ایک اہم کام
روشنی کا خورشید غروب ہوچکا تھا۔
پورا محلہ سوگ کی فضا میں ڈوبا ہوا تھا۔ سب کے دل میں ہم دردی کے جذبات تھے اور ہر کوئی لال دین کی گھر جارہا تھا کیوںکہ آج اُس کے جوان بیٹے کی موت کا تیجہ تھا۔ لال دین اور اس کی بیوی پھوٹ پھوٹ کر رو رہے تھے اور محلے کا ہر فرد انہیں تسلیاں دے رہا تھا اور صبر کی تلقین کررہا تھا۔ لال دین کو آج ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کی دنیا اُجڑ گئی ہو، اُس کے گھر کی روشنی گُل ہوگئی ہو۔ لال دین کی بیوی نوجوان بیٹے کی موت پر ہوش و حواس سے بے گانی ہو رہی تھی۔ اُس کی اُمیدوں، آسں اور روشنی کا خورشید غروب ہوچکا تھا۔ وہ اپنے لخت جگر کی وفات پر دھاڑیں مار مار کر رو رہی تھی۔ ہر شخص کو لال دین اور اس کی بیوی سے پوری ہم دردی تھی کیوںکہ محلے کے کسی بھی شخص کا دُکھ اپنا ہی دُکھ ہوتا ہے۔
لال دین گائوں کا غریب مگر خوددار آدمی تھا۔ پورا محلہ اُس کی بہت عزت کرتا تھا۔ لال دین کے بیٹے کی وفات ہیضے سے ہوئی تھی۔ پورے محلے میں ڈاکٹر نہ ہونے کی وجہ سے وہ موت کے منہ میں چلا گیا تھا۔ محلے کا ناظم عثمان کئی دفعہ وعدہ کرچکا تھا کہ وہ محلے میں ایک چھوٹا سا اسپتال بنوائے گا مگر ہر دفعہ وہ اپنے وعدے سے مُکرجاتا۔
محلے والے بخوبی جانتے تھے کہ آج لال دین کے بیٹے کی موت ہوئی ہے تو کل کسی اور کی بھی ہوسکتی ہے۔ چناںچہ سب نے مِل کر ناظم کو سبق سکھانے کا سوچا۔ ناظم عثمان محلے کا ایک بااثر آدمی تھا۔ لوگ اس سے ڈرتے تھے۔ اس کا رعب پورے محلے پر چَھایا ہوا تھا۔ کوئی شخص بھی الیکشن میں اس کے مقابل کھڑا نہ ہوتا تھا، لہٰذا، وہ ہر دفعہ کامیاب ہوجاتا تھا۔ لیکن اب سب نے مل کر اس مرتبہ الیکشن میں لال دین کو عثمان کے مقابل کھڑا کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کا باقاعدہ اعلان بھی کردیا۔ جب عثمان کو پتا چلا کہ لال دین اس کے مقابل کھڑا ہورہا ہے تو بھی اس کی صحت پر کچھ اثر نہ ہوا۔ کیوںکہ وہ جانتا تھا کہ لال دین ایک غریب آدمی ہے، اس کے پاس ایسے وسائل کہاںکہ وہ اُس کا مقابلہ کرسکے۔ لہٰذا، اس نے اسے ہنسی میں ٹال دیا۔ اُس کی سوچ کے مطابق تو یہ ''کیا پِدی اور کیا پِدی کا شوربہ'' والا معاملہ تھا۔ اُس کے نزدیک اُس کی جیت یقینی تھی۔
