شیر آیا شیر آیا
کئی ماہرین کےمطابق موسم کاحال بتانےوالےبدترین تصویر کھینچتے ہیں۔ یہ نہیں بتاتے کہ اس کے علاوہ بھی ممکنات ہوسکتے ہیں۔
QUETTA:
یقینا آپ نے شیر کی وہ کہانی سنی ہوگی جس میں ایک گاؤں میں روز شور مچتا ہے کہ شیر آنے والا ہے لیکن شیر آتا نہیں ہے پھر جب ایک دن واقعی شیر آجاتا ہے تو کوئی اس پر یقین نہیں کر رہا ہوتا۔
بس امریکا کا بھی کچھ یہی حال ہے وہاں اکثر شیر آیا شیر آیا کا شور مچتا ہے لیکن شیر آتا نہیں ہے، کچھ دن پہلے امریکا کے شہر نیویارک میں تاریخ کا سب سے برا طوفان آنے والا تھا اس طرح کے طوفان کی مثال 1947میں آئے ایک طوفان سے دی جا رہی تھی جس کی وجہ سے آدھا شہر تباہ ہوگیا تھا لیکن اس کے علاوہ کوئی بھی طوفان ایسا نہیں تھا جو اتنا برا ہو، تقریباً تین فٹ برف اس کے علاوہ اسی (80) میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوا جو نہ صرف برف کو اڑائے گی بلکہ نیویارک میں بیشتر گھر جو لکڑی کے بنے ہوئے ہیں ان کو بھی اڑا کر لے جائے گی۔
پہلے ہی یہاں کے بجلی کے محکمے نے اعلان کردیا تھا کہ ڈھائی لاکھ گھروں کی بجلی جانے کا امکان ہے اور ایسی صورت میں بجلی کتنے دن تک نہیں آئے گی یہ بتانا مشکل ہے یعنی کہ ہفتے یا پھر مہینے بھی لگ سکتے ہیں، ایک اہم بات یہ ہے کہ موسم اتنا خراب ہونے کی وجہ سے یعنی اتنی زیادہ سردی میں بجلی یا گیس نہ ہونے کی وجہ سے heatingبھی نہیں ہوگی اور درجہ حرارت -10 ، -20 F تک پہنچ جانے کی وجہ سے بغیر ہیٹنگ کے گھروں میں رہنا بھی ناممکن ہوگا، ساتھ ہی امریکا کی انشورنس کمپنیاں جو یہاں گھروں کو انشور کرتی ہیں قدرتی آفات کی صورت میں بیمہ نہیں کرتیں یعنی اگر کسی کے گھر میں خدانخواستہ آگ لگ جائے تو انشورنس کمپنی اس کو نیا گھر بنا کر دے گی لیکن وہی گھر کسی طوفان کی وجہ سے تباہ ہوجائے تو وہ انشورنس سے کور نہیں ہوگا۔
امریکنز کسی بھی دوسری قوم کے مقابلے میں زیادہ احتیاط پسند ہیں اس لیے یہاں ''ڈر'' بیچنا سب سے آسان کام ہے یہ لوگ ہر چیز کھانے میں احتیاط برتتے ہیں، چربی یعنی فیٹ خطرناک ہے، چلیں مانا لیکن پھر سوڈیم، کاربوہائیڈریٹس، چاول، روٹی، بریڈ ہر چیز میں کوئی نہ کوئی خامی ڈھونڈ کر یہ لوگ اس سے ڈرنے لگتے ہیں۔
امریکا نے اب یہ قانون نکالا ہے کہ کوئی بھی پیکیجڈ فوڈ یا ریسٹورنٹ اپنے یہاں بکنے والے کھانے کے بارے میں پوری طرح جانکاری دے گا کہ اس میں کیا کیا ingredients ہیں اور ان کے کیا کیا نقصانات ہیں۔
بچوں کی کار سیٹ ہو یا بڑوں کی سیٹ بیلٹ بیچ رات میں کوئی آس پاس نہ ہو تو بھی سگنل کو نہ توڑنا تحفظ سے زیادہ اس ڈر کی وجہ سے ہے جو بچپن سے ان کے دلوں میں بٹھایا جاتا ہے۔
طوفان کا سن کر یہ گورے اپنے آپ کو ایسا تیار کرتے ہیں جیسے یہ جنگ پر جا رہے ہوں اور جیسے کل سے یہاں کوئی اسٹور کبھی نہیں کھلے گا۔
