وادیٔ سندھ میں دہشتگردی کا عفریت
ملک بھر کے عوام دہشتگردوں کے نشانے پر ہیں، اب اندرون سندھ میں بھی یہ زہر پھیلتا جا رہا ہے۔
لاہور:
ہر آنکھ اشک بار ہے، دلوں پر نہ جانے کیسا غبار ہے، زبانیں گنگ، قلم خاموش ہیں، تخیل کی زرخیز زمین بنجر ہوئی، الفاظ بانجھ ہو چلے، تسلی کے دو جملے کہنا بھی دشوار ہو رہا ہے، کیسے نہ ہو دشوار، ان درد کے ماروں کو کوئی کیسے پُرسہ دے سکتا ہے جن کے گھروں کے چشم و چراغ ابدی نیند سو گئے۔
ہر آنکھ میں نمی ہے ہر وہ دل مضطرب ہے جس میں دھڑکن کے آثار باقی ہیں اور ہر وہ شخص مغموم ہے جس میں انسانیت کی کوئی ایک بھی رمق موجود ہے۔ درد کا ایک دریا ہے کہ ہر آنکھ میں بہہ رہا ہے، کیا قیامت ہے کہ امن و آشتی کا درس دینے والے صوفیاء اور اولیائے کرام کی سرزمین وادیٔ سندھ کو بھی دہشتگردی کا عفریت نگلتا جا رہا ہے۔
شکارپور کے علاقے لکھی در میں امام بارگاہ کربلا معلی مسجد میں ایک خود کش بمبار نے نماز جمعہ کے خطبے کے وقت خود کو دھماکا خیز مواد سے اڑایا، 62 سے زائد افراد زندگی کی بازی ہار گئے، چھوٹے سے شہر میں 62 جنازے اٹھنے پر کہرام مچ گیا، پورا اندرون سندھ سوگ میں ڈوب گیا، ہر آنکھ اشکبار نظر آئی، رقت آمیز مناظر دیکھے گئے، آہ و فغاں، ماتم، سینہ کوبی ہوتی رہی۔
اندرون سندھ میں دہشتگردی کا یہ پہلا واقعہ ہے، جس میں پہلی بار بیک وقت اتنی زیادہ انسانی جانیں ضایع ہوئیں۔ ملک بھر کے عوام دہشتگردوں کے نشانے پر ہیں، اب اندرون سندھ میں بھی یہ زہر پھیلتا جا رہا ہے، کراچی سمیت ملک بھر کے بڑے شہر پہلے ہی اس کی زد میں ہیں، شکارپور جیسے شہر میں وحشیانہ کارروائی اس بات کی نشاندہی ہے کہ دہشتگردوں نے اب باقاعدہ سندھ کو اپنا ہدف بنا لیا ہے۔
افسردہ مغموم لوگ پوچھتے ہیں کہ یہ ظالم کس مٹی سے بنے ہیں؟ یہ قیامت برپا کر کے، یہ بے گناہوں کا قتل عام کر کے، یہ مائوں کی گودیں اجاڑ کر جنت کے خواب دیکھتے ہیں تو آخر وہ کون بد بخت ہیں جنہوں نے ان انسانوں کو یہ خواب دکھا کر حیوان بنایا؟ ہاں ہر شخص نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے، موت بولائی ہوئی اونٹنی کی طرح زندگی کے تعاقب میں ہے، مگر یہ موت وہ موت نہیں، یہ موت تو ہمارے اجتماعی ضمیر کی موت ہے، یہ موت تو ہمارے دھڑکتے ہوئے دلوں کی موت ہے، یہ موت تو ہماری ان حسیات کی موت ہے جو ہمیں جینے کا ہنر سکھاتی ہے، یہ من حیث القوم ہر پاکستانی کی موت ہے، بے شک موت بڑی تکلیف دہ شے ہے، ہمیشہ کے لیے کسی کے بچھڑ جانے کا دکھ بہت سفاک ہوتا ہے، کلیجہ چیر دیتا ہے۔
