مذہبی اقلیتیں زمینی حقائق حصہ اول
الیکشن کمیشن کے مطابق پاکستان میں غیر مسلم 28لاکھ ووٹرز میں یہودی بھی شامل ہیں۔
مسیحی عوام پاکستان کی سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہیں، 2008 میں پاکستان میں مسیحی شہریوں کی تعدادکم از کم 20 لاکھ یا کل آبادی کا 1.1فیصد تھی ، ماضی میں پنجاب میں ایک پیدائشی ریکارڈ کے مطابق مسیحی شہریوں کی تعداد28 لاکھ تھی ۔پاکستان کے 90فیصد سے زائد مسیحی صوبہ پنجاب میں رہائش پذیر ہیں اور اس صوبے سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہیں اور ان میں سے60 فیصد دیہات میں رہتے ہیں ان کی اکثریت مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ طویل عرصے سے مقیم ہیں ۔
الیکشن کمیشن کے مطابق پاکستان میں غیر مسلم 28لاکھ ووٹرز میں یہودی بھی شامل ہیں۔یہودی حق رائے شماری میں حصہ لیتے ہیں الیکشن کمیشن کے مطابق800 یہودیوں کے ووٹ رجسٹرڈ ہیں جن میں 427خواتین 382مرد ووٹرز شامل ہیں۔ملک میں مجموعی طور پر8کروڑ 57 لاکھ 38ہزار789ووٹرز ہیں جن میں غیر مسلم ووٹرزکی کل تعداد27لاکھ 70ہزار ہے۔ملک بھر کے 96 اضلاع میں غیر مسلم ووٹرز آباد ہیں جب کہ صوبہ سندھ کے13اضلاع میں سے عمرکوٹ اور تھرپارکرکے دو ایسے اضلاع ہیں جہاں غیر مسلم ووٹرزکی بہت بڑی تعداد موجود ہے۔
عمرکوٹ میں غیر مسلم ووٹرز کی تعداد 49فیصد جب کہ تھرپارکر میں یہ تعداد46فیصد ہے۔کمیشن کے مطابق سندھ کے دوسرے اضلاع میں غیر مسلم ووٹرز کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ان اضلاع میں میرپورخاص، ٹنڈواللہ یار، بدین ، سانگھڑ، ٹنڈومحمد خان،میٹاری،گھوٹکی،جامشورو،کشمور،حیدرآباد اورکراچی شامل ہیں۔
پنجاب کے دو اضلاع لاہور اور چینوٹ میں بھی غیر مسلم ووٹرز خاصی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ کمیشن کے مطابق غیر مسلم ووٹرز میں 14لاکھ 40ہزار ہندو، 12لاکھ38ہزار عیسائی،ایک لاکھ15ہزار 966قادیانی(احمدی)، 5934سکھ ،3ہزار650پارسی اورایک ہزار452بدھ مت کے پیروکار اور باقی دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے ووٹرز ہیں۔سندھ کا ضلع عمرکوٹ سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے ،جہاں 49فیصد ووٹرز غیر مسلم ہیں ، یہاں غیر مسلم ووٹرز کی مجموعی تعداد ایک لاکھ 79ہزار 501ہے۔خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق'' پاکستان میں تمام اقلیتیں بشمول ہندو، مسیحی،احمدی (قادیانی) حتی کہ مسلمان شیعہ کیمونٹی بھی ان حملوں سے متاثر ہو رہی ہیں،جب کہ ریاست اس تشدد کو رکوانے میں مکمل بے بس اور ناکام دکھائی دیتی ہے بلکہ کسی حد تک ان واقعات پر کوئی نوٹس نہ لے کر وہ انھیں شہ دے رہی ہے۔''
امریکی کمیشن برائے مذہبی آزادی نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں پاکستان کو ماضی کے مقابلے میں مزید نچلے درجے پر رکھا ہے ۔ اس میں کہا گیا ہے کہ'' اسلام آباد حکومت ملک میں موجود اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے اور ان واقعات میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے میں ناکام رہی ہے۔'' پتن نامی ایک غیر سرکاری تنظیم کی جانب سے ایک رپورٹ جاری کی گئی اس رپورٹ کے مطابق ملک میں توہین مذہب کے قانون کو عام طور سیاسی و معاشرتی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
