مارکسزم اور ڈی کنسٹرکشن
ڈی کنسٹرکشن نے علم الوجود، الٰہیات اور منطق کو بھی سخت چیلنج سے دو چار کر دیا ہے
1960ء کی دہائی سے مابعد جدید مفکرین کی تاریخ، سماج اور طبقات کے متعلق مختلف تعبیرات اور 1989ء میں امریکی مصنف فرانسس فوکویامہ کی ''تاریخ کا خاتمہ'' کے بعد مارکسی نظریہ سازوں کو یہ چیلنج درپیش رہا ہے کہ مارکسزم کے دفاع میں کوئی ایسا مضبوط فکری دھارا سامنے آئے جس سے مارکسزم کی نظری و فکری سطح پر عملی اہمیت کا جواز مہیا ہو سکے۔
''اذعانی مارکسزم'' یا کلاسیکی مارکسزم سے تعلق رکھنے والے کسی بھی نظریہ ساز کی طرف سے کوئی ایسی مضبوط تحریر سامنے نہیں آ سکی جس میں فکری و نظری حوالوں سے دیگر فکری تشکیلات کو سامنے رکھ کر مارکسزم کا دفاع منطقی و مدلل انداز میں کیا گیا ہو۔ نظری و فکری سطح پر خود سے متصادم فلسفوں سے نبرد آزما ہونا مارکسزم کی اسی روایت کا تسلسل ہے جسے خود مارکس اور اینگلز نے قائم کیا تھا اور بعد ازاں اسی روایت کے تسلسل میں لینن، لوکاش، گرامشی اور التھیوسے وغیرہ تاریخی مادیت کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے نئی سماجی و ثقافتی تشکیلات کی روشنی میں مارکسزم کو اگلی سطح پر استوار کرتے رہے ہیں۔
بیسویں صدی کے اہم ترین فرانسیسی فلسفی ژاک دریدا نے اپنی ڈی کنسٹرکشن کی تھیوری کو 1967ء میں پیش کیا تھا۔ بیشتر مفکر اسے مارکسزم کی ضد تصور کرتے تھے۔ تاہم دریدا کا ڈی کنسٹرکشن کو ایک ایسے وقت پر مارکسزم کی بنیاد پرستانہ شکل قراردینا حیران کن بات ہے جب ایک طرف مغرب میں مارکسزم کی 'موت' کے دعوے کیے جا رہے تھے اور دوسری طرف لیوٹارڈ جیسے فلسفی ''مہا بیانیوں کی جانب تشکیک'' کا دعویٰ کر رہے تھے۔ دریدا کا یہ کہنا مارکسزم کے مخالفین کے لیے یقیناََ تکلیف دہ ہے کہ مارکسزم کے بغیر ڈی کنسٹرکشن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ بورژوا فلسفوں میں کوئی بھی ایسا فکری دھارا موجود نہیں ہے۔
جس کو ڈی کنسٹرکشن کی وجہ سے بحران کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو۔ ریدا نے واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ وہ مابعد جدید یا مابعد ساختیاتی مفکر نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ''تاریخ کا خاتمہ'' کی اشاعت کے ٹھیک چار برس بعد یعنی 1993ء میں اس کی باکمال تصنیف ''سپیکٹرز آف مارکس'' (مارکس کے آسیب) شایع ہوئی۔ اس کتاب میں سرمایہ دارای نظام کے شدید بحران کی تفہیم اور تدارک کے لیے تاریخی مادیت کے اصولوں کو بروئے کار لانے پر زور دیا گیا ہے۔
