اقلیت یا محکومیت
مذہب ہمیشہ سے انسان کی روحانی تربیت کا ذریعہ رہا ہے لیکن آج کل اس کو نفرت کا سبب بنایا گیا ہے۔
ہمارے پاس روزگار نہیں۔
ہمیں کام کم ملتا ہے۔
ہمارے لیے اسکول بھی نہیں ہیں۔
روزانہ گھاس کاٹتے ہیں، لیکن ان پیسوں سے گھر نہیں چلتا۔
ہم کھائیں یا بچوں کوکھلائیں؟
غربت کے مارے ہمارے بچوں کو توکوئی یتیم خانے میں بھی نہیں رکھتا۔ یہ چند جملے ہیں جو بظاہر صرف الفاظ کا مجموعہ ہیں لیکن اس میں ہزاروں درد ہیں جوکہ ٹیتلا اورمارو کی آنکھوں سے بھی رواں تھے۔ دکھ اوردرد توکم ہوتے ہی خاص طور پر ان طبقوں کے ہیں جنھیں اقلیت کہا جاتا ہے۔
ہمارے سماجی نظام میں جوغیرمسلم طبقے ہیں وہ اکثر مختلف مسائل میں گھرے ہوتے ہیں۔ یہ سب ملکی آئین کے مطابق ریاست کے شہری ہیں اور ان کو وہ سارے حقوق حاصل ہیں جو دوسرے شہریوں کو حاصل ہیں، لیکن معاشرتی تفریق کے باعث انھیں بہت کم آئینی استحقاق حاصل ہے، حالانکہ ریاست میں رہنے والے سارے طبقے ریاست کی ذمے داری ہیں، ریاست ملکی قوانین کے تحت سب کو حقوق اور سہولیات اور تحفظ دینے کی پابند ہے۔
جب بات نکلتی ہے غیر مسلم طبقوں کی تو صورتحال بہت گمبھیر ہوجاتی ہے۔ غیر مسلم شہری ''اقلیت'' کے لیبل کے نیچے بہت سارے شہری حقوق سے محروم ہوجاتے ہیں۔ ایک کروڑ سے زیادہ آبادی رکھنے والے لوگ معاشرتی استحصال کا شکار ہوکر نمایاں نظر نہیں آتے۔ ان طبقوں کی عورتیں اور بھی زیادہ استحصال کا شکار ہوتی ہیں۔
سماجی رسموں کے مطابق ہر پابندی کا آغاز عورت سے ہوتا ہے۔عورت لباس سے لے کر زندگی گزارنے کے مختلف طور طریقوں میں مذہب اور سماج کی پابند ہوتی ہے۔ جب کہ مرد ان تمام پابندیوں سے مستثنیٰ قرار پا گیا ہے۔جو ہندو عورتیں ہیں ان کے لیے تو آئین میں وراثت کے متعلق کوئی قانون نہیں ہے۔
حالیہ BBC کی ایک رپورٹ کے مطابق لاہور کی ہائی کورٹ میں ایک کیس کی سماعت کے دوران پتا چلا کہ ہندو خواتین کو وراثت میں حصہ نہ دینے کا قانون قیام پاکستان سے پہلے کا ہے جوکہ آج تک چلا آرہا ہے۔ ہندوستان میں یہ 1956 میں ختم کیا جاچکا ہے۔ اگر اس کیس کے وکیل کے بیان کے مطابق 1929 کا یہ ایکٹ ریاستی آئین کے منافی ہے اس لیے یہ کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے۔ ہمارے منتخب نمایندے چاہیں تو ہندو خواتین کی بہتری کے لیے قوانین بن سکتے ہیں۔ غیر مسلم خواتین جب اپنا مذہب تبدیل کرتی ہیں تو وہ بہ رضا و خوشی یا جبراً ہو مسائل کا سامنا عورت ہی کو کرنا ہوتا ہے۔
پاکستان ہندو کونسل کی رپورٹ کے مطابق صرف کراچی میں ہر ماہ 15 سال سے کم عمر لڑکیوں کے اغوا کے واقعات 20 سے زیادہ ہوتے ہیں۔ رنکل، انجلی، آشا، کرن، کاجل کے واقعات رپورٹ ہوئے تھے اور اغوا کے واقعات بھی سامنے آئے۔ کئی لڑکیاں ہیں جن کے نام بھی ظاہر نہیں ہوتے۔ ایک دفعہ گھر چھوڑنے کے بعد زندہ واپس آنا ناممکن بن جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے ان سب کے واقعات کے پیچھے کوئی بڑی مافیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 700 مسیحی لڑکیاں ہر سال اغوا ہوتی ہیں اور مذہب تبدیل کرتی ہیں۔
