پڑھے لکھے نوجوان بےروزگاری سے تنگ آکر پنکچر کی دکانیں کھولنے لگے
ہنر مند افراد کے لیے روزی کمانا اتنا مشکل نہیں جتنا ایک پڑھے لکھے شخص کے لیے نوکری ڈھونڈنا مشکل ہے،
ملک بھر کی طرح کراچی میںبھی بے روزگاری کا جن قابو سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔ان حالات سے نمٹنے کیلیے ناخواندہ نوجوانوں کے ساتھ اب پڑھے لکھے نوجوان بھی مختلف ہنر سے وابستہ ہو رہے ہیں، ان ہی ہنر میں سے ایک گاڑیوں کو پنکچر لگانا ہے، یہ کام20سے 25 ہزار روپے کے سرمائے سے شروع کیا جا سکتا ہے تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کام کا آغاز کرنے والا شخص ایک سال تک کسی ماہر استاد کے پاس پنکچر لگانے کا کام سیکھے،
ایکسپریس نے شہر میں ٹائر پنکچر کے کام سے وابستہ افراد کے حوالے سے سروے کیا،سروے کے دوران کبوتر چورنگی پر واقع ٹائر پنکچر کی دکان پر کام کرنے والے استاد عبدالصمد نے بتایا کہ حلال روزی کمانا ہر شخص کا حق ہے، اس وقت شہر میں بے روزگاری اور مہنگائی کی وجہ سے ہر شخص پریشان ہے۔
لوگوں کے اخراجات بڑھ گئے ہیں اور آمدنی کم ہوتی جا رہی ہے، اسی مسائل کے باعث پڑھے لکھے نوجوانوں کی بڑی تعداد بھی اب مختلف ہنر سیکھنے پر مجبور ہو گئی ہے کیونکہ ہنر مند افراد کے لیے روزی کمانا اتنا مشکل نہیں جتنا ایک پڑھے لکھے شخص کے لیے نوکری ڈھونڈنا مشکل ہے، انھوں نے بتایا کہ شہر میں جس طرح گاڑیوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اسی طرح پنکچر کی دکانوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے، شہر میں پنکچر کی دکانیں پٹرول پمپس اور سی این جی اسٹیشنز کے ساتھ منسلک ہوتی ہیں تاہم شہر کی تمام اہم شاہراہوں اور فٹ پاتھوں پر بھی کیبن رکھ کر پنکچر لگانے والے اپنا کاروبار کر رہے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ اندازاً شہر میں 7 سے 8 ہزار تک پنکچر کی دکانیں ہوں گی، انھوں نے بتایا کہ پنکچر لگانے کے کام سے ہر کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد وابستہ ہیں تاہم کراچی میں زیادہ تر جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد یہ کام کر رہے ہیں، پنکچر کی دکانیں یا کیبن پہلے تو 24 گھنٹے کھلے رہتے تھے لیکن کراچی میں اسٹریٹ کرائم اور ٹارگٹ کلنگ میں اضافے کے باعث اب70فیصد دکانیں اور کیبن رات کے اوقات میں بند ہو جاتے ہیں،رات کے اوقات میں پنکچر کی دکانیں ایسے مقامات پر کھلی ہوتی ہیں جہاں رونق ہوتی ہے، زیادہ تر دکانیں اہم شاہراہوں اور 24 گھنٹے کھلنے والے پمپس کے ساتھ کھلی ہوتی ہیں۔
پنکچر لگانے کا کام استاد شاگردی کا ہے، شاگرد آتے جاتے ہیں، وہ 6 ماہ یا سال تربیت حاصل کرتے ہیں ، وہ پھر کسی بڑی دکان کے ساتھ منسلک ہو جاتے ہیں یا اپنا چھوٹے پیمانے پر یہ کام شروع کر دیتے ہیں، اس کام کو شروع کرنے کے لیے کم سے کم سرمایہ 25 ہزار روپے لگتا ہے اور باعزت طریقے سے ایک شخص12 گھنٹے کام کرکے روزانہ500 سے 600 روپے با آسانی کما لیتا ہے۔
ایکسپریس نے شہر میں ٹائر پنکچر کے کام سے وابستہ افراد کے حوالے سے سروے کیا،سروے کے دوران کبوتر چورنگی پر واقع ٹائر پنکچر کی دکان پر کام کرنے والے استاد عبدالصمد نے بتایا کہ حلال روزی کمانا ہر شخص کا حق ہے، اس وقت شہر میں بے روزگاری اور مہنگائی کی وجہ سے ہر شخص پریشان ہے۔
لوگوں کے اخراجات بڑھ گئے ہیں اور آمدنی کم ہوتی جا رہی ہے، اسی مسائل کے باعث پڑھے لکھے نوجوانوں کی بڑی تعداد بھی اب مختلف ہنر سیکھنے پر مجبور ہو گئی ہے کیونکہ ہنر مند افراد کے لیے روزی کمانا اتنا مشکل نہیں جتنا ایک پڑھے لکھے شخص کے لیے نوکری ڈھونڈنا مشکل ہے، انھوں نے بتایا کہ شہر میں جس طرح گاڑیوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اسی طرح پنکچر کی دکانوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے، شہر میں پنکچر کی دکانیں پٹرول پمپس اور سی این جی اسٹیشنز کے ساتھ منسلک ہوتی ہیں تاہم شہر کی تمام اہم شاہراہوں اور فٹ پاتھوں پر بھی کیبن رکھ کر پنکچر لگانے والے اپنا کاروبار کر رہے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ اندازاً شہر میں 7 سے 8 ہزار تک پنکچر کی دکانیں ہوں گی، انھوں نے بتایا کہ پنکچر لگانے کے کام سے ہر کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد وابستہ ہیں تاہم کراچی میں زیادہ تر جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد یہ کام کر رہے ہیں، پنکچر کی دکانیں یا کیبن پہلے تو 24 گھنٹے کھلے رہتے تھے لیکن کراچی میں اسٹریٹ کرائم اور ٹارگٹ کلنگ میں اضافے کے باعث اب70فیصد دکانیں اور کیبن رات کے اوقات میں بند ہو جاتے ہیں،رات کے اوقات میں پنکچر کی دکانیں ایسے مقامات پر کھلی ہوتی ہیں جہاں رونق ہوتی ہے، زیادہ تر دکانیں اہم شاہراہوں اور 24 گھنٹے کھلنے والے پمپس کے ساتھ کھلی ہوتی ہیں۔
پنکچر لگانے کا کام استاد شاگردی کا ہے، شاگرد آتے جاتے ہیں، وہ 6 ماہ یا سال تربیت حاصل کرتے ہیں ، وہ پھر کسی بڑی دکان کے ساتھ منسلک ہو جاتے ہیں یا اپنا چھوٹے پیمانے پر یہ کام شروع کر دیتے ہیں، اس کام کو شروع کرنے کے لیے کم سے کم سرمایہ 25 ہزار روپے لگتا ہے اور باعزت طریقے سے ایک شخص12 گھنٹے کام کرکے روزانہ500 سے 600 روپے با آسانی کما لیتا ہے۔