نیوایئرنائٹ اور کراچی کی محفلیں
وہ کیسٹ کا دور تھا، اور ایک ہٹ کیسٹ ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہوتا تھا،
مجھے امریکا کی ریاست نیوجرسی میں رہتے ہوئے ایک طویل عرصہ ہو گیا ہے۔ یہاں نیو ایئرنائٹ کی تقریبات بڑی دھوم دھام سے ہوتی ہیں، نیوجرسی، پنسلوانیا سے بے شمار لوگ نیو ایئرنائٹ منانے کے لیے نیو یارک جاتے ہیں اور ٹائم اسکوائر پر جمع ہوتے ہیں۔
مجھے اپنے دوستوں کے کئی گھر اب بھی شدت سے یاد آتے ہیں، کراچی کی کئی شخصیتیں اب بھی میں نہیں بھول پایا ہوں جن کے گھر نیو ایئرنائٹ بڑے حسین انداز میں منائی جاتی تھی بڑی یادگار موسیقی کی محفلیں ہوا کرتی تھیں ان میں ایک بیگم کرنل نذیر کا گھر ہوتا تھا۔ بیگم صاحبہ خود بھی اچھا گاتی تھیں، گانا انھوں نے باقاعدہ استاد سے سیکھا ہوا تھا۔ 31 دسمبر کی رات ان کے گھر کی محفل میں کوئی فنکار ایسا نہ تھا جو اس رات ان کے گھر نہ آتا ہو وہ فنکاروں سے بڑی محبت کرتی تھیں اور بڑے بڑے فنکار ان کا دم بھرتے تھے۔
مہدی حسن سے لے کر حبیب ولی محمد تک ان کے گھر کی محفلوں میں شرکت کرتے تھے۔ استاد امراؤ بندو خاں تو ان کے لیے بڑے استاد کا درجہ رکھتے تھے، بیگم کرنل نذیر کے علاوہ بیگم ڈاکٹر جاوید عالم کا گھر بھی نیو ایئرنائٹ کی محفلوں کے لیے بڑا مشہور تھا۔ ان کے شوہر ڈاکٹر جاوید عالم جو ان دنوں عباسی شہید اسپتال کے ایم۔ ایس تھے اور کراچی کے نامور آئی اسپیشلسٹ تھے۔ ڈاکٹر جاوید استاد امیر احمد خان کے باقاعدہ شاگرد بھی تھے۔
کولمبس ہوٹل کے پیچھے ان کا ایک بڑا سا شاندار گھر تھا۔ دونوں میاں بیوی، شعر و ادب اور موسیقی کے دلدادہ تھے۔ جب بھی ان کے گھر میں موسیقی کی محفل ہوتی تھی تو خواتین کو ہاتھوں میں پہننے کے لیے چنبیلی کے پھول دیے جاتے تھے اور ڈرائنگ روم کو خوب سجایا جاتا تھا نیوایئرنائٹ کا پورا پورا اہتمام کیا جاتا تھا۔ ایسا دلکش اہتمام گزشتہ بارہ برس میں نہ میں نے نیویارک کی کسی نیوایئرنائٹ کی محفل میں دیکھا اور نہ ہی نیوجرسی میں کسی کے گھر میں ایسی یادگار شام کا اہتمام کیا گیا۔
ڈاکٹر جاوید عالم کے گھر میں ایسا ہی ایک میوزیکل نائٹ کا اہتمام تھا اور میں ان دنوں لاہور سے ایک ماہ کے لیے کراچی آیا ہوا تھا۔ میں بھی اپنے دوست استاد امیر احمد خان کے ساتھ اس محفل میں موجود تھا اور اتفاق سے میں اس محفل کا کمپیئر بھی تھا۔ موسیقی کی اس محفل کا آغاز میزبان مسز جاوید عالم کی غزل سے کیا گیا اور مجھے بھی سرپرائز ملا کہ استاد امیر احمد خان نے میری ایک غزل بیگم جاوید کو یاد کرائی تھی اور اس محفل میں بیگم جاوید نے محفل موسیقی کا میری غزل سے آغاز کیا تھا جس کا مطلع تھا:
اتنی تو نظر انجان نہ تھی ایسے نہ کبھی بیگانے تھے
منہ پھیر کے ہم سے جاتے ہیں جو پہلے کبھی دیوانے تھے
استاد امیر احمد خان نے غزل کی دھن بھی اچھی کمپوز کی تھی اور بیگم جاوید نے بھی بڑے دلنشیں انداز میں وہ غزل گائی تھی۔ پھر ڈاکٹر جاوید عالم نے بہادر شاہ ظفر کی غزل :
عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
اپنی گمبھیر آواز میں سنائی اور محفل میں جان پڑ گئی۔ جیسے جیسے رات بھیگتی گئی، اس محفل کا رنگ گہرا ہوتا چلا گیا۔ اس محفل میں سنگر تحسین جاوید سے لے کر تاج ملتانی، آصف علی اور جاوید اختر مزاحیہ آرٹسٹوں میں معین اختر سے لے کر اداکار نرالا تک سارے ہی آرٹسٹ باری باری آتے رہے اور جاتے رہے ہیں اس محفل میں تحسین جاوید کو میں نے پہلی بار سنا تھا۔ تحسین جاوید امیر احمد خان کے چھوٹے بھائی وزیر احمد خان کے ساتھ آیا تھا۔
وزیر احمد خان ان دنوں کراچی کے بیشتر نوجوان فنکاروں کا استاد تھا۔ وہ خود بھی ایک اچھا گلوکار اور مزاحیہ فنکار تھا مگر وہ ریڈیو پر بحیثیت میوزیشن کام کرتا تھا اور بہترین مینڈولن بجاتا تھا۔ رات کے تین بجے وزیر احمد خان نے میرے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا، ہمدم بھائی! اب بہت وقت ہو گیا ہے میرے ساتھ نوجوان گلوکار تحسین جاوید ہے۔ ہم دونوں کو ایک دو اور پارٹیوں میں بھی جانا ہے اب آپ پہلے مجھے بلالیں اور پھر میرے بعد ہی تحسین جاوید کو بلائیں تا کہ ہم دونوں یہاں سے فارغ ہو کر ایک اور محفل میں چلے جائیں گے۔ میں نے وزیر احمد خان کا مختصر سا تعارف پیش کرتے ہوئے اسے پرفارمنس کے لیے بلایا۔ اس نے مینڈولن پر انڈین فلم کا گانا: ''مجھ کو اس رات کی تنہائی میں آواز نہ دو' آواز نہ دو... جس کی آواز رُلا دے مجھے وہ ساز نہ دو' وہ ساز نہ دو' بجایا۔
مینڈولن پر یہ دھن وزیر احمد خان نے اتنی مہارت سے پیش کی کہ ساری محفل واہ واہ کر اٹھی۔ اس نے اس کے بعد ایک دھن اور پیش کی اس کے بعد میں نے نوجوان گلوکار تحسین جاوید کو پرفارمنس کے لیے بلایا۔ اس وقت وہ ایک پتلا دبلا بیس اکیس سال کا نوجوان تھا۔ اس کے بشرٹ کے بٹن کھلے ہوئے تھے۔ بال ماتھے پر بکھرے ہوئے تھے اس نے مکیش کے چند خوبصورت گیت سنائے جنھیں ساری محفل نے بہت پسند کیا۔ تحسین جاوید نے آخر میں ایک بلوچی گیت ''وش ملے'' اتنی گھن گرج کے ساتھ سنایا کہ ساری محفل پر وجد طاری ہو گیا۔ اور تحسین جاوید بے تحاشا تالیوں کی گونج میں واپس گیا۔
