بھارت کا دوہرا معیار مسئلہ کشمیر کے حل میں رکاوٹ ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور ہیپی لیک پینٹس کے زیر اہتمام ’’یکجہتیٔ کشمیرسیمینار‘‘ کی رپورٹ

ایکسپریس میڈیا گروپ اور ہیپی لیک پینٹس کے زیر اہتمام ’’یکجہتیٔ کشمیرسیمینار‘‘ کی رپورٹ۔ فوٹو: وسیم نذیر/ایکسپریس

ایکسپریس میڈیا گروپ اور ہیپی لیک پینٹس کے زیر اہتمام اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں ''یکجہتی کشمیرسیمینار'' کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمن نے کی۔

وفاقی وزیراطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید اور آزاد جموں و کشمیرکے صدرسردارمحمد یعقوب خان مہمانان خصوصی تھے جبکہ مقررین میں آزاد کشمیرکے سابق وزیراعظم و آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے صدر سردارعتیق احمد خان، جماعت اسلامی کے رہنما میاں اسلم، جے یو آئی (ف) آزاد کشمیرکے امیرمولانا سعید یوسف اور ہیپی لیک پینٹس کے ڈائریکٹر مارکیٹنگ اینڈ سیلزخواجہ عماد خالد سکہ شامل تھے۔

اس موقع پر تمام مقرین نے ایکسپریس میڈیا کی اس کاوش کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایکسپریس میڈیا گروپ پوری قوم کی نمائندگی کرتا ہے ،آج جو یہ حسین گلدستہ سجایا گیا ہے یقینا اس کی مہک سرحد کے اس پار ضرور پہنچے گی اور کشمیریوں کیلئے تازگی کا سبب بنے گی،ہمیں یقین ہے کہ ایکسپریس میڈیا گروپ ہمیشہ اسی جذبہ سے مسائل اجاگر کرتا رہے گا۔ اس سیمینار میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

مولانا فضل الرحمن (چیئرمین کشمیر کمیٹی)

کشمیر کی جدوجہد آزادی ایک طویل تاریخ کی حامل ہے، اگست 1947ء میں آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کی قرار داد کے مطابق ہمارے مخدوم مرحوم حضرت مولانا محمد یوسف خان صاحب نے کشمیریوں سے بیعت جہاد لیا اور پھرچند روز بعد سردار عبدالقیوم خان نے اس جدوجہد کا آغاز کیا۔ کشمیر کا مسئلہ65سالہ ایک طویل مسئلہ ہے جس میں پاکستان اس کا فریق اور وکیل ہے ۔ کشمیر کی آزادی کا یہ عمل نشیب و فراز کا شکار رہا ہے،پاکستان نے اس کے لیے جنگیں لڑی ہیں اور اپنے ایک حصے کو قربان کیا ہے۔

کشمیریوں نے بھی اپنی جان اور عزت و آبرو کی قربانیاں دی ہیں اور اپنے خون سے آزادی کی اس تحریک کو زندہ اور تابندہ رکھا ہوا ہے اوراس تحریک میں پوری پاکستانی قوم ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہے ۔اس وقت کشمیر میں بھارتی فوجی اور نیم فوجی دستوں کی تعداد آٹھ لاکھ تک پہنچ چکی ہے اور ہر دس افرادپر ایک مسلح شخص تعینات ہے جبکہ کشمیری اس حوالے سے بے بس ہیں۔ کشمیری قوم حق خودارادیت چاہتی ہے اور وہ ہندوستان کے قبضے اور تسلط کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ہم عالمی برادری سے یہ سوال کرتے ہیں کہ کشمیری قوم کے ساتھ یہ امتیازی سلوک کیوں کیا جارہا ہے اور بین الاقوامی برادری اس حوالے سے خاموش کیوں ہے۔

اگر انڈونیشیا میں مشرقی تیمور کی مسیحی آبادی انڈونیشیا سے آزادی کامطالبہ کرتی ہے تو بین الاقوامی برادری خود انہیں آزاد ملک دلوا دیتی ہے۔ اگر جنوبی سوڈان کے لوگ سوڈان سے علیحدگی کا مطالبہ کرتے ہیں تو بین الاقوامی قوتیں انہیں اسلحہ ، مالی امداد اور تربیت بھی فراہم کرتی ہیں اور ان کے اس مطالبے کو جائز قرار دے کر سوڈان کو تقسیم کردیتی ہیں۔ اسی طرح برطانیہ میں سکاٹ لینڈ کے لوگوں نے برطانیہ سے علیحدگی کا مطالبہ کیا توانہیں فوری طور پراستصواب رائے کا حق دے دیا گیا لہٰذا اگر برطانیہ میں سکاٹ لینڈ کے لوگوں کویہ حق دیا جاسکتا ہے تو کشمیر کے عوام کو کیوں نہیں؟