خدا کا کرنا ایسا ہواکہ الیکشن میں لال دین واضح اکثریت سے جیت گیا اور عثمان کو بری طرح ناکامی ہوئی۔ جس دن لال دین نے نئے ناظم کی حیثیت سے حلف اُٹھایا، پورے محلے میں جشن کا سماں تھا۔ ہر شخص خوشیاں منا رہا تھا۔ اُن کی امیدیں بَر آئی تھیں۔ دوسری طرف عثمان کی حالت دیکھنے والی تھی۔ اتنا زیادہ روپیا خرچ کرنے کے باوجود وہ ہار گیا تھا۔ جتنا کچھ اُس کے پاس تھا، سب الیکشن کی نذر ہوچکا تھا۔ اب اُس کی مالی حالت بھی لال دین جیسی ہوچکی تھی۔ اب اُسے احساس ہو رہا تھا مگر بے سود، وقت تو گزر چکا تھا۔
لال دین نے ناظم بننے کے کچھ دنوں بعد ہی محلے میں اسپتال بنوانے کا کام شروع کروا دیا۔ اس کے علاوہ محلے کو شہر سے مِلانے کے لیے ایک سڑک بھی بنوادی۔ پورا محلہ اس کا احسان مند تھا۔ ہر شخص کی زبان پر ناظم لال دین کا نام تھا اور وہ گائوں میں ہیرو کی حیثیت اختیار کرچکا تھا۔
خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اسپتال بننے کے کچھ ہی دن بعد عثمان کے بیٹے کو ہیضہ ہوگیا۔ وہ بیٹے کو لے کر اسپتال جاپہنچا۔ وہاں لال دین بھی موجود تھا کیوںکہ وہ ہر روز اسپتال کا دورہ کیا کرتا تھا۔ مگر عثمان لال دین سے آنکھیں چُراتے ہوئے گزرنے لگا تو لال دین نے اسے آواز دیتے ہوئے کہا۔ ارے عثمان صاحب! آپ یہاں۔۔۔۔ خیر تو ہے؟
وہ جی۔۔۔۔ میرے بیٹے کو ہیضہ ہوگیا ہے، اسے لے کر آیا ہوں۔ عثمان نے کھِسیاتے ہوئے جواب دیا۔
مگر ڈاکٹر صاحب تو چلے گئے۔ لال دین نے قدرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بتایا۔
کیا کہا۔۔۔۔چلے گئے؟ عثمان کے تو جیسے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے۔
ہاں! یہی کوئی آدھا گھنٹہ پہلے، تم ایسے کروکہ اپنے بیٹے کو لے کر شہر کے اسپتال چلے جائو ورنہ کل تک تو تمہارا بیٹا شاید۔۔۔۔۔؟ لال دین اپنا جملہ مکمل بھی نہ کرپایا تھا کہ عثمان نے روتے ہوئے ہاتھ جوڑ دیے اور کہنے لگا، ایسا نہ کہو لال دین! شہر اتنی دور ہے، میں کیسے لے جاسکتا ہوں؟ میرے پاس تو ایسا کوئی وسیلہ بھی نہیں ہے۔ تم تو ناظم ہو، تم چاہو تو ڈاکٹر کو بلوا بھی سکتے ہو۔ خدا کے لیے لال دین! میری مدد کرو ورنہ میرا بیٹا مرجائے گا۔
کیوں آج تمہیں کیوں تکلیف ہو رہی ہے؟ دوسروں کو تو کوئی تکلیف نہ تھی۔ نہ جانے کتنے لوگ اسی طرح سے موت کے منہ میں چلے گئے۔ اُس وقت تمہیں احساس نہ ہواکہ اسپتال نہ ہونے کی وجہ سے کتنے لوگ مر رہے ہیں؟ کیوں کہ تم اپنی دولت اور عہدے کے نشے میں چُور تھے۔ آج احساس ہواکہ بیٹے کا دکھ کیا ہوتا ہے۔ مگر میں تمہاری طرح خودغرض نہیں ہوں۔ مجھے ہر شخص کا بیٹا اپنا ہی بیٹا معلوم ہوتا ہے۔ یہ کہتے ہی لال دین نے زور سے ڈاکٹر کو آواز دی تو اندر سے ایک ڈاکٹر دوڑتا ہوا آگیا۔ لال دین نے ڈاکٹر کو سخت تاکید کی کہ عثمان کے بیٹے کا ہر طرح سے خیال رکھا جائے۔
