ریونیو خسارہ
پاکستان میں بیشترمنصوبےشروع کیےجاتے اورکچھ عرصے بعد نامکمل رہ جاتے ہیں اور فنڈز کی عدم دستیابی کو جواز بنایا جاتا تھا۔
اس ہفتے کے آغاز میں حکومت کی طرف سے قومی اسمبلی میں دیے گئے بیان سے یہ بات ظاہرہوگئی ہے کہ حکومت ریونیوخسارہ اور قرضے کم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ادھر قرضہ پالیسی رابطہ آفس نے اس بات سے بھی خبردار کیا ہے کہ حکومت کو قرضوں کا بوجھ کم کرنے اور ملکی قرضہ واپسی کی صلاحیت کو بہتر بنانے کے لیے رواں اخراجات کو معقول حد میں لانے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کی بڑھتی ہوئی ترقیاتی ضرورتوں کو کم کیا جاسکے۔
جہاں تک ترقیاتی ضرورتوں یا منصوبوں کی ضرورت ہے، اس کے لیے فنڈ کا نہ ہونا ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے بعض اوقات ترقیاتی کام شروع بھی کرا دیے جاتے ہیں لیکن ان کو مکمل کرنے سے قبل ہی فنڈزکی عدم دستیابی کا جواز بناکر اسے روک دیا جاتا ہے۔ ایک طرف کوئی بھی ترقیاتی منصوبہ جب زیر تکمیل ہو اور اسے مکمل کیے بغیر روک دینا ہی پیسوں کا سب سے بڑا ضیاع ہے کیونکہ جب کچھ عرصے کے بعد چاہے وہ ایک سال یا چھ ماہ ہی کیوں نہ ہوں لاگت میں کہیں زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے۔
پاکستان میں بیشتر منصوبے شروع کیے جاتے اور کچھ عرصے بعد نامکمل رہ جاتے ہیں اور فنڈز کی عدم دستیابی کو جواز بنایا جاتا تھا پھر اگلے بجٹ کا انتظار کیا جاتا ہے جب تک نامکمل منصوبے کا اسٹرکچر بھی تباہی کا شکار ہوکر رہ جاتی ہے اور پھر ایک طرح سے نئے سرے سے کام شروع کیا جاتا ہے اور ایک دفعہ پھر منصوبہ مکمل ہونے سے قبل وہی صورتحال پیش آتی ہے جیساکہ پہلے ایسا ہوا تھا۔ نامکمل منصوبوں کے باعث عوام شدید مشکلات کا شکار ہوکر رہ جاتے ہیں۔
گزشتہ دو سال سے کراچی کے وہ لوگ جوکہ نیشنل ہائی وے پر زیر تعمیر ملیر ہالٹ اور ملیر سٹی پل جوکہ ابھی تک زیر تعمیر ہیں جب وہاں سے گزرتے ہیں تو شدید مشکلات سے دوچار رہتے ہیں۔ گھنٹوں ٹریفک جام رہتا ہے جگہ جگہ گڑھوں کے باعث گاڑیوں کے انچر پنچر ڈھیلے ہوجاتے ہیں۔ شہریوں کی ان مشکلات کو دیکھتے ہوئے حکومت کو چاہیے تھا کہ منصوبے کو مقررہ وقت سے قبل ہی مکمل کرلیا جاتا بلکہ درمیان میں چند ماہ کے لیے کام اس لیے روک دیا گیا تھا کہ فنڈز نہیں ہیں۔ اب ایک دفعہ پھر کام کا آغاز ہوچکا ہے لیکن حکومت کو عوام کی مشکلات اور تکالیف کا احساس کرتے ہوئے اس منصوبے کو جلدازجلد مکمل کرانے کی ضرورت ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق حکومت ریونیو نہیں بڑھا سکی ہے۔ اس کی آمدنی صرف رواں اخراجات کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ ریونیو خسارہ کل ریونیو منفی رواں اخراجات 2013-14میں 173ارب روپے یا جی ڈی پی کا 0.7فیصد رہے۔ ایف آر ڈی ایل ایکٹ کے تحت ریونیو خسارے کو بالکل ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس آمدنی کو ضمنی ترقیاتی سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا جائے جو ملک کی قرضے واپس کرنے کی صلاحیت بڑھائے گی۔ جہاں تک حکومتی ریونیو میں اضافے کا تعلق ہے ایف بی آر نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ بڑے تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں نہیں لایا جاسکا۔ 7 ماہ گزرنے کے بعد معلوم ہوا کہ ریونیو میں اتنا بڑا شارٹ فال آچکا ہے۔
