پوشیدہ مخلوق
آئس لینڈ کے باشندوں کی بھید بھری روایات
آئس لینڈ کی زبان میں Huldufَlk کا مطلب ہے: پوشیدہ لوگ۔ آئس لینڈ کی قدیم روایات کے مطابق یہ مافوق الفطرت مخلوق ہے، جس میں جن، بھوت، بالشتیے، بونے، جن زاد اور پریاں وغیرہ سبھی شامل ہیں۔ اس عقیدے کے مطابق اس علاقے کے لوگ کبھی خالی میدانوں یا گھروں میں پتھر نہیں پھینکتے، انہیں اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں ان کے پھینکے ہوئے پتھر پوشیدہ یا غیرمرئی لوگوں کے نہ لگ جائیں۔
1982میں آئس لینڈ کے کم و بیش 150افراد Keflav میں واقع ناٹو بیس صرف اس لیے گئے تھے کہ کہیں وہاں رہنے والے بونے، بالشتیے اور غیرمرئی مخلوق امریکی فینٹم جیٹ اور دوسرے لڑاکا طیاروں کی بم باری کی وجہ سے کسی مصیبت میں تو نہیں پڑگئے۔ 2004میں یہ دستور تھا کہ جب یہاں کسی مقام پر پرانی عمارت یا بلڈنگ کو منہدم کرکے اس پر نئی عمارت کھڑی کرنی ہوتی تھی تو اس سے پہلے حکومت کے ماہرین سے اس بات کی تصدیق کرانی ہوتی تھی کہ ان کی منتخب کردہ عمارت یا مقام اس فہرست میں شامل ہے جہاں تعمیراتی کام کرنے کی سرکاری اجازت دی گئی ہے۔ان میں huldufَlk کے رسم و رواج اور لوک کہانیاں شامل تھیں۔
آئس لینڈ میں Bolungarv نامی ایک مقام ہے، جہاں کے بارے میں مشہور ہے کہ یہاں کی گلیوں میں چٹانی پتھروں کی بارش ہوتی رہتی ہے۔2011میں اس کے بارے میں خیال ظاہر کیا گیا تھا کہ یہاں ہونے والے ہر پراسرار اور ناقابل یقین واقعے کے ذمہ دار یہی huldufَlk ہیں۔
آئس لینڈ کے باغات میں آج بھی ننھے منے لکڑی کے lfhَ (بونوں کے گھر) کے نمونے پیش کیے جاتے ہیں، جن میں یہ بونے یا پوشیدہ لوگ رہتے ہیں۔ آئس لینڈ کے بعض لوگوں نے ننھے منے چرچ بھی تعمیر کیے ہیں، تاکہ وہ بونوں اور بالشتیوں کو عیسائیت قبول کرنے کے لیے تیار کرسکیں۔huldufَlkکی موجودگی کے بارے میں آئس لینڈ کے تعلیم یافتہ اور ماہر لوگ بھی پورا یقین رکھتے ہیں۔ وہ اس حوالے سے متعدد لوک کہانیوں کے وجود کو اس طرح بیان کرتے ہیں:
''آئس لینڈ والے تعداد میں چند ہیں، اس لیے زمانہ قدیم میں ہم نے بونوں اور پریوں کی کہانیوں کے ذریعے اپنی تعداد کو دگنا کرلیا۔''
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ پوشیدہ لوگ اکثر آئس لینڈ کے رہنے والوں کے خوابوں میں آتے ہیں۔ ان کا حلیہ اس طرح بتایا جاتا ہے کہ وہ انیسویں صدی کے آئس لینڈ والوں کی طرز کے سبز رنگ والے ملبوسات پہنتے ہیں۔ یہ لوگ جزائر Faroe کی لوک ریت اور روایتی رسوم کا ایک حصہ بھی ہیں۔ Faroese لوک کہانیوں میں بتایا جاتا ہے کہ Huldufَlk قدوقامت میں بڑے ہوتے ہیں، ان کے ملبوسات مکمل خاکستری رنگ کے ہوتے ہیں اور ان کے بال سیاہ ہوتے ہیں۔ ان کی رہائش گاہیں ٹیلوں میں ہوتی ہیں اور انہیں بونے یا بالشتیے کہا جاتا ہے۔یہ لوگ صلیب اور چرچ کو ناپسند کرتے ہیں۔ انہیں بجلی بھی پسند نہیں ہے۔