موت ایک آفاقی حقیقت سہی مگر ہمارا تو زندگی پر ایمان ہے، نیکیوں کے موسم میں گلابوں کی طرح مہکتی ہوئی زندگی پر۔ مانا کہ وقت کی بے رحم ہوا کا چلن بہت تیز ہے، محو ہوتی ہوئی انسانی یادداشت سے کوئی نہیں ٹکرا سکتا لیکن اگر ہم نے اس سانحے کو بھی بھلا دیا جیسے اس سے پہلے ہونیوالے سیکڑوں سانحوں کو بھلا چکے ہیں تو پھر لعنت ہے ہماری زندگی پر۔ سانحہ پشاور کے بعد ہمارے ناخدائوں کو آنیوالی تباہی کا شدید احساس ہوا، انسانی ضمیر میں درد کی ایک شدید ٹھیس اٹھی اور پورے خطے میں بھونچال سا آیا، سنگ دلی اور شقاوت قلبی کی اس خون آشام واردات نے احساس دلایا کہ پوری انسانیت کا مستقبل خطرے میں ہے اور دہشت گردی کا قلع قمع کے لیے مشترکہ پرعزم کوششیں درکار ہیں۔
پھولوں کے شہر میں رقص ابلیس کے بعد پوری قوم جاگ اٹھی، سیاسی جماعتیں، حکومت اور افواج پاکستان بھی ایک پیج پر نظر آئی، روایتی بیانات سے ہٹ کر بڑے اہم فیصلے ہوئے مگر فیصلوں پر عملدرآمد تاحال ندارد ہے، فوجی عدالتوں کے قیام میں تاخیر اور مذہبی جماعتوں کے تحفظات قوم میں پھر سے ابہام پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر پاکستانی قوم چاہتی ہے کہ آیندہ کسی ماں کا کلیجہ ٹکڑے ٹکڑے نہ کیا جائے، کسی بچے کے مقدر پر یتیمی کی مہر نہ لگائی جائے، کسی بہن کا سہاگ نہ اجاڑا جائے، کسی گھر کا واحد سہارا یوں بے موت نہ مارا جائے، تو اسے کوئی بڑا فیصلہ کرنا ہو گا۔ ان قاتلوں کے بارے میں، جن سے مخاطب ہو کر حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا تھا کہ ''تمہارے سروں میں دماغ نہیں غلاظت بھری ہوئی ہے، تمہاری آنکھیں خناسوں کے گھونسلے ہیں ۔
جہاں سے فتنے جھانکتے ہیں، تمہاری زبانوں سے سانپ جھڑتے ہیں، ڈرو اپنے ہاتھوں سے کہ وہ تمہارے ہی گلے گھونٹنے کو تم پر لپکنے والے ہیں۔ ''وہ قاتل کون ہیں؟ وہ قاتل ہمارے اندر موجود ہیں، وہی جن کے دماغ غلاظت سے بھرے ہیں، وہی جو گفتگو کرتے ہیں تو ان کی زبانوں سے زہر ابلتا ہے۔ہم سب جانتے ہیں کہ یہ دہشتگرد کون ہیں، تمام دہشتگرد تنظیموں کے ناموں سے پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے اسلام کے لبادے میں قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ کون کون ان دہشتگردوں سے متعلق اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتا ہے، کون ان کا سہولت کار ہے، ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جب یہ اپنی کمین گاہوں سے نکلتے ہیں تو کن کن اداروں میں جا کر ٹھہرتے ہیں۔
سانحہ پشاور کے بعد حقیقی صبح نو طلوع ہو چکی ہے، خون میں شرابور کہانی پوائنٹ آف نو ریٹرن تک آ پہنچی ہے، غور و فکر، سوچ بچار اور بحث و مباحثہ بہت سے لوگ مل کر کرتے ہیں، لیکن ایکشن ہمیشہ فرد واحد کرتا ہے اور قوم یقین رکھے کہ اسے یہ فرد واحد میسر ہے جس نے ہر قسم کے کنفیوژن کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ضرب عضب کا آغاز کیا تھا۔اس وقت ہم غم سے نڈھال ہیں، تاہم ہمیں اپنے غم کو طاقت میں بدلنا ہے، ہمیں حزن و ملال کو قومی استقلال میں بدلنا ہے، ہمیں اپنے رنج و الم کو دہشتگردوں کے خلاف عزم صمیم میں بدلنا ہے اور ہمیں اپنے دکھ اور کرب کو دہشتگردی کے خلاف نئے عزم اور نئے حوصلے سے بدلنا ہے۔
