شیخ ایاز
سندھ کے دبستان ِشاعری کا قطبی ستارہ
سندھ دریا کے ساتھ ساتھ کروٹ لیتی تہذیب و تمدن نے انسانی سماج کے جتنے روپ اپنے رواں دواں تیز و تند اور کہیں کہیں انتہائی خراماں خراماں سکوت کے سنگ سنگ دیکھے اتنے دل کش رنگ کسی اور کے نصیب میں کہاں؟ ہمالیہ کے برف پوش پہاڑوں کے دامن سے نکلنے والا پُرجوش سندھو، جب بل کھاتا کوہستانی سلسلے سے نکل کر میدانی علاقہ گزار کے وادیٔ مہران میں داخل ہوتا ہے، تو سبک روی کی متانت لیے دھیمے دھیمے سیرابی کے عمل کو پھیلاتا ہی چلا جاتا ہے،
جس سے مٹی کی سوندھی خوشبو فضاء کو مہکاتی ہے تو دوسری جانب سسّی، ماروی، نوری جام تماچی اور مومل سے لے کر شاہ عبداللطیف اور سچل سرمست تک دھرتی سے وابستہ علاقائی ثقافت کی وہ قوس قزح بکھرتی ہے، جو قلب نظر پر سحر طاری کردیتی ہے۔
مسلکِ روحانیت کے قلندر کی دھمال اور شاہ و سچل کے میٹھے سُروں کی لیَ سے معطر سرِزمین سندھ کے شہر رانی پور کے بزرگ سخی صالح شاہ جیلانی کے مرید اور خلیفہ خاص غلام حسین مقیم شکارپور کے ہاں، جو تین شادیاں کرنے کے باوجود ابھی تک بے اولاد تھے، اﷲ رب العزت کے کرم خاص اور مرشد کامل کی دعا کے طفیل 2 مارچ 1923 بمطابق 21، رجب المرجب 1341 ہجری بروز جمعتہ المبارک، دادان (جو نومسلم اور غلام حسین کی تیسری زوجہ تھیں) کے بطن سے اولادِ نرینہ ہوئی، جس کا نام مبارک علی رکھا گیا۔ مبارک علی نسلاً بلرانی تھے، جب کہ ان کے جدِامجد درگاہی شیخ تھے۔ مبارک علی کے دادا شیخ عبدالحکیم بنگل 1848 میں پیدا ہوئے اور40 سال کی عمر میں اپریل 1888 میں وصال کرگئے۔ مبارک علی کے والد بزگوار غلام حسین 2، مئی 1875کو متولد ہوئے۔ وہ شاعر تھے اور ''فقیر'' تخلص کرتے تھے۔ وہ شکارپور کورٹ میں لا ایجنٹ کی ملازمت پر مامور تھے۔ 60 سال کی عمر میں 21 ، مارچ 1935 کو ان کا انتقال ہوا۔
مبارک علی نے زمانۂ طالب علمی میں شاعری سے ناتا جوڑا۔ ان کی پہلی تخلیق بہاری لال ہری رام چھابڑیا کے شکارپور سے نکلنے والے رسالے 'سدرشن' کے سال نامے مطبوعہ جنوری/فروری 1938 میں شایع ہوئی۔ وہ شیخ مبارک کے نام سے متعارف ہوئے اور ان کی پہلی طبع ہونے والی نظم 'مردِخدا' تھی۔ مبارک علی نے شاعری میں اصلاح کھیل داس فانی سے لی اور اپنے اسلوب اور طرزاظہار کی بدولت وہ سندھ کے دبستان ِشاعری کے افق کا قطبی ستارہ قرار پائے، جنھیں دنیا شیخ ایاز کے نام سے جانتی ہے۔
تحریک آزادیٔ ہند کے اثرات نے سندھ کے ادباء اور دانشوروں کو بھی بہت کچھ سوچنے پر مجبور کیا۔ دوسری طرف عالمی تناظر میں، ترقی پسند تحریک بھی سندھ کے ادب پر اپنے ان مٹ نقوش ثبت کر رہی تھی۔ سندھ میں سیاسی شعور بالیدگی پارہا تھا۔ دیہات سے لے کر شہروں تک انقلاب اور اس کے ثمرات پر نقدونظر جاری تھی۔ کراچی ترقی پسند اور انقلاب مائل سندھی اور اردو ادبأ و شعراء کا مرکز بن کر ابھر رہا تھا۔ ابھی تک ترقی پسند تحریک کی باقاعدہ تنظیم تو قائم نہ ہوئی تھی، لیکن انجمن ترقی پسند مصنفین، جو بعدازاں سندھی ادبی سنگت میں تبدیل کر دی گئی، کے تحت ادباء اور شعراء منظم ہوچکے تھے اور ان کی ادبی محفلیں پُرجوش سیاسی جلسوں کا منظر پیش کرتی تھیں۔