٭آغاز و ابتدا:
ایک پہاڑی ڈھلوان پر ایک تصویر کندہ کی گئی ہے، جس میں ایک مرد کو ایک عورت (بونی) کے پیچھے چھلانگ لگاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ یہ نادر و بے مثال تصویر آئس لینڈ کی لیجنڈ Hildur کی ہے، جو بونوں یا بالشیوں کی ملکہ ہے۔
Gunnell لکھتا ہے:''آئس لینڈ میں کثیر ثقافتی بستیوں میں مختلف عقائد ساتھ ساتھ چلتے تھے، جس کے بعد وہ آہستہ آہستہ آئس لینڈ کے lfar اور huldufَlk میں شامل ہوگئے۔''
وہ مزید لکھتا ہے:''lfar اور huldufَlk بلاشبہہ اسی ضرورت کے تحت اٹھے۔Norse آبادکاروں کے پاس لlfarتھے، آئرش غلاموں کے پاس پہاڑیوں کی پریاں اور اچھے لوگ تھے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ دو الگ چیزیں بن گئے، لیکن حقیقتاً وہ لوک ریت کے دو مختلف سیٹ ہیں، جن کا مطلب ہے: ایک ہی چیز۔''
ان پوشیدہ لوگوں کی الگ الگ کہانیاں ہیں، جن میں سے ایک کہانی یہ ہے:
ایک بار خدا نے ایڈم اور ایو سے ملاقات کی، ان کا گھر دیکھا، ان کے بچوں کو دیکھا۔ پھر خدا نے ایو سے پوچھا:''باقی بچے کہاں ہیں؟''
ایو نے کہا:''بس یہی ہیں۔''
وہ شرمندہ تھیں، کیوں کہ ان کے باقی بچے نہادھو نہیں سکے تھے اور نہ انہوں نے اس وقت صاف ستھرے لباس پہن رکھے تھے۔ اس لیے وہ انہیں خدا کے سامنے نہ لاسکیں۔
اس پر خدا نے کہا:''جو لوگ خدا سے چھپتے ہیں، خدا بھی انہیں باقی لوگوں سے چھپادیتا ہے۔''
اس طرح وہ نہانے دھونے سے محروم بچے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پوشیدہ ہوگئے اور کسی کو نظر نہیں آئے۔ انہوں نے پہاڑیوں، چٹانوں اور ٹیلوں میں رہنا شروع کردیا۔ جن پری، بونے اور بالشتیے انہی بچوں کی اولادیں ہیں۔ لیکن جو بچے خدا کے سامنے صاف ستھرے آئے تھے، ان سے انسانوں کی نسلیں چل رہی ہیں۔ انسان اس مافوق الفطرت مخلوق کو نہیں دیکھ پاتا، لیکن اگر یہ غیرمرئی خود چاہے تو انسان اسے دیکھ سکتا ہے۔
دوسرا قصہ یہ ہے کہ ایک مسافر راستہ بھٹک گیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کہاں جائے۔ پھرتے پھراتے وہ ایک جھونپڑی پر پہنچا، جو اس نے وہاں پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ اس نے جھونپڑی پر دستک دی تو ایک بوڑھی عورت نے دروازہ کھولا اور اسے اندر آنے کو کہا۔ مسافر خوشی خوشی اندر چلا گیا۔ گھر بالکل صاف ستھرا تھا۔ بڑھیا اسے ایک آرام دہ کمرے میں لے گئی، جہاں دو خوب صورت اور جوان لڑکیاں بیٹھی تھیں۔ ان کے علاوہ گھر میں اور کوئی نہیں تھا۔ مسافر کا استقبال گرم جوشی سے ہوا اور اس کے ساتھ رحم دلی کا سلوک کیا گیا۔ اسے عمدہ کھانا کھلانے کے بعد بستر تک پہنچادیا گیا۔