ادھر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے باعث حکومت نے اپنی آمدنی میں 68ارب روپے کی کمی ظاہر کی ہے۔ جسے پورا کرنے کے لیے سیلز ٹیکس کی شرح 17 فیصد سے بڑھاکر 27 فیصد کردی گئی ہے۔ دوسری طرف ایف بی آر کے علم میں یہ بات بھی آئی ہے کہ آرٹی اوز اور ایل ٹی اوز حکومت کی طرف سے 2014-15میں بجٹ پیش کرتے ہوئے ٹیکس ریونیو بڑھانے کے لیے تین درجہ ٹیکس پالیسی کا اجرا کیا تھا۔
اس کے نفاذ میں کامیابی حاصل نہ کرسکے۔ اس پالیسی کے تحت پہلے درجے میں آنے والے نیشنل انٹرنیشنل چین اسٹور، ایئرکنڈیشنگ شاپنگ مال، پلازہ اور سینٹرز میں قائم دکانیں، کریڈٹ کارڈ اور ڈیبٹ کارڈ مشین رکھنے والے تاجر یا وہ تاجر جوکہ 6 لاکھ روپے سالانہ بجلی کا بل ادا کرتے ہیں۔ ہول سیلر کم ریٹیلر،وہ تاجر جوکہ درآمدات کا کاروبار کرتے ہیں اس کے علاوہ ہول سیل بنیاد پر اشیا فروخت کرنے والے تاجر ان سب کو بغیر کسی تاخیر کے سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
ملک کی مارکیٹوں کا سروے کیا جائے تو دکانیں ملکی اور غیر ملکی مصنوعات سے بھری ہوئی ہیں۔ گاہکوں کی بھی ریل پیل ہے۔ مارکیٹ میں بڑے بڑے ایئرکنڈیشنڈ شاپس بھی موجود ہیں۔ جہاں ایسے بھی کسٹمر آتے ہیں جو بھاؤ تاؤ کرتے ہیں اور ایسے بھی آتے ہیں جوکہ منہ مانگی قیمت فوراً خوشی خوشی ادا کردیتے ہیں۔ کریڈٹ کارڈز وغیرہ کے ذریعے خریداری کرنے والے کوئی 100 یا 200 کی چیز نہیں خریدتے تقریباً 10 یا 20 ہزار سے ان کی خریداری شروع ہوتی ہے۔ پھر بہت سی شاپس یا چین اسٹورز ایسے بھی ہیں جہاں قیمت جو لکھی ہے اسی کے مطابق خریداری کرنا ہوگی ایک پیسہ بھی کم نہیں کیا جاتا۔
پاکستان میں غیر ملکی اشیا کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ملکی مصنوعات کے مقابلے میں مہنگی درآمدی مصنوعات خریدی جاتی ہیں۔ جب کہ اس کا متبادل ملکی مصنوعات کتنی ہی سستی کیوں نہ ہوں لوگ خریدنے سے احتراز کرتے ہیں۔ ملک کے بڑے شہروں میں ڈھابوں،کھابوں، پزا، فاسٹ فوڈ اور مختلف ملکی اور غیرملکی ادارے جوکہ فاسٹ فوڈ یا دیگر کھانے پینے کی اشیا کی فروخت کی سروس فراہم کرتے ہیں یا پھر مختلف ہوٹلز یا ریسٹورنٹ جہاں صبح دوپہر شام رات کسی وقت بھی چلے جائیں کسٹمر سے بھرے ہوتے ہیں۔ لیکن اگر ٹیکس دینے کی بات ہو تو سب اپنا رونا روتے ہیں کہ، مندا ہے، نقصان میں جا رہے ہیں، سیلز نہیں ہو رہی، قرض سر پر چڑھا ہوا ہے، بجلی کے بلوں کی ادائیگی ناممکن ہوکر رہ گئی ہے۔
