چالاک لوگ
ہم لوگ دنیامیں ایک پسماندہ ترین قوم کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔
آخرکیاوجہ ہے کہ ہم لوگ دنیاکے لیے تماشابنتے جارہے ہیں۔ حقیقت سب کومعلوم ہے مگرسچ بولنے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں۔ابھی امریکی صدر بھارت کے تین روزہ دورے سے واپس گیاہے۔لازم ہے کہ یہ دورہ ہمارے پڑوسی ملک کے لیے بہت فائدے کاباعث ہے۔ مجھے پچھلے دنوں ٹی وی پرلاتعداد مباحثے سننے کااتفاق ہوا۔اکثر لوگوں کاخیال تھاکہ امریکی صدر اگرپاکستان نہیں آیاتویہ ہمارے لیے کوئی مسئلہ نہیں مگر میرے جیسے طالبعلم کی نظر میں یہ لمحہ فکریہ ہے۔
المیہ یہ ہے کہ ہم دنیاکے اکثرممالک میں افغانستان کے ساتھ نتھی ہوچکے ہیں۔امریکی حکام ہرمعاملہ میںAfPakکی اصطلاع استعمال کرتے ہیں۔ہم لوگ دنیامیں ایک پسماندہ ترین قوم کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔جہاں بھی ہماراذکرآتاہے تواقوام عالم کے ذہنوں میں جنگ،سیکیورٹی،عدم برداشت اور مذہبی تشدد پسندی کے الفاظ آجاتے ہیں۔آپ امریکا کو چھوڑیے پورے یورپ میں ہم تمام لوگوں کوایک سرخ دائرے کے حصارمیں محبوس ملک سمجھاجاتاہے۔
امریکا میں پاکستانیوں سے ایک مخصوص رویہ اپنایا جاتا ہے۔ پاکستان سے امریکا کی کوئی براہِ راست فلائٹ نہیں۔ بھارت کے شہریوں کی آؤبھگت کی جاتی ہے۔دہلی سے امریکا تک کاسفربراہِ راست ہے اور کئی فلائٹیں ہیں جو ہندوستان سے چلتی ہیں اور انھیں راستہ میں کسی بھی جگہ چیکنگ کے لیے نہیں رکناپڑتا۔سچ تویہ ہے کہ کوئی بھی ترقی یافتہ ملک ہم پراعتبارکرنے کے لیے تیارنہیں۔
عوام اس رویے کو اپناتے ہیںجو حکمرانوں کا ہوتاہے۔پاکستانی عوام میںبھی آہستہ آہستہ وہ سماجی خرابیاں سرایت کرچکی ہیں جوہمارے حکمرانوں کاشیوہ ہے۔ ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہمارے ملک کے رہنماعام لوگوں سے کوئی تعلق یاواسطہ نہیں رکھناچاہتے۔الیکشن کے نزدیک وقتی ہیجان پیداکرکے وہ لوگوں کوبیوقوف بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔اسی طرح کاایک اَن دیکھا نظام بن چکاہے جسکے تحت آپ وسائل کاسہارالیکرملکی قیادت پرآسانی سے قبضہ کرسکتے ہیں۔لوگوں کا مستقبل اورخوشحالی ہمارے بالائی طبقہ کے لیے بالکل بے معنی ہے۔ہماری اس کمزوری کودنیاکاہرطاقت ور ملک سمجھ چکاہے اوروہ اس سے بھرپورفائدہ اٹھاتے ہیں۔
یہ دوسروں کی کامیابی نہیں بلکہ ہماری ناکامی ہے۔مغربی ممالک میں حکومتی عہدیدارکسی بھی صورت میں لوگوں کے لیے عدم دستیاب نہیں ہوتے۔آپ جب چاہیں،ان سے ملکراپنے مسئلہ کاحل نکال سکتے ہیں۔ان کے حکمرانوں کے دروازے ان کے شہریوں کے جائزمطالبات کے لیے ہردم کھلے ہوئے ہیں۔ مگرہمارے ملک میں اس آسانی اورسہولت کاتصوربھی نہیں کیا جاسکتا۔ہرمقتدرجگہ آپکوایک سے ایک بڑھ کرتکلیف پہنچانے والاانسان نظرآئیگا۔اول توآپ کوکام پڑجائے توکوئی بھی ملنے کوتیارنہیں ہوگا۔اگرآپ کسی طریقہ سے اس تک پہنچ بھی گئے تومطالبات کاایک سیلاب شروع ہوجائیگا۔
جسکے پاس پیسے نہیں ہیں،اسکاکام کم ازکم ہمارے جیسے ملک میں توممکن نہیں۔مجھے یہ عرض کرتے ہوئے افسوس ساہورہاہے کہ ہم لوگ انصاف اورمیرٹ کے اصول پرحکمرانی کرنے میں مکمل ناکام ہوچکے ہیں۔ہماری اس ناکامی کافائدہ ہمارے مخالف ممالک اٹھارہے ہیں۔مخالف کالفظ بھی کیا استعمال کرنا ہم دراصل خوداپنے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ہمارے ہوتے ہوئے ہمیں کسی اوردشمن کی ضرورت نہیں۔بالکل نہیں!