اس حوالے سے عالمی برادری اپنی ذمہ داری پوری کیوں نہیں کررہی اورسلامتی کونسل اپنی قرارداد پرعملدرآمد کیوں نہیں کروا رہی؟ سلامتی کونسل کی اگر کوئی قرارداد کویت کے بارے میں آتی ہے تواس پر عمل نہ کرنے پر اسے سزا دی جاتی ہے۔ اسی طرح سلامتی کونسل کی قرارداد اگر افغانستان کے حوالے سے آتی ہے توپھر قانون کا سہارا لے کر اسے منظور کیا جاتا ہے اورپھر اس کی سزا بھی دی جاتی ہے۔ اگر لیبیا کے حوالے سے قرارداد آتی ہے توپھر نیٹو اورامریکہ اس پر بمباری کرتا ہے اور ملک کو تباہ کردیتا ہے۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم صرف بھارتی رویے پر احتجاج کرتے ہیں لیکن اب ہمیں اس چیز کو بھی ہائی لائٹ کرنا چاہیے کہ بین الاقوامی برادری اپنا حق ادا نہیں کررہی ۔اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ بین الاقوامی برادری بھارت کے ظلم وجبر کی حمایت بھی کررہی ہے لہٰذااب ہمیں اس کا بھی نوٹس لینا ہوگا۔ بھارت سلامتی کونسل کا مستقل ممبربننا چاہتا ہے اور امریکہ اس کی حمایت کررہا ہے۔ بھارت وہ ملک ہے جو خودسلامتی کونسل کی قرارداد کو تسلیم نہیں کرتا لہٰذا جو ملک سلامتی کونسل کی قرارداد تسلیم نہیں کرتا وہ کیسے اس کا رکن بن سکتا ہے۔

تمام اقوام عالم نے 1950ء کی قرارداد کے مطابق کشمیر کو متنازعہ تسلیم کیا اورپھر ہندوستان نے 1952ء میں اپنے دستور میں ترمیم کرتے ہوئے پورے کشمیر کو بھارت کاجغرافیائی حصہ اور اٹوٹ انگ قراردیا۔ اس نے گلگت بلتستان کی بھی دو سیٹیں اپنی پارلیمنٹ میں رکھی ہوئی ہیں اور وہ اسے بھارت کا حصہ سمجھتا ہے۔ کیا ساری دنیا نے اس پر آنکھیں بند کرلی ہیں؟کیا عالمی برادری یہ نہیں دیکھ رہی کہ اس مسئلے پر بھارت کا موقف پوری عالمی برادری سے مختلف ہے اور میرے نزدیک اس معاملے میں بھارت بالکل تنہاہے۔ کشمیر کے حوالے سے ہمارا موقف اصول پر مبنی ہے اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کو عالمی برادری نے تسلیم کیا ہے۔



ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے لیکن جب ہم عالمی برادری کو دلائل دیتے ہیں تو اس میں ہم اپنے مفادات بیان کرتے ہیں جس کے باعث ہمارا کیس کمزور ہوجاتا ہے لہٰذا جب ہمارا دعویٰ اصولی ہے توہمیں دلائل بھی اسی حوالے سے دینے چاہئیں اور صرف اسی صورت میں ہم عالمی برادری پر دباؤ ڈال سکتے ہیں ۔موجودہ حالات میں کشمیر کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم پوری کشمیری قیادت کو آن بورڈ لیں۔اس کے لیے مقبوضہ کشمیر کی قیادت ، پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں اور حریت کانفرنس کے نمائندوں کو بلایا جائے گا۔

