مثال کو بھی غیر جانبداریت برقرار رکھنے کے لیے ڈھال نہیں بنا سکے۔
سندھ میں 5 ہزار اسکولوں پر طالبان یا علیحدگی پسندوں نے قبضہ نہیں کیا بلکہ بااثر وڈیرے ان اسکولوں کی عمارتوں پر قابض ہیں۔ ان بااثر افراد میں سے کچھ کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے جب کہ کچھ کا تعلق مسلم لیگ پیر پگارا اور دیگر جماعتوں سے بتایا جاتا ہے۔ بظاہر تو پیپلز پارٹی مسلم لیگ اور دیگر جماعتیں ان بااثر افراد کی سرپرستی سے انکار کرتی ہیں مگر جب بھی اعلیٰ ترین سطح پر ان اسکولوں کی بازیابی کے بارے میں فیصلہ ہوتا ہے پراسرار قوتیں ان فیصلوں پر عملدرآمد نہیں ہونے دیتیں۔ بے نظیر آباد تو سابق صدر زرداری کا آبائی شہر ہے۔
وہ بھی اب بے بس نظر آنے لگے ہیں۔ ایک صحافی کا کہنا ہے کہ ان گھوسٹ اسکولوں میں اساتذہ اور غیر تدریسی عملے کا باقاعدہ تقرر ہوتا ہے۔ یہ اساتذہ یا تو بااثر افراد کے کارندے ہیں جو دو فرائض انجام دیتے ہیں یا وہ اساتذہ ہیں جو کئی ملازمتیں کرتے ہیں اور اپنی تنخواہ کا ایک خطیر حصہ محکمہ تعلیم کے افسران کو ادا کرتے ہیں۔ یہی اساتذہ انتخابات کے دوران انتخابی عملے کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ یوں منتخب ایم این اے اور ایم پی اے ان افراد کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔
سابق وزیر تعلیم پیر مظہر الحق کے یہ الزام حقیقت پر مبنی ہیں کہ ان میں سے کئی اساتذہ مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلز کے نمایندوں کے فرائض انجام دیتے ہیں اسی بناء پر حکام ان کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ اس مجموعی صورتحال میں ریاست تعلیم پر اخراجات بھی کرتی ہے مگر نتائج صفر نکل رہے ہیں۔
کراچی میں تعلیمی شعبے کی رپورٹنگ کرنے والے ایک کہنہ مشق صحافی کا کہنا ہے کہ کراچی میں بھی ایسے اساتذہ موجود ہیں جو اسکول نہیں جاتے، صرف تنخواہ کے چیک وصول کرنے جاتے ہیں۔ ان اساتذہ کو سندھ میں اقتدار میں آنے والی سیاسی جماعتوں نے بھرتی کرایا تھا۔ ان میں سے چند تو وہ ہیں جو محکمہ تعلیم میں ہی دو دو نوکریاں کرتے ہیں۔ ان اسکولوں کے ہیڈ ماسٹر اور دیگر افسران اپنے اور اپنے خاندان کے تحفظ کے لیے خاموشی کو اپنا ہتھیار جانتے ہیں۔ محکمہ تعلیم نے اپنے فرائض سے غفلت کا حل یہ نکالا ہے کہ وہ اسکولوں کو غیر سرکاری تنظیموں کو گود دے رہا ہے۔ کراچی ساؤتھ میں ایک معروف فنکار نے ایک اسکول کو گود لیا ہوا ہے۔
کراچی ساؤتھ میں ہی 30 سال سے فرائض انجام دینے والی ایک استاد جو آج کل رنچھوڑ لائن اسکول کی ہیڈ ماسٹر ہیں گزشتہ دو برسوں سے یہ واویلا کررہی ہے کہ ان کے اسکول کی انگریزی اور ریاضی پڑھانے والی استانیوں کو اسی این جی او کے اسکول میں بھیج دیا گیا ہے اور کوئی دوسرا استاد فراہم نہیں کیا گیا۔ یوں اب میٹرک کا امتحان دینے والے بچوں کے مستقبل کا کیا ہوگا؟
پرویز مشرف کی حکومت نے سرکاری شعبے کو محدود کرنے اور تعلیم کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کی پالیسی تیار کی تھی۔ اس بناء پر ارباب رحیم کی حکومت نے کئی سرکاری اسکول غیر سرکاری شعبے کے حوالے کردیے تھے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت اس پالیسی پر عمل کرکے اپنی اساسی دستاویز سے انحراف کررہی ہے جب کہ 18ویں ترمیم کے بعد این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کی آمدنی بڑھ گئی ہے۔ یہ آمدنی تعلیم، صحت اور بنیادی انفرااسٹرکچر کی ترقی پر خرچ ہونی چاہیے۔
پیپلزپارٹی کے سینیٹر رضا ربانی یہ بات فخر سے بیان کرتے ہیں کہ ان کی حکومت نے 18ویں ترمیم میں آرٹیکل 25A کو شامل کرایا۔ اس آرٹیکل کے تحت ریاست ہر شہری کو میٹرک تک تعلیم دینے کی پابند ہے مگر پیپلز پارٹی خود اس شق کو پامال کرے تو اس کا فائدہ صرف طالع آزما قوتوں کو ہوگا۔ پیپلز پارٹی کو اس رپورٹ کا سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہیے۔ سندھ میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرکے محکمہ تعلیم کی جدید خطوط پر تشکیل ہونی چاہیے۔ حکومت گھوسٹ اسکولوں کے خاتمے، غیر حاضر اساتذہ کے ادارے کو ختم کرنے ، ہر سطح پر میرٹ اور احتساب کے نظام کے لیے جامع منصوبہ بندی کرے۔