لال دین ڈاکٹر کو ہدایات دے رہا تھا اور عثمان مارے شرم کے زمین میں گڑتا جارہا تھا۔ آج اسے احساس ہورہا تھا کہ اسپتال کا قیام کتنا ضروری تھا۔ آج اس کی نظروں میں لال دین کسی فرشتے سے کم نہ تھا۔ اتنا کچھ ہونے کے باوجود اُس نے اِس کے بیٹے کو اپنا ہی بیٹا سمجھا تھا۔ واقعی گائوں میں اسپتال کا قیام ایک اہم کام تھا۔
لال دین گائوں کا غریب مگر خوددار آدمی تھا۔ پورا محلہ اُس کی بہت عزت کرتا تھا۔ لال دین کے بیٹے کی وفات ہیضے سے ہوئی تھی۔ پورے محلے میں ڈاکٹر نہ ہونے کی وجہ سے وہ موت کے منہ میں چلا گیا تھا۔ محلے کا ناظم عثمان کئی دفعہ وعدہ کرچکا تھا کہ وہ محلے میں ایک چھوٹا سا اسپتال بنوائے گا مگر ہر دفعہ وہ اپنے وعدے سے مُکرجاتا۔
محلے والے بخوبی جانتے تھے کہ آج لال دین کے بیٹے کی موت ہوئی ہے تو کل کسی اور کی بھی ہوسکتی ہے۔ چناںچہ سب نے مِل کر ناظم کو سبق سکھانے کا سوچا۔ ناظم عثمان محلے کا ایک بااثر آدمی تھا۔ لوگ اس سے ڈرتے تھے۔ اس کا رعب پورے محلے پر چَھایا ہوا تھا۔ کوئی شخص بھی الیکشن میں اس کے مقابل کھڑا نہ ہوتا تھا، لہٰذا، وہ ہر دفعہ کامیاب ہوجاتا تھا۔ لیکن اب سب نے مل کر اس مرتبہ الیکشن میں لال دین کو عثمان کے مقابل کھڑا کرنے کا فیصلہ کیا اور اس کا باقاعدہ اعلان بھی کردیا۔ جب عثمان کو پتا چلا کہ لال دین اس کے مقابل کھڑا ہورہا ہے تو بھی اس کی صحت پر کچھ اثر نہ ہوا۔ کیوںکہ وہ جانتا تھا کہ لال دین ایک غریب آدمی ہے، اس کے پاس ایسے وسائل کہاںکہ وہ اُس کا مقابلہ کرسکے۔ لہٰذا، اس نے اسے ہنسی میں ٹال دیا۔ اُس کی سوچ کے مطابق تو یہ ''کیا پِدی اور کیا پِدی کا شوربہ'' والا معاملہ تھا۔ اُس کے نزدیک اُس کی جیت یقینی تھی۔
خدا کا کرنا ایسا ہواکہ الیکشن میں لال دین واضح اکثریت سے جیت گیا اور عثمان کو بری طرح ناکامی ہوئی۔ جس دن لال دین نے نئے ناظم کی حیثیت سے حلف اُٹھایا، پورے محلے میں جشن کا سماں تھا۔ ہر شخص خوشیاں منا رہا تھا۔ اُن کی امیدیں بَر آئی تھیں۔ دوسری طرف عثمان کی حالت دیکھنے والی تھی۔ اتنا زیادہ روپیا خرچ کرنے کے باوجود وہ ہار گیا تھا۔ جتنا کچھ اُس کے پاس تھا، سب الیکشن کی نذر ہوچکا تھا۔ اب اُس کی مالی حالت بھی لال دین جیسی ہوچکی تھی۔ اب اُسے احساس ہو رہا تھا مگر بے سود، وقت تو گزر چکا تھا۔