ان تمام مشکلات کے باوجودپاکستان کے اکثرشہری اپنے ملک سے بے انتہامحبت کرتے ہیں۔آپ یقین فرمائیے،میں جب بھی ان پاکستانی شہریوں سے ملتاہوں جو غیرممالک میں رزق کی تلاش میں رہنے پرمجبورہیں،تومجھے امیدکی ایک روشن کرن نظرآنے لگ جاتی ہے۔یہ لندن یا واشنگٹن میں رہتے ہیں مگرذہنی طورپریہ کراچی،فیصل آباد اور اپنے وطن کے مختلف قصبوں میں زندگی گزاررہے ہوتے ہیں۔ ان کے دل ہروقت پاکستان کے لیے تڑپتے ہیں اوریہ جنون کی حد تک اپنے ملک سے عشق کرتے ہیں۔
آپ ان پاکستانی بچوں سے ملیے جنکے والدین باہر ہوتے ہیں یہ بچے انھی ملکوں میں پلے بڑھے ہیں۔یہ بچے جنہوں نے اپناملک دیکھاہی نہیں یابہت کم دیکھاہے،وہ بھی اپنے وطن کی خوشبومحسوس کرتے ہیں۔یہ ہرکرکٹ میچ میں پاکستان کے لیے نعرے لگاتے ہیں۔ اپنے چہروں پرسبزپرچم بناتے ہیں اورسٹیڈیم کوپاکستانی جھنڈوں سے بھردیتے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے مجھے نیویارک جانے کااتفاق ہوا۔وہاں مجھے پاکستانی طالبعلموں سے ملنے کابھی موقعہ ملا۔میں ان کے مثبت رویے اورجوش دیکھ کرحیران رہ گیا۔وہ ہروقت پاکستان سے رابطہ میں رہتے ہیں۔پاکستان کے تمام چینل دیکھتے تھے۔ خبریں سنتے تھے اورمختلف تجزیاتی پروگرام دیکھ کرپریشان ہوجاتے تھے۔میں نے ایک طالبعلم کالاؤنج دیکھا۔اس میں پاکستان کابڑاساجھنڈادیوارپرلگاہواتھا۔مجھے ایسے لگاکہ اصل پاکستانی تویہ ہیں۔ان سے سیکھنے کابہت موقعہ ملا۔سب سے بڑاسبق حب الوطنی کاملا۔ ہمارے ملک کے حقیقی سفیریہی لوگ ہیں۔مگرافسوس کہ ہماراملک ان پڑھے لکھے بچوں کوکوئی معیاری روزگارفراہم نہیں کرتا۔
اس کے باوجودان بچوں کادل اپنے ملک کے لیے دھڑکتاہے۔ان میں سے اکثریت پاکستان جا کر وہاں رہناچاہتی ہے مگرشائدہمارانظام لائق انسانوں کوقبول کرنے سے انکارکرچکاہے۔ہمارانظام اوسط یانچلے درجہ کی صلاحیت رکھنے والے انسان کے لیے بہت موزوں ہے۔ اگرآپ سوچنے کی حِس نہیں رکھتے اور فکر و تدبر سے دورہیں، تو یقین کیجیے کہ آپ پوری دنیامیں ناکام ہونگے مگرپاکستان کے نظام میں آپکی ترقی کے لیے ہرزینہ کھلاملے گا۔
لیاقت بالی میں رہتاہے۔یہ دنیاکی خوبصورت ترین جگہوں میں سے ایک ہے۔ہروقت سیاحوں کی ایک مسلسل قطارہے جویہاں چھٹیاں گزارنے کے لیے ساراسال آتی ہے۔ لیاقت کپڑوں کی ایک فیکٹری کامالک ہے۔اس کے کارخانے میں پانچ سوکے قریب لوگ کام کرتے ہیں۔یہ پاکستانی کمیونٹی میں ایک انتہائی کامیاب شخص گردانا جاتا ہے۔ایک سال پہلے جکارتہ میں اس سے میری طویل نشست ہوئی۔اس کی زندگی کی جدوجہدبہت کھٹن اورمتاثرکن تھی۔وہ تاندلیاوالہ کے نزدیک ایک گاؤں میں رہتاتھا۔اس کی والدہ کاانتقال ہوگیا۔والدنے دوسری شادی کرلی۔لیاقت اس وقت دس سال کاتھا۔ اس کا روزانہ کاکام یہ تھاکہ پانچ میل سائیکل چلاکرتاندلیاوالہ دودھ بیچنے جاتاتھا۔