ہم سب کو شہر آرزو کا ماتم اس سوچ کے ساتھ کرنا چاہیے کہ ہمیں اس عفریت کا راستہ روکنے کے لیے کرنا کیا ہے؟ دہشتگردوں کے ساتھ دلی ہمدردی رکھنے والے وہ لاکھوں ''سہل پسند'' بھی ہمارے درمیان موجود ہیں جو ہتھیار تو نہیں اٹھاتے لیکن ان کے دل ہتھیار اٹھانے والوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہے جب پوری قوم کے دل ان گندے لوگوں کے خلاف نفرت سے بھرے ہوئے ہیں چنانچہ حکومت اگر اس وقت کوئی قدم اٹھاتی ہے تو جہاں پوری قوم اس کے ساتھ کھڑی ہو گی وہاں ان سانپوں اور سنپولیوں کو بھی جرات نہیں ہو گی کہ وہ ان کی حمایت میں سامنے آئیں۔ قوم اس وقت ان سانپوں اور سنپولیوں کے خلاف غصے سے بھری پڑی ہے جو ہماری رگوں میں زہر پھیلا کر ہمیں موت کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں۔
پوری قوم پر بدلے اور انتقام کا جنون سوار ہے، ہر طرف یہی آوازیں اٹھ رہی ہیں، کہا جا رہا ہے کہ اب حشر اٹھا دو، نیست و نابود کر دو ان دہشتگردوں کو، ان کی نسلیں مٹا دو۔افواج پاکستان کو چاہیے کہ وہ شمالی وزیرستان میں ہونیوالے آپریشن ضرب عضب کا دائرہ پورے ملک تک پھیلا دیں، ہر جگہ کی تلاشی لیں، ہر انتہا پسند کے گھر پر نظر رکھیں اور ساتھ ہی ساتھ مدارس میں جو نصاب پڑھایا جا رہا ہے اسے گہری نظر سے دیکھیں۔ وقت تقاضا کر رہا ہے کہ ہم یک زباں ہو کر دہشتگردی کے خاتمے کے لیے اپنے آپ کو منظم کریں، باہر سے آنیوالی امداد جو دہشتگردوں کو زندہ رکھے ہوئے ہے اس کا راستہ روکیں، ہماری ریاست، حکومت، ریاستی اداروں، قومی و سیاسی قیادت ہم سب کا صرف ایک ہی ہدف ہونا چاہیے کہ پاکستان دہشتگردوں کی جنت نہ رہے اور یہاں ہر حال میں امن قائم ہو، بصورت دیگر آنیوالی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔
واضح رہے کہ اندرون سندھ میں پہلا خود کش دھماکا شکارپور کی تحصیل خانپور کے گائوں شبیر آباد میں سابق ایم این اے ڈاکٹر ابراہیم جتوئی کی رہائشگاہ پر مجلس عزاء کے دوران 17 دسمبر 2010 میں ہوا، جس میں ایس ایچ او سمیت 5 افراد زخمی ہوئے۔ دوسری واردات 25 فروری 2013کو شکارپور کی تحصیل لکھی غلام شاہ میں واقع بالائی سندھ کی مشہور درگاہ غلام شاہ غازی المعروف ماڑی شریف میں ہوئی، جس میں گدی نشین سید حاجن شاہ سمیت 4 افراد جاں بحق ہوئے۔
تیسری واردات الیکشن 2013 سے کچھ دن پہلے یکم مئی 2013کو ہوئی، جس میں شکار پور ٹول پلازہ پر این پی پی کے امیدوار ڈاکٹر ابراہیم جتوئی کی گاڑی سے خود کش بمبار نے خود کو ٹکرا دیا، بلٹ پروف گاڑی کی وجہ سے سابق ایم این اے محفوظ رہے، 2 افراد زخمی ہوئے۔ چوتھی کارروائی 21 فروری 2013کو جیکب آباد میں میں ریمورٹ کنٹرول بم دھماکا کر کے کی گئی، جس میں درگاہ قمبر شریف کے گدی نشین اور مشہور بزرگ شخصیت پیر سید غلام حسین شاہ بخاری سمیت 10 افراد زخمی ہوئے اور ان کا پوتا سید شفیق شاہ دم توڑ گیا۔