مذہبی عبادت گاہوں پر حملے بھی غیر مسلم شہریوں کے لیے تکلیف کا باعث ہوتے ہیں۔ ان واقعات کی وجہ سے پورے علاقے کے باسیوں میں خوف اور عدم تحفظ کا احساس جڑ پکڑتا جا رہا ہے۔حیدرآباد میں کالی ماں کے مندر کو آگ لگا دی گئی، ہنومان کے مندر کو توڑا گیا۔ مارچ میں لاڑکانہ کی دھرم شالا کو آگ لگادی گئی۔ 16 مارچ2014 کو لاڑکانہ میں جب ایک نوجوان پر قرآن کے ورق جلانے کا الزام عائد کیا گیا تو مشتعل لوگوں نے پورے شہر میں ہنگامہ بپا کردیا تھا اور ردعمل میں مندر اور دھرم شالا کو جلایا گیا کئی لوگ زخمی ہوئے اور پورے شہر میں پولیس کی گاڑیوں پر بھی پتھراؤ کیا گیا۔
مئی 2014 میں ضلع فیصل آباد کے ایک گاؤں میں احمدیوں کے قبرستان پر حملہ کر کے قبروں کو توڑا گیا اور کتبوں کو نقصان پہنچایا گیا۔ جولائی 2014 میں ہنڈری مسیح جن کا تعلق بلوچستان اسمبلی سے تھا ان کا قتل اپنے محافظ کے ہاتھوں ہوا۔ ان کو گردن میں گولی مار کر ہلاک کردیا گیا۔ اکتوبر 2014 میں میرپورخاص میں ایک احمدی ڈاکٹر کا قتل ہوا۔ لاہور میں احمدیوں کے گھروں کو آگ لگادی گئی۔ کوٹ رادھا کشن میں مسیحی جوڑے کو زندہ جلادیا گیا۔
بدقسمتی سے اس نفرت کی آگ میں ایک معصوم جان بھی چلی گئی جوکہ ابھی ماں کے پیٹ میں تھی۔ اس آگ کی تپش سے وہ بھی محفوظ نہ رہ سکا۔ ان سب واقعات کے بعد عوام میں شدید ردعمل ہوا۔ کئی واقعات کے خلاف سول سوسائٹی کی جانب سے احتجاج بھی کیا گیا، دیکھا جائے تو ہر مسئلے کی بنیاد ایک ہی ہے۔ جیسے ہی ہم ملکی مسائل کے پیچھے سراغ لگانا شروع کرتے ہیں تو نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے ہم ایک ہی نقطے پہ آ کے رکتے ہیں اور وہ ہے ریاست۔ اور ریاست کو چلانے والی سیاست۔ ہر مسئلے کے پیچھے ریاست ہے۔ اب اقلیت کے مسائل بھی سیاسی ہیں۔
ان مسائل کو پیدا کرنا، پھر ان کو حل نہ ہونے دینا اور ان مسائل کے بل بوتے پر سیاسی داؤ پیچ لڑا کر سیاسی کاروبار چمکانا ایک روایت بن چکا ہے۔ عوام جانتے بوجھتے بھی نشانہ بن جاتے ہیں۔بعض اوقات تو سیاسی مخالفین کو نیچا دکھانے کے لیے یا ان کو دباؤ میں لانے کے لیے بھی کھیل کھیلے جاتے ہیں۔ اسی لیے اقلیت محکومیت کا یہاں دوسرا نام ہے۔
آئین میں برابر کے شہری حقوق کے باوجود، خود ہمارا آئین بھی تضاد کا شکار ہے۔ اقلیت سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی شہری سینیٹ کا چیئرمین نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ قانوناً وہ عارضی طور پر ملک کا صدر بن سکتا ہے۔ اقلیتی طبقے سے کوئی بھی صدر نہیں بن سکتا ہے ۔ اس قسم کی پابندیاں بنیادی شہری حقوق کی نفی کرتی ہیں۔ تعلیم کا حق ہونے کے باوجود، ہمارے نصاب میں پرائمری سے لے کر سیکنڈری نظام تک میں اقلیت سے متعلق کوئی مضمون شامل نہیں، کوئی ایسا مضمون نہیں ہے جوکہ تمام مذاہب کے متعلق یکساں معلومات دیتا ہو۔ غریب طبقوں سے تعلق رکھنے والے، جھیل، باگڑی، کولہی، بچے راستوں میں بھیک مانگتے نظر آتے ہیں یا پھر غبارے بیچ رہے ہوتے ہیں۔ وہ اسکولوں میں جانے کی ہمت نہیں کر پاتے ان سے نفرت کا سلوک کیا جاتا ہے۔
عام طور پر غیر مسلم شہری روزگار کے حصول میں بھی ناکامی کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں۔ کچھ غیر مسلم اگر کاروبار کرلیں صاحب حیثیت بن بھی جائیں تو ان کو اغوا کا ڈر رہتا ہے اور غیر مسلم دکاندار اپنی جان بچانے کے لیے باقاعدہ بھتہ ادا کرتے رہتے ہیں۔ یہ لوگ آزادی سے اپنی مذہبی رسومات بھی ادا کرتے ہوئے ڈرتے ہیں حالانکہ آئین مذہبی رسومات ادا کرنے کی آزادی دیتا ہے اور ریاست تحفظ فراہم کرنے کی پابند ہے۔سندھ کے مختلف علاقوں میں اس طرح کے پمفلٹ بانٹے جاتے ہیں جن سے غیر مسلم شہریوں میں بے چینی بڑھ جاتی ہے۔ اس طرح کا مواد مختلف مذہبی طبقوں میں انتشار پھیلانے کا باعث بنتا ہے۔
مذہب ہمیشہ سے انسان کی روحانی تربیت کا ذریعہ رہا ہے لیکن آج کل اس کو نفرت کا سبب بنایا گیا ہے۔ انتہا پسندی کی سوچ نے مذہبی ہم آہنگی کا تصور ختم کرکے رکھ دیا ہے۔ ان مسائل کی وجہ سے مسلم اور غیر مسلم طبقوں میں سماجی رابطے کم ہوگئے ہیں۔ آپس میں میل جول، خوشیاں اور غم ساتھ مل کر منانے کا رجحان بھی کم ہوگیا ہے۔ ہماری آبادی کا بڑا حصہ استحصالی اور تفریقی رویوں کی وجہ سے ناانصافی کو سہہ رہا ہے۔ ہماری ریاست اقلیتوں کو تو تحفظ دینے میں ناکام ہو رہی ہے لیکن جو لوگ ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے ہیں وہ بھی اس آگ کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔ ریاست کا ہر شہری ملک کے لیے سرمایہ ہوتا ہے۔
یہ ریاست کی بدقسمتی ہے کہ اپنے قیمتی سرمایے سے فائدہ حاصل کرنے کے بجائے اسے دوسروں سے برباد کروائے اور ان کو مختلف خانوں میں بانٹ دے۔ شہری یا افراد ریاست کی طاقت ہوتے ہیں۔ افراد کے بغیر ریاست کا تصور ہی نہیں بنتا۔ کامیاب اور مضبوط ریاست اپنے افرادی سرمایے کو صحیح طرح استعمال کرنا جانتی ہے۔ تفریق سے ہمیشہ منطقی نتائج حاصل ہوتے ہیں جمع کرنے سے طاقت بڑھتی ہے مضبوط ریاست کی پہچان اس کا افرادی سرمایہ ہوتا ہے۔ اقلیت ریاست سے الگ نہیں ہے۔ برابر کے شہری حقوق کے حقدار ہیں ان کو الگ سمجھنا بنیادی انسانی حقوق کی انحرافی کے زمرے میں آتا ہے۔
جہاں ہمارے سیاستدان اور ہمارے اسمبلی ممبرز آئین میں مختلف ترامیم کر رہے ہیں وہاں اگر کچھ ترامیم معاشرتی رسموں میں بھی ہوجائیں جوکہ عوامی اتحاد، مذہبی ہم آہنگی اور امن کے قیام کے لیے کچھ مثبت لائحہ عمل طے کریں جوکہ ریاست کی مضبوطی کا باعث بنے اور ہمارے اقلیتی طبقے احساس محکومیت سے نکل کر برابری کی بنیاد پر پرامن زندگی گزار سکیں۔