پتن کے کوآرڈینیٹر سرور باری کے مطابق'' یہ سروے صوبہ پنجاب کے شہروں لاہور،ملتان اورٖفیصل آباد میں نومبر تا دسمبر 2014 منعقد کیا گیا اس میں بارہ سو افراد نے حصہ لیا ان افراد میں تیس فیصدمختلف اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے جب کہ دیگر افراد میں اعلی حکومت و سرکاری عہدیدار، جج ،وکلا ء اور سول سوسائٹی کے اراکین شامل تھے۔''
سروے کے شرکا کے مطابق خواتین کے ساتھ سلوک کے معاملے میں مسلم اکثریت اور غیرمسلم اقلیتیں دونوں ہی ایک سی ہیں اور خواتین کو اپنے خاندانوں اور معاشرے میں مختلف طرح کے دباؤ کا سامنا پڑتا ہے ۔ پاکستان میں مختلف اقلیتوں کے تحفظ کے لیے حکومت کی جانب سے کیا اقدامات کیے جاتے ہیں اس کی مثال ان کے تہواروں کی سیکیورٹی کے حوالے سے دیکھی جا سکتی ہے لیکن یہاں اس بات سے انکار نہیں ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہوتی ہوگی ،لیکن ایک خاص پروپیگنڈے کے تحت پاکستان میں اقلیتوں کے حوالے سے ان خدشات کا اظہار کیا جاتا ہے کہ جیسے اقلیتوں پر پاکستان کی سرزمین تنگ کردی گئی ہو۔
''پارسی ہونا کراچی ائیر پورٹ پر بڑا کام آتا ہے، چیک پوائنٹ پر وہ اکثر ہمارا نام دیکھ کر کہتے ہیں انھیں جانے دو ، یہ لوگ ٹھیک ہیں۔''یہ بات چھپن سالہ ارناب لک دوالا نے مسکراتے ہوئے کہی ، یہ لوگ کراچی کی پارسی کالونی میں رہتے ہیں جو شہر کا ایک صاف ستھرا چھوٹا سا علاقہ ہے۔' شیریں ملک دوالا ' تیراسی سالہ پارسی خاتون کہتی ہیں کہ ''جب ہم خریداری کو نکلتے ہیں تو دکانوں میں ہمارے ساتھ تھوڑا بہت ترجیحی سلوک ضرور ہوتا ہے ، سب جانتے ہیں کہ پارسی ایماندار اور محنتی لوگ ہیں۔'' تقسیم ہند کے وقت شیریں بھارت سے پاکستان ہجرت کرکے آئیں، ان کے شوہر بینک سے وابستہ تھے ۔
ان کے مطابق جب وہ بھارت سے روانہ ہوئیں تو انھیں بڑا ڈرایا گیا لیکن وہ یہاں خود غیر محفوظ نہیں سمجھتیں۔ان کا ماننا ہے کہ ''میرا یہاں سے جانے کا کوئی ارادہ نہیں یہی میرا گھر ہے اور ہمیشہ رہے گا ، لوگ اگر جانا چاہتے ہیں تو صرف لاقانونیت اور بد نظمی کی وجہ سے ، یہ شاندار جگہ ہے۔'' مبارک گاؤں میں ' ذکری' آباد ہیں ۔ یہ گاؤں کراچی سے دو گھنٹے کے فاصلے پر سندھ اور بلوچستان کی سرحد پر واقع ہے۔عام طور پر ذکری کو غیر مسلم سمجھا جاتا ہے لیکن مردم شماری میں انھیں مذہبی اقلیت کے زمرے میں نہیں رکھا جاتا۔'ذکری' خود کو مسلم ذکری کہلانا پسند کرتے ہیں۔مبارک گاؤںمیں 'ذکری' آباد ہیں ، ماسٹر ستار کے پردادا بلوچستان سے ہجرت کرکے یہاں آگئے تھے ، باقی آبادی بھی بلوچوں کی ہے ، یہ لوگ ذکری کہلائے جاتے ہیں کیونکہ ان کے مطابق ان پر فرض ہے کہ مسلسل اللہ کے اسما کا ورد کرتے رہیں ۔