ہر آنکھ اشک بار ہے، دلوں پر نہ جانے کیسا غبار ہے، زبانیں گنگ، قلم خاموش ہیں، تخیل کی زرخیز زمین بنجر ہوئی، الفاظ بانجھ ہو چلے، تسلی کے دو جملے کہنا بھی دشوار ہو رہا ہے، کیسے نہ ہو دشوار، ان درد کے ماروں کو کوئی کیسے پُرسہ دے سکتا ہے جن کے گھروں کے چشم و چراغ ابدی نیند سو گئے۔
ہر آنکھ میں نمی ہے ہر وہ دل مضطرب ہے جس میں دھڑکن کے آثار باقی ہیں اور ہر وہ شخص مغموم ہے جس میں انسانیت کی کوئی ایک بھی رمق موجود ہے۔ درد کا ایک دریا ہے کہ ہر آنکھ میں بہہ رہا ہے، کیا قیامت ہے کہ امن و آشتی کا درس دینے والے صوفیاء اور اولیائے کرام کی سرزمین وادیٔ سندھ کو بھی دہشتگردی کا عفریت نگلتا جا رہا ہے۔
شکارپور کے علاقے لکھی در میں امام بارگاہ کربلا معلی مسجد میں ایک خود کش بمبار نے نماز جمعہ کے خطبے کے وقت خود کو دھماکا خیز مواد سے اڑایا، 62 سے زائد افراد زندگی کی بازی ہار گئے، چھوٹے سے شہر میں 62 جنازے اٹھنے پر کہرام مچ گیا، پورا اندرون سندھ سوگ میں ڈوب گیا، ہر آنکھ اشکبار نظر آئی، رقت آمیز مناظر دیکھے گئے، آہ و فغاں، ماتم، سینہ کوبی ہوتی رہی۔
اندرون سندھ میں دہشتگردی کا یہ پہلا واقعہ ہے، جس میں پہلی بار بیک وقت اتنی زیادہ انسانی جانیں ضایع ہوئیں۔ ملک بھر کے عوام دہشتگردوں کے نشانے پر ہیں، اب اندرون سندھ میں بھی یہ زہر پھیلتا جا رہا ہے، کراچی سمیت ملک بھر کے بڑے شہر پہلے ہی اس کی زد میں ہیں، شکارپور جیسے شہر میں وحشیانہ کارروائی اس بات کی نشاندہی ہے کہ دہشتگردوں نے اب باقاعدہ سندھ کو اپنا ہدف بنا لیا ہے۔
افسردہ مغموم لوگ پوچھتے ہیں کہ یہ ظالم کس مٹی سے بنے ہیں؟ یہ قیامت برپا کر کے، یہ بے گناہوں کا قتل عام کر کے، یہ مائوں کی گودیں اجاڑ کر جنت کے خواب دیکھتے ہیں تو آخر وہ کون بد بخت ہیں جنہوں نے ان انسانوں کو یہ خواب دکھا کر حیوان بنایا؟ ہاں ہر شخص نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے، موت بولائی ہوئی اونٹنی کی طرح زندگی کے تعاقب میں ہے، مگر یہ موت وہ موت نہیں، یہ موت تو ہمارے اجتماعی ضمیر کی موت ہے، یہ موت تو ہمارے دھڑکتے ہوئے دلوں کی موت ہے، یہ موت تو ہماری ان حسیات کی موت ہے جو ہمیں جینے کا ہنر سکھاتی ہے، یہ من حیث القوم ہر پاکستانی کی موت ہے، بے شک موت بڑی تکلیف دہ شے ہے، ہمیشہ کے لیے کسی کے بچھڑ جانے کا دکھ بہت سفاک ہوتا ہے، کلیجہ چیر دیتا ہے۔
موت ایک آفاقی حقیقت سہی مگر ہمارا تو زندگی پر ایمان ہے، نیکیوں کے موسم میں گلابوں کی طرح مہکتی ہوئی زندگی پر۔ مانا کہ وقت کی بے رحم ہوا کا چلن بہت تیز ہے، محو ہوتی ہوئی انسانی یادداشت سے کوئی نہیں ٹکرا سکتا لیکن اگر ہم نے اس سانحے کو بھی بھلا دیا جیسے اس سے پہلے ہونیوالے سیکڑوں سانحوں کو بھلا چکے ہیں تو پھر لعنت ہے ہماری زندگی پر۔ سانحہ پشاور کے بعد ہمارے ناخدائوں کو آنیوالی تباہی کا شدید احساس ہوا، انسانی ضمیر میں درد کی ایک شدید ٹھیس اٹھی اور پورے خطے میں بھونچال سا آیا، سنگ دلی اور شقاوت قلبی کی اس خون آشام واردات نے احساس دلایا کہ پوری انسانیت کا مستقبل خطرے میں ہے اور دہشت گردی کا قلع قمع کے لیے مشترکہ پرعزم کوششیں درکار ہیں۔