یہی وہ کتاب ہے جس نے ایلن بیڈیو، انتونیو نیگری، سلیوو زیزک پیئر ماشرے اور فریڈرک جیمی سن جیسے اہم ترین فلسفیوں وناقدین کی فکری سمت کو متعین کرنے میں بھی ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔اس کتاب میںدریدا مارکسی نقطہ نظر سے لبرل جمہوریت کی 'فتح' کے تصورکو انتہائی منطقی اور مدلل انداز میں مسترد کر دیتا ہے۔ ڈی کنسٹرکشن ایک ایسا فکری رجحان ہے جس نے تمام روشن خیال تعقلاتی فلسفوں میں موجود ان شگافوں اور تضادات کو بے نقاب کر دیا ہے جو تعقل پسندی کی برتری کو قائم کرتے ہوئے کسی نہ کسی حد تک لبرل جمہوریت اور فوق تجربی (Transcendental) فلسفوں کو تقویت دیتے رہے ہیں۔
ڈی کنسٹرکشن روایتی فلسفوں میں موجود ''موجودگی'' کے اس تصور کو مسترد کرتی ہے جس کے تحت 'پہلے' اور 'دوسرے' یا موضوع اور معروض کی ثنویت یا تخالف کو قائم کیا جاتا ہے اور اس کے بعد تعقلی منطق کو بروئے کار لاتے ہوئے تعقلات کا ایک ایسا وسیع نظام قائم کر دیا جاتا ہے کہ جس میں 'دوسرے' کی ''خود میں'' اور ''خود کے لیے'' شناخت کا قضیہ کبھی حل نہیں ہو پاتا۔ دوسرے کی خود میں اور خود کے لیے شناخت تجریدی نوعیت کی نہیں ہوتی، یہ اس تناظر میں تشکیل پاتی ہے جس میں 'دوسرا' موجود ہوتا ہے۔ ڈی کنسٹرکشن کی روشنی میں دیکھنے سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ مغرب کی فلسفیانہ روایت جبری، متشدد اور دہشت انگیز تعقل پسندی کو پروان چڑھانے کی ہی ایک کوشش ہے اور اسی فلسفے پر مغرب کی لبرل جمہوریت کی تمام عمارت استوار ہے۔
دریدا کی لبرل جمہوریت اور اس کے دفاع کے لیے تراشے گئے کم و بیش تمام نظریات پر تنقید کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایک طرف لبرل تعقل پسند روایت زوال کا شکار ہوئی ہے تو دوسری طرف مارکسزم کی ایک نئی تعبیر کے بعد اس کے 'مرکز' میں آنے کا راستہ ہموار ہوا ہے۔ لبرل جمہوریت کے فلسفیانہ نظام کا اختتام مابعد جدید فکر کی صورت میں سامنے آیا ہے اور ڈی کنسٹرکشن اس کی مخالف سمت میں کھڑی ہے۔
''مارکس کے آسیب'' ایک نئے سائنسی و تکنیکی عہد میں سرمایہ دارانہ نظام کے وحشیانہ جرائم، معاشی وسیاسی غلبے کے لیے گھناؤنی جنگوں کا احیا، بیروزگاری اور امیگریشن کے مسائل،مغرب میں بڑھتی ہوئی نسل پرستی، سیکولر ازم کی تحدید، فرقہ وارانہ اور مذہبی شدت پسندی، قومی و بین الاقوامی ریاستوں کی نوعیت میں تبدیلی، اسلحے کے ذخائر میں توسیع ،نیوکلیئر ہتھیاروں کا پھیلاؤ اور تعقلاتی فلسفوں میں مضمر ایسا بحران کہ جس کے تحت عملی اور فکری سطح پر تضادات کی تحلیل ناممکن ہوچکی ہے، پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے سرمایہ داری نظام کے اصلاح پسندی کے تمام دعوؤں کو التباس (Illusions) قرار دیتی ہے اور اسے پہلے سے کہیں زیادہ گھناؤنے نظام کے طور پر پیش کرتے ہوئے نوعِ انسانی کے لیے خطرناک قرار دیتی ہے، اور اس سے نبرد آزما ہونے کے لیے ایک ''نئی انٹرنیشنل''کی اہمیت پر زور دیتی ہے۔