دودھ فروخت کرنے سے جوپیسے ملتے تھے،وہ اپنے والدکو دیتا تھا۔ گھرکاگزارا مشکل سے ہوتاتھا۔ تنگدستی کی بدولت وہ صرف میٹرک تک پڑھ سکا۔ایک دن گھرسے ناراض ہوکر نکلاتو ٹرین میں سوارہوکرکراچی آگیا۔ وہاں بندرگاہ پربطورقلی چار پانچ سال کام کرتارہا۔بندرگاہ پرغیرملکی جہازآتے رہتے تھے۔ اس کی کئی غیرملکی ملاحوں سے دوستی ہوگئی۔ ایک دن اس کے ذہن میں باہرجانے کاخیال آیا۔وہ ایک کارگوشپ میں سوارہوگیا۔اس جہازمیں ایک کینیڈین ملاح اسکاواقف تھا۔ایک ماہ کے مسلسل سفرکے بعدوہ کینیڈاپہنچ گیا۔وہاں اسے بہت محنت بلکہ مشقت کرنی پڑی۔اسے دس سال کاعرصہ لگامگروہ مزدوری کرتارہا۔وہاں سے اس نے اتنا سرمایہ حاصل کرلیاکہ کپڑوں کی تجارت شروع کرسکے۔ تھوڑے عرصے میں اس کاکاروبارچل نکلا۔وہ کوئی چھٹی نہیں کرتاتھا۔
پھراس کے ذہن میںخیال آیاکہ کپڑے بنانے کی فیکٹری لگانی چاہیے۔اس نے پوری دنیاکے ممالک میں انڈونیشیا کو مِل کھولنے کے لیے منتخب کیا۔تھوڑے سے عرصے میں وہ کپڑوں کاکارخانہ لگانے میں کامیاب ہوگیا۔دولت کی دیوی اس پرمہربان ہوگئی۔اس کے کاروبارکاحجم بڑھنے لگا۔اس نے ایک فیکٹری کینیڈامیں بھی لگالی۔پانچ سال کے قلیل عرصے میں وہ ارب پتی ہوگیا۔وہ واپس اپنے گاؤں آیا۔اپنے باپ اورسوتیلی ماں کوساتھ لیااورانھیں کینیڈالے آیا۔اس نے اپنی اس سوتیلی والدہ کی بھی خدمت کی جوبچپن میں اسے مارتی رہتی تھی۔جب میں لیاقت کوملا،اس وقت وہ انتہائی کامیاب تاجر تھا۔اسکابیٹابھی اس کے ہمراہ کام کرتاتھا۔وہ ہروقت اپنے گاؤں کویادکرتارہتاتھا۔میں نے اس سے پوچھاکہ اس کی نظرمیں پاکستان کاسب سے بڑامسئلہ کیا ہے۔
اس کا جواب میرے لیے حیرت انگیزتھا۔وہ کھاناکھاتے ہوئے رک گیا۔کہنے لگاکہ ہماراسب سے بڑاالمیہ یہ ہے کہ ہم شخصی طورپربہت چالاک لوگ ہیں۔ہم ہرکام کوجلدی کرناچاہتے ہیں۔ سیدھے راستے پرچلنے کے بجائے ہرکام شارٹ کٹ سے کرنا چاہتے ہیں۔ لیاقت کے بقول ہماری چالاکی ہماری سب سے بڑی دشمن ہے۔کہنے لگا،جس دن ہم لوگوں نے صحیح کام جائز اورصحیح طریقے سے کرنے کافیصلہ کرلیا،اس دن سے ہماراملک ترقی کی شاہراہ پردوڑناشروع کردیگا۔میرے لیے لیاقت کاتجزیہ بہت مختلف مگرسچ کے بہت نزدیک تھا۔وہ ہرسال اپنے گاؤں آتا ہے۔ لوگوں کی خدمت اورتعلیم کے لیے اس نے بہت کام کیاہے۔ وہ یہ بھی کہتاتھاکہ اگراسے اپنے ملک میں کام کرنے کے مواقع ملیں تووہ کبھی دیارِغیرمیں نہ جائے۔
