زندگی کی لائٹ

محب ِوطن اور حُب ِالٰٰہی والے انسان۔

محب ِوطن اور حُب ِالٰٰہی والے انسان۔

مال تقسیم کرتے کرتے کامو اور رمضو نے بیک وقت ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔

دیکھو رمضو! بے ایمانی مت کرو، میرے حصے کی رقم میرے حوالے کردو۔ اس واردات میں چوکیدار کو مَیں نے جھانسا دیا تھا اس لیے میرا حصہ زیادہ بنتا ہے۔ کامو نے پیسے گنتے رمضو سے دوٹوک انداز میں کہا۔ رمضو نے بے زاری سے پیسے کامو کے حوالے کیے اور اٹھ کھڑا ہوا۔

رمضواور کامو دونوں ایک ہی گائوں کے رہنے والے تھے۔ پہلے پہل چھوٹی موٹی وارداتیں ان کا معمول تھیں ۔ رمضو کا باپ کسان تھا اور چاہتا تھا کہ رمضو بھی کھیتوں میں ہل چلائے، بیج بوئے اور فصل اُگائے۔ لیکن رمضو کو یہ سب سخت محنت ومشقت کا کام لگتا تھا۔ ایک مرتبہ اُس کے باپ نے اُسے ماسی برکتے کی کوئی چیز چوری کرتے ہوئے دیکھ لیا تھا اور پھر اُس کی ایسی پٹائی لگائی کہ بس۔۔۔۔ لیکن رمضو سُدھرنے کی بجائے باغی ہوگیا اور اپنے دوست کامو کے ہم راہ گھر سے بھاگ کھڑا ہوا۔ کامو بھی غربت وافلاس سے بے حال، محنت سے جی چُرانے اور راتوں رات امیر ہونے کے خواب دیکھنے والا لڑکا تھا۔ دونوں بھاگ کر شہر آگئے۔

یہاں روزانہ راہ گیروں کے بٹوے نکالنا اور اُن کے موبائل چھِیننا اِن کے بائیں ہاتھ کا کام تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ دونوں نے خاصی ترقی کرلی تھی اور اب باقاعدہ ایک فلیٹ لے کر رہنے لگے تھے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ان کے کام بھی موبائل اور بٹوئوں سے ہٹ کر بینک اور بڑے بڑے کوٹھی بنگلوں میں ڈکیتی تک پہنچ گئی تھی۔

کامو! اپنے کپڑوں کے ساتھ میرے کپڑے بھی استری کردینا۔ اور ہاں۔۔۔۔ ٹنکی بھی خالی ہے، پانی بالکل ختم ہے، ایسا نہ ہوکہ لائٹ چلی جائے۔ میں موٹر چَلادیتا ہوں۔ رمضو نے کامو سے کہا۔

اُف۔۔۔۔! دونوں کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ اب کیا ہوگا؟ ایک تو لائٹ بھی ہر اہم موقع پر چلی جاتی ہے۔ کوفت بھرے اندازے میں کامو نے کہا۔

دراصل آج دونوں کو سیٹھ حبیب اﷲ کی کوٹھی پر واردات کے لیے جانا تھا۔ انہیں اپنے ذرایع سے پتا چلا تھا کہ سیٹھ حبیب نے اپنی دونوں بیٹیوں کی شادی کے لیے لاکھوں روپوں کی مالیت کے زیورات خریدے ہیں۔ کسی کو اُن پر چور یا ڈاکو ہونے کا شک نہ ہو، اس لیے وہ نہادھوکر استری شدہ کپڑے پہننا چاہتے تھے کہ عین موقع پر لائٹ چلی گئی۔ ناچار پسینہ میں شرابور، شکن آلود کپڑوں ہی میں واردات کے لیے جانا پڑا۔

سیٹھ حبیب اﷲ ایک بہت بڑی گارمنٹس فیکٹری کے مالک تھے۔ اﷲ تعالیٰ نے انہیں خوب دولت اور عزت سے نوازا تھا لیکن ان میں غرور اور تکبر نام کو نہ تھا۔ عجزوانکساری کا پیکر، خوف ِ الٰہی رکھنے والے اور صوم وصلوٰۃ کے پابند تھے۔


رمضو اور کامو مقررہ وقت پر کوٹھی کے اندر پہنچے۔ زیورات کا سیف سیٹھ حبیب اﷲ کے کمرے میں تھا۔ دونوں چُھپتے چُھپاتے اُس کمرے میں پہنچے۔ جیسے ہی وہ کمرے میں داخل ہوئے، اندھیرے میں سیٹھ ایک کونے میں کھڑے نظر آئے۔ کامو نے سیٹھ کے سر کا نشانہ لیا لیکن وہ جھک گئے، کچھ دیر بعد کھڑے ہوئے پھر نیچے بیٹھ گئے اور پھر سجدہ کرنے لگے۔ وہ نماز میں مشغول تھے۔ دونوں کِھسیا کر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ سلام پھیرنے کے بعد سیٹھ حبیب اﷲ نے آہٹ پر پیچھے مڑکر دیکھا۔ وہ لمحوں میں صورت ِ حال سمجھ گئے۔ ان کے پُرنور چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔

ارے۔۔۔۔ جلدی کرو، علاقے کی لائٹ بھی جانے والی ہے۔ رمضو نے کامو سے کہا۔ دونوں نے چہروں کو نقاب سے چُھپا رکھا تھا۔

ہاں سیٹھ! جلدی کرو، نکالو وہ لاکھوں روپوں کی مالیت کا سونا اور نقدی، ورنہ یہ لوڈڈ گن دیکھ رہے ہو ناں؟ کامو نے آواز میں سختی پیدا کرتے ہوئے کہا۔ دراصل کامو اور رمضو سیٹھ حبیب اﷲ کی بزرگی اور پُرنور شخصیت دیکھ کر گھبرا گئے تھے۔ ان میں وہ دَم خَم نہ تھا جو دوسری وارداتوں کے وقت ہوتا تھا۔

جلدی کرو سیٹھ! نکالو سونا، بہت پیسہ ہے تمہارے پاس۔ وقت ضایع مت کرو۔ اور ہاں۔۔۔۔۔ کوئی ہوشیاری دکھانے کی کوشش مت کرنا۔ جلدی کرو، ہمیں پتا ہے، لائٹ بھی جانے والی ہے۔ اب کی مرتبہ رمضو نے سخت لہجے میں کہا۔

ٹھہرو بیٹا! دعا تو مانگ لوں۔ آپ لوگ یہاں بیٹھ جائیں۔ سیٹھ اپنی نرم آواز میں بولے اور دعا مانگنے لگے۔ ''یااﷲ! یارحیم وکریم! اپنے نبی کریم کی اُمت کو ہدایت وراہ نمائی کی دولت عطا فرما۔ یارب ِذوالجلال! تیری اُمت کے نوجوان جن کے دل میں قرآن وعِلم کا نور ہونا چاہیے تھا، آج دنیا کی محبت میں غرق ہیں۔ جن ہاتھوں میں ہُنر کا پرچم ہونا تھا، آج اسلحہ استعمال کر رہے ہیں۔ یارب ِکریم! یااﷲ! ہم پر، ہمارے حال پر رحم وکرم فرما۔ میرے بیٹوں، اپنے بندوں، اپنے نبی کریم کی اُمّت کو دنیاوآخرت کی ذِلّت ورسوائی سے بچالے۔ یااﷲ! میری دعائوں کو قبول فرمالے۔'' سیٹھ حبیب اﷲ پر رِقّت طاری ہوگئی اور ان کی آنکھوں سے آنسوبہنے لگے۔ وہ دونوں ہاتھ چہرے پر پھیرنے کے بعد اٹھ کھڑے ہوئے اور جائے نماز تہہ کر کے ایک طرف رکھی۔ پھر انہوں نے سیف سے زیورات کا باکس نکالا ہی تھاکہ لائٹ چلی گئی۔

ٹھہرو بیٹا! میں ابھی ایمرجینسی لائٹ جلاتا ہوں۔ انہوں نے کہا اور ایمرجینسی لائٹ جلانے کے بعد زیورات کا باکس ان کی طرف بڑھا دیا۔کامو اور رمضو نے کانپتے ہاتھوں سے باکس تھام لیا۔

بیٹا! اس لائٹ کی تو بڑی فکر ہے، کچھ زندگی کی لائٹ کے بارے میں بھی سوچا ہے؟ اگر ہمارے وہ کام جو ادھورے ہیں، انہیں مکمل کیے بغیر زندگی کی لائٹ چلی گئی تو پھر افسوس وحسرت کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔ ہم چاہتے ہیںکہ ہر کام لائٹ جانے سے پہلے ہی کرلیں۔ لیکن کیا کبھی سوچا ہے کہ جن لوگوں کا حق مارا ہے، جس قدر نمازیں قضا کی ہیں، روزہ، زکوٰۃ کی ادائیگی باقی ہے، اُنہیں زندگی کی لائٹ جانے سے پہلے ادا کردینا چاہیے۔ اﷲ رب العزت تو انسانوں کی کوتاہیوں، لغزشوں کو مٹاکر نیکیاں بڑھانے والا ہے۔ کبھی اس سے توبہ کی ہے؟

گلوگیر لہجے میں بولتے ہوئے سیٹھ حبیب اﷲ نے کامو اور رمضو کی طرف دیکھا، دونوں کی آنکھیں آنسوئوں سے تر تھیں اور زیورات کا باکس ان کے ہاتھ سے گرچکا تھا۔

پیارے بچو! یہ ''حبیب اﷲ گارمنٹس'' پر سر جھکائے، ہاتھ میں تسبیح لیے جو رمضان علی سیلزمین ہے ناں، اور وہ جو بڑی سی داڑھی والا کامران علی نماز پڑھنے جارہا ہے۔ جی ہاں! آپ بالکل ٹھیک سمجھے، یہ اب کامو اور رمضو نہیں بلکہ ''کامران علی'' اور ''رمضان علی'' جیسے محب ِوطن اور حُب ِالٰٰہی والے انسان ہیں۔
Load Next Story