ایک مہدی کے ماننے والے ہیں جنہوںنے سولہویں صدی میں تربت کے نزدیک کوہ مراد پر ظہورکیا تھا ، ہر سال ظہور مہدی کی یاد میں ذکریوں کا بہت بڑا اجتماع ہوتا ہے ۔مبارک گاؤں کے یہی مقامی شخص خدا گنج کہتا ہے کہ'' ریاست چونکہ بلوچ کا کوئی خیال نہیں رکھتی اس لیے مبارک گاؤں کے ذکری بد حال ہیں ۔'' وہ بلوچی بولتے ہیں اس لیے انھیں نظر انداز کیا جاتا ہے، کراچی سے یہاں تک جو پکی سڑک بنی ہے وہ صرف اس لیے کہ قبضہ گروپ کو زمین کی زیادہ قیمت مل سکے۔''سردار نت سنگھ موجودہ عمر ستاسی سال ، تھی 1947 کے بعد یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا کہ سکھ خاندان ہجرت کرکے پاکستان آباد ہوا۔یہ ایک متمول مشترکہ گھرانہ ہے ان کے چار بیٹے اور متعدد پوتے پوتیاں ہیں وہ ایک اوسط طبقے کے محلے میں اپنے کشادہ گھر میں رہتے ہیں ۔
سب بیٹے اپنا اپنا کاروبار کرتے ہیں ، ان میں سے ایک منتخب کونسلر اور ایک ڈسٹرکٹ اسمبلی کا رکن رہ چکا ہے ، اس کے خاندان کے پوتے پوتیاں ، کاروں میں آتے جاتے ہیں اور نجی اسکولوں اور کالجوں میں پڑھتے ہیں۔سردار سنت سنگھ اورکزئی ایجنسی کے چھوٹے سے گاؤں میں رہتا تھا۔کھیتی باڑی سے آمدنی زیادہ نہیں ہوتی تھی اس لیے اس نے کریانے کی دکان کے ساتھ درزی کی دکان بھی کھول رکھی تھی ، بڑے شہر آنے کے فیصلے کے بعد اس کی زندگی بدل گئی۔پاکستان میں دیگر اقلیتوں کی طرح سکھوں کے لیے بھی گنجائش ہے کہ وہ پولیس اور فوج میں بھرتی ہوسکتے ہیں اورکاروبار کے لحاظ سے ہمارا مشاہدہ ہے کہ غیر مسلم کا کاروبارکرنا کوئی عجوبہ نہیں ہے۔
طالبان کی شورش کی وجہ سے باجوڑ اور مالاکنڈ میں سکھوں کی جان و مال کی حفاظت اور انھیں محفوظ مقامات تک پہنچانے میں حکومت نے مستعدی کا ثبوت دیا ۔لاہور میں بارہ سکھ خاندان آباد ہیں ان کا کہنا ہے کہ وہ خود کو الگ تھلگ محسوس نہیں کرتے ، مسلمان پڑوسی اور ساتھی کاروباری ہمیں شادیوں اور مذہبی تقریبات پر مدعوکرتے ہیں اور اپنے جیسا سمجھتے ہیں، بشن سنگھ کا بیٹا ترلوک کہتا ہے کہ'' یہ ہمارا شہر ہے،میرا خیال نہیں کہ دنیا کے کسی بھی شہر میں مجھے لاہور جتنا چین نصیب ہوسکتا ہے۔''
(جاری ہے )
الیکشن کمیشن کے مطابق پاکستان میں غیر مسلم 28لاکھ ووٹرز میں یہودی بھی شامل ہیں۔یہودی حق رائے شماری میں حصہ لیتے ہیں الیکشن کمیشن کے مطابق800 یہودیوں کے ووٹ رجسٹرڈ ہیں جن میں 427خواتین 382مرد ووٹرز شامل ہیں۔ملک میں مجموعی طور پر8کروڑ 57 لاکھ 38ہزار789ووٹرز ہیں جن میں غیر مسلم ووٹرزکی کل تعداد27لاکھ 70ہزار ہے۔ملک بھر کے 96 اضلاع میں غیر مسلم ووٹرز آباد ہیں جب کہ صوبہ سندھ کے13اضلاع میں سے عمرکوٹ اور تھرپارکرکے دو ایسے اضلاع ہیں جہاں غیر مسلم ووٹرزکی بہت بڑی تعداد موجود ہے۔
عمرکوٹ میں غیر مسلم ووٹرز کی تعداد 49فیصد جب کہ تھرپارکر میں یہ تعداد46فیصد ہے۔کمیشن کے مطابق سندھ کے دوسرے اضلاع میں غیر مسلم ووٹرز کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ان اضلاع میں میرپورخاص، ٹنڈواللہ یار، بدین ، سانگھڑ، ٹنڈومحمد خان،میٹاری،گھوٹکی،جامشورو،کشمور،حیدرآباد اورکراچی شامل ہیں۔