اس کے علاوہ ہم اس اجلاس میں یورپی یونین اور او آئی سی کے سفیر وں کوبھی بلائیں گے تاکہ پوری دنیا کے نمائندے کشمیریوں کی آواز اور موقف کو براہ راست سن سکیں اورمیں اس کے لیے ڈائریکٹر جنرل کو ہدایت کرتا ہوں کے اسے جلد ممکن بنایا جائے۔ مقبوضہ کشمیرمیں جو انتخابات ہوئے یہ کشمیری قوم کا فیصلہ نہیں ہے کیونکہ ان کا مطالبہ تو حق خودارادیت کاہے۔ لاکھوں کشمیری ان انتخابات کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے اورپھر بھارتی دانشوروں نے یہ کہا کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کے سڑکوں پر آنے کے بعد پاکستان پر کشمیریوں کی پشت پناہی کے الزام کو دنیا تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہے اور کشمیریوں کی 67سالہ جدوجہد اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ یہ صرف ان کے ضمیر کی آواز ہے۔

آج پھر کشمیر میں ایک نئے دور کا آغاز ہورہا ہے اور کشمیریوں پر ناجائز حکومت مسلط کرنے کا بھارت کا موجودہ کرداربڑا واضح نظر آرہا ہے اوراب کشمیر کو ہندو، مسلم میں تقسیم کیا جارہا ہے۔ بی جے پی ایک فرقہ پرست جماعت ہے جو پورے ہندوستان کو ہندومسلم میں تقسیم کررہی ہے اور کشمیر کے اندر بھی بی جے پی نے خود انتخابات میں حصہ لیا ہے۔ جموں میں صرف بی جے پی کامیاب ہوئی ہے جبکہ وادی میں صرف مسلمان کامیاب ہوئے اور یہاں بی جے پی کا کوئی بھی آدمی کامیاب نہیں ہوا۔

موودی کا خیال یہ تھا کہ وہ اپنی جماعت کی حکومت بنائیں گے، اب ان کی اپنی جماعت کی حکومت تو نہیں بن سکتی لیکن کچھ اشارے مل رہے ہیں کہ بی جے پی اور محبوبہ مفتی کی جماعت اشتراک کے ساتھ حکومت بنانے جا رہی ہے ۔ میرے نزدیک کشمیر کی سیاست کو ایک نئی جہت دے دی گئی ہے لہٰذاہمیں اس صورتحال کو بھی سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ پاکستان اب بھی بھارت سے مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیرحل کرنا چاہتا ہے حالانکہ بھارت نے بلاجواز مذاکرات بند کردیے تھے۔

اس کے علاوہ ورکنگ باؤنڈری پر بھارت کی جانب سے متعدد بار خلاف ورزی کی گئی اور سفید جھنڈا لہرا کرپاکستانی فوجیوں کو بات چیت کے لیے سرحد پار بلا کر ان پر فائرنگ کی گئی۔ یہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے اور بھارت کی جانب سے اخلاقیات کا جنازہ نکالا گیا ہے، میرے نزدیک یہ وہ چیزیں ہیں جواس خطے کی صورتحال خراب کررہی ہیں۔ اوباما جب پہلی مرتبہ امریکا کے صدر منتخب ہوئے تو انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیا کے امن کا انحصا ر پاک بھارت تعلقات پر ہے اور پاک بھارت تعلقات کا انحصار مسئلہ کشمیر کے حل پر ہے۔

آج ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ پورے جنوبی ایشیا کے امن کو برباد کرنے والے بھارت کی سرزنش کی بجائے اس کی حوصلہ افزائی کیوںکی گئی۔ میرے نزدیک ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کے ذریعے ایک کامیاب حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے کشمیریوں کو اس مشکل سے نکالنا ہوگا اور ان کی جدوجہد آزادی کوتحفظ دینا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں استقامت عطا فرمائے اور اس محاظ پر کشمیریوں کے حق خوداداریت کیلئے ان کی جدوجہد میں ہمیں اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

سینیٹر پرویز رشید (وفاقی وزیراطلاعات و نشریات)

جب ہم کشمیر کی آزادی اور کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کی بات کریں تو ہمیں جماعتی، ذاتی اور سیاسی مقام سے بلند ہوکر بحیثیت پاکستانی بات کرنی چاہیے۔ ہماری حکومت نے ہمیشہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے آواز اٹھائی ہے اور 5فروری کو یکجہتی ء کشمیر کے طور پر منانے کا فیصلہ بھی میاں نواز شریف نے کیا۔ کشمیر کی آزادی کے ایشو پر پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہے اور اس حوالے سے ہم میں سے کوئی بھی دو قدم پیچھے یا دوقدم آگے نہیں ہے۔

