کیا تاریخ خود کو دُہراتی ہے

پچاس برس پہلے خوب ہاہو مچی۔نیا پاکستان بناؤں۔کسی دولتمند کو باہر نہیں جانے دوں گا،حکومت عوام کی ہوگی

چارحلقوں میں انتخابات میں دھاندلی ہوئی۔دیر سویر کے بعد سب نے اعتراف جرم کرلیا کہ ہاں واقعی دھاندلی ہوئی ہے،لیکن باری مسلم لیگ ن کی ہے،اس لیے وہی کرسی اقتدار پر براجمان رہے گی۔پھر اس کے بعد ملک کے طول و عرض میں ایک ہا ہو مچ گئی ۔گرد اڑ رہی ہے ،کچھ صاف دکھائی نہیں دے رہا۔صرف خان اعظم کا چہرہ ہی نظر آرہا ہے۔ میں یہ کر دوں گا ،وہ کردوں گا۔یہ ہوجائے گا وہ ہوجائے گا۔نیا پاکستان بننے والا ہے،انقلاب آنے والا ہے۔نعرے بازی ہو رہی ہے،زندہ باد مردہ باد۔

میں یہ تو نہیں کہہ رہا ہے لوگوں کی یادداشت کمزور ہے اور وہ نسیان میں مبتلا ہیں۔لیکن یہ کہنا تو پڑتا ہے کہ لوگوں کو تاریخ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔وہ گردن موڑ کر دیکھنے کے بھی قائل نہیں ہیں۔رفت گیا کہ بود تھا۔1968ء پیپلز پارٹی کی بنیاد پڑ گئی۔پارٹی کا جھنڈا تیار کر لیا گیا۔ نعروں کا انتخاب ہو گیا۔روٹی ،کپڑا اور مکان۔ ایشیا سرخ ہے، اسلام ہمارا دین ہے، سوشلزم ہماری معیشت، وغیرہ۔ بھٹو صاحب کو اردو میں تقریر کرنا نہیں آتی تھی،لہٰذا ان کے ساتھیوں نے انھیں مشورہ دیا کہ وہ ٹوٹی پھوٹی اردو سے کام چلا لیں۔ان کی شکستہ اردو نے لوگوں کے دل موہ لیے۔

محبوب کی چال میں جو لنگڑا پن ہے
دل لینے کا یہ بھی ایک چلن ہے

پچاس برس پہلے خوب ہاہو مچی۔نیا پاکستان بناؤں۔کسی دولتمند کو باہر نہیں جانے دوں گا،حکومت عوام کی ہوگی،تاشقند معاہدے میں جو خفیہ شقیں شامل ہیں ،ان کا انکشاف کروں گا۔میں یہ کر دوں گا،وہ کردوں گا۔عملی دائرے میں سب چوکور ہوگئے۔چیئرمین صاحب نے جب جاگیرداروں کوپارٹی ٹکٹ دے دیے تو پارٹی کے دانشورورں نے ہاہو مچا دی۔ارے یہ کیا کر رہے ہیں چیئرمین صاحب؟جاگیر داری کے خلاف تو ہم نے الیکشن کیمپئن چلایا ہے اور آپ ان ہی لوگوں کو ٹکٹ دے رہے ہیں۔چیئرمین صاحب کا جواب تھا کہ میں کیا کروں ووٹ بینک تو ان ہی لوگوں کے پاس ہے۔(غبارے میں سے وہیں ہوا نکل گئی۔آٹھویں اور چھٹی کلاس پاس اسمبلیوں میں آکر بیٹھ گئے اور ہماری قسمتوں کا فیصلہ کرنے لگے۔)

کارکن نعرے لگا کر آسمان ڈھا دینے کی کوشش کرتے تھے۔جئے بھٹو،فخر ایشیا،بھٹو آوے ہی آوے،دال روٹی کھائیں گے،بھٹو کو لائیں گے۔ بھٹو آگیا اور مجیب بھی آگیا۔اقتدار کی چھینا جھپٹی میں ملک دولخت ہوگیا۔نیا پاکستان بن گیا۔نیا ترانہ بھی بن گیا۔

سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد۔


اسلامی سوشلزم بھی کچھ دنوں کے لیے آگیا۔بھٹو اور اس کے کیبنٹ منسٹر بند گلے کے کوٹ اور لائن دار پتلونیں پہننے لگے۔ہر جگہ پی پی پی کے جھنڈے لہرانے لگے۔خوب دھول اڑنے لگی۔کچھ نظر نہیں آرہا تھا،سوائے بھٹو کے چہرے کے۔آدمی کوئی تربیت یافتہ نہیں تھا۔کسی کو کچھ پتا نہیں تھا۔حکومت کرنے کے لیے سب نے بندر بانٹ کر لی۔رنگ ماسٹر ایک ہی تھا اور باقی سب اناڑی۔نہ زراعت کا پتا تھا،نہ معیشت کا،روپے کی قیمت گرا دی گئی۔مہنگائی میں اضافہ ہوگیا۔کسی کو محسوس ہی نہیں ہوا،اس لیے کہ نوٹ چھاپ چھاپ کر گردش میں لائے گئے۔ انفلیشن بڑھ گیا۔