پنجاب کے دو اضلاع لاہور اور چینوٹ میں بھی غیر مسلم ووٹرز خاصی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ کمیشن کے مطابق غیر مسلم ووٹرز میں 14لاکھ 40ہزار ہندو، 12لاکھ38ہزار عیسائی،ایک لاکھ15ہزار 966قادیانی(احمدی)، 5934سکھ ،3ہزار650پارسی اورایک ہزار452بدھ مت کے پیروکار اور باقی دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے ووٹرز ہیں۔سندھ کا ضلع عمرکوٹ سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے ،جہاں 49فیصد ووٹرز غیر مسلم ہیں ، یہاں غیر مسلم ووٹرز کی مجموعی تعداد ایک لاکھ 79ہزار 501ہے۔خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق'' پاکستان میں تمام اقلیتیں بشمول ہندو، مسیحی،احمدی (قادیانی) حتی کہ مسلمان شیعہ کیمونٹی بھی ان حملوں سے متاثر ہو رہی ہیں،جب کہ ریاست اس تشدد کو رکوانے میں مکمل بے بس اور ناکام دکھائی دیتی ہے بلکہ کسی حد تک ان واقعات پر کوئی نوٹس نہ لے کر وہ انھیں شہ دے رہی ہے۔''
امریکی کمیشن برائے مذہبی آزادی نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں پاکستان کو ماضی کے مقابلے میں مزید نچلے درجے پر رکھا ہے ۔ اس میں کہا گیا ہے کہ'' اسلام آباد حکومت ملک میں موجود اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے اور ان واقعات میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے میں ناکام رہی ہے۔'' پتن نامی ایک غیر سرکاری تنظیم کی جانب سے ایک رپورٹ جاری کی گئی اس رپورٹ کے مطابق ملک میں توہین مذہب کے قانون کو عام طور سیاسی و معاشرتی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
پتن کے کوآرڈینیٹر سرور باری کے مطابق'' یہ سروے صوبہ پنجاب کے شہروں لاہور،ملتان اورٖفیصل آباد میں نومبر تا دسمبر 2014 منعقد کیا گیا اس میں بارہ سو افراد نے حصہ لیا ان افراد میں تیس فیصدمختلف اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے جب کہ دیگر افراد میں اعلی حکومت و سرکاری عہدیدار، جج ،وکلا ء اور سول سوسائٹی کے اراکین شامل تھے۔''
سروے کے شرکا کے مطابق خواتین کے ساتھ سلوک کے معاملے میں مسلم اکثریت اور غیرمسلم اقلیتیں دونوں ہی ایک سی ہیں اور خواتین کو اپنے خاندانوں اور معاشرے میں مختلف طرح کے دباؤ کا سامنا پڑتا ہے ۔ پاکستان میں مختلف اقلیتوں کے تحفظ کے لیے حکومت کی جانب سے کیا اقدامات کیے جاتے ہیں اس کی مثال ان کے تہواروں کی سیکیورٹی کے حوالے سے دیکھی جا سکتی ہے لیکن یہاں اس بات سے انکار نہیں ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہوتی ہوگی ،لیکن ایک خاص پروپیگنڈے کے تحت پاکستان میں اقلیتوں کے حوالے سے ان خدشات کا اظہار کیا جاتا ہے کہ جیسے اقلیتوں پر پاکستان کی سرزمین تنگ کردی گئی ہو۔
''پارسی ہونا کراچی ائیر پورٹ پر بڑا کام آتا ہے، چیک پوائنٹ پر وہ اکثر ہمارا نام دیکھ کر کہتے ہیں انھیں جانے دو ، یہ لوگ ٹھیک ہیں۔''یہ بات چھپن سالہ ارناب لک دوالا نے مسکراتے ہوئے کہی ، یہ لوگ کراچی کی پارسی کالونی میں رہتے ہیں جو شہر کا ایک صاف ستھرا چھوٹا سا علاقہ ہے۔' شیریں ملک دوالا ' تیراسی سالہ پارسی خاتون کہتی ہیں کہ ''جب ہم خریداری کو نکلتے ہیں تو دکانوں میں ہمارے ساتھ تھوڑا بہت ترجیحی سلوک ضرور ہوتا ہے ، سب جانتے ہیں کہ پارسی ایماندار اور محنتی لوگ ہیں۔'' تقسیم ہند کے وقت شیریں بھارت سے پاکستان ہجرت کرکے آئیں، ان کے شوہر بینک سے وابستہ تھے ۔