بھارت میں کشمیر کے حوالے سے کوئی دو رائے نہیں ہے اور اس کی پوری سیاسی قیادت ہماری آزادی ختم کرنے کیلئے متحدہے لہٰذا یہ وقت کی ضرورت ہے کہ دنیا کو یہ پیغام دیا جائے کہ ایک متحدپاکستانی قوم ،آزادی کشمیر کیلئے کشمیریوں کی حمایت کررہی ہے۔ کشمیریوں کواستصواب رائے کا حق دینے کا وعدہ بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے کیا تھا۔کسی بھی قوم کیلئے اس کے رہنما والدین اور محسن کی طرح ہوتے ہیں لیکن بھارتی قوم نے آج تک اپنے اس محسن کے وعدے کو پورانہیں کیا۔

انہوں نے یہ وعدہ صرف کشمیر کے لوگوں کے ساتھ ہی نہیں بلکہ اقوام عالم کے ساتھ کیا تھا۔ آج اگر بھارت پنڈت جی کے اس وعدے کو پورا کرے گا تو اقوام عالم میں بھارت کا درجہ بلند ہوگا اور ہندوستان عالمی برادری کے ساتھ تعلقات کے جو خواب دیکھ رہا ہے ان کی تکمیل کیلئے بھی اسے اقوام عالم سے ہمدردی کے پیغامات مل سکتے ہیں۔ لیکن اگر بھارت اقوام عالم سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کرتا تووہ سلامتی کونسل کاممبر بھی نہیں بن سکتا چاہے اسے امریکہ کی جتنی بھی حمایت حاصل ہو۔



میں تاریخ کے ایک طالب علم اوراس بین الاقوامی دنیا کے ایک فرد ہونے کی حیثیت سے بھارت کی خیرخواہی میں بات کررہا ہوں کہ اگر بھارت اقوام متحدہ میں جانا چاہتا ہے اورسلامتی کونسل کا مستقل رکن بننا چاہتا ہے تو اسے اس ادارے میں کیے گئے اپنے وعدوں کو پورا کرنا ہوگا کیونکہ اس کے بغیر اس کی رکنیت ممکن نہیں ہے۔ ہندوستان اپنی مستقبل کی معاشی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے جو ماحول چاہتا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس خطے میں بھی تعلقات بہتر بنائے۔

اس خطے میں 18کروڑ پاکستانی ہیں اور اس کے علاوہ کشمیر کے لوگ بھی ہیں لہٰذااتنی بڑی آبادی کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کیے بغیربھارت جو اپنی اقتصادی نشو نما کا خواب دیکھ رہا ہے وہ پورا نہیں ہوسکتا،بھارت پہلے کشمیر ی عوام کا دل جیتے اورا س کے لیے ضروری ہے کہ انہیں استصواب رائے کا حق دیاجائے۔

کشمیریوں کو ان کا حق دیے بغیر بھارت کی مثال ایک ایسی گاڑی کی ہے جسے ہینڈ بریک لگی ہوئی ہے،ایسی گاڑی کواگر چلانے کی کوشش کی جائے تو گاڑی چل تو جاتی ہے لیکن اس رفتار کم ہوتی ہے، اس کے انجن پروزن پڑتا ہے اور ٹائروں سے دھواں بھی نکلتا ہے لہٰذا امن اور ترقی کیلئے بھارتی وزیراعظم کو اپنی گاڑی کا ہینڈ بریک کھولنا ہوگا اوریہ اسی صورت میں کھلے گا جب وہ کشمیریوں کو ان کا وہ حق دیں جس کا وعدہ ان کے بزرگوں نے کیا تھا۔

مسئلہ کشمیر کا حل ایک ایسا طریقہ ہے جس پر عمل کرکے ناصرف خطے میں امن قائم ہوگا بلکہ غربت، افلاس اور جہالت کا بھی خاتمہ ہوگاا ور یہ ایک ایساراستہ ہے جو ہم سب کیلئے سود مند ہے۔کشمیر کے حوالے سے قائد اعظمؒ کا جو موقف تھا وہی موقف پورے پاکستان کا ہے اور اس میں کبھی تبدیلی نہیں آئے گی۔ جب تک کشمیر کے لوگوں کو استصواب رائے کا حق نہیں مل جاتا تب تک پاکستان اپنا کردار ادا کرتا رہے گا اوراپنے اس عہد پر قائم رہے گا۔ پاکستان زندہ باد، کشمیر کی آزادی پائندہ باد!