کپڑے، جوتے برف ہٹانے کا سامان، کھانے پینے کی اشیا، آگ جلانے کا انتظام حتیٰ کہ کیمپنگ اور شکار تک کا سامان ہر دکان کے شیلف سے غائب ہوجاتا ہے، جب کسی ایمرجنسی کا موقع ہوتا ہے تو امریکا میں کوئی اسٹور بارہ گھنٹے سے زیادہ بند نہیں ہوتا پھر بھی یہاں کے شہریوں کا حال بے حال ہوتا ہے پٹرول پمپس کے باہر ایسی لائنیں لگی ہوتی ہیں جیسے پاکستان کی طرح یہاں بھی پٹرول کی قلت ہوگئی ہو۔
کچھ دن پہلے آنے والے طوفان کی تیاری بھی نیویارک میں زور شور سے چل رہی تھی لوگ اتنا سارا سامان گھروں میں جمع کر رہے تھے کہ اس سے ان کی ایک آدھ نسل تو آرام سے گزارا کرسکتی تھی، بچوں کو اسکول نہیں بھیجا گیا۔ میئر نے شہر سے اڑنے والی تمام فلائٹس کو کینسل کروادیا اور تاکید کردی کہ گھروں سے کوئی نہ نکلے، ٹی وی پر بھی جیسے عید سے پہلے چاند رات دکھائی جاتی ہے ویسے ہی امریکن ٹی وی پر عام لوگوں کے انٹرویوز دکھائے جا رہے تھے کہ وہ طوفان کی آمد کی تیاری کیسے کر رہے ہیں؟
امریکا کے ساتھ ایک بار پھر وہی ہوا کہ شیر نہیں آیا اتنی زیادہ تیاری کے باوجود نیویارک میں طوفان کے نام پر ایک شرمندہ سی برف باری جو عام حالات میں کوئی بہت بڑی بات نہیں ہے اس علاقے کے لیے، بارہ چودہ انچ برف ضرور پڑی لیکن نہ وہ تین فٹ تک پہنچی اور نہ ہوائیں 80فٹ فی گھنٹہ تک۔
نیشنل ویدر سروسز کے ڈائریکٹر لوئس اچلین نے پریس کانفرنس کی، جس میں انھوں نے باقاعدہ معافی مانگی لوگوں سے کیونکہ نیویارک میں طوفان نہیں آیا۔ معافی اس بات کی کہ ان کے محکمے نے لوگوں کو اتنا ڈرایا، لوگوں نے ہزاروں ڈالرز کی شاپنگ کرکے گھروں میں جمع کردیں جن میں سے بیشتر بیکار گئیں، ان کے مطابق یہ ان کے محکمے کی غلطی ہے کیوں کہ یہ لوگ عوام سے صحیح طرح سے رابطہ نہیں کر پائے۔
پہلے آنے والی خبروں میں اسے وہائٹ Hurricane سے مشابہہ قرار دیا جا رہا تھا جوکہ امریکا میں 1888میں آیا تھا اور تین فٹ سے زیادہ برف گری تھی اس کے بعد 1947میں آئے طوفان سے جس میں ڈھائی فٹ سے زیادہ برف گری تھی لیکن اس بار ہوئی صرف دس انچ برف یہی حال فلاڈلفیا اور واشنگٹن کا بھی تھا جہاں کے لیے پیش گوئی ایک فٹ برف کی تھی مگر پڑی صرف دو انچ۔
کئی ماہرین کے مطابق موسم کا حال بتانے والے بدترین تصویر کھینچتے ہیں۔ یہ نہیں بتاتے کہ اس کے علاوہ بھی ممکنات ہوسکتے ہیں۔
نیویارک میں تین فٹ برف گرنے کا محض ایک چانس تھا اس کے علاوہ بھی امکانات تھے مگر خبروں میں ان کا ذکر نہیں کیا گیا جوکہ صحیح نہیں۔
خبروں کے مطابق ہوسکتا ہے کہ اس واقعے کے بعد لوگوں کا نیشنل ویدر سروس سے اعتبار ہی اٹھ جائے اور وہ موسم کے فورکاسٹ کو آئندہ سنجیدگی سے نہ لیں۔
سچ یہ ہے کہ امریکا اتنا خوفزدہ رہتا ہے کہ کچھ ہفتوں بعد پھر کسی طوفان کی خبر آئے گی تو یہ لوگ پھر اتنا ہی ڈر جائیں گے پھر انھیں لگے گا کہ شیر آیا۔ وہ شیر جس سے امریکن عوام کو یہاں کی اتھارٹیز ڈراتی تو بہت ہیں لیکن وہ آتا نہیں ہے اور جب آئے گا تو شاید امریکن اس پر یقین ہی نہیں کریں گے۔