غرض بہت ہی کم لوگ سوائے سرکاری ملازمین یا دیگر ملازمین وغیرہ یا پھر کچھ محب وطن تاجروں، صنعتکاروں کے علاوہ اکثر و بیشتر لوگ ٹیکس کی ادائی یا پھر اس میں سے مختلف حیلوں بہانوں سے کم سے کم ٹیکس کی ادائی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ جس کی سخت ترین اصلاح کی ضرورت ہے۔ حکومت کو ٹیکس کی وصولی کا اس طرح انتظام کرنا چاہیے کہ متعلقہ افراد ٹیکس ادا کرنے کے بعد کسی نہ کسی طریقے سے واپس عوام یا صارفین پر نافذ کردیتے ہیں اور اس طرح ان کا منافع کم نہیں ہوتا۔ حکومت کو اس طرف توجہ دینی چاہیے کہ وہ اپنے ریونیو میں اضافہ کرے۔
جہاں تک ترقیاتی ضرورتوں یا منصوبوں کی ضرورت ہے، اس کے لیے فنڈ کا نہ ہونا ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے بعض اوقات ترقیاتی کام شروع بھی کرا دیے جاتے ہیں لیکن ان کو مکمل کرنے سے قبل ہی فنڈزکی عدم دستیابی کا جواز بناکر اسے روک دیا جاتا ہے۔ ایک طرف کوئی بھی ترقیاتی منصوبہ جب زیر تکمیل ہو اور اسے مکمل کیے بغیر روک دینا ہی پیسوں کا سب سے بڑا ضیاع ہے کیونکہ جب کچھ عرصے کے بعد چاہے وہ ایک سال یا چھ ماہ ہی کیوں نہ ہوں لاگت میں کہیں زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے۔
پاکستان میں بیشتر منصوبے شروع کیے جاتے اور کچھ عرصے بعد نامکمل رہ جاتے ہیں اور فنڈز کی عدم دستیابی کو جواز بنایا جاتا تھا پھر اگلے بجٹ کا انتظار کیا جاتا ہے جب تک نامکمل منصوبے کا اسٹرکچر بھی تباہی کا شکار ہوکر رہ جاتی ہے اور پھر ایک طرح سے نئے سرے سے کام شروع کیا جاتا ہے اور ایک دفعہ پھر منصوبہ مکمل ہونے سے قبل وہی صورتحال پیش آتی ہے جیساکہ پہلے ایسا ہوا تھا۔ نامکمل منصوبوں کے باعث عوام شدید مشکلات کا شکار ہوکر رہ جاتے ہیں۔
گزشتہ دو سال سے کراچی کے وہ لوگ جوکہ نیشنل ہائی وے پر زیر تعمیر ملیر ہالٹ اور ملیر سٹی پل جوکہ ابھی تک زیر تعمیر ہیں جب وہاں سے گزرتے ہیں تو شدید مشکلات سے دوچار رہتے ہیں۔ گھنٹوں ٹریفک جام رہتا ہے جگہ جگہ گڑھوں کے باعث گاڑیوں کے انچر پنچر ڈھیلے ہوجاتے ہیں۔ شہریوں کی ان مشکلات کو دیکھتے ہوئے حکومت کو چاہیے تھا کہ منصوبے کو مقررہ وقت سے قبل ہی مکمل کرلیا جاتا بلکہ درمیان میں چند ماہ کے لیے کام اس لیے روک دیا گیا تھا کہ فنڈز نہیں ہیں۔ اب ایک دفعہ پھر کام کا آغاز ہوچکا ہے لیکن حکومت کو عوام کی مشکلات اور تکالیف کا احساس کرتے ہوئے اس منصوبے کو جلدازجلد مکمل کرانے کی ضرورت ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق حکومت ریونیو نہیں بڑھا سکی ہے۔ اس کی آمدنی صرف رواں اخراجات کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ ریونیو خسارہ کل ریونیو منفی رواں اخراجات 2013-14میں 173ارب روپے یا جی ڈی پی کا 0.7فیصد رہے۔ ایف آر ڈی ایل ایکٹ کے تحت ریونیو خسارے کو بالکل ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس آمدنی کو ضمنی ترقیاتی سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا جائے جو ملک کی قرضے واپس کرنے کی صلاحیت بڑھائے گی۔ جہاں تک حکومتی ریونیو میں اضافے کا تعلق ہے ایف بی آر نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ بڑے تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں نہیں لایا جاسکا۔ 7 ماہ گزرنے کے بعد معلوم ہوا کہ ریونیو میں اتنا بڑا شارٹ فال آچکا ہے۔