یہ میری تحسین جاوید سے پہلی ملاقات تھی اور پھر اتفاق سے وہ میری گڈ بکس میں آتا چلا گیا۔ ہماری بہت اچھی دوستی ہو گئی، ان دنوں میں کمرشل پروڈیوسر کی حیثیت سے ریڈیو سے بھی نیٹ ورک پر دو تین پروگرام کر رہا تھا۔ جن میں 'ستاروں کے گیت ، ایک گھر کی کہانی' مینڈولن کی زبانی اور بول بالا پروگرام بھی کرتا تھا۔ میں نے پہلی بار اپنی فلم کے لیے تحسین جاوید سے اس سے ِجنگل بھی گوایا۔
یہ تحسین جاوید کے کیریئر کا پہلا ِجنگل تھا جو سپر ہٹ ہوا تھا۔ اسی دوران سنگر جاوید رامے سے بھی میری دوستی ہو چکی تھی۔ اس نے بھی پہلا جنگل میری ایک بناسپتی گھی کی کمرشل کے لیے گایا تھا اور پھر دونوں سنگرز نے میرے کئی کمرشل سونگ گائے۔ ان دنوں میری شادی کو ایک ماہ سے بھی کم کا عرصہ ہوا تھا کہ عید الاضحی پر ایک انٹر پرائز والوں نے تحسین جاوید کے گائے ہوئے گیتوں پر مشتمل ایک کیسٹ ریلیز کرنا تھا اور عید سے پہلے اس کی ریکارڈنگ مکمل کرنی تھی۔ اس کیسٹ کے سارے گیت مجھے لکھنے تھے اور موسیقار محبوب اشرف تھے۔ انٹرپرائز کے اپنے ریکارڈنگ اسٹوڈیو میں روزانہ میں ایک گیت محبوب اشرف کی بنائی ہوئی دھن پر لکھتا تھا۔
کیسٹ کے بارہ گیت تھے۔ اور میں روزانہ رات دیر تک اسٹوڈیو میں مصروف رہتا تھا کیونکہ گیت کی ریکارڈنگ ختم ہونے کے بعد مجھے فرصت ملتی تھی مجھے لفظ کے درست تلفظ کی طرف بھی توجہ دینی پڑتی تھی اور میری نئی نویلی دلہن گل افروز رات کے تین بجے کبھی چار بجے تک میرا انتظار کرتی رہتی تھی۔ مگر وہ میری بڑی صابر اور اچھی شریک سفر اور شریک زندگی رہی ہے۔ وہ میرے ساتھ زندگی کی دھوپ اور چھاؤں میں قدم ملا کر چلتی رہی ہے۔ وہ ایک شاعر اور فلم رائٹر سے شادی کر کے بڑی خوش رہی ہے اور اس نے کبھی کوئی حرف شکایت زبان پر نہیں آنے دیا۔ اپنی شریک حیات کے لیے ان دنوں میں نے ایک شعر کہا تھا:
زندگی کے راستے میں ہم سفر اچھا ملا
زندگی جھوٹی سہی ساتھی مگر سچا ملا
اور میری شریک حیات کا صبر اور دعائیں تھیں کہ تحسین جاوید کا وہ پہلا کیسٹ سپرہٹ ہو گیا اور اس عید پر ریلیز ہونے والے تمام کیسٹوں میں انٹرپرائز کا میرا لکھا ہوا کیسٹ بازی لے گیا۔ اس کیسٹ کے کئی گیت سپرہٹ ہوئے تھے۔ جنھیں تحسین جاوید ہر فنکشن میں گاتا تھا۔ خاص طور پر یہ گیت :
تنہا ہوں میں میری جاں
تیرا پیار ہے جیون میں ایسے
ہو ساگر میں پانی جیسے
.........
سب کو بھلا کے چھوڑ کے زمانہ' میرے پاس آ جا
کوئی مجھے پیارا ہے' دل کا سہارا ہے
.........
میں نہ چھوڑوں تیرا دامن
چاہے دنیا ہو خفا
.........