پھر جیسا کہ ہوتا ہے،وہی کچھ ہوا۔مراعاتیں پی پی پی کے کارکنوں کو ملنے لگیں،ملازمتوں سے وہ نوازے جانے لگے۔وہ کھل کھیلنے لگے۔پارٹی آفس تو کھل گئے تھے،لیکن کرنا کیا ہے یہ کسی کو پتا نہیں تھا۔خود بھٹو کو پتا نہیں تھا کہ سوشلزم لانے کے لیے کرنا کیا چاہیے؟گراس روٹ کے لیے کوئی لائن آف ایکشن ہی نہیں تھی۔چنانچہ پارٹی آفسوںمیں وہی کچھ ہونے لگا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔

اس آپا دھاپی میں الیکشن کا وقت نزدیک آگیا۔سب گھبراہٹ میں مبتلا تھے۔ہرامیدوار الیکشن جیتنے کے موڈ میںتھا۔جناب بھٹوبلا مقابلہ کامیاب ہوئے توتمام صوبوں کے وزیر اعلیٰ نے بھی یہی طریقہ استعمال کیا۔اس کے باوجود35سیٹوں پردھاندلی ہوئی۔لے دے مچ گئی۔قومی اتحاد کی بنیاد پڑگئی۔گوبھٹو گو ۔گوبھٹو گو۔کے نعرے لگنے لگے۔کراچی سے احتجاج شروع ہوا تو لاہور تک جا پہنچا۔الیکشن دوبارہ کرائے جائیں۔بھٹو نہ جانے کس زعم میں تھے۔سنی اَن سنی کر دی۔طوفان بدتمیزی بڑھنے لگا توسب مذاکرات کی میزپر بیٹھ گئے۔مذاکرات نتیجہ خیز رہے۔پروفیسر غفور کی دانش و فہم سے متاثر ہوکر بھٹو نے کہا کہ اگر آپ جیسے 30آدمی میرے پاس ہوتے تو میں اس ملک کا نقشہ تبدیل کر دیتا۔

کاش کہ بھٹو کھینچا تانی نہ کرتے ۔معاملے کو اتنا طول دینے کے بجائے وہ ابتدا ہی میں اعتراف دھاندلی کر لیتے تو ممکن ہے بچ جاتے اور ان کی گردن نہ ماری جاتی۔

بھاری بوٹ والوں نے انقلاب کی دیگ تیار کر دی۔ اس بار انقلاب نے اسلامی لبادہ اوڑھا ہوا تھا۔شیروانی ،ٹوپی ،مجلس شوریٰ اورکوڑے۔ صاحب انقلاب نے انقلاب شیروانی کی اندرونی جیب میں رکھ لیا اور بھول گئے۔وہ ان کی شیروانی کے ساتھ ہی چلا گیا۔

پھر یہ آیا،وہ گیا،کوئی ٹکنے ہی نہیں پاتا تھا۔قدم اکھڑ اکھڑ جاتے تھے۔بادِ سیاست میں بلا کی تندی و تیزی تھی۔ اقتدار کانٹوں کی سیج بن کر رہ گیا۔چھینا جھپٹی شروع ہوگئی۔تب وہ کچھ ہوگیا جو بالآخر ہوتا ہے۔بھاری بوٹوں نے فائدہ اٹھایا اور سب کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔حالات نے ایک بار پھر پلٹا زیر آور نے زور آور کو نیچے لے لیا۔

میاں صاحب وزیر اعظم بن گئے۔تھوڑی سی بھول ہوگئی۔چار سیٹوں پر دھاندلی ہوگئی۔بس پھر کیا تھا ہاہو مچنے لگی۔گرد اڑ نے لگی،بلکہ آندھی آنے لگی۔کاش کہ مسلم لیگ ن ابتدا ہی میں اعتراف کر لیتی اور کھینچا تانی نہ کرتی تو معاملہ اتنا نہ بڑھتا۔خان صاحب چار سیٹیں لے کر ایک طرف ہوجاتے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ الیکشن دوبارہ کرائے جائیں۔ورنہ وہ ملک بند کر دیں گے۔ان کا قیاس ہے کہ اگر پانچ سو دیانت دارافراد مل جائیں تو وہ اس ملک کا نقشہ تبدیل کر سکتے ہیں۔

میاں صاحب اپنے اقتدار کی مدت پوری کر سکیں گے؟خان صاحب اسی پرانے پاکستان کو چمکا کر پالش کر کے نیا پاکستان بنانے والے ہیں یا بھٹی میں ڈال کر بالکل نیا بنائیں گے؟وہ پانچ سو افراد کہاں سے آئیں گے جن کے ذریعے خان صاحب انقلاب لائیں گے ،یہیں سے اُگیں گے یا کہیں اور سے آئیں گے؟پاکستانی ہوں گے یا مریخی ؟ابھی تو وعدے ہی وعدے اور باتیں ہی باتیں ہیں ۔دھرنا ختم ہوگیا ہے اور خان صاحب مذاکرات کی میز پر بیٹھنے والے ہیں۔مستقبل میں کیا ہونے والا ہے اور کب تک ہونے والا ہے۔اس کے لیے کچھ انتظار کرنا پڑے گا۔سو انتظار فرمائیے۔
Load Next Story