گورنر سرور آپ نا اہل ہیں
اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو موجودہ چوہدری سرور صاحب کی ضرورت ہے تو معذرت کے ساتھ گورنر صاحب! آپ نا اہل ہیں۔
گورنر صاحب نے کل اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے اور پنجاب ایک اچھے اور ایماندار گورنر سے محروم ہوگیا۔ ایک نجی چینل کے ساتھ دوران رپورٹنگ میں مجھے کئی دفعہ گورنر سرور سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا اور میں نے اِن کو ہمیشہ سے اچھا اور نفیس انسان پایا۔
گزشتہ روز گورنر پنجاب کے استعفیٰ کے بارے میں مختلف چہ میگوئیاں ہوتی رہیں کہ آخر معاملہ ہے کیا۔ اگرچہ چوہدری سرور نے استعفیٰ دیتے ہوئے میاں نواز شریف اور شہباز شریف کو براہ راست ہدف تنقید تو نہیں بنایا ہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنی توپوں کا رُخ میاں برادران کی جانب ہی رکھا ہے۔
گورنر صاحب نے اپنے آبائی حلقے کے ایم این اے پر زمینوں کے قبضے کا الزام لگایا تھا۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف نے اس کی انکوائری بھی کروائی تھی اور روایتی تفتیش کی طرح ''جیڑا بولے، اوہی کنڈا کھولے'' (جو شکایت کرے، وہی قصوروار ہے) کے مصادق گورنر صاحب کا مسئلہ تو حل نہ ہوا اور ایم این اے نے وکٹری کا نشان بنایا۔
گورنر صاحب جب یہ فرما رہے تھے کہ اس ملک میں لینڈ مافیا گورنر سے زیادہ طاقتور ہے ، تو سب جانتے ہیں کہ ان کا اشارہ کس جانب تھا۔ گورنر صاحب کا یہ کہنا بھی بجا ہے کہ وہ اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل حل نہ کرسکے۔ ان مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ اوور سیز پاکستانی الیکشن میں اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کرسکتے ہیں اور اگر ووٹ ڈالنا ہے تو اُن کو پاکستان آنا ہوگا۔ حالانکہ یہ وہی پاکستانی ہیں جن کے توسط سے لولی لنگڑی معیشت کو 25ارب ڈالر سالانہ کی آکسیجن ملتی ہے۔ چوہدری سرور نے یہ بھی کہا کہ وہ پنجاب کے تیس لاکھ بچوں کو اسکول کا راستہ نہ دکھا سکے اور ان کو اس کا ہمیشہ افسوس رہے گا۔
آپ گورنر صاحب کے استعفیٰ کی وجوہات دیکھ لیں تو آپ یقین کرلیں گے کہ پنجاب ہی نہیں، بلکہ پورا پاکستان ایک ویژنری آدمی سے محروم ہوگیا ہے ۔ چوہدری سرور چاہتے تو وہ برطانیہ میں ہی رہ سکتے تھے، اُن کا وہاں پر چلتا ہوا کاروبار تھا، اسٹورز تھے، دولت تھی، سیاسی کیرئیر تھا اور پاکستان سے بہت زیادہ روشن مستقبل تھا۔ چوہدری سرور برطانوی پارلیمنٹ کے پہلے مسلمان رکن بھی تھے۔ وہ 1997 سے 2010 تک برطانوی لیبر پارٹی سے وابستہ رہے۔ رکن پارلیمنٹ کی حیثیت سے بھی آ پ کی کارکردگی متاثرکن تھی ۔ جبکہ اِن سب باتوں کے باوجود اُنہوں نے پاکستان میں آکر برطانوی شہریت ترک کردی تھی ۔
فوٹو؛ آن لائن
ایک اندازے کے مطابق چوہدری سرور 16 ملین پاؤنڈز کے مالک ہیں۔ اس کے باوجود چوہدری سرور برطانیہ سے عیش و آرام کی زندگی چھوڑ کر وزیراعظم نواز شریف کی دعوت پر پاکستان آئے کہ شاید وہ پاکستان میں اپنا ویژن ڈیلیور کرسکتے ہیں اور یہی اُن کی خوش فہمی تھی اور یا شاید وہ یہاں کے حالات سے واقف نہیں تھے۔
