ظلم و جبر

’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘ (الحدیث)

اسلام مکمل ضابطۂ حیات ہے اور اس میں افراد کے بنیادی حقوق کا تحفظ کیا گیا ہے۔ فوٹو : فائل

ظلم اور جبر ایسی خرابیاں ہیں جن کے معاشرے پر بھیانک اثرات مرتب ہوتے ہیں اور معاشرہ عدم توازن کا شکار ہو جاتا ہے۔

ظلم اور جبر کے مختلف روپ کا شکار مختلف طبقات ہوتے ہیں۔ افراتفری اور انتشار کے اس دور میں دینی تعلیمات سے دوری کے باعث اخلاقی قدریں اتنی کم زور پڑ گئی ہیں کہ کسی دوسرے کا حق مارنے اور دوسروں پر ظلم و جبر کرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ ظالم اپنے بھائی کا حق مار کر خود کو حق بجانب سمجھتا ہے اور یہ سمجھ کر جبر کا راستہ اختیار کرتا ہے کہ اگر وہ یہ نہ کرے تو دوسرے اس کے ساتھ یہی معاملہ کریں گے۔ اس سے اس کا حق چھین لیں گے۔ جب معاشرے میں نیکی و بدی کا فرق مٹ جائے اور حق و انصاف سے کام لینے کا رواج ہی باقی نہ رہے تو وہاں حیوانیت راج کرنے لگتی ہے۔

اسلام مکمل ضابطۂ حیات ہے اور اس میں افراد کے بنیادی حقوق کا تحفظ کیا گیا ہے۔ قرآن ظلم اور جبر کی نفی کرتا ہے اور اﷲ تعالیٰ اس میں مبتلا ہونے والوں سے سخت لہجے میں مخاطب ہوتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:''اور اسی طرح تیرے رب کی پکڑ ہے جب وہ بستیوں (والوں) کو پکڑتا ہے، جب کہ وہ ظلم کا ارتکاب کرتی ہیں۔ یقیناً اس کی پکڑ نہایت دردناک ہے۔''

ظلم اور جبر کسی بھی معاشرے کا بااختیار اور طاقت ور طبقہ بھی کرتا ہے اور اس میں بسنے والے عام افراد بھی اپنی حیثیت اور پہنچ کے مطابق یہ کام کر گزرتے ہیں۔ اس کی وجہ دین اور اس کی اخلاقی تعلیمات سے انحراف ہے۔ قرآن کی مذکورہ بالا آیت انہی کے لیے وعید سنا رہی ہے اور سخت لہجے میں ان سے کلام کررہی ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی نظر میں مظلوم کی آہ و زاری بھی بہت اہم ہے اور وہ اس کی داد رسی کرتا ہے اور ان لوگوں کو انعام و اکرام سے نوازتا ہے جو ظلم کا بدلہ لینے کے بجائے اس پر صبر کرتے ہیں اور اپنا معاملہ خدا کے سپرد کردیتے ہیں۔

حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے ارشاد فرمایا:''ظلم کرنے سے بچو، کیوں کہ ظلم روز قیامت اندھیروں کا باعث ہوگا۔ اور بُخل سے بچو، کیوں کہ بُخل ہی نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کیا۔ اسی بخل نے انہیں اپنوں کا خون بہانے اور حرام چیزوں کو حلال سمجھنے پر آمادہ کیا تھا۔'' (صحیح مسلم)

سوچیے کہ کوئی ظلم اور جبر پر کیوں مائل ہوتا ہے؟ اگر ہم عمومی جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ جب انسان کے دل میں دنیا اور دنیاوی مال و اسباب کی محبت حد سے زیادہ بڑھ جاتی ہے تو وہ جائز اور ناجائز میں تفریق کرنے سے محروم ہوتا چلا جاتا ہے۔ تھوڑا بہت اختیار بھی ہو تو موقع ملتے ہی وہ اپنے ہی بھائی کا حق مارتا ہے اور اسے اپنے ظلم کا شکار بناتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مال و دولت دنیاوی ضروریات پوری کرنے کے لیے لازمی ہے اور مال کمانا، اپنی اور اپنے بال بچوں کی ضروریات پوری کرنا ہر اہل ایمان کا فرض ہے، لیکن اسے اپنی محنت اور جستجو سے کسب کر کے حلال مال کمانے کا حکم دیا گیا ہے۔