پھولوں کے شہر میں رقص ابلیس کے بعد پوری قوم جاگ اٹھی، سیاسی جماعتیں، حکومت اور افواج پاکستان بھی ایک پیج پر نظر آئی، روایتی بیانات سے ہٹ کر بڑے اہم فیصلے ہوئے مگر فیصلوں پر عملدرآمد تاحال ندارد ہے، فوجی عدالتوں کے قیام میں تاخیر اور مذہبی جماعتوں کے تحفظات قوم میں پھر سے ابہام پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر پاکستانی قوم چاہتی ہے کہ آیندہ کسی ماں کا کلیجہ ٹکڑے ٹکڑے نہ کیا جائے، کسی بچے کے مقدر پر یتیمی کی مہر نہ لگائی جائے، کسی بہن کا سہاگ نہ اجاڑا جائے، کسی گھر کا واحد سہارا یوں بے موت نہ مارا جائے، تو اسے کوئی بڑا فیصلہ کرنا ہو گا۔ ان قاتلوں کے بارے میں، جن سے مخاطب ہو کر حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا تھا کہ ''تمہارے سروں میں دماغ نہیں غلاظت بھری ہوئی ہے، تمہاری آنکھیں خناسوں کے گھونسلے ہیں ۔
جہاں سے فتنے جھانکتے ہیں، تمہاری زبانوں سے سانپ جھڑتے ہیں، ڈرو اپنے ہاتھوں سے کہ وہ تمہارے ہی گلے گھونٹنے کو تم پر لپکنے والے ہیں۔ ''وہ قاتل کون ہیں؟ وہ قاتل ہمارے اندر موجود ہیں، وہی جن کے دماغ غلاظت سے بھرے ہیں، وہی جو گفتگو کرتے ہیں تو ان کی زبانوں سے زہر ابلتا ہے۔ہم سب جانتے ہیں کہ یہ دہشتگرد کون ہیں، تمام دہشتگرد تنظیموں کے ناموں سے پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے اسلام کے لبادے میں قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ کون کون ان دہشتگردوں سے متعلق اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتا ہے، کون ان کا سہولت کار ہے، ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جب یہ اپنی کمین گاہوں سے نکلتے ہیں تو کن کن اداروں میں جا کر ٹھہرتے ہیں۔
سانحہ پشاور کے بعد حقیقی صبح نو طلوع ہو چکی ہے، خون میں شرابور کہانی پوائنٹ آف نو ریٹرن تک آ پہنچی ہے، غور و فکر، سوچ بچار اور بحث و مباحثہ بہت سے لوگ مل کر کرتے ہیں، لیکن ایکشن ہمیشہ فرد واحد کرتا ہے اور قوم یقین رکھے کہ اسے یہ فرد واحد میسر ہے جس نے ہر قسم کے کنفیوژن کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ضرب عضب کا آغاز کیا تھا۔اس وقت ہم غم سے نڈھال ہیں، تاہم ہمیں اپنے غم کو طاقت میں بدلنا ہے، ہمیں حزن و ملال کو قومی استقلال میں بدلنا ہے، ہمیں اپنے رنج و الم کو دہشتگردوں کے خلاف عزم صمیم میں بدلنا ہے اور ہمیں اپنے دکھ اور کرب کو دہشتگردی کے خلاف نئے عزم اور نئے حوصلے سے بدلنا ہے۔