یہ ذولسانی ادبی معرکے نوجوانوں کے لہو کو گرمادینے کے کرشمے دکھاتے۔ اس طرح سندھ میں انقلاب کی تحریک روز بروز اپنی جڑیں مضبوط کرتی چلی گئی، جس کوئی ہر ذی شعور متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔
شیخ ایاز گرچہ کم عمری ہی سے ذولسانی شاعری کر رہے تھے، لیکن1955تک ان کا محور اردو شاعری تھا۔ ایک انقلابی شاعر کی حیثیت سے ان کی بازیافت کراچی کی ان ہی ادبی تحریکوں سے ہوئی، جن کے اجتماعات میں انھوں نے اپنی پرُتاثر انقلابی نظمیں ِ''باغی'' اور ''ملاح کا گیت'' پڑھیں، جنھیں انقلاب کے متوالوں نے اپنا ترانہ بنالیا، جس نے تحریک سے وابستہ لوگو ں کے جوش و خروش کو دو چند کر دیا۔
صبح ِآزادی کی سحر نمودار ہوئی۔ ایازؔ کا شعری سفر جاری رہا۔ سندھ کی شعری روایات سے وابستگی اور بین الاقوامی ادب کے وسیع مطالعے کے باعث شیخ ایاز کی اردو شاعری ہند اور سندھ کے مشترکہ ادبی ورثے کی حیثیت اختیار کرگئی۔ اس کا مکمل ادراک خود شیخ ایاز کو بھی تھا، چناں چہ انھوں نے کہا،''جب میرے دور کی تاریخ لکھی جائے گی، تو محقق جان لیں گے کہ مجھے کالی داس، ودیا پتی اور ''گیت گووند'' کے مصنف جے دیو کی کوِیتا کیوں اتنی پسند تھی اور میں میرا جی کی مہانتا کو کیوں مانتا ہوں ۔'' اس کا اظہار وہ اپنی شاعری میں کچھ یو ں کرتے ہیں
لطیف، خسرو دو دیپ جلے
اک جمنا ماں کے کنٹھے پر
اک سندھو ماں کے صحرا میں
دونوں میں انوکھی پیت کی لو
دونوں میں انوکھے پھول کھلے
سندھ میں اردو شاعری کی روایت قدیم ہے، جو اپنی تمام تر تہذیبی روایات کے تاریخی تسلسل کے ساتھ وارد ہوئی تھی اور یہاں کے باسیوں نے اس کی چاشنی اور دل گدازی کو اپنی روح میں بسالیا۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ ایاز کی اردو شاعری روایت اور جدت کا حسین امتزاج اور عالمی ادب کے شعری تخلیقات کو اردو کے قا لب میں ڈھالنے کا فریضۂ احسن طور ادا کرتی ہے۔
1954 تک شیخ ایاز ؔکے سندھی افسانوں کے تین مطبوعات سامنے آچکے تھے۔ ساتھ ساتھ ایاز، تواتر کے ساتھ اردو شاعری کر رہے تھے اور ان کی کئی شاہ کار منظوم نگارشات اس کے قادرالکلام ہونے پر گواہ بن چکی تھیں۔ اسی دوران سندھ ادبی سرکل سکھر کے روح رواں اور سندھی اردو ادب کی ہم آہنگی کے داعی پروفیسر آفاق صدیقی نے ایاز کی اردو شاعری اور کچھ سندھی کلام کا ترجمہ کرکے،''بوئے گُل نالۂ دل'' مرتب کی اور جولائی 54 میں یہ کتاب تفصیلی دیپاچے کے ساتھ سندھ ادبی سرکل سکھر کے تحت شایع کی۔ یہ اردو شعری دنیا سے شیخ ایاز کا پہلا بھرپور تعارف تھا۔ اس شاہ کار تخلیق کے حوالے سے یہ کہنا بے محل نہ ہوگا کہ ''آفاق صدیقی اردو شعری دنیا میں ایاز کے واسکوڈی گا ما ہیں۔''''بوئے گل نالۂ دل'' میں نظمیں، گیت، غزلیں، ہائیکو اور سندھی شاعری کے کلاسیک، سبھی کچھ ہے، جو فکر کی نئی راہیں استوار کرتا ہے۔ شیخ ایاز آب و گل کی نیرنگیوں میں کوئی ماورائی کیفیت ضرور پاتا ہے، لیکن اس کی بے چین روح کسی زندہ حقیقت کی تلاش میں بھی ہے
میں نے دیکھا ہے اسے
کون کہتا ہے کہ وہ جلوۂ مستور مرا واہمہ ہے
چاندنی راتوں کا احساس جمیل!