تاہم جب وہ ضرورت سے زیادہ مال جمع کرنے اور مال دار بننے کی تمنا اپنے اندر بیدار کرلیتا ہے تو پھر ظلم اور جبر کا راستے پر چل پڑتا ہے۔ وہ ہر جائز اور ناجائز کام کرتا ہے جس کے لیے اسے ظلم اور ناانصافی سے بھی کام لینا پڑتا ہے۔ اسی لیے اﷲ اور اس کے رسولﷺ نے مال و زر کی ہوس کو سخت ناپسند کیا ہے، لیکن ہم گھاٹے کا سودا کر کے جہنم کی آگ کو اپنا ٹھکانا بنالیتے ہیں۔ مال و زر کی شدید تر محبت انسان کی آنکھوں پر غفلت اور گم راہی کے گہرے اور دبیز پردے ڈال دیتی ہے اور اس کا سب سے سنگین نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان حرام اور حلال کے درمیان تمیز کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتا ہے۔ یہ ایک ایسی مشکل اور آزمائشی کیفیت ہوتی ہے جہاں انسان اس حد تک پستی میں چلا جاتا ہے کہ وہ حق مارنے، ظلم کرنے سے نہیں رکتا اور بعض صورتوں میں دوسرے انسان کا خون بہانے سے بھی نہیں ہچکچاتا۔

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسول مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:''جس کسی نے کسی کی ایک بالشت برابر زمین ہتھیاکر بھی اس پر ظلم کیا تو اﷲ تعالیٰ کی طر ف سے روز حشر اسے سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا۔'' (صحیح بخاری، صحیح مسلم)

اس حدیث مبارکہ سے واضح طور پر یہ اعلان ہورہا ہے کہ دنیا میں کیے جانے والے بہت معمولی یا تھوڑے سے ظلم کی بھی روز حشر شدید سزا ملے گی اور کسی کا معمولی سا حق مارلینا بھی قیامت والے دن عذاب شدید کا باعث ہوگا۔ بعض لوگ ایسی باتوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ وہ چھوٹی موٹی حق تلفی کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ وہ بعض غلطیوں کو بہت ہی معمولی غلطیاں قرار دیتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اس سے ان کی کیا پکڑ ہوگی۔ انہیں اپنی دولت، دنیاوی شان اور رتبے کا گھمنڈ ہوتا ہے۔

وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی اس دنیاوی حیثیت و شان کی وجہ سے سب کچھ کرسکتے ہیں، کس کی مجال ہے کہ انہیں روک سکے۔ لیکن قرآن اور احادیث کا مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ ایک ذات ایسی موجود ہے جو سب دیکھتی اور جانتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ ظالم کو عذاب دے گا اور مظلوم کو جزا دے گا۔ انہیں اپنے ہر عمل، ہر ظلم کا جواب دینا ہوگا۔ وہ یہ تک نہیں جانتے کہ اگر اﷲ تعالیٰ دنیا میں ان کے ظالمانہ کاموں پر ان کی گرفت نہیں کرتا تو وہ انہیں سنبھلنے کا موقع دیتا ہے۔ انہیں مہلت دیتا ہے کہ وہ خود سری اور بغاوت سے باز آجائیں۔ مگر وہ اس رعایت یا چھوٹ کو اپنی کام یابی سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ ان کے لیے یہ گنجائش ان کی سماجی اور معاشرتی حیثیت کی وجہ سے ہے۔

حضرت ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:''یقیناً اﷲ تعالیٰ ظالم کو مہلت دیتا ہے، لیکن پھر جب اس کی گرفت کرتا ہے تو اسے نہیں چھوڑتا۔''

اﷲ تعالیٰ کا ہر کام حکمت اور دانائی سے بھرپور ہے۔ اس کی مرضی اور مصلحت ظالم اور گناہ گار کو مہلت دیتی ہے کہ وہ سدھر جائے اور راہ راست پر آجائے۔ لیکن ایک وقت ایسا آتا ہے جب اﷲ تعالیٰ ظالم اور جابر کی گرفت فرماتا ہے اور پھر اس سے بچنے کی کوئی صورت نہیں ہوتی۔ اس کی بے شمار مثالیں قرآن، احادیث میں موجود ہیں اور ہم اپنے معاشرے میں بھی دیکھتے ہیں کہ خدا کی لاٹھی کس طرح ظلم کرنے اور حق مارنے والوں کا احتساب کرتی ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:''جس آدمی پر بھی اپنے (مسلمان) بھائی کا اس کی عزت و آبرو سے متعلق کوئی حق ہو (یعنی اس نے مذکورہ مسلمان بھائی کی بے عزتی کرکے یا اس پر کوئی اور زیادتی کرکے اس پر ظلم کیا ہو) تو اسے چاہیے کہ آج ہی (دنیا میں) اس کا ازالہ کرکے اس حق سے آزاد ہوجائے، قبل اس کے کہ وہ دن آجائے جس میں (ازالے کے لیے) کسی کے پاس دینار و درہم نہیں ہوں گے۔ (اور وہاں ازالے کی صورت یہ ہوگی کہ) اگر اس کے پاس عمل صالح ہوں گے تو وہ اس کے ظلم کے بہ قدر لے لیے جائیں گے (اور مظلوموں میں تقسیم کردیے جائیں گے) اور اگر اس کے پاس نیکیاں نہیں ہوں گی تو اس کے ساتھی (صاحب حق) کی برائیاں لے کر اس پر لاد دی جائیں گی۔'' (صحیح بخاری)