مسافر نے میزبان کی ایک بیٹی کو اپنے پاس رکنے کا حکم دیا تو اس نے مسافر کے حکم کی تعمیل کی۔ مسافر نے اس لڑکی کو چھونا چاہا تو اس کا ہاتھ لڑکی کے جسم کے آر پار چلا گیا۔ وہ حیران ہوا تو لڑکی بولی:''پریشان مت ہو، میں ایک روح ہوں۔ جب شیطان نے اپنی فوج کے ساتھ آسمانوں پر جنگ شروع کی تھی، تو اسے باہر تاریکی میں دھکیل دیا گیا تھا۔ اس وقت جن لوگوں نے بھی اسے گرتے دیکھا، وہ بھی جنت سے باہر پھینک دیے گئے،
لیکن جو شیطان کے نہ حمایتی تھے اور نہ مخالف، انہیں زمین پر اس حکم کے ساتھ بھیج دیا گیا کہ یہاں پہاڑوں اور چٹانوں میں رہیں۔ یہی جن، بھوت، بالشتیے اور بونے ہیں جنہیں پوشیدہ لوگ کہا جاتا ہے۔ وہ صرف اپنی نسل کے لوگوں کے ساتھ ہی رہ سکتے ہیں۔ یہ یا تو اچھا کام کرتے ہیں یا برا، لیکن جو بھی کرتے ہیں بہت تفصیل سے کرتے ہیں۔ انسانوں کی طرح ان کے جسم نہیں ہوتے، لیکن جب بھی چاہیں تو انسانی شکل اختیار کرسکتے ہیں۔ میں بھی انہی میں سے ایک روح ہوں۔''
کچھ دوسری لوک کہانیوں میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ huldufَlk کا اصل تعلق Lilith سے ہے۔ یہ وہ اوپر سے پھینکے گئے معتوب فرشتے ہیں جو جنت اور دوزخ کے درمیان رہتے ہیں۔
بونے یا پوشیدہ لوگوں کے پیش رو Snorri Sturluson اورskaldic verse کی تحریروں میں مل سکتے ہیں۔ eddaic poems میں بھی بونوں کے بارے میں ذکر آیا ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے ان کا تعلق بارآوری سے ہے۔ ڈانسنگ کی سرکاری مخالفت آئس لینڈ میں بارھویں صدی میں شروع ہوئی ہوگی اور بونوں کے ساتھ ڈانسنگ کی شمولیت پندرھویں صدی میں دیکھی جاسکتی ہے۔
ایک لوک کہانی میں بونوں کو دکھایا گیا ہے، جو عام لوگوں کے ساتھ ہیں اور ایک شیرف سے بدلہ لے رہے ہیں، جس نے ڈانس پارٹیوں پر پابندی لگائی تھی۔
Guًmundsdَttirلکھتا ہے کہ یہ لیجنڈز دکھاتے ہیں کہ آئس لینڈ والے ان خصوصی ڈانس پارٹیوں سے محروم ہوئے تھے جس کا انہیں بہت دکھ تھا۔ تیرھویں اور چودھویں صدیوں میں یورپ کی سرزمین سے کتابیں آئس لینڈ پہنچیں اور انہوں نے بونوں کے بارے میں لوک کہانیوں کو کافی متاثر کیا اور شاید انہی کا اثر بعد میں ان پر بھی پڑا۔
