تنازعہ کشمیر اور خطے کا امن
کشمیریوں کو حق خود ارادیت دیے بغیر بھارت سلامتی کونسل کا ممبر بن سکتا ہے نہ ہی خطے میں امن قائم ہو سکتا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور ہیپی لیک پینٹس کے زیر اہتمام اتوار کو اسلام آباد میں یکجہتی کشمیر سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں پاکستان اور آزاد کشمیر کی قیادت نے حق خود ارادیت کے حصول کے لیے مقبوضہ کشمیر کے عوام کی بھرپور حمایت جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے متنبہ کیا کہ بھارت اس وقت تک سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے کا خواب بھول جائے جب تک وہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کو حق خود ارادیت نہیں دیتا اور عالمی برادری سے ایک بار پھر پرزور مطالبہ کیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اپنی ذمے داریاں پوری کرے اور بھارت کو مذاکرات کی میز پر لائے۔
سیمینار سے کشمیر کمیٹی کے چیئرمین اور جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید، آزاد کشمیر کے صدر سردار محمد یعقوب، سابق وزیراعظم آزاد کشمیر اور مسلم کانفرنس کے سربراہ سردار عتیق احمد خان اور جے یو آئی ف آزاد کشمیر کے امیر مولانا سعید یوسف نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کشمیر کا مسئلہ فوری طور پر حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ مقررین نے واضح کیا کہ مسئلہ کشمیر 65 سالہ پرانا ہے، پاکستان اس میں فریق اور وکیل ہے، کشمیریوں نے اس جدوجہد میں اپنی جان، عزت اور آبرو کی قربانیاں دیں اور اپنے خون سے آزادی کی اس تحریک کو زندہ رکھا ہے۔
پوری قوم کشمیریوں کے شانہ بشانہ ہے،کشمیریوں کو حق خود ارادیت دیے بغیر بھارت سلامتی کونسل کا ممبر بن سکتا ہے نہ ہی خطے میں امن قائم ہو سکتا ہے، کشمیر کا مسئلہ پنڈت جواہرلال نہرو خود اقوام متحدہ میں لے کر گئے تھے، نہرو کے وعدے کو پورا کرنا اب بھارت کی ذمے داری ہے، بھارت آج اپنے مستقبل کی معاشی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے جو ماحول چاہتا ہے اس کے لیے اسے کشمیر کا مسئلہ حل اور پاکستان کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا پڑیں گے، کشمیریوں کو کسی بھی مرحلے پر تنہا نہیں چھوڑیں گے۔
آج تک کے حالات کے تناظر میں یہ بات بالکل درست ہے کہ عالمی برادری نے مسئلہ کشمیر حل کرنے کی جانب کبھی توجہ نہیں دی جس طرح مشرقی تیمور اور اسکاٹ لینڈ کا مسئلہ حل کر دیا گیا اگر اسی طرح کشمیر کا مسئلہ بھی حل کر دیا جاتا تو آج جنوبی ایشیا کے خطے میں کشیدگی کی جو فضا قائم ہے وہ موجود نہ ہوتی اور حالات بہتری کی جانب رواں دواں ہوتے اور تنازعہ کشمیر ختم ہونے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات کے نئے دور کا آغاز ہو چکا ہوتا۔ مشرقی تیمور کا مسئلہ حل ہونے کے بعد جب پاکستان نے مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لیے آواز اٹھائی تو عالمی برادری کی جانب سے کھل کر یہ کہا گیا کہ مسئلہ کشمیر کو مشرقی تیمور سے نتھی نہ کیا جائے۔
اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ امریکا اور عالمی برادری ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مسئلہ کشمیر حل نہیں کرنا چاہتیں۔ اب تو امریکا نے بھارت کے ساتھ دفاعی تعاون کا معاہدہ کر کے اپنے جھکاؤ اور اس خطے میں اپنی مستقبل کی پالیسیاں کا واضح اظہار کر دیا ہے، امریکی صدر اوباما نے اپنے دورہ بھارت کے دوران ایک لفظ بھی مسئلہ کشمیر کے لیے نہیں کہا اور نہ سرحدوں پر کشیدگی کے حوالے سے کوئی بات کی۔ ہر ملک کو دوسرے ملک کے ساتھ اپنے بہتر تعلقات قائم اور معاہدے کرنے کا بھرپور حق حاصل ہے لیکن امریکا نے پاکستان کو نظر انداز کرتے ہوئے جس طرح بڑے پیمانے پر بھارت کے ساتھ دفاعی تعاون کے معاہدے کیے ہیں اس سے خطے میں پاکستان عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے، پاکستانی حکومت نے ان معاہدوں سے پیدا ہونے والے اپنے خدشات سے امریکی حکومت کو آگاہ کر دیا ہے۔
پاکستان مسئلہ کشمیر پر بھرپور احتجاج کرتا چلا آ رہا ہے یہاں تک کہ دونوں ممالک کے درمیان اس مسئلے پر جنگیں بھی ہو چکی ہیں مگر یہ ابھی تک حل نہیں ہوا اور جوں کا توں چلا آ رہا ہے۔ پاکستان نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے بھارت کو بارہا مذاکرات کی دعوت دی جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ سطح پر مذاکرات بھی ہوئے مگر بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث یہ مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکے مگر یہ کہہ کر امید قائم کر دی جاتی رہی کہ مذاکرات کا اگلا دور پھر ہو گا۔ مسئلہ کشمیر ہمیشہ کے لیے ختم کرنے اور کشمیر کو مستقل طور پر بھارت میں شامل کرنے کی موجودہ انتہا پسند مودی حکومت کی سازشیں منظرعام پر آنے کے بعد پاکستان نے اس مسئلے کو عالمی سطح پر بھرپور طور پر اجاگر کرتے ہوئے یہ واضح کر دیا ہے کہ مسئلہ کشمیر مودی حکومت کے سازشی منصوبے کے تحت نہیں بلکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیریوں کی خواہش کے مطابق حل ہو گا۔ عرب لیگ اور او آئی سی کو بھی مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
جب تک اقوام متحدہ اور عالمی برادری اس مسئلے کے حل کے لیے سنجیدہ نہیں ہوتے یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا۔یکجہتی کشمیر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے واضح کیا کہ مقبوضہ کشمیر میں لاکھوں فوج تعینات کرنے اور ہر ظلم و ستم آزمانے کے باوجود بھارت کشمیریوں کی آزادی کی تحریک کو دبا نہیں سکا۔ یہ بالکل درست تجزیہ ہے ۔ عالمی سطح پر پاکستان کا موقف یہی ہے کہ جب تک کشمیریوں کو حق خود ارادیت نہیں دیا جاتا، اس وقت تک جنوبی ایشیا میں امن ممکن نہیں ہے ۔
سیمینار سے کشمیر کمیٹی کے چیئرمین اور جمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید، آزاد کشمیر کے صدر سردار محمد یعقوب، سابق وزیراعظم آزاد کشمیر اور مسلم کانفرنس کے سربراہ سردار عتیق احمد خان اور جے یو آئی ف آزاد کشمیر کے امیر مولانا سعید یوسف نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کشمیر کا مسئلہ فوری طور پر حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ مقررین نے واضح کیا کہ مسئلہ کشمیر 65 سالہ پرانا ہے، پاکستان اس میں فریق اور وکیل ہے، کشمیریوں نے اس جدوجہد میں اپنی جان، عزت اور آبرو کی قربانیاں دیں اور اپنے خون سے آزادی کی اس تحریک کو زندہ رکھا ہے۔
پوری قوم کشمیریوں کے شانہ بشانہ ہے،کشمیریوں کو حق خود ارادیت دیے بغیر بھارت سلامتی کونسل کا ممبر بن سکتا ہے نہ ہی خطے میں امن قائم ہو سکتا ہے، کشمیر کا مسئلہ پنڈت جواہرلال نہرو خود اقوام متحدہ میں لے کر گئے تھے، نہرو کے وعدے کو پورا کرنا اب بھارت کی ذمے داری ہے، بھارت آج اپنے مستقبل کی معاشی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے جو ماحول چاہتا ہے اس کے لیے اسے کشمیر کا مسئلہ حل اور پاکستان کے ساتھ تعلقات معمول پر لانا پڑیں گے، کشمیریوں کو کسی بھی مرحلے پر تنہا نہیں چھوڑیں گے۔