تو بتا دے کہ وہ محبوب حسیں
میری آغوش میں کس طرح مچل جاتا ہے
٭٭٭
اے شعور عارفانہ
پردہ ہائے زندگی سے وہ نگاہ محرمانہ
جھانکتی ہے
ہر فسانہ اک حقیقت بن گیا
ایازؔ کی نظم میں بیدار ذہن کے اضطراب اور کرب کی حساسیت، لاشعوری امکانات کے شعوری نتائج پر سوچنے پر اکساتی ہے۔ ابھی بوئے گل نالۂ دل، کی بازگشت دبستانِ اردو میں ہلچل مچا ہی رہی تھی کہ سندھ کے عظیم صوفی شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری کا منظوم اردو ترجمہ کرکے شیخ ایاز نے عاشقانِ اردو کے دل جیت لیے اور یہ بھی ثابت کردیا کہ اُنھیں اردو شعری روایات، زبان کے رچائو، لوچ اور شاعری کی فنی بندشوں سے کماحقہ آگاہی ہے۔ ''رسالہ شاہ عبداللطیف'' کا ترجمہ ایازنے اپنے مقرب دوست پروفیسر آفاق صدیقی کی شعری وہ علمی معاونت کے ساتھ تقریباً دو سال میں مکمل کیا۔ چھے ہزار دو سو تینتیس اشعار اور ایک سو چھیانوے وائیوں کا یہ مجموعہ 1963 میں سندھ یونیورسٹی نے شایع کیا۔
فہمیدہ ریاض نے شیخ ایاز کی ایماء پر ان کی پانچ سندھی شعری تحقیقات کے منتخب کلام کا منظوم اردو ترجمہ 1949 میں ''حلقہ مری زنجیر کا'' کے زیرعنوان کیا، تو اس سے وہ تمام خدشات دور ہوگئے جن کے سبب ایاز کے کامل ذولسانی شاعر ہونے پر کچھ حلقوں کے تحفظات تھے۔ اس مجموعۂ کلام میں ترجمہ کا جو اعلیٰ معیار اور شعری غنائیت فہمیدہ ریاض نے قائم رکھی ہے، اس سے ان کی تخلیقی اور فنی مہارت اظہر من الشمس ہے ۔ دیکھیےآج کو یتا کے پنگھٹ پر
سرسوتی اور کالی نے مل کر
رس کے ڈھیر سمیٹے ہیں
برسوں کے بعد سنگم ہوا ہے
''مہاکوی'' کوئی پیدا ہوا ہے۔
'' حلقہ میری زنجیر کا '' میں ایاز کی 62 سے 73 تک کی شاعری کا ترجمہ ہے، جو ان کی ابتدائی شاعری، مگر نمائندہ کلام، کا عمدہ انتخاب ہے۔ فہمیدہ ریاض کا ترجمہ ایسا دوآتشہ ہے، جس کا خمار بے پناہ ہے، جس میں انھوں نے گیت، وائیاں، دوہے، بیت، غزلیں، نظمیں، اور ڈراما ''دودو سومرو'' کی موت کا ترجمہ بھی اتنی روانی، سادگی اور فصاحت و بلاغت کے ساتھ کیا ہے کہ ترجمہ تخلیق معلوم ہوتا ہے۔
شیخ ایاز کی اردو شاعری کا دوسرا مجموعہ ''نیل کنٹھ اور نیم کے پتے '' ہے۔ اس میں 47 سے 51 اور 73 تا 78
کی شعری نگارشات شامل ہیں۔ پہلے دور کے بارے میں غالب گمان ہے کہ بوجوہ شایع نہ ہو سکنے والے، 'کف ِگُل فروش' میں یہ کلام شامل تھا۔ ''نیل کنٹھ اور نیم کے پتے'' کا مزاج اور لب و لہجہ مفکرانہ اور دردمندانہ کیفیات کے ساتھ استحصالی نظام سے پوری قوت کے ساتھ نبردآزما ہونے کی دعوت دیتا ہے:
میرے دیدہ ورو!
میرے دانش ورو!
پائوں زخمی سہی ڈگمگاتے چلو
راہ میں سنگ و آہن کے ٹکرائو سے
اپنی زنجیر کو جگمگاتے چلو
شیخ ایازؔ نے اردو شاعری میں سندھی اصنافِ شعری کو مزاج کے تمام تر آہنگ ک ساتھ جس طرح برتا اور سمویا وہ انھی کا خاصہ ہے۔ بیت، وائی، دوہے کی بندش سندھی شاعری کا خاصہ ہے۔ ایاز نے جس روپ سنگھار کے ساتھ انھیں اپنی اردو شاعری میں اختیار کیا، اس نے ذو لسانی شعراء کے لیے تخلیق کے نئے زاویے فراہم کیے ہیں۔