آج جس نئی انٹرنیشل کی ضرورت ہے وہ اتنی ہی انقلابی ہوگی جتنی 1848ء میں تھی۔ نئی اور پرانی انٹرنیشنل کو جو شے آپس میں جوڑتی ہے وہ نئے تصورات کی تشکیل ہے، ایک مختلف عہد کی شناخت ہے ۔ شناختوں کا بحران جس کی خصوصیت ہے۔ اس کے بعد روایتی تشریحات و تعبیرات کو بغیر تنقید کے قبول نہیں کیا جا سکتا، نئے تصورات کی تشکیل کا تقاضا یہ ہے کہ جدوجہد کی نئی صورتوں کو تلاش کر کے انھیں ان نئے تصورات سے ہم آہنگ کیا جائے۔
ڈی کنسٹرکشن نے علم الوجود، الٰہیات اور منطق کو بھی سخت چیلنج سے دو چار کر دیا ہے۔ ان تینوں میں ''موجودگی'' کا پہلو مشترک ہے۔ اس کی سب سے واضح مثال جرمن فلسفی ہیگل کی ''منطق کی سائنس'' ہے جس میں منطق کو وجود کے تابع کر دیا جاتا ہے اور وجود کو 'موجود' تصور کیا جاتا ہے۔ یہ ایسا فلسفہ ہے جو افلاطون کے اعیان سے ایڈمنڈ ہسرل کی ''مظہریات'' تک مختلف سطحوں کے ساتھ موجود ہے۔ یہی وہ ''موجودگی کی مابعد الطبیعات'' ہے جو ڈی کنسٹرکشن کا ہدف ہے۔ ''موجودگی'' کو چیلنج کرنے سے وہ تمام تعقلات بھی اپنے 'ہونے' کا جواز کھو دیتے ہیں جو اس 'موجودگی' پر قائم ہوتے ہیں۔ مارکسزم میں فوق تجربیت کو تسلیم نہیں کیا جاتا اور نہ ہی مارکسی جدلیات ہیگل کی جدلیات کی مانند سوچ سے شروع ہوکر مطلق خیال تک کا سفر بغیر کسی رکاوٹ کے ایک دائروی شکل میں طے کرتی ہے۔
مارکسزم میں اصولوں کو کسی صورتحال پر نافذ کرنے سے پہلے ضروری یہ ہے کہ ان اصولوں کو کسی مقرونی(Concrete) صورتحال سے اخذ ہوتا ہوا دکھایا جائے۔ حقیقی صورتحال کے مطابق تعقلاتی اصولوں کی ڈی کنسٹرکشن مارکسزم کی خصوصیت ہے۔ لینن کے الفاظ میں مقرونی صورتحال کا مقرونی تجزیہ کیا جائے۔ یہی وہ بنیادی فرق ہے جو مارکسزم کو دیگر تمام فلسفوں سے الگ کرتا ہے۔ تصورات کی بدیہی (A Priori)موجودگی ہمہ وقت ڈی کنسٹرکشن کی زد پر رہتی ہے۔ تاہم مارکسزم کی وہ تشریح جو علم الوجود کے تصور پر استوار ہے، جو گزشتہ' تعینات' پر انحصار کرتی ہے،جس کے مطابق طبقے یا پارٹی کا 'وجود' مستقل اور ناقابل تبدیلی ہے،اس کی ڈی کنسٹرکشن ہونا لازمی ہے۔ تصورات کی ماقبل موجودگی فوق تجربیت ہی کی دوسری شکل ہے، جو مارکسزم میں خیال پرستی کے تسلسل کو قائم رکھتی ہے۔