آج تک کے حالات کے تناظر میں یہ بات بالکل درست ہے کہ عالمی برادری نے مسئلہ کشمیر حل کرنے کی جانب کبھی توجہ نہیں دی جس طرح مشرقی تیمور اور اسکاٹ لینڈ کا مسئلہ حل کر دیا گیا اگر اسی طرح کشمیر کا مسئلہ بھی حل کر دیا جاتا تو آج جنوبی ایشیا کے خطے میں کشیدگی کی جو فضا قائم ہے وہ موجود نہ ہوتی اور حالات بہتری کی جانب رواں دواں ہوتے اور تنازعہ کشمیر ختم ہونے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات کے نئے دور کا آغاز ہو چکا ہوتا۔ مشرقی تیمور کا مسئلہ حل ہونے کے بعد جب پاکستان نے مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لیے آواز اٹھائی تو عالمی برادری کی جانب سے کھل کر یہ کہا گیا کہ مسئلہ کشمیر کو مشرقی تیمور سے نتھی نہ کیا جائے۔
اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ امریکا اور عالمی برادری ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مسئلہ کشمیر حل نہیں کرنا چاہتیں۔ اب تو امریکا نے بھارت کے ساتھ دفاعی تعاون کا معاہدہ کر کے اپنے جھکاؤ اور اس خطے میں اپنی مستقبل کی پالیسیاں کا واضح اظہار کر دیا ہے، امریکی صدر اوباما نے اپنے دورہ بھارت کے دوران ایک لفظ بھی مسئلہ کشمیر کے لیے نہیں کہا اور نہ سرحدوں پر کشیدگی کے حوالے سے کوئی بات کی۔ ہر ملک کو دوسرے ملک کے ساتھ اپنے بہتر تعلقات قائم اور معاہدے کرنے کا بھرپور حق حاصل ہے لیکن امریکا نے پاکستان کو نظر انداز کرتے ہوئے جس طرح بڑے پیمانے پر بھارت کے ساتھ دفاعی تعاون کے معاہدے کیے ہیں اس سے خطے میں پاکستان عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے، پاکستانی حکومت نے ان معاہدوں سے پیدا ہونے والے اپنے خدشات سے امریکی حکومت کو آگاہ کر دیا ہے۔
پاکستان مسئلہ کشمیر پر بھرپور احتجاج کرتا چلا آ رہا ہے یہاں تک کہ دونوں ممالک کے درمیان اس مسئلے پر جنگیں بھی ہو چکی ہیں مگر یہ ابھی تک حل نہیں ہوا اور جوں کا توں چلا آ رہا ہے۔ پاکستان نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے بھارت کو بارہا مذاکرات کی دعوت دی جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ سطح پر مذاکرات بھی ہوئے مگر بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث یہ مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکے مگر یہ کہہ کر امید قائم کر دی جاتی رہی کہ مذاکرات کا اگلا دور پھر ہو گا۔ مسئلہ کشمیر ہمیشہ کے لیے ختم کرنے اور کشمیر کو مستقل طور پر بھارت میں شامل کرنے کی موجودہ انتہا پسند مودی حکومت کی سازشیں منظرعام پر آنے کے بعد پاکستان نے اس مسئلے کو عالمی سطح پر بھرپور طور پر اجاگر کرتے ہوئے یہ واضح کر دیا ہے کہ مسئلہ کشمیر مودی حکومت کے سازشی منصوبے کے تحت نہیں بلکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیریوں کی خواہش کے مطابق حل ہو گا۔ عرب لیگ اور او آئی سی کو بھی مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
جب تک اقوام متحدہ اور عالمی برادری اس مسئلے کے حل کے لیے سنجیدہ نہیں ہوتے یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا۔یکجہتی کشمیر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے واضح کیا کہ مقبوضہ کشمیر میں لاکھوں فوج تعینات کرنے اور ہر ظلم و ستم آزمانے کے باوجود بھارت کشمیریوں کی آزادی کی تحریک کو دبا نہیں سکا۔ یہ بالکل درست تجزیہ ہے ۔ عالمی سطح پر پاکستان کا موقف یہی ہے کہ جب تک کشمیریوں کو حق خود ارادیت نہیں دیا جاتا، اس وقت تک جنوبی ایشیا میں امن ممکن نہیں ہے ۔