فوٹو؛ اے پی پی
لہذا انہوں نے استعفیٰ اس لئے دیا ہے، کیونکہ وہ اس سسٹم کا حصہ نہیں تھے اور باوجود کوشش کے وہ اس سسٹم کا حصہ نہیں بن سکے۔ اُن کو ایسا لگا تھا کہ شاید پاکستان میں سیاست شرافت کے ساتھ ہوتی ہے لیکن اُن کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ ایک ایسی جگہ گورنر بنے ہیں جہاں مورثیت کے نام پر غلامی کو فروغ دیا جاتا ہے۔ یہاں کی سیاسی جماعتوں میں انسانوں سے زیادہ غلاموں کو اہمیت دی جاتی ہے اور سرور صاحب غلام نہ تھے شاید یہی اُن کی غلطی تھی ۔
یہ وہ ملک ہے بدقسمتی سے جہاں ملک کو ایٹمی صلاحیت سے نوازنے والا دہشت گردوں کا معاون بن جاتا ہے اور ملک کے آئین کا حلیہ بگاڑنے والے اور ذاتی مفادات کی خاطر ملک کو امریکی جنگ میں جھونکنے والے کو گارڈ آف آنر دے کر رخصت کیا جاتا ہے۔
مجھے کہنا نہیں چاہیے اور شاید میں غلط بھی ہوں کہ بدقسمتی سے ہم ایک عجیب قوم ہیں۔ ہمیں جوتے کھانے کی عادت ہوگئی ہے۔ ہم ظلم سہتے ہیں لیکن آواز نہیں اٹھاتے ہیں۔ گورنر صاحب آپ نا اہل تھے، ہیں اور اگر آپ کی یہی ویژنری سوچ رہی تو ہمیشہ رہیں گے۔ یہ سسٹم آپ کیلئے نہیں ہے، یہ سسٹم بھٹوز، زرداریوں، شریفوں، مخدوموں وغیرہ کیلئے ہے۔ لہذا آپ اپنی حسرتوں پر آنسو بہائیں کیونکہ اس سسٹم میں آپ کا کچھ نہیں ہوسکتا ہے۔
گورنر صاحب کو پہلے یہاں کے سیاستدانوں سے سیاست سیکھنی چاہیے اور جب یہاں کے ریت و رواج سیکھ جائیں تو پھر بڑے شوق سے یہاں سیاست کیجیے گا۔ لیکن اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو موجودہ چوہدری سرور صاحب کی ضرورت ہے تو معذرت کے ساتھ گورنر صاحب! آپ نا اہل ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
گزشتہ روز گورنر پنجاب کے استعفیٰ کے بارے میں مختلف چہ میگوئیاں ہوتی رہیں کہ آخر معاملہ ہے کیا۔ اگرچہ چوہدری سرور نے استعفیٰ دیتے ہوئے میاں نواز شریف اور شہباز شریف کو براہ راست ہدف تنقید تو نہیں بنایا ہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنی توپوں کا رُخ میاں برادران کی جانب ہی رکھا ہے۔
گورنر صاحب نے اپنے آبائی حلقے کے ایم این اے پر زمینوں کے قبضے کا الزام لگایا تھا۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف نے اس کی انکوائری بھی کروائی تھی اور روایتی تفتیش کی طرح ''جیڑا بولے، اوہی کنڈا کھولے'' (جو شکایت کرے، وہی قصوروار ہے) کے مصادق گورنر صاحب کا مسئلہ تو حل نہ ہوا اور ایم این اے نے وکٹری کا نشان بنایا۔
گورنر صاحب جب یہ فرما رہے تھے کہ اس ملک میں لینڈ مافیا گورنر سے زیادہ طاقتور ہے ، تو سب جانتے ہیں کہ ان کا اشارہ کس جانب تھا۔ گورنر صاحب کا یہ کہنا بھی بجا ہے کہ وہ اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل حل نہ کرسکے۔ ان مسائل میں سب سے بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ اوور سیز پاکستانی الیکشن میں اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کرسکتے ہیں اور اگر ووٹ ڈالنا ہے تو اُن کو پاکستان آنا ہوگا۔ حالانکہ یہ وہی پاکستانی ہیں جن کے توسط سے لولی لنگڑی معیشت کو 25ارب ڈالر سالانہ کی آکسیجن ملتی ہے۔ چوہدری سرور نے یہ بھی کہا کہ وہ پنجاب کے تیس لاکھ بچوں کو اسکول کا راستہ نہ دکھا سکے اور ان کو اس کا ہمیشہ افسوس رہے گا۔