Sveinsson نے لکھا ہے:''پوشیدہ لوگوں کے حوالے سے لگ بھگ 1600ذرائع اس قدر ضخیم ہوگئے کہ ہم ان کے عقائد اور لیجنڈز کے بارے میں بیان کرسکتے ہیں کہ ایک کے بعد دوسرا ذریعہ بارھویں صدی تک چلا گیا۔''
rni Bjِrnsson کے مطابق پوشیدہ لوگوں کے حوالے سے عقائد نے سترھویں اور اٹھارویں صدی میں زور پکڑا جب آئس لینڈ سخت مشکل میں تھا۔
1982میں آئس لینڈ کے کم و بیش 150افراد Keflav میں واقع ناٹو بیس صرف اس لیے گئے تھے کہ کہیں وہاں رہنے والے بونے، بالشتیے اور غیرمرئی مخلوق امریکی فینٹم جیٹ اور دوسرے لڑاکا طیاروں کی بم باری کی وجہ سے کسی مصیبت میں تو نہیں پڑگئے۔ 2004میں یہ دستور تھا کہ جب یہاں کسی مقام پر پرانی عمارت یا بلڈنگ کو منہدم کرکے اس پر نئی عمارت کھڑی کرنی ہوتی تھی تو اس سے پہلے حکومت کے ماہرین سے اس بات کی تصدیق کرانی ہوتی تھی کہ ان کی منتخب کردہ عمارت یا مقام اس فہرست میں شامل ہے جہاں تعمیراتی کام کرنے کی سرکاری اجازت دی گئی ہے۔ان میں huldufَlk کے رسم و رواج اور لوک کہانیاں شامل تھیں۔
آئس لینڈ میں Bolungarv نامی ایک مقام ہے، جہاں کے بارے میں مشہور ہے کہ یہاں کی گلیوں میں چٹانی پتھروں کی بارش ہوتی رہتی ہے۔2011میں اس کے بارے میں خیال ظاہر کیا گیا تھا کہ یہاں ہونے والے ہر پراسرار اور ناقابل یقین واقعے کے ذمہ دار یہی huldufَlk ہیں۔
آئس لینڈ کے باغات میں آج بھی ننھے منے لکڑی کے lfhَ (بونوں کے گھر) کے نمونے پیش کیے جاتے ہیں، جن میں یہ بونے یا پوشیدہ لوگ رہتے ہیں۔ آئس لینڈ کے بعض لوگوں نے ننھے منے چرچ بھی تعمیر کیے ہیں، تاکہ وہ بونوں اور بالشتیوں کو عیسائیت قبول کرنے کے لیے تیار کرسکیں۔huldufَlkکی موجودگی کے بارے میں آئس لینڈ کے تعلیم یافتہ اور ماہر لوگ بھی پورا یقین رکھتے ہیں۔ وہ اس حوالے سے متعدد لوک کہانیوں کے وجود کو اس طرح بیان کرتے ہیں:
''آئس لینڈ والے تعداد میں چند ہیں، اس لیے زمانہ قدیم میں ہم نے بونوں اور پریوں کی کہانیوں کے ذریعے اپنی تعداد کو دگنا کرلیا۔''
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ پوشیدہ لوگ اکثر آئس لینڈ کے رہنے والوں کے خوابوں میں آتے ہیں۔ ان کا حلیہ اس طرح بتایا جاتا ہے کہ وہ انیسویں صدی کے آئس لینڈ والوں کی طرز کے سبز رنگ والے ملبوسات پہنتے ہیں۔ یہ لوگ جزائر Faroe کی لوک ریت اور روایتی رسوم کا ایک حصہ بھی ہیں۔ Faroese لوک کہانیوں میں بتایا جاتا ہے کہ Huldufَlk قدوقامت میں بڑے ہوتے ہیں، ان کے ملبوسات مکمل خاکستری رنگ کے ہوتے ہیں اور ان کے بال سیاہ ہوتے ہیں۔ ان کی رہائش گاہیں ٹیلوں میں ہوتی ہیں اور انہیں بونے یا بالشتیے کہا جاتا ہے۔یہ لوگ صلیب اور چرچ کو ناپسند کرتے ہیں۔ انہیں بجلی بھی پسند نہیں ہے۔