میں جب اپنے ملکی نظام کی جانب دیکھتاہوں تودکھ اورتکلیف کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا!مجھے کسی سیاست دان پرکوئی یقین نہیں کہ وہ ہمیں اس گرداب سے نکال سکتا ہے۔ مگر جب میں نیویارک کے ان طالبعلم بچوں کی طرف دیکھتاہوں تومجھے اپنے ملک کے مستقبل کے متعلق اطمینان ہونے لگتاہے۔جب میں لیاقت کی طرف دیکھتاہوں تومجھے یہ تسلی ہوجاتی ہے کہ ہم سے زیادہ محنتی لوگ پوری دنیامیں کہیں اورنہیں ہیں!یہی لوگ ہمارامقدربدل سکتے ہیں! مگرپھرکبھی کبھی مجھے ان تمام قابل اورمشقت کرنے والے لوگوں کی موجودگی میں بھی ناکام ہونے کاخدشہ لاحق ہوجاتا ہے۔ مجھے تاندلیاوالہ کے اس اَن پڑھ تاجر کی بات یادآجاتی ہے کہ ہم لوگ چالاک بہت ہیں!
المیہ یہ ہے کہ ہم دنیاکے اکثرممالک میں افغانستان کے ساتھ نتھی ہوچکے ہیں۔امریکی حکام ہرمعاملہ میںAfPakکی اصطلاع استعمال کرتے ہیں۔ہم لوگ دنیامیں ایک پسماندہ ترین قوم کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔جہاں بھی ہماراذکرآتاہے تواقوام عالم کے ذہنوں میں جنگ،سیکیورٹی،عدم برداشت اور مذہبی تشدد پسندی کے الفاظ آجاتے ہیں۔آپ امریکا کو چھوڑیے پورے یورپ میں ہم تمام لوگوں کوایک سرخ دائرے کے حصارمیں محبوس ملک سمجھاجاتاہے۔
امریکا میں پاکستانیوں سے ایک مخصوص رویہ اپنایا جاتا ہے۔ پاکستان سے امریکا کی کوئی براہِ راست فلائٹ نہیں۔ بھارت کے شہریوں کی آؤبھگت کی جاتی ہے۔دہلی سے امریکا تک کاسفربراہِ راست ہے اور کئی فلائٹیں ہیں جو ہندوستان سے چلتی ہیں اور انھیں راستہ میں کسی بھی جگہ چیکنگ کے لیے نہیں رکناپڑتا۔سچ تویہ ہے کہ کوئی بھی ترقی یافتہ ملک ہم پراعتبارکرنے کے لیے تیارنہیں۔
عوام اس رویے کو اپناتے ہیںجو حکمرانوں کا ہوتاہے۔پاکستانی عوام میںبھی آہستہ آہستہ وہ سماجی خرابیاں سرایت کرچکی ہیں جوہمارے حکمرانوں کاشیوہ ہے۔ ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہمارے ملک کے رہنماعام لوگوں سے کوئی تعلق یاواسطہ نہیں رکھناچاہتے۔الیکشن کے نزدیک وقتی ہیجان پیداکرکے وہ لوگوں کوبیوقوف بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔اسی طرح کاایک اَن دیکھا نظام بن چکاہے جسکے تحت آپ وسائل کاسہارالیکرملکی قیادت پرآسانی سے قبضہ کرسکتے ہیں۔لوگوں کا مستقبل اورخوشحالی ہمارے بالائی طبقہ کے لیے بالکل بے معنی ہے۔ہماری اس کمزوری کودنیاکاہرطاقت ور ملک سمجھ چکاہے اوروہ اس سے بھرپورفائدہ اٹھاتے ہیں۔