ان کے مطابق جب وہ بھارت سے روانہ ہوئیں تو انھیں بڑا ڈرایا گیا لیکن وہ یہاں خود غیر محفوظ نہیں سمجھتیں۔ان کا ماننا ہے کہ ''میرا یہاں سے جانے کا کوئی ارادہ نہیں یہی میرا گھر ہے اور ہمیشہ رہے گا ، لوگ اگر جانا چاہتے ہیں تو صرف لاقانونیت اور بد نظمی کی وجہ سے ، یہ شاندار جگہ ہے۔'' مبارک گاؤں میں ' ذکری' آباد ہیں ۔ یہ گاؤں کراچی سے دو گھنٹے کے فاصلے پر سندھ اور بلوچستان کی سرحد پر واقع ہے۔عام طور پر ذکری کو غیر مسلم سمجھا جاتا ہے لیکن مردم شماری میں انھیں مذہبی اقلیت کے زمرے میں نہیں رکھا جاتا۔'ذکری' خود کو مسلم ذکری کہلانا پسند کرتے ہیں۔مبارک گاؤںمیں 'ذکری' آباد ہیں ، ماسٹر ستار کے پردادا بلوچستان سے ہجرت کرکے یہاں آگئے تھے ، باقی آبادی بھی بلوچوں کی ہے ، یہ لوگ ذکری کہلائے جاتے ہیں کیونکہ ان کے مطابق ان پر فرض ہے کہ مسلسل اللہ کے اسما کا ورد کرتے رہیں ۔
ایک مہدی کے ماننے والے ہیں جنہوںنے سولہویں صدی میں تربت کے نزدیک کوہ مراد پر ظہورکیا تھا ، ہر سال ظہور مہدی کی یاد میں ذکریوں کا بہت بڑا اجتماع ہوتا ہے ۔مبارک گاؤں کے یہی مقامی شخص خدا گنج کہتا ہے کہ'' ریاست چونکہ بلوچ کا کوئی خیال نہیں رکھتی اس لیے مبارک گاؤں کے ذکری بد حال ہیں ۔'' وہ بلوچی بولتے ہیں اس لیے انھیں نظر انداز کیا جاتا ہے، کراچی سے یہاں تک جو پکی سڑک بنی ہے وہ صرف اس لیے کہ قبضہ گروپ کو زمین کی زیادہ قیمت مل سکے۔''سردار نت سنگھ موجودہ عمر ستاسی سال ، تھی 1947 کے بعد یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا کہ سکھ خاندان ہجرت کرکے پاکستان آباد ہوا۔یہ ایک متمول مشترکہ گھرانہ ہے ان کے چار بیٹے اور متعدد پوتے پوتیاں ہیں وہ ایک اوسط طبقے کے محلے میں اپنے کشادہ گھر میں رہتے ہیں ۔
سب بیٹے اپنا اپنا کاروبار کرتے ہیں ، ان میں سے ایک منتخب کونسلر اور ایک ڈسٹرکٹ اسمبلی کا رکن رہ چکا ہے ، اس کے خاندان کے پوتے پوتیاں ، کاروں میں آتے جاتے ہیں اور نجی اسکولوں اور کالجوں میں پڑھتے ہیں۔سردار سنت سنگھ اورکزئی ایجنسی کے چھوٹے سے گاؤں میں رہتا تھا۔کھیتی باڑی سے آمدنی زیادہ نہیں ہوتی تھی اس لیے اس نے کریانے کی دکان کے ساتھ درزی کی دکان بھی کھول رکھی تھی ، بڑے شہر آنے کے فیصلے کے بعد اس کی زندگی بدل گئی۔پاکستان میں دیگر اقلیتوں کی طرح سکھوں کے لیے بھی گنجائش ہے کہ وہ پولیس اور فوج میں بھرتی ہوسکتے ہیں اورکاروبار کے لحاظ سے ہمارا مشاہدہ ہے کہ غیر مسلم کا کاروبارکرنا کوئی عجوبہ نہیں ہے۔
طالبان کی شورش کی وجہ سے باجوڑ اور مالاکنڈ میں سکھوں کی جان و مال کی حفاظت اور انھیں محفوظ مقامات تک پہنچانے میں حکومت نے مستعدی کا ثبوت دیا ۔لاہور میں بارہ سکھ خاندان آباد ہیں ان کا کہنا ہے کہ وہ خود کو الگ تھلگ محسوس نہیں کرتے ، مسلمان پڑوسی اور ساتھی کاروباری ہمیں شادیوں اور مذہبی تقریبات پر مدعوکرتے ہیں اور اپنے جیسا سمجھتے ہیں، بشن سنگھ کا بیٹا ترلوک کہتا ہے کہ'' یہ ہمارا شہر ہے،میرا خیال نہیں کہ دنیا کے کسی بھی شہر میں مجھے لاہور جتنا چین نصیب ہوسکتا ہے۔''
(جاری ہے )