ہم سب کو شہر آرزو کا ماتم اس سوچ کے ساتھ کرنا چاہیے کہ ہمیں اس عفریت کا راستہ روکنے کے لیے کرنا کیا ہے؟ دہشتگردوں کے ساتھ دلی ہمدردی رکھنے والے وہ لاکھوں ''سہل پسند'' بھی ہمارے درمیان موجود ہیں جو ہتھیار تو نہیں اٹھاتے لیکن ان کے دل ہتھیار اٹھانے والوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہے جب پوری قوم کے دل ان گندے لوگوں کے خلاف نفرت سے بھرے ہوئے ہیں چنانچہ حکومت اگر اس وقت کوئی قدم اٹھاتی ہے تو جہاں پوری قوم اس کے ساتھ کھڑی ہو گی وہاں ان سانپوں اور سنپولیوں کو بھی جرات نہیں ہو گی کہ وہ ان کی حمایت میں سامنے آئیں۔ قوم اس وقت ان سانپوں اور سنپولیوں کے خلاف غصے سے بھری پڑی ہے جو ہماری رگوں میں زہر پھیلا کر ہمیں موت کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں۔
پوری قوم پر بدلے اور انتقام کا جنون سوار ہے، ہر طرف یہی آوازیں اٹھ رہی ہیں، کہا جا رہا ہے کہ اب حشر اٹھا دو، نیست و نابود کر دو ان دہشتگردوں کو، ان کی نسلیں مٹا دو۔افواج پاکستان کو چاہیے کہ وہ شمالی وزیرستان میں ہونیوالے آپریشن ضرب عضب کا دائرہ پورے ملک تک پھیلا دیں، ہر جگہ کی تلاشی لیں، ہر انتہا پسند کے گھر پر نظر رکھیں اور ساتھ ہی ساتھ مدارس میں جو نصاب پڑھایا جا رہا ہے اسے گہری نظر سے دیکھیں۔ وقت تقاضا کر رہا ہے کہ ہم یک زباں ہو کر دہشتگردی کے خاتمے کے لیے اپنے آپ کو منظم کریں، باہر سے آنیوالی امداد جو دہشتگردوں کو زندہ رکھے ہوئے ہے اس کا راستہ روکیں، ہماری ریاست، حکومت، ریاستی اداروں، قومی و سیاسی قیادت ہم سب کا صرف ایک ہی ہدف ہونا چاہیے کہ پاکستان دہشتگردوں کی جنت نہ رہے اور یہاں ہر حال میں امن قائم ہو، بصورت دیگر آنیوالی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔
واضح رہے کہ اندرون سندھ میں پہلا خود کش دھماکا شکارپور کی تحصیل خانپور کے گائوں شبیر آباد میں سابق ایم این اے ڈاکٹر ابراہیم جتوئی کی رہائشگاہ پر مجلس عزاء کے دوران 17 دسمبر 2010 میں ہوا، جس میں ایس ایچ او سمیت 5 افراد زخمی ہوئے۔ دوسری واردات 25 فروری 2013کو شکارپور کی تحصیل لکھی غلام شاہ میں واقع بالائی سندھ کی مشہور درگاہ غلام شاہ غازی المعروف ماڑی شریف میں ہوئی، جس میں گدی نشین سید حاجن شاہ سمیت 4 افراد جاں بحق ہوئے۔
تیسری واردات الیکشن 2013 سے کچھ دن پہلے یکم مئی 2013کو ہوئی، جس میں شکار پور ٹول پلازہ پر این پی پی کے امیدوار ڈاکٹر ابراہیم جتوئی کی گاڑی سے خود کش بمبار نے خود کو ٹکرا دیا، بلٹ پروف گاڑی کی وجہ سے سابق ایم این اے محفوظ رہے، 2 افراد زخمی ہوئے۔ چوتھی کارروائی 21 فروری 2013کو جیکب آباد میں میں ریمورٹ کنٹرول بم دھماکا کر کے کی گئی، جس میں درگاہ قمبر شریف کے گدی نشین اور مشہور بزرگ شخصیت پیر سید غلام حسین شاہ بخاری سمیت 10 افراد زخمی ہوئے اور ان کا پوتا سید شفیق شاہ دم توڑ گیا۔