یہ دوسروں کی کامیابی نہیں بلکہ ہماری ناکامی ہے۔مغربی ممالک میں حکومتی عہدیدارکسی بھی صورت میں لوگوں کے لیے عدم دستیاب نہیں ہوتے۔آپ جب چاہیں،ان سے ملکراپنے مسئلہ کاحل نکال سکتے ہیں۔ان کے حکمرانوں کے دروازے ان کے شہریوں کے جائزمطالبات کے لیے ہردم کھلے ہوئے ہیں۔ مگرہمارے ملک میں اس آسانی اورسہولت کاتصوربھی نہیں کیا جاسکتا۔ہرمقتدرجگہ آپکوایک سے ایک بڑھ کرتکلیف پہنچانے والاانسان نظرآئیگا۔اول توآپ کوکام پڑجائے توکوئی بھی ملنے کوتیارنہیں ہوگا۔اگرآپ کسی طریقہ سے اس تک پہنچ بھی گئے تومطالبات کاایک سیلاب شروع ہوجائیگا۔
جسکے پاس پیسے نہیں ہیں،اسکاکام کم ازکم ہمارے جیسے ملک میں توممکن نہیں۔مجھے یہ عرض کرتے ہوئے افسوس ساہورہاہے کہ ہم لوگ انصاف اورمیرٹ کے اصول پرحکمرانی کرنے میں مکمل ناکام ہوچکے ہیں۔ہماری اس ناکامی کافائدہ ہمارے مخالف ممالک اٹھارہے ہیں۔مخالف کالفظ بھی کیا استعمال کرنا ہم دراصل خوداپنے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ہمارے ہوتے ہوئے ہمیں کسی اوردشمن کی ضرورت نہیں۔بالکل نہیں!
ان تمام مشکلات کے باوجودپاکستان کے اکثرشہری اپنے ملک سے بے انتہامحبت کرتے ہیں۔آپ یقین فرمائیے،میں جب بھی ان پاکستانی شہریوں سے ملتاہوں جو غیرممالک میں رزق کی تلاش میں رہنے پرمجبورہیں،تومجھے امیدکی ایک روشن کرن نظرآنے لگ جاتی ہے۔یہ لندن یا واشنگٹن میں رہتے ہیں مگرذہنی طورپریہ کراچی،فیصل آباد اور اپنے وطن کے مختلف قصبوں میں زندگی گزاررہے ہوتے ہیں۔ ان کے دل ہروقت پاکستان کے لیے تڑپتے ہیں اوریہ جنون کی حد تک اپنے ملک سے عشق کرتے ہیں۔
آپ ان پاکستانی بچوں سے ملیے جنکے والدین باہر ہوتے ہیں یہ بچے انھی ملکوں میں پلے بڑھے ہیں۔یہ بچے جنہوں نے اپناملک دیکھاہی نہیں یابہت کم دیکھاہے،وہ بھی اپنے وطن کی خوشبومحسوس کرتے ہیں۔یہ ہرکرکٹ میچ میں پاکستان کے لیے نعرے لگاتے ہیں۔ اپنے چہروں پرسبزپرچم بناتے ہیں اورسٹیڈیم کوپاکستانی جھنڈوں سے بھردیتے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے مجھے نیویارک جانے کااتفاق ہوا۔وہاں مجھے پاکستانی طالبعلموں سے ملنے کابھی موقعہ ملا۔