ہمیں کام کم ملتا ہے۔
ہمارے لیے اسکول بھی نہیں ہیں۔
روزانہ گھاس کاٹتے ہیں، لیکن ان پیسوں سے گھر نہیں چلتا۔
ہم کھائیں یا بچوں کوکھلائیں؟
غربت کے مارے ہمارے بچوں کو توکوئی یتیم خانے میں بھی نہیں رکھتا۔ یہ چند جملے ہیں جو بظاہر صرف الفاظ کا مجموعہ ہیں لیکن اس میں ہزاروں درد ہیں جوکہ ٹیتلا اورمارو کی آنکھوں سے بھی رواں تھے۔ دکھ اوردرد توکم ہوتے ہی خاص طور پر ان طبقوں کے ہیں جنھیں اقلیت کہا جاتا ہے۔
ہمارے سماجی نظام میں جوغیرمسلم طبقے ہیں وہ اکثر مختلف مسائل میں گھرے ہوتے ہیں۔ یہ سب ملکی آئین کے مطابق ریاست کے شہری ہیں اور ان کو وہ سارے حقوق حاصل ہیں جو دوسرے شہریوں کو حاصل ہیں، لیکن معاشرتی تفریق کے باعث انھیں بہت کم آئینی استحقاق حاصل ہے، حالانکہ ریاست میں رہنے والے سارے طبقے ریاست کی ذمے داری ہیں، ریاست ملکی قوانین کے تحت سب کو حقوق اور سہولیات اور تحفظ دینے کی پابند ہے۔
جب بات نکلتی ہے غیر مسلم طبقوں کی تو صورتحال بہت گمبھیر ہوجاتی ہے۔ غیر مسلم شہری ''اقلیت'' کے لیبل کے نیچے بہت سارے شہری حقوق سے محروم ہوجاتے ہیں۔ ایک کروڑ سے زیادہ آبادی رکھنے والے لوگ معاشرتی استحصال کا شکار ہوکر نمایاں نظر نہیں آتے۔ ان طبقوں کی عورتیں اور بھی زیادہ استحصال کا شکار ہوتی ہیں۔
سماجی رسموں کے مطابق ہر پابندی کا آغاز عورت سے ہوتا ہے۔عورت لباس سے لے کر زندگی گزارنے کے مختلف طور طریقوں میں مذہب اور سماج کی پابند ہوتی ہے۔ جب کہ مرد ان تمام پابندیوں سے مستثنیٰ قرار پا گیا ہے۔جو ہندو عورتیں ہیں ان کے لیے تو آئین میں وراثت کے متعلق کوئی قانون نہیں ہے۔
حالیہ BBC کی ایک رپورٹ کے مطابق لاہور کی ہائی کورٹ میں ایک کیس کی سماعت کے دوران پتا چلا کہ ہندو خواتین کو وراثت میں حصہ نہ دینے کا قانون قیام پاکستان سے پہلے کا ہے جوکہ آج تک چلا آرہا ہے۔ ہندوستان میں یہ 1956 میں ختم کیا جاچکا ہے۔ اگر اس کیس کے وکیل کے بیان کے مطابق 1929 کا یہ ایکٹ ریاستی آئین کے منافی ہے اس لیے یہ کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے۔ ہمارے منتخب نمایندے چاہیں تو ہندو خواتین کی بہتری کے لیے قوانین بن سکتے ہیں۔ غیر مسلم خواتین جب اپنا مذہب تبدیل کرتی ہیں تو وہ بہ رضا و خوشی یا جبراً ہو مسائل کا سامنا عورت ہی کو کرنا ہوتا ہے۔
پاکستان ہندو کونسل کی رپورٹ کے مطابق صرف کراچی میں ہر ماہ 15 سال سے کم عمر لڑکیوں کے اغوا کے واقعات 20 سے زیادہ ہوتے ہیں۔ رنکل، انجلی، آشا، کرن، کاجل کے واقعات رپورٹ ہوئے تھے اور اغوا کے واقعات بھی سامنے آئے۔ کئی لڑکیاں ہیں جن کے نام بھی ظاہر نہیں ہوتے۔ ایک دفعہ گھر چھوڑنے کے بعد زندہ واپس آنا ناممکن بن جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے ان سب کے واقعات کے پیچھے کوئی بڑی مافیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 700 مسیحی لڑکیاں ہر سال اغوا ہوتی ہیں اور مذہب تبدیل کرتی ہیں۔