اس حدیث مبارکہ سے پتا چلتا ہے کہ اگر دنیا میں کی گئی زیادتیوں کو دنیا میں ہی معاف نہیں کرایا گیا یا ان کی تلافی نہ کی گئی تو آخرت میں اس کا شدید پکڑ ہوگی اور وہاں مظلوم جس نے دنیا میں تکلیف اٹھائی ہو گی اور ظلم کی وجہ سے نقصان میں رہا ہو گا، اﷲ تعالیٰ اس کی تلافی اور ازالے کا بہترین سامان کرے گا۔

بعض لوگ حقوق العباد میں کوتاہی کے مرتکب ہوتے ہیں اور دوسروں کے حق ادا کرنے کی کوئی پروا نہیں کرتے، ایسے لوگ روز قیامت شدید خسارے و عذاب میں مبتلا ہوں گے۔
حضرت عبداﷲ بن عمرو بن عاصؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:''مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔'' (صحیح بخاری ، صحیح مسلم)
اس حدیث میں کامل مسلمان کی تعریف بیان کی گئی ہے، یعنی مکمل مسلمان وہ ہے جو دوسروں کو (ظاہری یا باطنی) کسی بھی قسم کی اذیت و تکلیف نہ دے۔

رحمت عالمﷺ کا ارشاد پاک ہے:''جس نے کسی مسلمان کا حق (جھوٹی) قسم کے ذریعے سے مارلیا (ناحق لے لیا) یقیناً اﷲ نے اس پر جہنم کی آگ واجب اور جنت حرام فرما دی۔''
کسی نے خدمت نبویؐ میں عرض کیا:''اے اﷲ کے رسولؐ! چاہے وہ تھوڑی سی چیز ہو؟ ''
آپؐ نے ارشاد فرمایا:''اگرچہ پیلو کے درخت کی ایک شاخ ہی کیوں نہ ہو۔'' (صحیح مسلم)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک بار رسول مکرم ﷺ نے صحابہ سے مخاطب ہوکر دریافت فرمایا:''کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟''
صحابہؓ نے عرض کیا:''اے اﷲ کے رسولؐ! ہم میں مفلس وہ ہے جس کے پاس نہ تو درہم ہوں اور نہ کوئی سامان!''
یہ جواب سن کر نبی برحقؐ نے ارشاد فرمایا:''(نہیں، بلکہ) میری امت میں سے مفلس وہ شخص ہے جو روز قیامت نماز، روزے اور زکوٰۃ کے ساتھ آئے گا، لیکن وہ اس حال میں ہوگا کہ اس نے کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر بہتان تراشی کی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا اور کسی کو مارا پیٹا ہوگا۔

پس ان (تمام مظلومین) کو اس کی نیکیاں دے دی جائیں گی (تاکہ ان پر کیے گئے ظلم کی تلافی ہوجائے) اگر تمام نیکیاں ختم ہوگئیں تو ان کے گناہ لے کر اس پر ڈال دیے جائیں گے اور پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا، کیوں کہ نیکیوں سے اس کا دامن بالکل خالی ہوجائے گا۔ '' (صحیح مسلم)

اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نماز، روزے کے ساتھ زکوٰۃ کی ادائیگی جیسے فرائض مسلمانوں پر لازم ہیں، لیکن ساتھ ساتھ اخلاقیات کا اہتمام اور دوسروں سے اپنے معاملات کی درستی بھی ضروری ہے۔ وہ شخص کام یاب و کام ران ہوگا جو مذکورہ بالا تمام امور کا خیال رکھے گا، صرف عبادات کی ادائیگی کافی نہیں ہوگی، اس لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ عبادات الٰہیہ کا اہتمام تو پورے خشوع و خضوع کے ساتھ کرے اور ساتھ ہی حقوق العباد کی ادائیگی میں بھی کوئی کوتاہی نہ کرے۔

ہمارا رب ہم سے اسی وقت راضی ہوسکتا ہے جب ہم اس کی مخلوق سے محبت بھی کریں اور اس کے کام بھی آئیں۔ اسی صورت میں پروردگار عالم کی رضا مل سکتی ہے، ورنہ اس کی پکڑ بہت سخت ہے۔ اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بالکل صحیح راستے پر چلنے اور اپنی مخلوق سے محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین
Load Next Story