میں ان کے مثبت رویے اورجوش دیکھ کرحیران رہ گیا۔وہ ہروقت پاکستان سے رابطہ میں رہتے ہیں۔پاکستان کے تمام چینل دیکھتے تھے۔ خبریں سنتے تھے اورمختلف تجزیاتی پروگرام دیکھ کرپریشان ہوجاتے تھے۔میں نے ایک طالبعلم کالاؤنج دیکھا۔اس میں پاکستان کابڑاساجھنڈادیوارپرلگاہواتھا۔مجھے ایسے لگاکہ اصل پاکستانی تویہ ہیں۔ان سے سیکھنے کابہت موقعہ ملا۔سب سے بڑاسبق حب الوطنی کاملا۔ ہمارے ملک کے حقیقی سفیریہی لوگ ہیں۔مگرافسوس کہ ہماراملک ان پڑھے لکھے بچوں کوکوئی معیاری روزگارفراہم نہیں کرتا۔
اس کے باوجودان بچوں کادل اپنے ملک کے لیے دھڑکتاہے۔ان میں سے اکثریت پاکستان جا کر وہاں رہناچاہتی ہے مگرشائدہمارانظام لائق انسانوں کوقبول کرنے سے انکارکرچکاہے۔ہمارانظام اوسط یانچلے درجہ کی صلاحیت رکھنے والے انسان کے لیے بہت موزوں ہے۔ اگرآپ سوچنے کی حِس نہیں رکھتے اور فکر و تدبر سے دورہیں، تو یقین کیجیے کہ آپ پوری دنیامیں ناکام ہونگے مگرپاکستان کے نظام میں آپکی ترقی کے لیے ہرزینہ کھلاملے گا۔
لیاقت بالی میں رہتاہے۔یہ دنیاکی خوبصورت ترین جگہوں میں سے ایک ہے۔ہروقت سیاحوں کی ایک مسلسل قطارہے جویہاں چھٹیاں گزارنے کے لیے ساراسال آتی ہے۔ لیاقت کپڑوں کی ایک فیکٹری کامالک ہے۔اس کے کارخانے میں پانچ سوکے قریب لوگ کام کرتے ہیں۔یہ پاکستانی کمیونٹی میں ایک انتہائی کامیاب شخص گردانا جاتا ہے۔ایک سال پہلے جکارتہ میں اس سے میری طویل نشست ہوئی۔اس کی زندگی کی جدوجہدبہت کھٹن اورمتاثرکن تھی۔وہ تاندلیاوالہ کے نزدیک ایک گاؤں میں رہتاتھا۔اس کی والدہ کاانتقال ہوگیا۔والدنے دوسری شادی کرلی۔لیاقت اس وقت دس سال کاتھا۔ اس کا روزانہ کاکام یہ تھاکہ پانچ میل سائیکل چلاکرتاندلیاوالہ دودھ بیچنے جاتاتھا۔
دودھ فروخت کرنے سے جوپیسے ملتے تھے،وہ اپنے والدکو دیتا تھا۔ گھرکاگزارا مشکل سے ہوتاتھا۔ تنگدستی کی بدولت وہ صرف میٹرک تک پڑھ سکا۔ایک دن گھرسے ناراض ہوکر نکلاتو ٹرین میں سوارہوکرکراچی آگیا۔ وہاں بندرگاہ پربطورقلی چار پانچ سال کام کرتارہا۔بندرگاہ پرغیرملکی جہازآتے رہتے تھے۔ اس کی کئی غیرملکی ملاحوں سے دوستی ہوگئی۔ ایک دن اس کے ذہن میں باہرجانے کاخیال آیا۔وہ ایک کارگوشپ میں سوارہوگیا۔اس جہازمیں ایک کینیڈین ملاح اسکاواقف تھا۔ایک ماہ کے مسلسل سفرکے بعدوہ کینیڈاپہنچ گیا۔وہاں اسے بہت محنت بلکہ مشقت کرنی پڑی۔اسے دس سال کاعرصہ لگامگروہ مزدوری کرتارہا۔وہاں سے اس نے اتنا سرمایہ حاصل کرلیاکہ کپڑوں کی تجارت شروع کرسکے۔ تھوڑے عرصے میں اس کاکاروبارچل نکلا۔وہ کوئی چھٹی نہیں کرتاتھا۔