شیخ ایازؔ کا اسلوب کلاسیکی اردو غزل سے مختلف ضرور ہے، لیکن اس میں غنائیت رچی بسی ہے، جو غزل کو وائی اور بیت کا ہم رشتہ بنا دیتی ہے۔ ان کی نظموں میں دھوپ چھائوں کا موسم ہے، جہاں داخلی اور خارجی محرکات ایک اکائی بن کر عالم وجدان سے درآتے ہیں۔ ایاز کے بارے میں یہ کہنا حقیقت کے قریب ہے کہ ''ٹیگور کے بعد برصغیر میں شیخ ایاز واحد شاعر و ادیب ہے، جس نے ہر صنفِ سخن میں اپنی جودتِ طبع سے خوب صورت اضافہ کیا ہے۔
شیخ ایازؔ کے وصال کے بعد ان کے دیرینہ دوست اور شاعر تاج جویو نے انتہائی تلاش بسیار کے بعد ایاز کی ڈائریوں اور بکھیرے ہوئے کاغذات میں سے ان کا تمام غیرمطبوعہ اردو اور سندھی کلام اکٹھا کیا اور پھر سندھی کلام کا ترجمہ کرکے اِسے ''میری شاعری، میری صلیب '' کے عنوان سے مجتمع کردیا۔ اس حوالے سے یہ کتاب ایاز کی تمام غیرمطبوعہ اردو شاعری کا احاطہ کرتی ہے۔ 2007 میں منصۂ شہود پر آنے والے اس مجموعۂ کلام کے دیباچے میں تاج جویو رقم طراز ہیں کہ جدید سماجی قومی اور عالمی شعور سے آراستہ ایاز نہ صرف بیسویں صدی کا شاعر ہے، بلکہ وہ ماضی کا تسلسل حال کا ترجمان اور مستقبل کا راہ نما شاعر ہے۔
ملکی سیاست کی سیاہی نے اگر سندھی اردو تنازعہ نہ بھڑکایا ہوتا، تو شاید آج شیخ ایاز مشترکہ ذولسانی شاعری کا نمائندہ شاعر بلااختلاف ہوتا۔ ادب ثقافت کی تشکیل کے بنیادی عناصر میں اہم ترین ہے۔ اسی لیے کسی بھی زبان کا مخالف تنگ نظر گروہ جلد شکست پر مجبور ہو جاتا ہے۔ فن اور فن کار آفاقیت کے افق پر ہمیشہ طلوع رہتے ہیں۔ ایاز کو اکیسویں صدی میں بھی سندھی شاعری تک محدود رکھنا ادب کے خلاف استحصالی رویے کی علامت ہے۔ سندھی/اردو سے وابستہ ناقدین کو چاہیے کہ وہ کثیرالتہذیبی ہم آہنگی کے فروغ میں غیر جانب دانہ کردار ادا کریں اور ذولسانی ادباَ و شعرا ء کی تخلیقات کو وسعتِ نظر کے ساتھ نقد کی کسوٹی پر پرکھیں اور پھر ان کا مقام و مرتبہ متعین کیا جائے۔ اس ضمن میں خوش آئند پہل کرتے ہوئے شعبۂ اردو، جامعہ کراچی کی صدر نشین پروفیسر ڈاکٹر عظمیٰ فرمان نے اپنی نگرانی میں ''شیخ ایاز کی اردو شاعری ، طبع زاد اور سندھی سے تراجم کے تناظر میں'' کے موضوع پر پی ایچ ڈی کا مقالہ، آنسہ فرزانہ خان، استاد اپوا گورنمنٹ گرلز کالج، کراچی، کو تفویض کیا ہے۔ جس تن دہی اور جزئیات کی ہمہ گیری سے نگرانِ مقالہ کام کروا رہی ہیں، اس سے یقیناً ایاز کی شاعرانہ عظمت دبستانِ اردو میں مزید مستحکم ہوگی۔
شیخ ایازؔ کے اردو شعری کلیّات میں تراجم کی صورت روز بروز اضافہ اچھی بات ہے۔ اس سلسلے میں محکمۂ ثقافت حکومت سندھ کا کردار قابل ِستائش ہے، جس نے حال ہی میں ''بوئے گل نالۂ دل'' (مرتب فہیم شناس کے تحت)، ''میری شاعری میری صلیب'' (مرتب و ترجمہ تاج جویو)، دانشِ ایاز (مرتب وترجمہ، آصف فرخی، شاہ محمدپیزادہ)، ''اوراقِ زریں'' (مرتب، آصف فر خی)،''سخن آفریں'' (مرتب وترجمہ، فہیم شناس)، ''حلقہ مری زنجیر کا'' (ترجمہ، فہمیدہ ریاض) ''اے آہوچشم کدھر'' اور ''ساحل پر تلاطم'' (ترجمہ، قاضی مقصودگل) بڑے اہتمام سے شایع کی ہیں۔ لیکن اس اشاعتی منصوبہ کا حُسن و وقار اس وقت اعتبار حاصل کرے گا جب اردو کے نام ور شعراء کا کلام بھی اسی دیدہ زیبی کے ساتھ سندھی میں منصۂ شہود پر لا یا جائے۔