تجھ سے پیار بڑھا کے دیوانہ تیرا جاناں
تیری گلی میں آیا' دیوانہ تیرا جاناں
اور خاص طور پر ایک پنجابی گیت:
منڈے ایویں تے نئیں کڑیاں تو ڈر دے
کڑیاں نے جوڈو سکھ لئی
وہ کیسٹ کا دور تھا، اور ایک ہٹ کیسٹ ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہوتا تھا، مگر پاکستان میں رائلٹی دینے کا رواج نہیں ہے۔ نہ کیسٹ والے رائلٹی دیتے ہیں۔ نہ ریڈیو نے کبھی رائلٹی دی اور نہ ہی کبھی فلم اور ٹیلی ویژن والوں نے شاعروں کو ان کے سپر ہٹ گیتوں پر کوئی رائلٹی دی جب کہ ہندوستان میں ہر ادارہ شاعروں کو ان کے ہٹ گیتوں پر رائلٹی دیتا ہے۔ پاکستان میں تو جب مشہور شاعر قتیل شفائی نے ریڈیو کے ذمے داروں سے کہا تھا کہ شاعروں کو بھی گیتوں کی رائلٹی دی جائے تو ان کے گیت ریڈیو سے Ban کر دیے گئے تھے۔ یہ ہے ہمارا آزاد جمہوریہ پاکستان ۔
مجھے اپنے دوستوں کے کئی گھر اب بھی شدت سے یاد آتے ہیں، کراچی کی کئی شخصیتیں اب بھی میں نہیں بھول پایا ہوں جن کے گھر نیو ایئرنائٹ بڑے حسین انداز میں منائی جاتی تھی بڑی یادگار موسیقی کی محفلیں ہوا کرتی تھیں ان میں ایک بیگم کرنل نذیر کا گھر ہوتا تھا۔ بیگم صاحبہ خود بھی اچھا گاتی تھیں، گانا انھوں نے باقاعدہ استاد سے سیکھا ہوا تھا۔ 31 دسمبر کی رات ان کے گھر کی محفل میں کوئی فنکار ایسا نہ تھا جو اس رات ان کے گھر نہ آتا ہو وہ فنکاروں سے بڑی محبت کرتی تھیں اور بڑے بڑے فنکار ان کا دم بھرتے تھے۔
مہدی حسن سے لے کر حبیب ولی محمد تک ان کے گھر کی محفلوں میں شرکت کرتے تھے۔ استاد امراؤ بندو خاں تو ان کے لیے بڑے استاد کا درجہ رکھتے تھے، بیگم کرنل نذیر کے علاوہ بیگم ڈاکٹر جاوید عالم کا گھر بھی نیو ایئرنائٹ کی محفلوں کے لیے بڑا مشہور تھا۔ ان کے شوہر ڈاکٹر جاوید عالم جو ان دنوں عباسی شہید اسپتال کے ایم۔ ایس تھے اور کراچی کے نامور آئی اسپیشلسٹ تھے۔ ڈاکٹر جاوید استاد امیر احمد خان کے باقاعدہ شاگرد بھی تھے۔
کولمبس ہوٹل کے پیچھے ان کا ایک بڑا سا شاندار گھر تھا۔ دونوں میاں بیوی، شعر و ادب اور موسیقی کے دلدادہ تھے۔ جب بھی ان کے گھر میں موسیقی کی محفل ہوتی تھی تو خواتین کو ہاتھوں میں پہننے کے لیے چنبیلی کے پھول دیے جاتے تھے اور ڈرائنگ روم کو خوب سجایا جاتا تھا نیوایئرنائٹ کا پورا پورا اہتمام کیا جاتا تھا۔ ایسا دلکش اہتمام گزشتہ بارہ برس میں نہ میں نے نیویارک کی کسی نیوایئرنائٹ کی محفل میں دیکھا اور نہ ہی نیوجرسی میں کسی کے گھر میں ایسی یادگار شام کا اہتمام کیا گیا۔
ڈاکٹر جاوید عالم کے گھر میں ایسا ہی ایک میوزیکل نائٹ کا اہتمام تھا اور میں ان دنوں لاہور سے ایک ماہ کے لیے کراچی آیا ہوا تھا۔ میں بھی اپنے دوست استاد امیر احمد خان کے ساتھ اس محفل میں موجود تھا اور اتفاق سے میں اس محفل کا کمپیئر بھی تھا۔ موسیقی کی اس محفل کا آغاز میزبان مسز جاوید عالم کی غزل سے کیا گیا اور مجھے بھی سرپرائز ملا کہ استاد امیر احمد خان نے میری ایک غزل بیگم جاوید کو یاد کرائی تھی اور اس محفل میں بیگم جاوید نے محفل موسیقی کا میری غزل سے آغاز کیا تھا جس کا مطلع تھا:
اتنی تو نظر انجان نہ تھی ایسے نہ کبھی بیگانے تھے
منہ پھیر کے ہم سے جاتے ہیں جو پہلے کبھی دیوانے تھے
استاد امیر احمد خان نے غزل کی دھن بھی اچھی کمپوز کی تھی اور بیگم جاوید نے بھی بڑے دلنشیں انداز میں وہ غزل گائی تھی۔ پھر ڈاکٹر جاوید عالم نے بہادر شاہ ظفر کی غزل :
عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
اپنی گمبھیر آواز میں سنائی اور محفل میں جان پڑ گئی۔ جیسے جیسے رات بھیگتی گئی، اس محفل کا رنگ گہرا ہوتا چلا گیا۔ اس محفل میں سنگر تحسین جاوید سے لے کر تاج ملتانی، آصف علی اور جاوید اختر مزاحیہ آرٹسٹوں میں معین اختر سے لے کر اداکار نرالا تک سارے ہی آرٹسٹ باری باری آتے رہے اور جاتے رہے ہیں اس محفل میں تحسین جاوید کو میں نے پہلی بار سنا تھا۔ تحسین جاوید امیر احمد خان کے چھوٹے بھائی وزیر احمد خان کے ساتھ آیا تھا۔
وزیر احمد خان ان دنوں کراچی کے بیشتر نوجوان فنکاروں کا استاد تھا۔ وہ خود بھی ایک اچھا گلوکار اور مزاحیہ فنکار تھا مگر وہ ریڈیو پر بحیثیت میوزیشن کام کرتا تھا اور بہترین مینڈولن بجاتا تھا۔ رات کے تین بجے وزیر احمد خان نے میرے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا، ہمدم بھائی! اب بہت وقت ہو گیا ہے میرے ساتھ نوجوان گلوکار تحسین جاوید ہے۔ ہم دونوں کو ایک دو اور پارٹیوں میں بھی جانا ہے اب آپ پہلے مجھے بلالیں اور پھر میرے بعد ہی تحسین جاوید کو بلائیں تا کہ ہم دونوں یہاں سے فارغ ہو کر ایک اور محفل میں چلے جائیں گے۔ میں نے وزیر احمد خان کا مختصر سا تعارف پیش کرتے ہوئے اسے پرفارمنس کے لیے بلایا۔ اس نے مینڈولن پر انڈین فلم کا گانا: ''مجھ کو اس رات کی تنہائی میں آواز نہ دو' آواز نہ دو... جس کی آواز رُلا دے مجھے وہ ساز نہ دو' وہ ساز نہ دو' بجایا۔
مینڈولن پر یہ دھن وزیر احمد خان نے اتنی مہارت سے پیش کی کہ ساری محفل واہ واہ کر اٹھی۔ اس نے اس کے بعد ایک دھن اور پیش کی اس کے بعد میں نے نوجوان گلوکار تحسین جاوید کو پرفارمنس کے لیے بلایا۔ اس وقت وہ ایک پتلا دبلا بیس اکیس سال کا نوجوان تھا۔ اس کے بشرٹ کے بٹن کھلے ہوئے تھے۔ بال ماتھے پر بکھرے ہوئے تھے اس نے مکیش کے چند خوبصورت گیت سنائے جنھیں ساری محفل نے بہت پسند کیا۔ تحسین جاوید نے آخر میں ایک بلوچی گیت ''وش ملے'' اتنی گھن گرج کے ساتھ سنایا کہ ساری محفل پر وجد طاری ہو گیا۔ اور تحسین جاوید بے تحاشا تالیوں کی گونج میں واپس گیا۔
یہ میری تحسین جاوید سے پہلی ملاقات تھی اور پھر اتفاق سے وہ میری گڈ بکس میں آتا چلا گیا۔ ہماری بہت اچھی دوستی ہو گئی، ان دنوں میں کمرشل پروڈیوسر کی حیثیت سے ریڈیو سے بھی نیٹ ورک پر دو تین پروگرام کر رہا تھا۔ جن میں 'ستاروں کے گیت ، ایک گھر کی کہانی' مینڈولن کی زبانی اور بول بالا پروگرام بھی کرتا تھا۔ میں نے پہلی بار اپنی فلم کے لیے تحسین جاوید سے اس سے ِجنگل بھی گوایا۔