نئی تشکیلات کی روشنی میں پرانے تصورات کاعدم استحکام لازمی ہے۔ دریدا یہ یقین دلاتا ہے کہ مذکورہ کتاب میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے جو مارکسزم کے خلاف ہو۔ نئے تصورات کی لازمیت کا فلسفہ مارکسزم سے متصادم نہیں ، ہم آہنگ ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ جب نئی سماجی تشکیلات یا پرانی تشکیلات کی توسیع سے پرانے تصورات کی توسیع ہوتی ہے تو طبقات، پرولتاریہ کی آمریت، قوم، ریاست اورسیاسی پارٹی کے روایتی پیمانے نئے تصورات سے ہم آہنگ ہونے کے لیے ناکافی ہوتے ہیں۔تجربی حقیقت کا بحران تھیوری یا تعقلات کا بحران بن جاتا ہے۔پرانے تصورات میں موجود شگاف یا تضاد جن کی ڈی کنسٹرکشن نشاندہی کرتی ہے، تصورات کی توسیع کا تقاضا کرتے ہیں۔
لہذا طبقات، قوم، ریاست اور سیاسی پارٹی کے کلاسیکی تصور میں توسیع عہد حاضر کی اہم ترین ضرورت ہے۔ٹام لیوس ''مارکس کا آسیب'' پر لکھے گئے اپنے مضمون میں یہ اعتراض کرتا ہے کہ دریدا نے سماجی طبقات کی ضرورت سے انکار کردیا ہے۔ ٹام لیوس بلاشبہ غلط کہتا ہے۔
ڈی کنسٹرکشن، دریدا کے الفاظ میں نہ ہی تجریدی ہے اور نہ یوٹوپیائی! یہ ایک دی گئی صورتحال میں ''سماجی، قومی، بین الاقوامی طبقات، قومی ریاستوں میں سیاسی جدوجہد، شہریت اور قومیت کے مسائل اورپارٹی کی حکمتِ عملی'' کو اس حوالے سے نہیں دیکھتی کہ اس میں ''اعلیٰ اور ادنیٰ، ابتدائی اور ثانوی، بنیادی یا غیر بنیادی'' کیا ہے، بلکہ ڈی کنسٹرکشن اس بات کا جائزہ لیتی ہے کہ اس صورتحال میں ناگزیر کیا ہے اور اسے کن ''ساختیاتی پیچیدگیوں ''کا سامنا ہے۔ اس کے لیے پہلے سے موجود کسی بھی معیار کو حتمی تصور نہیں کیا جا سکتا۔ تجزیات نئے کی روشنی میں ہونے چاہیں، نہ کہ نئے کو پرانے میں مدغم کر دیا جائے۔
''اذعانی مارکسزم'' یا کلاسیکی مارکسزم سے تعلق رکھنے والے کسی بھی نظریہ ساز کی طرف سے کوئی ایسی مضبوط تحریر سامنے نہیں آ سکی جس میں فکری و نظری حوالوں سے دیگر فکری تشکیلات کو سامنے رکھ کر مارکسزم کا دفاع منطقی و مدلل انداز میں کیا گیا ہو۔ نظری و فکری سطح پر خود سے متصادم فلسفوں سے نبرد آزما ہونا مارکسزم کی اسی روایت کا تسلسل ہے جسے خود مارکس اور اینگلز نے قائم کیا تھا اور بعد ازاں اسی روایت کے تسلسل میں لینن، لوکاش، گرامشی اور التھیوسے وغیرہ تاریخی مادیت کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے نئی سماجی و ثقافتی تشکیلات کی روشنی میں مارکسزم کو اگلی سطح پر استوار کرتے رہے ہیں۔