آپ گورنر صاحب کے استعفیٰ کی وجوہات دیکھ لیں تو آپ یقین کرلیں گے کہ پنجاب ہی نہیں، بلکہ پورا پاکستان ایک ویژنری آدمی سے محروم ہوگیا ہے ۔ چوہدری سرور چاہتے تو وہ برطانیہ میں ہی رہ سکتے تھے، اُن کا وہاں پر چلتا ہوا کاروبار تھا، اسٹورز تھے، دولت تھی، سیاسی کیرئیر تھا اور پاکستان سے بہت زیادہ روشن مستقبل تھا۔ چوہدری سرور برطانوی پارلیمنٹ کے پہلے مسلمان رکن بھی تھے۔ وہ 1997 سے 2010 تک برطانوی لیبر پارٹی سے وابستہ رہے۔ رکن پارلیمنٹ کی حیثیت سے بھی آ پ کی کارکردگی متاثرکن تھی ۔ جبکہ اِن سب باتوں کے باوجود اُنہوں نے پاکستان میں آکر برطانوی شہریت ترک کردی تھی ۔
فوٹو؛ آن لائن
ایک اندازے کے مطابق چوہدری سرور 16 ملین پاؤنڈز کے مالک ہیں۔ اس کے باوجود چوہدری سرور برطانیہ سے عیش و آرام کی زندگی چھوڑ کر وزیراعظم نواز شریف کی دعوت پر پاکستان آئے کہ شاید وہ پاکستان میں اپنا ویژن ڈیلیور کرسکتے ہیں اور یہی اُن کی خوش فہمی تھی اور یا شاید وہ یہاں کے حالات سے واقف نہیں تھے۔
فوٹو؛ اے پی پی
لہذا انہوں نے استعفیٰ اس لئے دیا ہے، کیونکہ وہ اس سسٹم کا حصہ نہیں تھے اور باوجود کوشش کے وہ اس سسٹم کا حصہ نہیں بن سکے۔ اُن کو ایسا لگا تھا کہ شاید پاکستان میں سیاست شرافت کے ساتھ ہوتی ہے لیکن اُن کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ ایک ایسی جگہ گورنر بنے ہیں جہاں مورثیت کے نام پر غلامی کو فروغ دیا جاتا ہے۔ یہاں کی سیاسی جماعتوں میں انسانوں سے زیادہ غلاموں کو اہمیت دی جاتی ہے اور سرور صاحب غلام نہ تھے شاید یہی اُن کی غلطی تھی ۔
یہ وہ ملک ہے بدقسمتی سے جہاں ملک کو ایٹمی صلاحیت سے نوازنے والا دہشت گردوں کا معاون بن جاتا ہے اور ملک کے آئین کا حلیہ بگاڑنے والے اور ذاتی مفادات کی خاطر ملک کو امریکی جنگ میں جھونکنے والے کو گارڈ آف آنر دے کر رخصت کیا جاتا ہے۔
مجھے کہنا نہیں چاہیے اور شاید میں غلط بھی ہوں کہ بدقسمتی سے ہم ایک عجیب قوم ہیں۔ ہمیں جوتے کھانے کی عادت ہوگئی ہے۔ ہم ظلم سہتے ہیں لیکن آواز نہیں اٹھاتے ہیں۔ گورنر صاحب آپ نا اہل تھے، ہیں اور اگر آپ کی یہی ویژنری سوچ رہی تو ہمیشہ رہیں گے۔ یہ سسٹم آپ کیلئے نہیں ہے، یہ سسٹم بھٹوز، زرداریوں، شریفوں، مخدوموں وغیرہ کیلئے ہے۔ لہذا آپ اپنی حسرتوں پر آنسو بہائیں کیونکہ اس سسٹم میں آپ کا کچھ نہیں ہوسکتا ہے۔
گورنر صاحب کو پہلے یہاں کے سیاستدانوں سے سیاست سیکھنی چاہیے اور جب یہاں کے ریت و رواج سیکھ جائیں تو پھر بڑے شوق سے یہاں سیاست کیجیے گا۔ لیکن اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو موجودہ چوہدری سرور صاحب کی ضرورت ہے تو معذرت کے ساتھ گورنر صاحب! آپ نا اہل ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