ادب ملک کے عمومی مزاج کی نشان دہی اور مستقبل شناسی کا معتبر پیمانہ ہے۔ وہی ادب زندہ رہتا ہے جو اپنے سماج کی بھر پور عکاسی اور وہاں کے باسیوں کے دلوں کی آواز بنے۔ شیخ ایاز کا ادب میں اعلیٰ مرتبہ یوں بھی ہے کہ ان کی شاعری کا خمیر تاریخ کی زندہ روایتوں اور اَٹل حقیقتوں سے اٹھا ہے۔ ایاز مزاحمت کرتا ہے تو غم گسار بھی ہے، قدامت سے الجھتا ہے، تو جدید فلسفۂ حیات کا اعتبار بھی ہے۔ وہ جدت طرازی کے جنوں میں شعور سے بے گانہ بھی نہیں کہ لحمۂ موجود کا انکار کرے۔ ایاز کی شاعری میں 'چاہت' حُسن اور جوبن پانی کے بلبلے نہیں، بلکہ ٹھوس اور دائمی حقیقت ہیں، جو دل کو راحت اور سکون بخشتے ہیں۔
سندھی، اردو کا یہ عظیم ذولسانی شاعر 28 دسمبر 1997کو اپنی حقیقی منزل کے لیے اس فانی جہاں سے کوچ کرگیا۔ بلاتردّد کہا جاسکتا ہے کہ سندھو دریا جب تک رواں دواں ہے اس کی ہر لہر سے شیخ ایاز کی نغمگی چہار سو پھیلتی رہے گی۔
جس سے مٹی کی سوندھی خوشبو فضاء کو مہکاتی ہے تو دوسری جانب سسّی، ماروی، نوری جام تماچی اور مومل سے لے کر شاہ عبداللطیف اور سچل سرمست تک دھرتی سے وابستہ علاقائی ثقافت کی وہ قوس قزح بکھرتی ہے، جو قلب نظر پر سحر طاری کردیتی ہے۔
مسلکِ روحانیت کے قلندر کی دھمال اور شاہ و سچل کے میٹھے سُروں کی لیَ سے معطر سرِزمین سندھ کے شہر رانی پور کے بزرگ سخی صالح شاہ جیلانی کے مرید اور خلیفہ خاص غلام حسین مقیم شکارپور کے ہاں، جو تین شادیاں کرنے کے باوجود ابھی تک بے اولاد تھے، اﷲ رب العزت کے کرم خاص اور مرشد کامل کی دعا کے طفیل 2 مارچ 1923 بمطابق 21، رجب المرجب 1341 ہجری بروز جمعتہ المبارک، دادان (جو نومسلم اور غلام حسین کی تیسری زوجہ تھیں) کے بطن سے اولادِ نرینہ ہوئی، جس کا نام مبارک علی رکھا گیا۔ مبارک علی نسلاً بلرانی تھے، جب کہ ان کے جدِامجد درگاہی شیخ تھے۔ مبارک علی کے دادا شیخ عبدالحکیم بنگل 1848 میں پیدا ہوئے اور40 سال کی عمر میں اپریل 1888 میں وصال کرگئے۔ مبارک علی کے والد بزگوار غلام حسین 2، مئی 1875کو متولد ہوئے۔ وہ شاعر تھے اور ''فقیر'' تخلص کرتے تھے۔ وہ شکارپور کورٹ میں لا ایجنٹ کی ملازمت پر مامور تھے۔ 60 سال کی عمر میں 21 ، مارچ 1935 کو ان کا انتقال ہوا۔
مبارک علی نے زمانۂ طالب علمی میں شاعری سے ناتا جوڑا۔ ان کی پہلی تخلیق بہاری لال ہری رام چھابڑیا کے شکارپور سے نکلنے والے رسالے 'سدرشن' کے سال نامے مطبوعہ جنوری/فروری 1938 میں شایع ہوئی۔ وہ شیخ مبارک کے نام سے متعارف ہوئے اور ان کی پہلی طبع ہونے والی نظم 'مردِخدا' تھی۔ مبارک علی نے شاعری میں اصلاح کھیل داس فانی سے لی اور اپنے اسلوب اور طرزاظہار کی بدولت وہ سندھ کے دبستان ِشاعری کے افق کا قطبی ستارہ قرار پائے، جنھیں دنیا شیخ ایاز کے نام سے جانتی ہے۔
تحریک آزادیٔ ہند کے اثرات نے سندھ کے ادباء اور دانشوروں کو بھی بہت کچھ سوچنے پر مجبور کیا۔ دوسری طرف عالمی تناظر میں، ترقی پسند تحریک بھی سندھ کے ادب پر اپنے ان مٹ نقوش ثبت کر رہی تھی۔ سندھ میں سیاسی شعور بالیدگی پارہا تھا۔ دیہات سے لے کر شہروں تک انقلاب اور اس کے ثمرات پر نقدونظر جاری تھی۔ کراچی ترقی پسند اور انقلاب مائل سندھی اور اردو ادبأ و شعراء کا مرکز بن کر ابھر رہا تھا۔ ابھی تک ترقی پسند تحریک کی باقاعدہ تنظیم تو قائم نہ ہوئی تھی، لیکن انجمن ترقی پسند مصنفین، جو بعدازاں سندھی ادبی سنگت میں تبدیل کر دی گئی، کے تحت ادباء اور شعراء منظم ہوچکے تھے اور ان کی ادبی محفلیں پُرجوش سیاسی جلسوں کا منظر پیش کرتی تھیں۔
