ایجاد کریں اور سزا میں کمی کے حق دار بن جائیں
چینی حکومت کی فراہم کردہ سہولت نے مال دار قیدیوں کو ’ سائنس داں‘ بنادیا
پاکستان میں عیدین اور یوم آزادی کے موقع پر قیدیوں کی سزا میں کمی کی جاتی ہے تاہم چین میں حکومت نے قیدیوں کو یہ سہولت فراہم کردی ہے کہ وہ جب چاہیں اپنی سزا میں تخفیف کرواسکتے ہیں۔ بس اس سہولت سے مستفید ہونے کے لیے انھیں کوئی نہ کوئی ایجاد کرنی ہوگی! علاوہ ازیں یہ شرط بھی عائد کی گئی ہے کہ ان کی ایجاد پیٹنٹ شدہ ہو۔
قیدیوں کو یہ سہولت فراہم کرنے سے حکومت کا مقصد انھیں مثبت سرگرمیوں کی جانب لانا اور جیل سے رہا ہونے کے بعد ایک اچھے شہری کی طرح زندگی گزارنے میں مدد دینا ہے۔ اب تک متعدد قیدی اس اسکیم سے فائدہ اٹھا چکے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تعلیم یافتہ قیدیوں کے لیے علاوہ ناخواندہ قیدیوں نے بھی اپنی ذہنی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے تکنیکی ایجادات کی ہیں۔ ایجادات کرنے کے بعد قیدی اپنی ایجاد کو پیٹنٹ کروانے کے لیے متعلقہ محکمے سے رابطہ کرتے ہیں۔ مقررہ فیس ادا کرنے کے بعد انھیں ' سند حق ایجاد ' مل جاتی ہے۔
حکومت کے اس اقدام سے قیدیوں کو دہرا فائدہ ہورہا ہے۔ وہ نہ صرف سزا میں کمی کے اہل ہوجاتے ہیں بلکہ جیل میں رہتے ہوئے ان کی ایجاد کردہ اشیاء یا تکنیک ان کے لیے آمدنی کا ذریعہ بھی بن جاتی ہیں۔ تاہم حال ہی میں، مال دار قیدیوں کی جانب سے حکومت کی فراہم کردہ اس سہولت کے غلط استعمال کا انکشاف ہوا ہے۔
چینی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق دولت مند قیدی اس سہولت سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی سزاؤں میں تخفیف کروارہے ہیں۔ وہ خود کوئی شے ایجاد کرنے یا کوئی تیکنیک وضع کرنے کے بجائے دوسروں سے یہ کام کروا رہے ہیں۔ وہ کسی ایجاد کے اصل موجد کو منہ مانگی رقم دے کر اس کی محنت کا ثمر اپنے نام سے پیٹنٹ کروا رہے ہیں۔ بعد ازاں وہ مطلوبہ دستاویزات جیل کے حکام کو فراہم کردیتے ہیں اور یوں ان کی سزا میں کمی کردی جاتی ہے۔
سزا میں تخفیف حاصل کرنے کی اس سہولت نے دوسروں کی ایجادات کو اپنے نام سے پیٹنٹ کروانے کے عمل کو باقاعدہ کاروبار کی شکل دے دی ہے۔ ذرائع ابلاغ میں ایسے ایجنٹس کی جانب سے اشتہارات دیے جارہے ہیں جو قیدیوں کو ایجادات ' فراہم ' کرتے ہیں۔ مال دار ملزم جُرم ثابت ہونے اور جیل جانے سے پہلے بھی ان ایجنٹوں سے رابطہ کرلیتے ہیں جن کے پاس 60000 یوآن سے لے کر 600000 یوآن تک میں ایجادات ' دستیاب' ہوتی ہیں۔
سرکاری اہل کاروں کا کہنا ہے کہ قانون کے مطابق سزا میں تخفیف کے لیے ضروری ہے کہ ایجاد قیدی نے خود کی ہو، لیکن ان کے پاس یہ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ ایجاد، قیدی نے خود کی ہے یا کسی سے خرید کر اپنے نام پر پیٹنٹ کروائی ہے۔ اس سُقم کی وجہ سے دولت مند قیدی بہ آسانی اپنی سزاؤں میں تخفیف پارہے ہیں۔