٭آغاز و ابتدا:
ایک پہاڑی ڈھلوان پر ایک تصویر کندہ کی گئی ہے، جس میں ایک مرد کو ایک عورت (بونی) کے پیچھے چھلانگ لگاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ یہ نادر و بے مثال تصویر آئس لینڈ کی لیجنڈ Hildur کی ہے، جو بونوں یا بالشیوں کی ملکہ ہے۔
Gunnell لکھتا ہے:''آئس لینڈ میں کثیر ثقافتی بستیوں میں مختلف عقائد ساتھ ساتھ چلتے تھے، جس کے بعد وہ آہستہ آہستہ آئس لینڈ کے lfar اور huldufَlk میں شامل ہوگئے۔''
وہ مزید لکھتا ہے:''lfar اور huldufَlk بلاشبہہ اسی ضرورت کے تحت اٹھے۔Norse آبادکاروں کے پاس لlfarتھے، آئرش غلاموں کے پاس پہاڑیوں کی پریاں اور اچھے لوگ تھے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ دو الگ چیزیں بن گئے، لیکن حقیقتاً وہ لوک ریت کے دو مختلف سیٹ ہیں، جن کا مطلب ہے: ایک ہی چیز۔''
ان پوشیدہ لوگوں کی الگ الگ کہانیاں ہیں، جن میں سے ایک کہانی یہ ہے:
ایک بار خدا نے ایڈم اور ایو سے ملاقات کی، ان کا گھر دیکھا، ان کے بچوں کو دیکھا۔ پھر خدا نے ایو سے پوچھا:''باقی بچے کہاں ہیں؟''
ایو نے کہا:''بس یہی ہیں۔''
وہ شرمندہ تھیں، کیوں کہ ان کے باقی بچے نہادھو نہیں سکے تھے اور نہ انہوں نے اس وقت صاف ستھرے لباس پہن رکھے تھے۔ اس لیے وہ انہیں خدا کے سامنے نہ لاسکیں۔
اس پر خدا نے کہا:''جو لوگ خدا سے چھپتے ہیں، خدا بھی انہیں باقی لوگوں سے چھپادیتا ہے۔''
اس طرح وہ نہانے دھونے سے محروم بچے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پوشیدہ ہوگئے اور کسی کو نظر نہیں آئے۔ انہوں نے پہاڑیوں، چٹانوں اور ٹیلوں میں رہنا شروع کردیا۔ جن پری، بونے اور بالشتیے انہی بچوں کی اولادیں ہیں۔ لیکن جو بچے خدا کے سامنے صاف ستھرے آئے تھے، ان سے انسانوں کی نسلیں چل رہی ہیں۔ انسان اس مافوق الفطرت مخلوق کو نہیں دیکھ پاتا، لیکن اگر یہ غیرمرئی خود چاہے تو انسان اسے دیکھ سکتا ہے۔
دوسرا قصہ یہ ہے کہ ایک مسافر راستہ بھٹک گیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کہاں جائے۔ پھرتے پھراتے وہ ایک جھونپڑی پر پہنچا، جو اس نے وہاں پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ اس نے جھونپڑی پر دستک دی تو ایک بوڑھی عورت نے دروازہ کھولا اور اسے اندر آنے کو کہا۔ مسافر خوشی خوشی اندر چلا گیا۔ گھر بالکل صاف ستھرا تھا۔ بڑھیا اسے ایک آرام دہ کمرے میں لے گئی، جہاں دو خوب صورت اور جوان لڑکیاں بیٹھی تھیں۔ ان کے علاوہ گھر میں اور کوئی نہیں تھا۔ مسافر کا استقبال گرم جوشی سے ہوا اور اس کے ساتھ رحم دلی کا سلوک کیا گیا۔ اسے عمدہ کھانا کھلانے کے بعد بستر تک پہنچادیا گیا۔