یہ تحسین جاوید کے کیریئر کا پہلا ِجنگل تھا جو سپر ہٹ ہوا تھا۔ اسی دوران سنگر جاوید رامے سے بھی میری دوستی ہو چکی تھی۔ اس نے بھی پہلا جنگل میری ایک بناسپتی گھی کی کمرشل کے لیے گایا تھا اور پھر دونوں سنگرز نے میرے کئی کمرشل سونگ گائے۔ ان دنوں میری شادی کو ایک ماہ سے بھی کم کا عرصہ ہوا تھا کہ عید الاضحی پر ایک انٹر پرائز والوں نے تحسین جاوید کے گائے ہوئے گیتوں پر مشتمل ایک کیسٹ ریلیز کرنا تھا اور عید سے پہلے اس کی ریکارڈنگ مکمل کرنی تھی۔ اس کیسٹ کے سارے گیت مجھے لکھنے تھے اور موسیقار محبوب اشرف تھے۔ انٹرپرائز کے اپنے ریکارڈنگ اسٹوڈیو میں روزانہ میں ایک گیت محبوب اشرف کی بنائی ہوئی دھن پر لکھتا تھا۔
کیسٹ کے بارہ گیت تھے۔ اور میں روزانہ رات دیر تک اسٹوڈیو میں مصروف رہتا تھا کیونکہ گیت کی ریکارڈنگ ختم ہونے کے بعد مجھے فرصت ملتی تھی مجھے لفظ کے درست تلفظ کی طرف بھی توجہ دینی پڑتی تھی اور میری نئی نویلی دلہن گل افروز رات کے تین بجے کبھی چار بجے تک میرا انتظار کرتی رہتی تھی۔ مگر وہ میری بڑی صابر اور اچھی شریک سفر اور شریک زندگی رہی ہے۔ وہ میرے ساتھ زندگی کی دھوپ اور چھاؤں میں قدم ملا کر چلتی رہی ہے۔ وہ ایک شاعر اور فلم رائٹر سے شادی کر کے بڑی خوش رہی ہے اور اس نے کبھی کوئی حرف شکایت زبان پر نہیں آنے دیا۔ اپنی شریک حیات کے لیے ان دنوں میں نے ایک شعر کہا تھا:
زندگی کے راستے میں ہم سفر اچھا ملا
زندگی جھوٹی سہی ساتھی مگر سچا ملا
اور میری شریک حیات کا صبر اور دعائیں تھیں کہ تحسین جاوید کا وہ پہلا کیسٹ سپرہٹ ہو گیا اور اس عید پر ریلیز ہونے والے تمام کیسٹوں میں انٹرپرائز کا میرا لکھا ہوا کیسٹ بازی لے گیا۔ اس کیسٹ کے کئی گیت سپرہٹ ہوئے تھے۔ جنھیں تحسین جاوید ہر فنکشن میں گاتا تھا۔ خاص طور پر یہ گیت :
تنہا ہوں میں میری جاں
تیرا پیار ہے جیون میں ایسے
ہو ساگر میں پانی جیسے
.........
سب کو بھلا کے چھوڑ کے زمانہ' میرے پاس آ جا
کوئی مجھے پیارا ہے' دل کا سہارا ہے
.........
میں نہ چھوڑوں تیرا دامن
چاہے دنیا ہو خفا
.........
تجھ سے پیار بڑھا کے دیوانہ تیرا جاناں
تیری گلی میں آیا' دیوانہ تیرا جاناں
اور خاص طور پر ایک پنجابی گیت:
منڈے ایویں تے نئیں کڑیاں تو ڈر دے
کڑیاں نے جوڈو سکھ لئی
وہ کیسٹ کا دور تھا، اور ایک ہٹ کیسٹ ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہوتا تھا، مگر پاکستان میں رائلٹی دینے کا رواج نہیں ہے۔ نہ کیسٹ والے رائلٹی دیتے ہیں۔ نہ ریڈیو نے کبھی رائلٹی دی اور نہ ہی کبھی فلم اور ٹیلی ویژن والوں نے شاعروں کو ان کے سپر ہٹ گیتوں پر کوئی رائلٹی دی جب کہ ہندوستان میں ہر ادارہ شاعروں کو ان کے ہٹ گیتوں پر رائلٹی دیتا ہے۔ پاکستان میں تو جب مشہور شاعر قتیل شفائی نے ریڈیو کے ذمے داروں سے کہا تھا کہ شاعروں کو بھی گیتوں کی رائلٹی دی جائے تو ان کے گیت ریڈیو سے Ban کر دیے گئے تھے۔ یہ ہے ہمارا آزاد جمہوریہ پاکستان ۔