یہ ذولسانی ادبی معرکے نوجوانوں کے لہو کو گرمادینے کے کرشمے دکھاتے۔ اس طرح سندھ میں انقلاب کی تحریک روز بروز اپنی جڑیں مضبوط کرتی چلی گئی، جس کوئی ہر ذی شعور متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔
شیخ ایاز گرچہ کم عمری ہی سے ذولسانی شاعری کر رہے تھے، لیکن1955تک ان کا محور اردو شاعری تھا۔ ایک انقلابی شاعر کی حیثیت سے ان کی بازیافت کراچی کی ان ہی ادبی تحریکوں سے ہوئی، جن کے اجتماعات میں انھوں نے اپنی پرُتاثر انقلابی نظمیں ِ''باغی'' اور ''ملاح کا گیت'' پڑھیں، جنھیں انقلاب کے متوالوں نے اپنا ترانہ بنالیا، جس نے تحریک سے وابستہ لوگو ں کے جوش و خروش کو دو چند کر دیا۔
صبح ِآزادی کی سحر نمودار ہوئی۔ ایازؔ کا شعری سفر جاری رہا۔ سندھ کی شعری روایات سے وابستگی اور بین الاقوامی ادب کے وسیع مطالعے کے باعث شیخ ایاز کی اردو شاعری ہند اور سندھ کے مشترکہ ادبی ورثے کی حیثیت اختیار کرگئی۔ اس کا مکمل ادراک خود شیخ ایاز کو بھی تھا، چناں چہ انھوں نے کہا،''جب میرے دور کی تاریخ لکھی جائے گی، تو محقق جان لیں گے کہ مجھے کالی داس، ودیا پتی اور ''گیت گووند'' کے مصنف جے دیو کی کوِیتا کیوں اتنی پسند تھی اور میں میرا جی کی مہانتا کو کیوں مانتا ہوں ۔'' اس کا اظہار وہ اپنی شاعری میں کچھ یو ں کرتے ہیں
لطیف، خسرو دو دیپ جلے
اک جمنا ماں کے کنٹھے پر
اک سندھو ماں کے صحرا میں
دونوں میں انوکھی پیت کی لو
دونوں میں انوکھے پھول کھلے
سندھ میں اردو شاعری کی روایت قدیم ہے، جو اپنی تمام تر تہذیبی روایات کے تاریخی تسلسل کے ساتھ وارد ہوئی تھی اور یہاں کے باسیوں نے اس کی چاشنی اور دل گدازی کو اپنی روح میں بسالیا۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ ایاز کی اردو شاعری روایت اور جدت کا حسین امتزاج اور عالمی ادب کے شعری تخلیقات کو اردو کے قا لب میں ڈھالنے کا فریضۂ احسن طور ادا کرتی ہے۔
1954 تک شیخ ایاز ؔکے سندھی افسانوں کے تین مطبوعات سامنے آچکے تھے۔ ساتھ ساتھ ایاز، تواتر کے ساتھ اردو شاعری کر رہے تھے اور ان کی کئی شاہ کار منظوم نگارشات اس کے قادرالکلام ہونے پر گواہ بن چکی تھیں۔ اسی دوران سندھ ادبی سرکل سکھر کے روح رواں اور سندھی اردو ادب کی ہم آہنگی کے داعی پروفیسر آفاق صدیقی نے ایاز کی اردو شاعری اور کچھ سندھی کلام کا ترجمہ کرکے،''بوئے گُل نالۂ دل'' مرتب کی اور جولائی 54 میں یہ کتاب تفصیلی دیپاچے کے ساتھ سندھ ادبی سرکل سکھر کے تحت شایع کی۔ یہ اردو شعری دنیا سے شیخ ایاز کا پہلا بھرپور تعارف تھا۔ اس شاہ کار تخلیق کے حوالے سے یہ کہنا بے محل نہ ہوگا کہ ''آفاق صدیقی اردو شعری دنیا میں ایاز کے واسکوڈی گا ما ہیں۔''''بوئے گل نالۂ دل'' میں نظمیں، گیت، غزلیں، ہائیکو اور سندھی شاعری کے کلاسیک، سبھی کچھ ہے، جو فکر کی نئی راہیں استوار کرتا ہے۔ شیخ ایاز آب و گل کی نیرنگیوں میں کوئی ماورائی کیفیت ضرور پاتا ہے، لیکن اس کی بے چین روح کسی زندہ حقیقت کی تلاش میں بھی ہے
میں نے دیکھا ہے اسے
کون کہتا ہے کہ وہ جلوۂ مستور مرا واہمہ ہے
چاندنی راتوں کا احساس جمیل!