قیدیوں کی سزا میں تخفیف کی اسکیم کا غلط استعمال سامنے آنے کے بعد حکومت پر تنقید بھی کی جارہی ہے۔ لوگ سب سے بڑی ملکی سوشل میڈیا ویب سائٹ Weibo پر اس بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے دولت مند اور کوڑھ مغز مُجرم ، سائنس داں برادری میں شامل ہوگئے ہیں۔ کچھ نے یہ بھی کہا کہ جیلوں کے باہر ' چین کے نوبیل پرائز سینٹر' کی تختی آویزاں کردینی چاہیے۔
قیدیوں کو یہ سہولت فراہم کرنے سے حکومت کا مقصد انھیں مثبت سرگرمیوں کی جانب لانا اور جیل سے رہا ہونے کے بعد ایک اچھے شہری کی طرح زندگی گزارنے میں مدد دینا ہے۔ اب تک متعدد قیدی اس اسکیم سے فائدہ اٹھا چکے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تعلیم یافتہ قیدیوں کے لیے علاوہ ناخواندہ قیدیوں نے بھی اپنی ذہنی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے تکنیکی ایجادات کی ہیں۔ ایجادات کرنے کے بعد قیدی اپنی ایجاد کو پیٹنٹ کروانے کے لیے متعلقہ محکمے سے رابطہ کرتے ہیں۔ مقررہ فیس ادا کرنے کے بعد انھیں ' سند حق ایجاد ' مل جاتی ہے۔
حکومت کے اس اقدام سے قیدیوں کو دہرا فائدہ ہورہا ہے۔ وہ نہ صرف سزا میں کمی کے اہل ہوجاتے ہیں بلکہ جیل میں رہتے ہوئے ان کی ایجاد کردہ اشیاء یا تکنیک ان کے لیے آمدنی کا ذریعہ بھی بن جاتی ہیں۔ تاہم حال ہی میں، مال دار قیدیوں کی جانب سے حکومت کی فراہم کردہ اس سہولت کے غلط استعمال کا انکشاف ہوا ہے۔
چینی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق دولت مند قیدی اس سہولت سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی سزاؤں میں تخفیف کروارہے ہیں۔ وہ خود کوئی شے ایجاد کرنے یا کوئی تیکنیک وضع کرنے کے بجائے دوسروں سے یہ کام کروا رہے ہیں۔ وہ کسی ایجاد کے اصل موجد کو منہ مانگی رقم دے کر اس کی محنت کا ثمر اپنے نام سے پیٹنٹ کروا رہے ہیں۔ بعد ازاں وہ مطلوبہ دستاویزات جیل کے حکام کو فراہم کردیتے ہیں اور یوں ان کی سزا میں کمی کردی جاتی ہے۔
سزا میں تخفیف حاصل کرنے کی اس سہولت نے دوسروں کی ایجادات کو اپنے نام سے پیٹنٹ کروانے کے عمل کو باقاعدہ کاروبار کی شکل دے دی ہے۔ ذرائع ابلاغ میں ایسے ایجنٹس کی جانب سے اشتہارات دیے جارہے ہیں جو قیدیوں کو ایجادات ' فراہم ' کرتے ہیں۔ مال دار ملزم جُرم ثابت ہونے اور جیل جانے سے پہلے بھی ان ایجنٹوں سے رابطہ کرلیتے ہیں جن کے پاس 60000 یوآن سے لے کر 600000 یوآن تک میں ایجادات ' دستیاب' ہوتی ہیں۔
سرکاری اہل کاروں کا کہنا ہے کہ قانون کے مطابق سزا میں تخفیف کے لیے ضروری ہے کہ ایجاد قیدی نے خود کی ہو، لیکن ان کے پاس یہ جاننے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ ایجاد، قیدی نے خود کی ہے یا کسی سے خرید کر اپنے نام پر پیٹنٹ کروائی ہے۔ اس سُقم کی وجہ سے دولت مند قیدی بہ آسانی اپنی سزاؤں میں تخفیف پارہے ہیں۔
قیدیوں کی سزا میں تخفیف کی اسکیم کا غلط استعمال سامنے آنے کے بعد حکومت پر تنقید بھی کی جارہی ہے۔ لوگ سب سے بڑی ملکی سوشل میڈیا ویب سائٹ Weibo پر اس بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے دولت مند اور کوڑھ مغز مُجرم ، سائنس داں برادری میں شامل ہوگئے ہیں۔ کچھ نے یہ بھی کہا کہ جیلوں کے باہر ' چین کے نوبیل پرائز سینٹر' کی تختی آویزاں کردینی چاہیے۔