پھراس کے ذہن میںخیال آیاکہ کپڑے بنانے کی فیکٹری لگانی چاہیے۔اس نے پوری دنیاکے ممالک میں انڈونیشیا کو مِل کھولنے کے لیے منتخب کیا۔تھوڑے سے عرصے میں وہ کپڑوں کاکارخانہ لگانے میں کامیاب ہوگیا۔دولت کی دیوی اس پرمہربان ہوگئی۔اس کے کاروبارکاحجم بڑھنے لگا۔اس نے ایک فیکٹری کینیڈامیں بھی لگالی۔پانچ سال کے قلیل عرصے میں وہ ارب پتی ہوگیا۔وہ واپس اپنے گاؤں آیا۔اپنے باپ اورسوتیلی ماں کوساتھ لیااورانھیں کینیڈالے آیا۔اس نے اپنی اس سوتیلی والدہ کی بھی خدمت کی جوبچپن میں اسے مارتی رہتی تھی۔جب میں لیاقت کوملا،اس وقت وہ انتہائی کامیاب تاجر تھا۔اسکابیٹابھی اس کے ہمراہ کام کرتاتھا۔وہ ہروقت اپنے گاؤں کویادکرتارہتاتھا۔میں نے اس سے پوچھاکہ اس کی نظرمیں پاکستان کاسب سے بڑامسئلہ کیا ہے۔
اس کا جواب میرے لیے حیرت انگیزتھا۔وہ کھاناکھاتے ہوئے رک گیا۔کہنے لگاکہ ہماراسب سے بڑاالمیہ یہ ہے کہ ہم شخصی طورپربہت چالاک لوگ ہیں۔ہم ہرکام کوجلدی کرناچاہتے ہیں۔ سیدھے راستے پرچلنے کے بجائے ہرکام شارٹ کٹ سے کرنا چاہتے ہیں۔ لیاقت کے بقول ہماری چالاکی ہماری سب سے بڑی دشمن ہے۔کہنے لگا،جس دن ہم لوگوں نے صحیح کام جائز اورصحیح طریقے سے کرنے کافیصلہ کرلیا،اس دن سے ہماراملک ترقی کی شاہراہ پردوڑناشروع کردیگا۔میرے لیے لیاقت کاتجزیہ بہت مختلف مگرسچ کے بہت نزدیک تھا۔وہ ہرسال اپنے گاؤں آتا ہے۔ لوگوں کی خدمت اورتعلیم کے لیے اس نے بہت کام کیاہے۔ وہ یہ بھی کہتاتھاکہ اگراسے اپنے ملک میں کام کرنے کے مواقع ملیں تووہ کبھی دیارِغیرمیں نہ جائے۔
میں جب اپنے ملکی نظام کی جانب دیکھتاہوں تودکھ اورتکلیف کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا!مجھے کسی سیاست دان پرکوئی یقین نہیں کہ وہ ہمیں اس گرداب سے نکال سکتا ہے۔ مگر جب میں نیویارک کے ان طالبعلم بچوں کی طرف دیکھتاہوں تومجھے اپنے ملک کے مستقبل کے متعلق اطمینان ہونے لگتاہے۔جب میں لیاقت کی طرف دیکھتاہوں تومجھے یہ تسلی ہوجاتی ہے کہ ہم سے زیادہ محنتی لوگ پوری دنیامیں کہیں اورنہیں ہیں!یہی لوگ ہمارامقدربدل سکتے ہیں! مگرپھرکبھی کبھی مجھے ان تمام قابل اورمشقت کرنے والے لوگوں کی موجودگی میں بھی ناکام ہونے کاخدشہ لاحق ہوجاتا ہے۔ مجھے تاندلیاوالہ کے اس اَن پڑھ تاجر کی بات یادآجاتی ہے کہ ہم لوگ چالاک بہت ہیں!