تو بتا دے کہ وہ محبوب حسیں
میری آغوش میں کس طرح مچل جاتا ہے
٭٭٭
اے شعور عارفانہ
پردہ ہائے زندگی سے وہ نگاہ محرمانہ
جھانکتی ہے
ہر فسانہ اک حقیقت بن گیا
ایازؔ کی نظم میں بیدار ذہن کے اضطراب اور کرب کی حساسیت، لاشعوری امکانات کے شعوری نتائج پر سوچنے پر اکساتی ہے۔ ابھی بوئے گل نالۂ دل، کی بازگشت دبستانِ اردو میں ہلچل مچا ہی رہی تھی کہ سندھ کے عظیم صوفی شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری کا منظوم اردو ترجمہ کرکے شیخ ایاز نے عاشقانِ اردو کے دل جیت لیے اور یہ بھی ثابت کردیا کہ اُنھیں اردو شعری روایات، زبان کے رچائو، لوچ اور شاعری کی فنی بندشوں سے کماحقہ آگاہی ہے۔ ''رسالہ شاہ عبداللطیف'' کا ترجمہ ایازنے اپنے مقرب دوست پروفیسر آفاق صدیقی کی شعری وہ علمی معاونت کے ساتھ تقریباً دو سال میں مکمل کیا۔ چھے ہزار دو سو تینتیس اشعار اور ایک سو چھیانوے وائیوں کا یہ مجموعہ 1963 میں سندھ یونیورسٹی نے شایع کیا۔
فہمیدہ ریاض نے شیخ ایاز کی ایماء پر ان کی پانچ سندھی شعری تحقیقات کے منتخب کلام کا منظوم اردو ترجمہ 1949 میں ''حلقہ مری زنجیر کا'' کے زیرعنوان کیا، تو اس سے وہ تمام خدشات دور ہوگئے جن کے سبب ایاز کے کامل ذولسانی شاعر ہونے پر کچھ حلقوں کے تحفظات تھے۔ اس مجموعۂ کلام میں ترجمہ کا جو اعلیٰ معیار اور شعری غنائیت فہمیدہ ریاض نے قائم رکھی ہے، اس سے ان کی تخلیقی اور فنی مہارت اظہر من الشمس ہے ۔ دیکھیےآج کو یتا کے پنگھٹ پر
سرسوتی اور کالی نے مل کر
رس کے ڈھیر سمیٹے ہیں
برسوں کے بعد سنگم ہوا ہے
''مہاکوی'' کوئی پیدا ہوا ہے۔
'' حلقہ میری زنجیر کا '' میں ایاز کی 62 سے 73 تک کی شاعری کا ترجمہ ہے، جو ان کی ابتدائی شاعری، مگر نمائندہ کلام، کا عمدہ انتخاب ہے۔ فہمیدہ ریاض کا ترجمہ ایسا دوآتشہ ہے، جس کا خمار بے پناہ ہے، جس میں انھوں نے گیت، وائیاں، دوہے، بیت، غزلیں، نظمیں، اور ڈراما ''دودو سومرو'' کی موت کا ترجمہ بھی اتنی روانی، سادگی اور فصاحت و بلاغت کے ساتھ کیا ہے کہ ترجمہ تخلیق معلوم ہوتا ہے۔
شیخ ایاز کی اردو شاعری کا دوسرا مجموعہ ''نیل کنٹھ اور نیم کے پتے '' ہے۔ اس میں 47 سے 51 اور 73 تا 78
کی شعری نگارشات شامل ہیں۔ پہلے دور کے بارے میں غالب گمان ہے کہ بوجوہ شایع نہ ہو سکنے والے، 'کف ِگُل فروش' میں یہ کلام شامل تھا۔ ''نیل کنٹھ اور نیم کے پتے'' کا مزاج اور لب و لہجہ مفکرانہ اور دردمندانہ کیفیات کے ساتھ استحصالی نظام سے پوری قوت کے ساتھ نبردآزما ہونے کی دعوت دیتا ہے:
میرے دیدہ ورو!
میرے دانش ورو!
پائوں زخمی سہی ڈگمگاتے چلو
راہ میں سنگ و آہن کے ٹکرائو سے
اپنی زنجیر کو جگمگاتے چلو
شیخ ایازؔ نے اردو شاعری میں سندھی اصنافِ شعری کو مزاج کے تمام تر آہنگ ک ساتھ جس طرح برتا اور سمویا وہ انھی کا خاصہ ہے۔ بیت، وائی، دوہے کی بندش سندھی شاعری کا خاصہ ہے۔ ایاز نے جس روپ سنگھار کے ساتھ انھیں اپنی اردو شاعری میں اختیار کیا، اس نے ذو لسانی شعراء کے لیے تخلیق کے نئے زاویے فراہم کیے ہیں۔
شیخ ایازؔ کا اسلوب کلاسیکی اردو غزل سے مختلف ضرور ہے، لیکن اس میں غنائیت رچی بسی ہے، جو غزل کو وائی اور بیت کا ہم رشتہ بنا دیتی ہے۔ ان کی نظموں میں دھوپ چھائوں کا موسم ہے، جہاں داخلی اور خارجی محرکات ایک اکائی بن کر عالم وجدان سے درآتے ہیں۔ ایاز کے بارے میں یہ کہنا حقیقت کے قریب ہے کہ ''ٹیگور کے بعد برصغیر میں شیخ ایاز واحد شاعر و ادیب ہے، جس نے ہر صنفِ سخن میں اپنی جودتِ طبع سے خوب صورت اضافہ کیا ہے۔
