میک اپ خواتین کو بانچھ پن کے ساتھ دل کی بیماریوں میں بھی مبتلا کردیتا ہے تحقیق
میک اپ کی تیاری میں استعمال ہونے والے 15 لازمی کیمیائی اجزا خواتین کی صحت کے لئے انتہائی مضر ہیں،تحقیق
ISLAMABAD:
مشرق ہو یا مغرب سجنا سنورنا ہرعورت اپنا حق سمجھتی ہے اور عصر حاضر میں ہر طبقے کی خواتین خوبصورت نظر آنے کے لئے میک اپ کے جدید ساز و سامان سے استفادہ ضرور حاصل کرتی ہیں لیکن یہ تمام چیزیں درحقیقت خواتین کو فائدے سے زیادہ نقصان پہنچارہی ہیں۔
امریکا کی واشنگٹن یونیورسٹی کے ماہرین نے 31 ہزار 575 خواتین پر مختلف کیمیائی مواد سے بنی لپ اسٹکس اور فیس کریم سمیت میک اپ کے دیگر سامان سے تجربات کئے اور 4 سال تک ان کے اثرات کا جائزہ لیا گیا۔ تحقیق کے دوران پتہ چلا کہ ان سامان کی تیاری میں استعمال ہونے والے 15 لازمی کیمیائی اجزا خواتین کی صحت کے لئے انتہائی مضر ہیں۔
تحقیقی ٹیم کی سربراہ پروفیسر امبر کُوپر کا کہنا تھا کہ میک اپ کے مسلسل استعمال سے خواتین دل کی بیماریاں، ہڈیوں کی کمزوری اور بانجھ پن کا شکار ہورہی ہیں، اس کے علاوہ نوجوان خواتین میں کینسر کے بڑھتے ہوئے واقعات بھی اسی کا نتیجہ ہیں، ان کا کہنا تھا کہ اس تحقیق کے نتائج کی روشنی میں اب خواتین کو میک اپ کے بڑھتے استعمال سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔
مشرق ہو یا مغرب سجنا سنورنا ہرعورت اپنا حق سمجھتی ہے اور عصر حاضر میں ہر طبقے کی خواتین خوبصورت نظر آنے کے لئے میک اپ کے جدید ساز و سامان سے استفادہ ضرور حاصل کرتی ہیں لیکن یہ تمام چیزیں درحقیقت خواتین کو فائدے سے زیادہ نقصان پہنچارہی ہیں۔
امریکا کی واشنگٹن یونیورسٹی کے ماہرین نے 31 ہزار 575 خواتین پر مختلف کیمیائی مواد سے بنی لپ اسٹکس اور فیس کریم سمیت میک اپ کے دیگر سامان سے تجربات کئے اور 4 سال تک ان کے اثرات کا جائزہ لیا گیا۔ تحقیق کے دوران پتہ چلا کہ ان سامان کی تیاری میں استعمال ہونے والے 15 لازمی کیمیائی اجزا خواتین کی صحت کے لئے انتہائی مضر ہیں۔
تحقیقی ٹیم کی سربراہ پروفیسر امبر کُوپر کا کہنا تھا کہ میک اپ کے مسلسل استعمال سے خواتین دل کی بیماریاں، ہڈیوں کی کمزوری اور بانجھ پن کا شکار ہورہی ہیں، اس کے علاوہ نوجوان خواتین میں کینسر کے بڑھتے ہوئے واقعات بھی اسی کا نتیجہ ہیں، ان کا کہنا تھا کہ اس تحقیق کے نتائج کی روشنی میں اب خواتین کو میک اپ کے بڑھتے استعمال سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