بیسویں صدی کے اہم ترین فرانسیسی فلسفی ژاک دریدا نے اپنی ڈی کنسٹرکشن کی تھیوری کو 1967ء میں پیش کیا تھا۔ بیشتر مفکر اسے مارکسزم کی ضد تصور کرتے تھے۔ تاہم دریدا کا ڈی کنسٹرکشن کو ایک ایسے وقت پر مارکسزم کی بنیاد پرستانہ شکل قراردینا حیران کن بات ہے جب ایک طرف مغرب میں مارکسزم کی 'موت' کے دعوے کیے جا رہے تھے اور دوسری طرف لیوٹارڈ جیسے فلسفی ''مہا بیانیوں کی جانب تشکیک'' کا دعویٰ کر رہے تھے۔ دریدا کا یہ کہنا مارکسزم کے مخالفین کے لیے یقیناََ تکلیف دہ ہے کہ مارکسزم کے بغیر ڈی کنسٹرکشن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ بورژوا فلسفوں میں کوئی بھی ایسا فکری دھارا موجود نہیں ہے۔
جس کو ڈی کنسٹرکشن کی وجہ سے بحران کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو۔ ریدا نے واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ وہ مابعد جدید یا مابعد ساختیاتی مفکر نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ''تاریخ کا خاتمہ'' کی اشاعت کے ٹھیک چار برس بعد یعنی 1993ء میں اس کی باکمال تصنیف ''سپیکٹرز آف مارکس'' (مارکس کے آسیب) شایع ہوئی۔ اس کتاب میں سرمایہ دارای نظام کے شدید بحران کی تفہیم اور تدارک کے لیے تاریخی مادیت کے اصولوں کو بروئے کار لانے پر زور دیا گیا ہے۔
یہی وہ کتاب ہے جس نے ایلن بیڈیو، انتونیو نیگری، سلیوو زیزک پیئر ماشرے اور فریڈرک جیمی سن جیسے اہم ترین فلسفیوں وناقدین کی فکری سمت کو متعین کرنے میں بھی ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔اس کتاب میںدریدا مارکسی نقطہ نظر سے لبرل جمہوریت کی 'فتح' کے تصورکو انتہائی منطقی اور مدلل انداز میں مسترد کر دیتا ہے۔ ڈی کنسٹرکشن ایک ایسا فکری رجحان ہے جس نے تمام روشن خیال تعقلاتی فلسفوں میں موجود ان شگافوں اور تضادات کو بے نقاب کر دیا ہے جو تعقل پسندی کی برتری کو قائم کرتے ہوئے کسی نہ کسی حد تک لبرل جمہوریت اور فوق تجربی (Transcendental) فلسفوں کو تقویت دیتے رہے ہیں۔
ڈی کنسٹرکشن روایتی فلسفوں میں موجود ''موجودگی'' کے اس تصور کو مسترد کرتی ہے جس کے تحت 'پہلے' اور 'دوسرے' یا موضوع اور معروض کی ثنویت یا تخالف کو قائم کیا جاتا ہے اور اس کے بعد تعقلی منطق کو بروئے کار لاتے ہوئے تعقلات کا ایک ایسا وسیع نظام قائم کر دیا جاتا ہے کہ جس میں 'دوسرے' کی ''خود میں'' اور ''خود کے لیے'' شناخت کا قضیہ کبھی حل نہیں ہو پاتا۔ دوسرے کی خود میں اور خود کے لیے شناخت تجریدی نوعیت کی نہیں ہوتی، یہ اس تناظر میں تشکیل پاتی ہے جس میں 'دوسرا' موجود ہوتا ہے۔ ڈی کنسٹرکشن کی روشنی میں دیکھنے سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ مغرب کی فلسفیانہ روایت جبری، متشدد اور دہشت انگیز تعقل پسندی کو پروان چڑھانے کی ہی ایک کوشش ہے اور اسی فلسفے پر مغرب کی لبرل جمہوریت کی تمام عمارت استوار ہے۔