شیخ ایازؔ کے وصال کے بعد ان کے دیرینہ دوست اور شاعر تاج جویو نے انتہائی تلاش بسیار کے بعد ایاز کی ڈائریوں اور بکھیرے ہوئے کاغذات میں سے ان کا تمام غیرمطبوعہ اردو اور سندھی کلام اکٹھا کیا اور پھر سندھی کلام کا ترجمہ کرکے اِسے ''میری شاعری، میری صلیب '' کے عنوان سے مجتمع کردیا۔ اس حوالے سے یہ کتاب ایاز کی تمام غیرمطبوعہ اردو شاعری کا احاطہ کرتی ہے۔ 2007 میں منصۂ شہود پر آنے والے اس مجموعۂ کلام کے دیباچے میں تاج جویو رقم طراز ہیں کہ جدید سماجی قومی اور عالمی شعور سے آراستہ ایاز نہ صرف بیسویں صدی کا شاعر ہے، بلکہ وہ ماضی کا تسلسل حال کا ترجمان اور مستقبل کا راہ نما شاعر ہے۔
ملکی سیاست کی سیاہی نے اگر سندھی اردو تنازعہ نہ بھڑکایا ہوتا، تو شاید آج شیخ ایاز مشترکہ ذولسانی شاعری کا نمائندہ شاعر بلااختلاف ہوتا۔ ادب ثقافت کی تشکیل کے بنیادی عناصر میں اہم ترین ہے۔ اسی لیے کسی بھی زبان کا مخالف تنگ نظر گروہ جلد شکست پر مجبور ہو جاتا ہے۔ فن اور فن کار آفاقیت کے افق پر ہمیشہ طلوع رہتے ہیں۔ ایاز کو اکیسویں صدی میں بھی سندھی شاعری تک محدود رکھنا ادب کے خلاف استحصالی رویے کی علامت ہے۔ سندھی/اردو سے وابستہ ناقدین کو چاہیے کہ وہ کثیرالتہذیبی ہم آہنگی کے فروغ میں غیر جانب دانہ کردار ادا کریں اور ذولسانی ادباَ و شعرا ء کی تخلیقات کو وسعتِ نظر کے ساتھ نقد کی کسوٹی پر پرکھیں اور پھر ان کا مقام و مرتبہ متعین کیا جائے۔ اس ضمن میں خوش آئند پہل کرتے ہوئے شعبۂ اردو، جامعہ کراچی کی صدر نشین پروفیسر ڈاکٹر عظمیٰ فرمان نے اپنی نگرانی میں ''شیخ ایاز کی اردو شاعری ، طبع زاد اور سندھی سے تراجم کے تناظر میں'' کے موضوع پر پی ایچ ڈی کا مقالہ، آنسہ فرزانہ خان، استاد اپوا گورنمنٹ گرلز کالج، کراچی، کو تفویض کیا ہے۔ جس تن دہی اور جزئیات کی ہمہ گیری سے نگرانِ مقالہ کام کروا رہی ہیں، اس سے یقیناً ایاز کی شاعرانہ عظمت دبستانِ اردو میں مزید مستحکم ہوگی۔
شیخ ایازؔ کے اردو شعری کلیّات میں تراجم کی صورت روز بروز اضافہ اچھی بات ہے۔ اس سلسلے میں محکمۂ ثقافت حکومت سندھ کا کردار قابل ِستائش ہے، جس نے حال ہی میں ''بوئے گل نالۂ دل'' (مرتب فہیم شناس کے تحت)، ''میری شاعری میری صلیب'' (مرتب و ترجمہ تاج جویو)، دانشِ ایاز (مرتب وترجمہ، آصف فرخی، شاہ محمدپیزادہ)، ''اوراقِ زریں'' (مرتب، آصف فر خی)،''سخن آفریں'' (مرتب وترجمہ، فہیم شناس)، ''حلقہ مری زنجیر کا'' (ترجمہ، فہمیدہ ریاض) ''اے آہوچشم کدھر'' اور ''ساحل پر تلاطم'' (ترجمہ، قاضی مقصودگل) بڑے اہتمام سے شایع کی ہیں۔ لیکن اس اشاعتی منصوبہ کا حُسن و وقار اس وقت اعتبار حاصل کرے گا جب اردو کے نام ور شعراء کا کلام بھی اسی دیدہ زیبی کے ساتھ سندھی میں منصۂ شہود پر لا یا جائے۔
ادب ملک کے عمومی مزاج کی نشان دہی اور مستقبل شناسی کا معتبر پیمانہ ہے۔ وہی ادب زندہ رہتا ہے جو اپنے سماج کی بھر پور عکاسی اور وہاں کے باسیوں کے دلوں کی آواز بنے۔ شیخ ایاز کا ادب میں اعلیٰ مرتبہ یوں بھی ہے کہ ان کی شاعری کا خمیر تاریخ کی زندہ روایتوں اور اَٹل حقیقتوں سے اٹھا ہے۔ ایاز مزاحمت کرتا ہے تو غم گسار بھی ہے، قدامت سے الجھتا ہے، تو جدید فلسفۂ حیات کا اعتبار بھی ہے۔ وہ جدت طرازی کے جنوں میں شعور سے بے گانہ بھی نہیں کہ لحمۂ موجود کا انکار کرے۔ ایاز کی شاعری میں 'چاہت' حُسن اور جوبن پانی کے بلبلے نہیں، بلکہ ٹھوس اور دائمی حقیقت ہیں، جو دل کو راحت اور سکون بخشتے ہیں۔
سندھی، اردو کا یہ عظیم ذولسانی شاعر 28 دسمبر 1997کو اپنی حقیقی منزل کے لیے اس فانی جہاں سے کوچ کرگیا۔ بلاتردّد کہا جاسکتا ہے کہ سندھو دریا جب تک رواں دواں ہے اس کی ہر لہر سے شیخ ایاز کی نغمگی چہار سو پھیلتی رہے گی۔