یقینا آپ نے شیر کی وہ کہانی سنی ہوگی جس میں ایک گاؤں میں روز شور مچتا ہے کہ شیر آنے والا ہے لیکن شیر آتا نہیں ہے پھر جب ایک دن واقعی شیر آجاتا ہے تو کوئی اس پر یقین نہیں کر رہا ہوتا۔
بس امریکا کا بھی کچھ یہی حال ہے وہاں اکثر شیر آیا شیر آیا کا شور مچتا ہے لیکن شیر آتا نہیں ہے، کچھ دن پہلے امریکا کے شہر نیویارک میں تاریخ کا سب سے برا طوفان آنے والا تھا اس طرح کے طوفان کی مثال 1947میں آئے ایک طوفان سے دی جا رہی تھی جس کی وجہ سے آدھا شہر تباہ ہوگیا تھا لیکن اس کے علاوہ کوئی بھی طوفان ایسا نہیں تھا جو اتنا برا ہو، تقریباً تین فٹ برف اس کے علاوہ اسی (80) میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوا جو نہ صرف برف کو اڑائے گی بلکہ نیویارک میں بیشتر گھر جو لکڑی کے بنے ہوئے ہیں ان کو بھی اڑا کر لے جائے گی۔
پہلے ہی یہاں کے بجلی کے محکمے نے اعلان کردیا تھا کہ ڈھائی لاکھ گھروں کی بجلی جانے کا امکان ہے اور ایسی صورت میں بجلی کتنے دن تک نہیں آئے گی یہ بتانا مشکل ہے یعنی کہ ہفتے یا پھر مہینے بھی لگ سکتے ہیں، ایک اہم بات یہ ہے کہ موسم اتنا خراب ہونے کی وجہ سے یعنی اتنی زیادہ سردی میں بجلی یا گیس نہ ہونے کی وجہ سے heatingبھی نہیں ہوگی اور درجہ حرارت -10 ، -20 F تک پہنچ جانے کی وجہ سے بغیر ہیٹنگ کے گھروں میں رہنا بھی ناممکن ہوگا، ساتھ ہی امریکا کی انشورنس کمپنیاں جو یہاں گھروں کو انشور کرتی ہیں قدرتی آفات کی صورت میں بیمہ نہیں کرتیں یعنی اگر کسی کے گھر میں خدانخواستہ آگ لگ جائے تو انشورنس کمپنی اس کو نیا گھر بنا کر دے گی لیکن وہی گھر کسی طوفان کی وجہ سے تباہ ہوجائے تو وہ انشورنس سے کور نہیں ہوگا۔
امریکنز کسی بھی دوسری قوم کے مقابلے میں زیادہ احتیاط پسند ہیں اس لیے یہاں ''ڈر'' بیچنا سب سے آسان کام ہے یہ لوگ ہر چیز کھانے میں احتیاط برتتے ہیں، چربی یعنی فیٹ خطرناک ہے، چلیں مانا لیکن پھر سوڈیم، کاربوہائیڈریٹس، چاول، روٹی، بریڈ ہر چیز میں کوئی نہ کوئی خامی ڈھونڈ کر یہ لوگ اس سے ڈرنے لگتے ہیں۔
امریکا نے اب یہ قانون نکالا ہے کہ کوئی بھی پیکیجڈ فوڈ یا ریسٹورنٹ اپنے یہاں بکنے والے کھانے کے بارے میں پوری طرح جانکاری دے گا کہ اس میں کیا کیا ingredients ہیں اور ان کے کیا کیا نقصانات ہیں۔
بچوں کی کار سیٹ ہو یا بڑوں کی سیٹ بیلٹ بیچ رات میں کوئی آس پاس نہ ہو تو بھی سگنل کو نہ توڑنا تحفظ سے زیادہ اس ڈر کی وجہ سے ہے جو بچپن سے ان کے دلوں میں بٹھایا جاتا ہے۔
طوفان کا سن کر یہ گورے اپنے آپ کو ایسا تیار کرتے ہیں جیسے یہ جنگ پر جا رہے ہوں اور جیسے کل سے یہاں کوئی اسٹور کبھی نہیں کھلے گا۔