سردارمحمد یعقوب خان (صدر آزاد جموں و کشمیر)

پاکستان میں اور آزاد وجموں کشمیر میں جتنی بھی سیاسی جماعتیں ہیں ان کا سیاسی نظریہ تو مختلف ہوسکتا ہے لیکن کشمیر کے حوالے سے سب کا ایجنڈا ایک ہے اور سب کشمیرکی آزادی چاہتے ہیں ۔ مجھے اس بات پر خوشی ہوتی ہے کہ پوری پاکستانی قوم کشمیریوں کے ساتھ کھڑی ہے اور ہمارا میڈیا بھی کشمیری عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کررہا ہے۔ کشمیری امن پسند ہیں، ان کی نیت صاف اور فکر بھی اچھی ہے۔ اگر انسانیت کے تقاضوں اور دنیا میں امن کے قیام کے حوالے سے بات کی جائے تو میرے نزدیک مسئلہ کشمیر کے حل سے نہ صرف اس خطے بلکہ پوری دنیا کو فائدہ ہوگا کیونکہ موجودہ حالات میں پوری دنیا ہی امن کی متلاشی ہے لہٰذا مسئلہ کشمیر کے حل سے امن ممکن ہے۔


ایک بات ہم کشمیری فخر سے کہتے ہیں کہ ہماری جدوجہد صدیوں پرانی ہے اور ہم آج بھی اپنا تازہ لہو دے کر اپنی اس تحریک کو زندہ رکھے ہوئے ہیں اور انشاء اللہ کشمیری اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک ہم آزاد ی حاصل نہیں کرلیتے ۔ ہم پاکستان کے شکر گزار ہیں کہ پاکستانی حکومت اور عوام کشمیریوں کے ساتھ کھڑی ہے اور جس طرح وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اقوام متحدہ میں کشمیر کے حوالے سے کھل کر بات کی ہے وہ کشمیریوں کے لیے اہمیت رکھتی ہے اور ہم نے یہ دیکھا ہے کہ ماضی میں بھی پاکستان کی ہر حکومت کشمیریوں کے لیے آواز اٹھاتی رہی ہے ۔لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جوبات سیاسی قیادت کو کہنی چاہیے تھی وہ بات پاکستان کے آرمی چیف نے کہی۔



ہم ان کے شکرگزار ہیں کہ انہوں نے کشمیر کے پہاڑوں پرجان قربان کرنے والے فوجیوں کی نمائندگی کی۔ ہم پوری دنیا سے کہنا چاہتے ہیں کہ کشمیری امن پسند لوگ ہیں،یہ وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ کشمیری قیادت کے ساتھ بیٹھ کربات کی جائے کیونکہ کشمیری ایسے کسی فیصلے کو قبول نہیں کریں گے جو ان کی مرضی کے خلاف ہو۔ 5فروری کے حوالے سے ہم حکومت پاکستان کے شکر گزار ہیں کہ وہ اس دن کشمیری عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہیں لہٰذا آزادوجموں کشمیر کے لوگ ہر کونے پر کھڑے ہوکر پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگائیں گے۔ ریاست جموں و کشمیر زندہ باد، پاکستان پائندہ باد!

سردارعتیق احمد خان (سابق وزیراعظم آزاد کشمیر و صدر آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس)

ہر سال 5فروری کا دن کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے بڑے اہتمام کے ساتھ منایا جاتا ہے اگرچہ کشمیر کی تاریخ اور تحریک کے اندر اس کا کوئی حوالہ موجود نہیں ہے تاہم قاضی حسین احمد مرحوم نے 80ء کی دہائی میں یہ کام شروع کیا اوربعدازاں حکومت پاکستان نے یہ دن منانا شروع کیا اور اب یہ دن ہر سال یکجہتی ء کشمیر کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ہندوستان میں بی جے پی کی حکومت آنے کے بعدآزادی کشمیر کی اس تحریک نے ایک نیا رخ اختیار کرلیا ہے لہٰذااب خود پاکستان کے اندر بھی ہمیں اس حوالے سے کاوشوں کو پہلے سے زیادہ منظم اور تیز کرنا ہوگا۔