مذہبی عبادت گاہوں پر حملے بھی غیر مسلم شہریوں کے لیے تکلیف کا باعث ہوتے ہیں۔ ان واقعات کی وجہ سے پورے علاقے کے باسیوں میں خوف اور عدم تحفظ کا احساس جڑ پکڑتا جا رہا ہے۔حیدرآباد میں کالی ماں کے مندر کو آگ لگا دی گئی، ہنومان کے مندر کو توڑا گیا۔ مارچ میں لاڑکانہ کی دھرم شالا کو آگ لگادی گئی۔ 16 مارچ2014 کو لاڑکانہ میں جب ایک نوجوان پر قرآن کے ورق جلانے کا الزام عائد کیا گیا تو مشتعل لوگوں نے پورے شہر میں ہنگامہ بپا کردیا تھا اور ردعمل میں مندر اور دھرم شالا کو جلایا گیا کئی لوگ زخمی ہوئے اور پورے شہر میں پولیس کی گاڑیوں پر بھی پتھراؤ کیا گیا۔
مئی 2014 میں ضلع فیصل آباد کے ایک گاؤں میں احمدیوں کے قبرستان پر حملہ کر کے قبروں کو توڑا گیا اور کتبوں کو نقصان پہنچایا گیا۔ جولائی 2014 میں ہنڈری مسیح جن کا تعلق بلوچستان اسمبلی سے تھا ان کا قتل اپنے محافظ کے ہاتھوں ہوا۔ ان کو گردن میں گولی مار کر ہلاک کردیا گیا۔ اکتوبر 2014 میں میرپورخاص میں ایک احمدی ڈاکٹر کا قتل ہوا۔ لاہور میں احمدیوں کے گھروں کو آگ لگادی گئی۔ کوٹ رادھا کشن میں مسیحی جوڑے کو زندہ جلادیا گیا۔
بدقسمتی سے اس نفرت کی آگ میں ایک معصوم جان بھی چلی گئی جوکہ ابھی ماں کے پیٹ میں تھی۔ اس آگ کی تپش سے وہ بھی محفوظ نہ رہ سکا۔ ان سب واقعات کے بعد عوام میں شدید ردعمل ہوا۔ کئی واقعات کے خلاف سول سوسائٹی کی جانب سے احتجاج بھی کیا گیا، دیکھا جائے تو ہر مسئلے کی بنیاد ایک ہی ہے۔ جیسے ہی ہم ملکی مسائل کے پیچھے سراغ لگانا شروع کرتے ہیں تو نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے ہم ایک ہی نقطے پہ آ کے رکتے ہیں اور وہ ہے ریاست۔ اور ریاست کو چلانے والی سیاست۔ ہر مسئلے کے پیچھے ریاست ہے۔ اب اقلیت کے مسائل بھی سیاسی ہیں۔
ان مسائل کو پیدا کرنا، پھر ان کو حل نہ ہونے دینا اور ان مسائل کے بل بوتے پر سیاسی داؤ پیچ لڑا کر سیاسی کاروبار چمکانا ایک روایت بن چکا ہے۔ عوام جانتے بوجھتے بھی نشانہ بن جاتے ہیں۔بعض اوقات تو سیاسی مخالفین کو نیچا دکھانے کے لیے یا ان کو دباؤ میں لانے کے لیے بھی کھیل کھیلے جاتے ہیں۔ اسی لیے اقلیت محکومیت کا یہاں دوسرا نام ہے۔
آئین میں برابر کے شہری حقوق کے باوجود، خود ہمارا آئین بھی تضاد کا شکار ہے۔ اقلیت سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی شہری سینیٹ کا چیئرمین نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ قانوناً وہ عارضی طور پر ملک کا صدر بن سکتا ہے۔ اقلیتی طبقے سے کوئی بھی صدر نہیں بن سکتا ہے ۔ اس قسم کی پابندیاں بنیادی شہری حقوق کی نفی کرتی ہیں۔ تعلیم کا حق ہونے کے باوجود، ہمارے نصاب میں پرائمری سے لے کر سیکنڈری نظام تک میں اقلیت سے متعلق کوئی مضمون شامل نہیں، کوئی ایسا مضمون نہیں ہے جوکہ تمام مذاہب کے متعلق یکساں معلومات دیتا ہو۔ غریب طبقوں سے تعلق رکھنے والے، جھیل، باگڑی، کولہی، بچے راستوں میں بھیک مانگتے نظر آتے ہیں یا پھر غبارے بیچ رہے ہوتے ہیں۔ وہ اسکولوں میں جانے کی ہمت نہیں کر پاتے ان سے نفرت کا سلوک کیا جاتا ہے۔