کپڑے، جوتے برف ہٹانے کا سامان، کھانے پینے کی اشیا، آگ جلانے کا انتظام حتیٰ کہ کیمپنگ اور شکار تک کا سامان ہر دکان کے شیلف سے غائب ہوجاتا ہے، جب کسی ایمرجنسی کا موقع ہوتا ہے تو امریکا میں کوئی اسٹور بارہ گھنٹے سے زیادہ بند نہیں ہوتا پھر بھی یہاں کے شہریوں کا حال بے حال ہوتا ہے پٹرول پمپس کے باہر ایسی لائنیں لگی ہوتی ہیں جیسے پاکستان کی طرح یہاں بھی پٹرول کی قلت ہوگئی ہو۔
کچھ دن پہلے آنے والے طوفان کی تیاری بھی نیویارک میں زور شور سے چل رہی تھی لوگ اتنا سارا سامان گھروں میں جمع کر رہے تھے کہ اس سے ان کی ایک آدھ نسل تو آرام سے گزارا کرسکتی تھی، بچوں کو اسکول نہیں بھیجا گیا۔ میئر نے شہر سے اڑنے والی تمام فلائٹس کو کینسل کروادیا اور تاکید کردی کہ گھروں سے کوئی نہ نکلے، ٹی وی پر بھی جیسے عید سے پہلے چاند رات دکھائی جاتی ہے ویسے ہی امریکن ٹی وی پر عام لوگوں کے انٹرویوز دکھائے جا رہے تھے کہ وہ طوفان کی آمد کی تیاری کیسے کر رہے ہیں؟
امریکا کے ساتھ ایک بار پھر وہی ہوا کہ شیر نہیں آیا اتنی زیادہ تیاری کے باوجود نیویارک میں طوفان کے نام پر ایک شرمندہ سی برف باری جو عام حالات میں کوئی بہت بڑی بات نہیں ہے اس علاقے کے لیے، بارہ چودہ انچ برف ضرور پڑی لیکن نہ وہ تین فٹ تک پہنچی اور نہ ہوائیں 80فٹ فی گھنٹہ تک۔
نیشنل ویدر سروسز کے ڈائریکٹر لوئس اچلین نے پریس کانفرنس کی، جس میں انھوں نے باقاعدہ معافی مانگی لوگوں سے کیونکہ نیویارک میں طوفان نہیں آیا۔ معافی اس بات کی کہ ان کے محکمے نے لوگوں کو اتنا ڈرایا، لوگوں نے ہزاروں ڈالرز کی شاپنگ کرکے گھروں میں جمع کردیں جن میں سے بیشتر بیکار گئیں، ان کے مطابق یہ ان کے محکمے کی غلطی ہے کیوں کہ یہ لوگ عوام سے صحیح طرح سے رابطہ نہیں کر پائے۔
پہلے آنے والی خبروں میں اسے وہائٹ Hurricane سے مشابہہ قرار دیا جا رہا تھا جوکہ امریکا میں 1888میں آیا تھا اور تین فٹ سے زیادہ برف گری تھی اس کے بعد 1947میں آئے طوفان سے جس میں ڈھائی فٹ سے زیادہ برف گری تھی لیکن اس بار ہوئی صرف دس انچ برف یہی حال فلاڈلفیا اور واشنگٹن کا بھی تھا جہاں کے لیے پیش گوئی ایک فٹ برف کی تھی مگر پڑی صرف دو انچ۔
کئی ماہرین کے مطابق موسم کا حال بتانے والے بدترین تصویر کھینچتے ہیں۔ یہ نہیں بتاتے کہ اس کے علاوہ بھی ممکنات ہوسکتے ہیں۔
نیویارک میں تین فٹ برف گرنے کا محض ایک چانس تھا اس کے علاوہ بھی امکانات تھے مگر خبروں میں ان کا ذکر نہیں کیا گیا جوکہ صحیح نہیں۔
خبروں کے مطابق ہوسکتا ہے کہ اس واقعے کے بعد لوگوں کا نیشنل ویدر سروس سے اعتبار ہی اٹھ جائے اور وہ موسم کے فورکاسٹ کو آئندہ سنجیدگی سے نہ لیں۔
سچ یہ ہے کہ امریکا اتنا خوفزدہ رہتا ہے کہ کچھ ہفتوں بعد پھر کسی طوفان کی خبر آئے گی تو یہ لوگ پھر اتنا ہی ڈر جائیں گے پھر انھیں لگے گا کہ شیر آیا۔ وہ شیر جس سے امریکن عوام کو یہاں کی اتھارٹیز ڈراتی تو بہت ہیں لیکن وہ آتا نہیں ہے اور جب آئے گا تو شاید امریکن اس پر یقین ہی نہیں کریں گے۔