جہاں تک مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کا تعلق ہے تو اس میں ہندوستانی جبر میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی اور نیویارک ٹائمز کے مطابق کشمیر میں ہندوستانی فوج کی تعداد ساڑھے سات لاکھ سے زیادہ ہے ۔ بھارت میں انتخابات کے فوراََ بعد موودی کی توقعات پوری نہ ہوسکیںاور اس کے نتیجے میں وہاں گورنر راج لگا دیا گیا۔ موودی کی خواہش یہ ہے کہ سری نگر میںبی جے پی کی حکومت ہو۔ اس کے لیے کشمیر کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی کوشش کی جارہی ہے ، پانچ سے چھ لاکھ ہندو خاندانوں کی فہرست تیار کرلی گئی ہے، ان کے لیے زمینوں اورگھروں کی الاٹمنٹ کیلئے جگہ کی نشاندہی بھی کرلی گئی اور مہاراجہ ہری سنگھ کے اسٹیٹ سبجیکٹ کے قانون کو تبدیل کرنے کیلئے بھی اقدامات کرلیے گئے ہیں۔

میری حکومت سے گزارش ہے کہ مولانا فضل الرحمن کی سیاسی بصیرت سے فائدہ اٹھایا جائے اورمولانا فضل الرحمن نے پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں جوقراردار پیش کی تھی ،اسے بنیاد بنا کر آگے بڑھیں کیونکہ اب ہمیںبڑے اقدامات کرنا ہوں گے۔ آرمی چیف نے یوم شہداء پرجب یہ کہا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے توا س ایک جملے میں انہوں نے نریندر موودی کی تمام تقاریر کا جواب دیا،اس کے علاوہ امریکہ میں بھی انہوں نے ذکر کیا کہ مسئلہ کشمیر کو حل کیے بغیر بات آگے نہیں بڑھ سکتی۔ اسی بات کو صدر اوباما، چینی صدر اور بان کی مون نے بھی بھارت میں دہرایا اور اب یہ بات ساری دنیا تسلیم کرچکی ہے۔



اوباما کے حالیہ دورہ بھارت سے بھارت کو کوئی خاطرخواہ فائدہ حاصل نہیں ہوا اورامریکہ کے جو بزنس مین 92انرجی پلانٹ بھارت کو بیچنے گئے تھے وہ مایوس ہو کر اپنے وطن واپس لوٹ گئے اوراب وہ کارپوریٹ سیکٹر جس نے موودی کو وزیراعظم بنانے کیلئے اربوں روپے خرچ کیے تھے، وہ موودی سے پوچھتا ہے کہ انوسٹمنٹ کہاں سے آئے گی۔ ہمیں اس پر غور کرنا چاہیے کہ بھارت کی جس پریڈ میں اوباما نے شرکت کی اس سے کئی گنا بڑی پریڈ چین ہر دس سال بعد کرتا ہے اور امریکی صدر کے دورہ بھارت کے دوران ہی چین نے پیوٹن کواس پریڈ میں شرکت کی دعوت دے دی ہے۔

چین نے جب یہ کہا کہ دنیا میں پاکستان کا کوئی متبادل نہیں ہے تو اس سے خطے میں توازن قائم ہوگیا ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم محمدنوازشریف نے اقوام متحدہ میں کشمیر کے حوالے سے مضبوط انداز میںآواز اٹھائی لیکن ایم ایف این ، این ڈی ایم اے ، بھارت کی جانب سے سرحدی خلاف ورزی ، چالیس لاکھ آدمیوں کا سری نگر میں بے گھر ہوجانا،چودہ لاکھ آدمیوں کابراہ راست متاثر ہونا اور تیرہ فٹ پانی کا اچانک آجاناغیر معمولی ہے،اس پر ہم کیوں خاموش ہیں؟ لہٰذا ہمیں ان چیزوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔میری رائے یہ ہے کہ حکومت پاکستان کو بلا تاخیر آل پارٹیز حریت کانفرنس کو دعوت دینی چاہیے اور آزاد کشمیر کے اندر کشمیریوں کے مل بیٹھنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔

میری حکومت پاکستان سے یہ گزارش ہے کہ اسلام آباد میں او آئی سی کے سفیر، آزاد کشمیر کی حکومت اور کشمیر کمیٹی کو بلائیں تاکہ او آئی سی کو کشمیر کے حوالے سے بریفنگ دی جائے ۔ ہم یورپی سفیر سے بھی بات کرنا چاہتے ہیں اور انہیں بتانا چاہتے ہیں کہ کشمیری ہندوستان سمیت کسی ملک کے خلاف نہیں ہیں، ہم صرف اپنا حق مانگتے ہیں اور کسی بھی صورت میں اس سے دستبردار نہیں ہوسکتے اورہمیں امید ہے کہ ہماری چھ لاکھ جانوں کی قربانی کبھی رائیگاں نہیں جائے گی۔

میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم کشمیری، پاکستان اور ہندوستان کے درمیان مذاکرات میں پل کا کرادر ادا کرنا چاہتے ہیں اور ہم دونوں کو ایک دوسرے کے قریب لانا چاہتے ہیں۔ ہم دونوں حکومتوں اور عالمی برادری سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر حل کیا جائے ۔

خواجہ عماد خالد سکہ (ڈائریکٹر مارکیٹنگ اینڈ سیلز ہیپی لیک پینٹس)

کشمیر ایک بڑا اور اہم مسئلہ ہے۔ یہ نہ صرف ہمارابلکہ پوری انسانیت اورامت مسلمہ کا مسئلہ ہے ۔ میں اس اہم کاز کیلئے جمع ہونے پر تمام حاضرین کا بے حد مشکور ہوں۔



چیئرمین ہیپی لیک پینٹس خواجہ شاہد آزاد سکہ کی جانب سے میں یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ ہیپی لیک پینٹس ہمیشہ امت مسلمہ کے مسائل کے حل کیلئے آپ کے ساتھ ہے، اس کے علاوہ میں تمام معزز مہمانان گرامی کا بھی مشکور ہوں کہ وہ سب یہاں تشریف لائے اورکشمیری عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔

میاں اسلم (رہنما جماعت اسلامی)

پاکستان کے 18کروڑ عوام یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان باعزت ، باوقار ، ترقی یافتہ اور خوشحال ہو لیکن جب تک کروڑوں کشمیریوں کواستصواب رائے کا حق نہیں مل جاتا اوروہ اپنی مرضی کے مطابق فیصلہ نہیں کرلیتے ،اس وقت تک پاکستان باعزت، باوقار اور ترقی یافتہ نہیں ہوسکتا۔ جغرافیائی طور پر، تاریخی طور پر اور نظریاتی طور پرکشمیر پاکستان سے جڑا ہوا نظر آتا ہے ۔پاکستان اور کشمیرکی 861کلومیٹر کی وسیع سرحد اکٹھی ہے۔

تقسیم ہند کے وقت سازش کے ذریعے گرداسپور ہم سے چھین کر بھارت کو کشمیر تک سرنگ فراہم کی گئی ہے۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا ۔ بھارت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو خودسلامتی کونسل میں گئے اوروہاںقراردادیں منظور کروائیں کہ ہم کشمیریوں کورائے شماری کا حق دیں گے لیکن 68برس گزر نے کے باوجود آج تک جواہر لال نہرو کاوعدہ پورا نہیں کیا گیاتاہم سات لاکھ بھارتی فوج کشمیرمیں تعینات کر دی گئی ہے اور پچیس افراد پر ایک مسلح اہلکار کی ڈیوٹی ہے۔



کشمیر میں بھارت نے مظالم کی تمام حدیں پار کردی ہیں،لاکھوں کشمیریوں کو شہید کیا گیا، ہماری ہزاروں ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کی عزت پر دھبہ لگا دیا گیا اوراربوں روپے کی معیشت بھی تباہ کردی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اب موودی کشمیر کے سپیشل سٹیٹس کو بھی ختم کرنا چاہتا ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بھارت نے ہی پاکستان کو کمزور کرنے کی سازش کے تحت بنگلہ دیش ہمارے سے الگ کروایا اور اب بھی وہ ہمارے خلاف سازشیں کررہا ہے۔ کشمیر سے جتنے بھی دریا نکلتے ہیں ان پر62 ڈیم بنائے جارہے ہیں تاکہ پاکستان کے صوبے پنجاب اورسندھ کی کھیتیوں کو بنجر کردیا جائے۔