دریدا کی لبرل جمہوریت اور اس کے دفاع کے لیے تراشے گئے کم و بیش تمام نظریات پر تنقید کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایک طرف لبرل تعقل پسند روایت زوال کا شکار ہوئی ہے تو دوسری طرف مارکسزم کی ایک نئی تعبیر کے بعد اس کے 'مرکز' میں آنے کا راستہ ہموار ہوا ہے۔ لبرل جمہوریت کے فلسفیانہ نظام کا اختتام مابعد جدید فکر کی صورت میں سامنے آیا ہے اور ڈی کنسٹرکشن اس کی مخالف سمت میں کھڑی ہے۔
''مارکس کے آسیب'' ایک نئے سائنسی و تکنیکی عہد میں سرمایہ دارانہ نظام کے وحشیانہ جرائم، معاشی وسیاسی غلبے کے لیے گھناؤنی جنگوں کا احیا، بیروزگاری اور امیگریشن کے مسائل،مغرب میں بڑھتی ہوئی نسل پرستی، سیکولر ازم کی تحدید، فرقہ وارانہ اور مذہبی شدت پسندی، قومی و بین الاقوامی ریاستوں کی نوعیت میں تبدیلی، اسلحے کے ذخائر میں توسیع ،نیوکلیئر ہتھیاروں کا پھیلاؤ اور تعقلاتی فلسفوں میں مضمر ایسا بحران کہ جس کے تحت عملی اور فکری سطح پر تضادات کی تحلیل ناممکن ہوچکی ہے، پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے سرمایہ داری نظام کے اصلاح پسندی کے تمام دعوؤں کو التباس (Illusions) قرار دیتی ہے اور اسے پہلے سے کہیں زیادہ گھناؤنے نظام کے طور پر پیش کرتے ہوئے نوعِ انسانی کے لیے خطرناک قرار دیتی ہے، اور اس سے نبرد آزما ہونے کے لیے ایک ''نئی انٹرنیشنل''کی اہمیت پر زور دیتی ہے۔
آج جس نئی انٹرنیشل کی ضرورت ہے وہ اتنی ہی انقلابی ہوگی جتنی 1848ء میں تھی۔ نئی اور پرانی انٹرنیشنل کو جو شے آپس میں جوڑتی ہے وہ نئے تصورات کی تشکیل ہے، ایک مختلف عہد کی شناخت ہے ۔ شناختوں کا بحران جس کی خصوصیت ہے۔ اس کے بعد روایتی تشریحات و تعبیرات کو بغیر تنقید کے قبول نہیں کیا جا سکتا، نئے تصورات کی تشکیل کا تقاضا یہ ہے کہ جدوجہد کی نئی صورتوں کو تلاش کر کے انھیں ان نئے تصورات سے ہم آہنگ کیا جائے۔
ڈی کنسٹرکشن نے علم الوجود، الٰہیات اور منطق کو بھی سخت چیلنج سے دو چار کر دیا ہے۔ ان تینوں میں ''موجودگی'' کا پہلو مشترک ہے۔ اس کی سب سے واضح مثال جرمن فلسفی ہیگل کی ''منطق کی سائنس'' ہے جس میں منطق کو وجود کے تابع کر دیا جاتا ہے اور وجود کو 'موجود' تصور کیا جاتا ہے۔ یہ ایسا فلسفہ ہے جو افلاطون کے اعیان سے ایڈمنڈ ہسرل کی ''مظہریات'' تک مختلف سطحوں کے ساتھ موجود ہے۔ یہی وہ ''موجودگی کی مابعد الطبیعات'' ہے جو ڈی کنسٹرکشن کا ہدف ہے۔ ''موجودگی'' کو چیلنج کرنے سے وہ تمام تعقلات بھی اپنے 'ہونے' کا جواز کھو دیتے ہیں جو اس 'موجودگی' پر قائم ہوتے ہیں۔ مارکسزم میں فوق تجربیت کو تسلیم نہیں کیا جاتا اور نہ ہی مارکسی جدلیات ہیگل کی جدلیات کی مانند سوچ سے شروع ہوکر مطلق خیال تک کا سفر بغیر کسی رکاوٹ کے ایک دائروی شکل میں طے کرتی ہے۔