لال دین نے ناظم بننے کے کچھ دنوں بعد ہی محلے میں اسپتال بنوانے کا کام شروع کروا دیا۔ اس کے علاوہ محلے کو شہر سے مِلانے کے لیے ایک سڑک بھی بنوادی۔ پورا محلہ اس کا احسان مند تھا۔ ہر شخص کی زبان پر ناظم لال دین کا نام تھا اور وہ گائوں میں ہیرو کی حیثیت اختیار کرچکا تھا۔
خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اسپتال بننے کے کچھ ہی دن بعد عثمان کے بیٹے کو ہیضہ ہوگیا۔ وہ بیٹے کو لے کر اسپتال جاپہنچا۔ وہاں لال دین بھی موجود تھا کیوںکہ وہ ہر روز اسپتال کا دورہ کیا کرتا تھا۔ مگر عثمان لال دین سے آنکھیں چُراتے ہوئے گزرنے لگا تو لال دین نے اسے آواز دیتے ہوئے کہا۔ ارے عثمان صاحب! آپ یہاں۔۔۔۔ خیر تو ہے؟
وہ جی۔۔۔۔ میرے بیٹے کو ہیضہ ہوگیا ہے، اسے لے کر آیا ہوں۔ عثمان نے کھِسیاتے ہوئے جواب دیا۔
مگر ڈاکٹر صاحب تو چلے گئے۔ لال دین نے قدرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بتایا۔
کیا کہا۔۔۔۔چلے گئے؟ عثمان کے تو جیسے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے۔
ہاں! یہی کوئی آدھا گھنٹہ پہلے، تم ایسے کروکہ اپنے بیٹے کو لے کر شہر کے اسپتال چلے جائو ورنہ کل تک تو تمہارا بیٹا شاید۔۔۔۔۔؟ لال دین اپنا جملہ مکمل بھی نہ کرپایا تھا کہ عثمان نے روتے ہوئے ہاتھ جوڑ دیے اور کہنے لگا، ایسا نہ کہو لال دین! شہر اتنی دور ہے، میں کیسے لے جاسکتا ہوں؟ میرے پاس تو ایسا کوئی وسیلہ بھی نہیں ہے۔ تم تو ناظم ہو، تم چاہو تو ڈاکٹر کو بلوا بھی سکتے ہو۔ خدا کے لیے لال دین! میری مدد کرو ورنہ میرا بیٹا مرجائے گا۔
کیوں آج تمہیں کیوں تکلیف ہو رہی ہے؟ دوسروں کو تو کوئی تکلیف نہ تھی۔ نہ جانے کتنے لوگ اسی طرح سے موت کے منہ میں چلے گئے۔ اُس وقت تمہیں احساس نہ ہواکہ اسپتال نہ ہونے کی وجہ سے کتنے لوگ مر رہے ہیں؟ کیوں کہ تم اپنی دولت اور عہدے کے نشے میں چُور تھے۔ آج احساس ہواکہ بیٹے کا دکھ کیا ہوتا ہے۔ مگر میں تمہاری طرح خودغرض نہیں ہوں۔ مجھے ہر شخص کا بیٹا اپنا ہی بیٹا معلوم ہوتا ہے۔ یہ کہتے ہی لال دین نے زور سے ڈاکٹر کو آواز دی تو اندر سے ایک ڈاکٹر دوڑتا ہوا آگیا۔ لال دین نے ڈاکٹر کو سخت تاکید کی کہ عثمان کے بیٹے کا ہر طرح سے خیال رکھا جائے۔
لال دین ڈاکٹر کو ہدایات دے رہا تھا اور عثمان مارے شرم کے زمین میں گڑتا جارہا تھا۔ آج اسے احساس ہورہا تھا کہ اسپتال کا قیام کتنا ضروری تھا۔ آج اس کی نظروں میں لال دین کسی فرشتے سے کم نہ تھا۔ اتنا کچھ ہونے کے باوجود اُس نے اِس کے بیٹے کو اپنا ہی بیٹا سمجھا تھا۔ واقعی گائوں میں اسپتال کا قیام ایک اہم کام تھا۔