ہمیں چاہیے کہ ہم کشمیریوں کوحق خوداداریت دلوانے کیلئے اقوام متحدہ اور او آئی سی میں بات کرکے عالمی طور پر بھارت پر دباؤ ڈالیں۔ میرے نزدیک قاتل اور ظالم بھارت اس قابل نہیں ہے کہ اسے سلامتی کونسل کی رکنیت دی جائے یا اسے نیوکلیئر سپلائی میں داخل کیا جائے۔ میرے نزدیک امریکہ اور بھارت کا یہ گٹھ جوڑ خطے کے امن کو تباہ کردے گا ۔ہماری حکومت کو جرات کے ساتھ اسی زبان میں بھارت کو جواب دینا چاہیے جس زبان کووہ سمجھتا ہے ۔ پاکستانی قوم کشمیریوں کے ساتھ ہے لہٰذا جب تک کشمیر آزاد نہیں ہوتا ہم اپنا فریضہ جاری رکھیں گے اور ان کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔

مولانا سعید یوسف (امیر جے یو آئی (ف) آزاد کشمیر)

کشمیریوں کی طویل ترین جدوجہد اور ان کے ساتھ ہونے والے ظلم وجبر کی مثال شاید ہی تاریخ انسانیت میں کہیں ملتی ہو۔ کشمیریوں نے اپنی آزادی کے لیے تمام ذرائع استعمال کیے، کشمیر کے چپے چپے کو اپنے لہو سے سیراب کیا، دوسرے علاقوں میں ہجرت کی، قید وبند کی صعوبتیں کاٹیں، کشمیر کی بیٹی بے آبرو ہوگئی لیکن اس کے باوجود مسئلہ کشمیر ہے کہ حل نہیں ہوسکا۔ میرے نزدیک اس کی وجہ بھارت کا دوہرا معیار ہے۔ بھارت اقوام متحدہ میں کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے کا وعدہ کرتا ہے، ان کے ساتھ مذاکرات کی بات کرتا ہے لیکن دوسری طرف کشمیری عوام پر ظلم ڈھاتا ہے۔

کشمیری اپنی آزادی کیلئے مسلسل جدوجہد کررہے ہیں اور اس کے مقابلے میں بھارت ،کشمیر کے اندر ہندوؤں کو آباد کرکے مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی کوشش کررہا ہے اور اس کے علاوہ وہاںکشمیریوں کا دین تبدیل کروانے کیلئے بھی محنت کی جارہی ہے، میرے نزدیک اس سے ہندوستان کا سیکولر نعرہ، سیکولر جذبہ اور سیکولر لبادہ بری طرح پامال ہورہا ہے۔یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ کشمیریوں پربربریت کا اظہار کرنے والا اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پامال کرنے والا بھارت ،اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا رکن بننے جارہا ہے۔



ہماری گزارش ہے کہ اس کے اس مکروہ فریب کو پوری دنیاپر عیاں کیا جائے۔ میں کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمن کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے گزشتہ پارلیمنٹ میں کشمیر کے حوالے سے قرارداد پیش کی تھی اور ان کے اس اقدام پر کشمیری قوم بھی انہیں سلام عقیدت پیش کرتی ہے۔اس کے علاوہ ہم پاکستان کے آرمی چیف کو کلمات تحسین و تبریک پیش کرتے ہیں جنہوں نے متعدد مقامات جرات اوربہادری کے ساتھ کشمیریوں کے حق کیلئے آواز اٹھائی ہے۔

میری رائے یہ ہے کہ دنیا بھر میں پاکستان کے جتنے بھی سفارت خانے ہیں ان میں کشمیری ڈیسک کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ پوری دنیامیں کشمیریوں کی آواز کوموثر انداز میں پہنچایا جاسکے۔ اس کے علاوہ آزادکشمیرمیں آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا جائے جس میں پوری پاکستانی قیادت کوبھی مدعو کیا جائے، اس سے دنیا کو ایک اچھا پیغام جائے گا اورکشمیریوں کے حوصلے بھی بلند ہوجائیں گے۔میری پاکستانی میڈیا سے بھی گزارش ہے کہ 24گھنٹوں میں سے کم از کم بیس منٹ کشمیرکے لیے وقف کردیں تاکہ پوری دنیا میں اس مسئلے کو موثر انداز کے ساتھ پیش کیا جاسکے۔
Load Next Story