مسافر نے میزبان کی ایک بیٹی کو اپنے پاس رکنے کا حکم دیا تو اس نے مسافر کے حکم کی تعمیل کی۔ مسافر نے اس لڑکی کو چھونا چاہا تو اس کا ہاتھ لڑکی کے جسم کے آر پار چلا گیا۔ وہ حیران ہوا تو لڑکی بولی:''پریشان مت ہو، میں ایک روح ہوں۔ جب شیطان نے اپنی فوج کے ساتھ آسمانوں پر جنگ شروع کی تھی، تو اسے باہر تاریکی میں دھکیل دیا گیا تھا۔ اس وقت جن لوگوں نے بھی اسے گرتے دیکھا، وہ بھی جنت سے باہر پھینک دیے گئے،
لیکن جو شیطان کے نہ حمایتی تھے اور نہ مخالف، انہیں زمین پر اس حکم کے ساتھ بھیج دیا گیا کہ یہاں پہاڑوں اور چٹانوں میں رہیں۔ یہی جن، بھوت، بالشتیے اور بونے ہیں جنہیں پوشیدہ لوگ کہا جاتا ہے۔ وہ صرف اپنی نسل کے لوگوں کے ساتھ ہی رہ سکتے ہیں۔ یہ یا تو اچھا کام کرتے ہیں یا برا، لیکن جو بھی کرتے ہیں بہت تفصیل سے کرتے ہیں۔ انسانوں کی طرح ان کے جسم نہیں ہوتے، لیکن جب بھی چاہیں تو انسانی شکل اختیار کرسکتے ہیں۔ میں بھی انہی میں سے ایک روح ہوں۔''
کچھ دوسری لوک کہانیوں میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ huldufَlk کا اصل تعلق Lilith سے ہے۔ یہ وہ اوپر سے پھینکے گئے معتوب فرشتے ہیں جو جنت اور دوزخ کے درمیان رہتے ہیں۔
بونے یا پوشیدہ لوگوں کے پیش رو Snorri Sturluson اورskaldic verse کی تحریروں میں مل سکتے ہیں۔ eddaic poems میں بھی بونوں کے بارے میں ذکر آیا ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے ان کا تعلق بارآوری سے ہے۔ ڈانسنگ کی سرکاری مخالفت آئس لینڈ میں بارھویں صدی میں شروع ہوئی ہوگی اور بونوں کے ساتھ ڈانسنگ کی شمولیت پندرھویں صدی میں دیکھی جاسکتی ہے۔
ایک لوک کہانی میں بونوں کو دکھایا گیا ہے، جو عام لوگوں کے ساتھ ہیں اور ایک شیرف سے بدلہ لے رہے ہیں، جس نے ڈانس پارٹیوں پر پابندی لگائی تھی۔
Guًmundsdَttirلکھتا ہے کہ یہ لیجنڈز دکھاتے ہیں کہ آئس لینڈ والے ان خصوصی ڈانس پارٹیوں سے محروم ہوئے تھے جس کا انہیں بہت دکھ تھا۔ تیرھویں اور چودھویں صدیوں میں یورپ کی سرزمین سے کتابیں آئس لینڈ پہنچیں اور انہوں نے بونوں کے بارے میں لوک کہانیوں کو کافی متاثر کیا اور شاید انہی کا اثر بعد میں ان پر بھی پڑا۔
Sveinsson نے لکھا ہے:''پوشیدہ لوگوں کے حوالے سے لگ بھگ 1600ذرائع اس قدر ضخیم ہوگئے کہ ہم ان کے عقائد اور لیجنڈز کے بارے میں بیان کرسکتے ہیں کہ ایک کے بعد دوسرا ذریعہ بارھویں صدی تک چلا گیا۔''
rni Bjِrnsson کے مطابق پوشیدہ لوگوں کے حوالے سے عقائد نے سترھویں اور اٹھارویں صدی میں زور پکڑا جب آئس لینڈ سخت مشکل میں تھا۔