تصویر کدہ تاریخ ٹھہر گئی

گھڑیاں محض زمین پر بیتتے وقت کی پیمائش کے لیے ہی نہیں بنائی گئیں

گھڑیاں محض زمین پر بیتتے وقت کی پیمائش کے لیے ہی نہیں بنائی گئیں۔ فوٹو: فائل

گھڑیاں محض زمین پر بیتتے وقت کی پیمائش کے لیے ہی نہیں بنائی گئیں، بلکہ اَجرام فلکی، جیسے سورج، چاند اور دیگر سیاروں اور ستاروں کے مقام اور محل وقوع کا تعین اور آیندہ کی پیش بینی کے لیے پراگ (چیک ریپبلک) میں 1410ء عیسوی کو نصب کی گئی، اس کا شمار دنیا کی قدیم ترین astronomical clock ہے، جو چھے سو برس بعد بھی اب تک درست حالت میں کام کر رہی ہے۔



زندگی جیسی آج ہے پہلی نہ تھی، اور مستقبل میں بھی ایسی نہ ہوگی، جیسی آج ہے۔ ''ثبات ایک تغیر زمانے کو ہے'' کہ مصداق دنیا کا ارتقائی سفر جاری وساری ہے۔ سوچوں کے دھارے ایک لامحدود دائرے میں سفر کرتے چلے جا رہے ہیں اور انسان انہی خیالوں میں اَن دیکھی چیزوں کو مسلسل حقیقت کا روپ دیے جا رہا ہے۔ ہر لمحہ بیتتے پَلوں کا حساب رکھنے کے واسطے انسان نے گھڑی ایجاد کی۔۔۔ سترہویں صدی میں پینڈولم کی ایجاد کے بعد یہ سفر انیسویں صدی کے آخر میں دستی گھڑی تک پہنچا۔۔۔ مگر اس وقت تک اس میں ''الارم'' کی سہولت نہ تھی۔ ابھی یہ خیال حقیقت سے دور تھا کہ ایک ایسی گھڑی ہو جو طے کیے ہوئے وقت پر گھنٹی بجا دے، چناں چہ لوگوں کو وقت پر جگانے کے لیے یورپ کے مختلف ممالک میں knocker-ups ہوتے تھے، جو مقررہ وقت پر ایک چھڑی کی مدد سے دستک دے کر جگاتے تھے۔ یہ منظر 1900ء کے زمانے کا ہے، جس میں دستک دینے والا بالائی منزل کی کھڑکی کے لیے ایک طویل چھڑی استعمال کر رہا ہے۔



مسلمان دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی یہ تاریخی تصویر اس وقت کی ہے، جب وہ ایک فوجی عدالت میں پیش ہوئیں۔ سیاست عجیب اتفاقات اور عجائبات کا کھیل ہے، کبھی اقتدار کا ہما سر پر بیٹھ جاتا ہے، تو یہ فیصلہ سازی میں نمایاں ہو جاتا ہے اور کبھی اس پر کوئی منصف بن کر فیصلہ کرنے لگتا ہے اور پاکستان کی تاریخ میں اقتدار سے کال کوٹھری، ملک بدری اور جان سے گزرنے کے احوال خاصے نمایاں ہیں۔




ایک بچی کی اسکول جانے کی تصویر۔۔۔ اس منظر کو تاریخ ساز بنانے کی وجہ یہ ہے کہ یہ امریکا کی تاریخ کی پہلی سیاہ فام بچی ہے جو گوروں کے اسکول تک رسائی حاصل کرنے میں کام یاب ہوسکی ہے۔ Ruby Bridges نامی یہ بچی لوزینا William Frantz Elementary Schoolاسکول کی طالبہ بنی۔ 1960ء میں جب چھے سالہ روبی کو گوروں کے اسکول میں داخلہ دیا گیا تو تمام اساتذہ نے انہیں پڑھانے سے انکار کردیا اور والدین نے بھی اپنے بچوں کو اسکول سے نکال لیا۔ ایسے میں Barbara Henry واحد استاد تھیں، جنہوں نے ڈٹ جانے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت جب لوگوں میں اس اقدام پر شدید اشتعال پایا جاتا تھا، روبی کی حفاظت کے لیے تین امریکی مارشل بھی موجود ہیں۔



یہ تصویر پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے درمیانی عرصے کی ہے، جب جاپان کے ایک فوجی اسکول کے طلبہ نے گیس ماسک پہن کر جاپانی دارالحکومت میں پریڈ کی، تاکہ دوران جنگ جاپانی شہروں پر ممکنہ گیس بم حملوں کی صورت میں بچاؤ کے لیے شعور اجاگر کیا جا سکے۔ یہ منظر جاپان کے حکم رانوں کا شہری دفاع کے حوالے سے دوراندیشانہ سوچ کا عکاس ہے، 1930ء کے عشرے میں جاپانی شہروں پر ایسے حملوں کے خدشات پائے جاتے تھے، اس اقدام کا مقصد بھی یہی تھا کہ گیس بموں کے حملوں میں زہریلے ماحول سے شہریوں کی جان بچائی جا سکے۔



انیسویں صدی کے اوائل میں ایک انگریز انجینئرGeorge Cayley نے گاڑی میں سوار مسافروں کے تحفظ کے لیے ''حفاظتی بند'' ایجاد کیا تھا، لیکن اس میں مزید بہتری کی ضرورت تھی۔ 1959ء میں نیلس بوہلین Nils Bohlin نے ''تھری پوائنٹ سیٹ بیلٹ'' وضع کی اور گاڑیاں بنانے والے تمام اداروں کو کھلی اجازت دی کہ وہ اسے تیار کر سکتے ہیں۔ زیرنظر تصویر میں نیلس بوہلین اپنی سیٹ بیلٹ کے ساتھ موجود ہیں۔

Load Next Story