عام طور پر غیر مسلم شہری روزگار کے حصول میں بھی ناکامی کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں۔ کچھ غیر مسلم اگر کاروبار کرلیں صاحب حیثیت بن بھی جائیں تو ان کو اغوا کا ڈر رہتا ہے اور غیر مسلم دکاندار اپنی جان بچانے کے لیے باقاعدہ بھتہ ادا کرتے رہتے ہیں۔ یہ لوگ آزادی سے اپنی مذہبی رسومات بھی ادا کرتے ہوئے ڈرتے ہیں حالانکہ آئین مذہبی رسومات ادا کرنے کی آزادی دیتا ہے اور ریاست تحفظ فراہم کرنے کی پابند ہے۔سندھ کے مختلف علاقوں میں اس طرح کے پمفلٹ بانٹے جاتے ہیں جن سے غیر مسلم شہریوں میں بے چینی بڑھ جاتی ہے۔ اس طرح کا مواد مختلف مذہبی طبقوں میں انتشار پھیلانے کا باعث بنتا ہے۔
مذہب ہمیشہ سے انسان کی روحانی تربیت کا ذریعہ رہا ہے لیکن آج کل اس کو نفرت کا سبب بنایا گیا ہے۔ انتہا پسندی کی سوچ نے مذہبی ہم آہنگی کا تصور ختم کرکے رکھ دیا ہے۔ ان مسائل کی وجہ سے مسلم اور غیر مسلم طبقوں میں سماجی رابطے کم ہوگئے ہیں۔ آپس میں میل جول، خوشیاں اور غم ساتھ مل کر منانے کا رجحان بھی کم ہوگیا ہے۔ ہماری آبادی کا بڑا حصہ استحصالی اور تفریقی رویوں کی وجہ سے ناانصافی کو سہہ رہا ہے۔ ہماری ریاست اقلیتوں کو تو تحفظ دینے میں ناکام ہو رہی ہے لیکن جو لوگ ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے ہیں وہ بھی اس آگ کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔ ریاست کا ہر شہری ملک کے لیے سرمایہ ہوتا ہے۔
یہ ریاست کی بدقسمتی ہے کہ اپنے قیمتی سرمایے سے فائدہ حاصل کرنے کے بجائے اسے دوسروں سے برباد کروائے اور ان کو مختلف خانوں میں بانٹ دے۔ شہری یا افراد ریاست کی طاقت ہوتے ہیں۔ افراد کے بغیر ریاست کا تصور ہی نہیں بنتا۔ کامیاب اور مضبوط ریاست اپنے افرادی سرمایے کو صحیح طرح استعمال کرنا جانتی ہے۔ تفریق سے ہمیشہ منطقی نتائج حاصل ہوتے ہیں جمع کرنے سے طاقت بڑھتی ہے مضبوط ریاست کی پہچان اس کا افرادی سرمایہ ہوتا ہے۔ اقلیت ریاست سے الگ نہیں ہے۔ برابر کے شہری حقوق کے حقدار ہیں ان کو الگ سمجھنا بنیادی انسانی حقوق کی انحرافی کے زمرے میں آتا ہے۔
جہاں ہمارے سیاستدان اور ہمارے اسمبلی ممبرز آئین میں مختلف ترامیم کر رہے ہیں وہاں اگر کچھ ترامیم معاشرتی رسموں میں بھی ہوجائیں جوکہ عوامی اتحاد، مذہبی ہم آہنگی اور امن کے قیام کے لیے کچھ مثبت لائحہ عمل طے کریں جوکہ ریاست کی مضبوطی کا باعث بنے اور ہمارے اقلیتی طبقے احساس محکومیت سے نکل کر برابری کی بنیاد پر پرامن زندگی گزار سکیں۔