مارکسزم میں اصولوں کو کسی صورتحال پر نافذ کرنے سے پہلے ضروری یہ ہے کہ ان اصولوں کو کسی مقرونی(Concrete) صورتحال سے اخذ ہوتا ہوا دکھایا جائے۔ حقیقی صورتحال کے مطابق تعقلاتی اصولوں کی ڈی کنسٹرکشن مارکسزم کی خصوصیت ہے۔ لینن کے الفاظ میں مقرونی صورتحال کا مقرونی تجزیہ کیا جائے۔ یہی وہ بنیادی فرق ہے جو مارکسزم کو دیگر تمام فلسفوں سے الگ کرتا ہے۔ تصورات کی بدیہی (A Priori)موجودگی ہمہ وقت ڈی کنسٹرکشن کی زد پر رہتی ہے۔ تاہم مارکسزم کی وہ تشریح جو علم الوجود کے تصور پر استوار ہے، جو گزشتہ' تعینات' پر انحصار کرتی ہے،جس کے مطابق طبقے یا پارٹی کا 'وجود' مستقل اور ناقابل تبدیلی ہے،اس کی ڈی کنسٹرکشن ہونا لازمی ہے۔ تصورات کی ماقبل موجودگی فوق تجربیت ہی کی دوسری شکل ہے، جو مارکسزم میں خیال پرستی کے تسلسل کو قائم رکھتی ہے۔
نئی تشکیلات کی روشنی میں پرانے تصورات کاعدم استحکام لازمی ہے۔ دریدا یہ یقین دلاتا ہے کہ مذکورہ کتاب میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے جو مارکسزم کے خلاف ہو۔ نئے تصورات کی لازمیت کا فلسفہ مارکسزم سے متصادم نہیں ، ہم آہنگ ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ جب نئی سماجی تشکیلات یا پرانی تشکیلات کی توسیع سے پرانے تصورات کی توسیع ہوتی ہے تو طبقات، پرولتاریہ کی آمریت، قوم، ریاست اورسیاسی پارٹی کے روایتی پیمانے نئے تصورات سے ہم آہنگ ہونے کے لیے ناکافی ہوتے ہیں۔تجربی حقیقت کا بحران تھیوری یا تعقلات کا بحران بن جاتا ہے۔پرانے تصورات میں موجود شگاف یا تضاد جن کی ڈی کنسٹرکشن نشاندہی کرتی ہے، تصورات کی توسیع کا تقاضا کرتے ہیں۔
لہذا طبقات، قوم، ریاست اور سیاسی پارٹی کے کلاسیکی تصور میں توسیع عہد حاضر کی اہم ترین ضرورت ہے۔ٹام لیوس ''مارکس کا آسیب'' پر لکھے گئے اپنے مضمون میں یہ اعتراض کرتا ہے کہ دریدا نے سماجی طبقات کی ضرورت سے انکار کردیا ہے۔ ٹام لیوس بلاشبہ غلط کہتا ہے۔
ڈی کنسٹرکشن، دریدا کے الفاظ میں نہ ہی تجریدی ہے اور نہ یوٹوپیائی! یہ ایک دی گئی صورتحال میں ''سماجی، قومی، بین الاقوامی طبقات، قومی ریاستوں میں سیاسی جدوجہد، شہریت اور قومیت کے مسائل اورپارٹی کی حکمتِ عملی'' کو اس حوالے سے نہیں دیکھتی کہ اس میں ''اعلیٰ اور ادنیٰ، ابتدائی اور ثانوی، بنیادی یا غیر بنیادی'' کیا ہے، بلکہ ڈی کنسٹرکشن اس بات کا جائزہ لیتی ہے کہ اس صورتحال میں ناگزیر کیا ہے اور اسے کن ''ساختیاتی پیچیدگیوں ''کا سامنا ہے۔ اس کے لیے پہلے سے موجود کسی بھی معیار کو حتمی تصور نہیں کیا جا سکتا۔ تجزیات نئے کی روشنی میں ہونے چاہیں، نہ کہ نئے کو پرانے میں مدغم کر دیا جائے۔