ادھر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے باعث حکومت نے اپنی آمدنی میں 68ارب روپے کی کمی ظاہر کی ہے۔ جسے پورا کرنے کے لیے سیلز ٹیکس کی شرح 17 فیصد سے بڑھاکر 27 فیصد کردی گئی ہے۔ دوسری طرف ایف بی آر کے علم میں یہ بات بھی آئی ہے کہ آرٹی اوز اور ایل ٹی اوز حکومت کی طرف سے 2014-15میں بجٹ پیش کرتے ہوئے ٹیکس ریونیو بڑھانے کے لیے تین درجہ ٹیکس پالیسی کا اجرا کیا تھا۔
اس کے نفاذ میں کامیابی حاصل نہ کرسکے۔ اس پالیسی کے تحت پہلے درجے میں آنے والے نیشنل انٹرنیشنل چین اسٹور، ایئرکنڈیشنگ شاپنگ مال، پلازہ اور سینٹرز میں قائم دکانیں، کریڈٹ کارڈ اور ڈیبٹ کارڈ مشین رکھنے والے تاجر یا وہ تاجر جوکہ 6 لاکھ روپے سالانہ بجلی کا بل ادا کرتے ہیں۔ ہول سیلر کم ریٹیلر،وہ تاجر جوکہ درآمدات کا کاروبار کرتے ہیں اس کے علاوہ ہول سیل بنیاد پر اشیا فروخت کرنے والے تاجر ان سب کو بغیر کسی تاخیر کے سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
ملک کی مارکیٹوں کا سروے کیا جائے تو دکانیں ملکی اور غیر ملکی مصنوعات سے بھری ہوئی ہیں۔ گاہکوں کی بھی ریل پیل ہے۔ مارکیٹ میں بڑے بڑے ایئرکنڈیشنڈ شاپس بھی موجود ہیں۔ جہاں ایسے بھی کسٹمر آتے ہیں جو بھاؤ تاؤ کرتے ہیں اور ایسے بھی آتے ہیں جوکہ منہ مانگی قیمت فوراً خوشی خوشی ادا کردیتے ہیں۔ کریڈٹ کارڈز وغیرہ کے ذریعے خریداری کرنے والے کوئی 100 یا 200 کی چیز نہیں خریدتے تقریباً 10 یا 20 ہزار سے ان کی خریداری شروع ہوتی ہے۔ پھر بہت سی شاپس یا چین اسٹورز ایسے بھی ہیں جہاں قیمت جو لکھی ہے اسی کے مطابق خریداری کرنا ہوگی ایک پیسہ بھی کم نہیں کیا جاتا۔
پاکستان میں غیر ملکی اشیا کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور ملکی مصنوعات کے مقابلے میں مہنگی درآمدی مصنوعات خریدی جاتی ہیں۔ جب کہ اس کا متبادل ملکی مصنوعات کتنی ہی سستی کیوں نہ ہوں لوگ خریدنے سے احتراز کرتے ہیں۔ ملک کے بڑے شہروں میں ڈھابوں،کھابوں، پزا، فاسٹ فوڈ اور مختلف ملکی اور غیرملکی ادارے جوکہ فاسٹ فوڈ یا دیگر کھانے پینے کی اشیا کی فروخت کی سروس فراہم کرتے ہیں یا پھر مختلف ہوٹلز یا ریسٹورنٹ جہاں صبح دوپہر شام رات کسی وقت بھی چلے جائیں کسٹمر سے بھرے ہوتے ہیں۔ لیکن اگر ٹیکس دینے کی بات ہو تو سب اپنا رونا روتے ہیں کہ، مندا ہے، نقصان میں جا رہے ہیں، سیلز نہیں ہو رہی، قرض سر پر چڑھا ہوا ہے، بجلی کے بلوں کی ادائیگی ناممکن ہوکر رہ گئی ہے۔
غرض بہت ہی کم لوگ سوائے سرکاری ملازمین یا دیگر ملازمین وغیرہ یا پھر کچھ محب وطن تاجروں، صنعتکاروں کے علاوہ اکثر و بیشتر لوگ ٹیکس کی ادائی یا پھر اس میں سے مختلف حیلوں بہانوں سے کم سے کم ٹیکس کی ادائی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ جس کی سخت ترین اصلاح کی ضرورت ہے۔ حکومت کو ٹیکس کی وصولی کا اس طرح انتظام کرنا چاہیے کہ متعلقہ افراد ٹیکس ادا کرنے کے بعد کسی نہ کسی طریقے سے واپس عوام یا صارفین پر نافذ کردیتے ہیں اور اس طرح ان کا منافع کم نہیں ہوتا۔ حکومت کو اس طرف توجہ دینی چاہیے کہ وہ اپنے ریونیو میں اضافہ کرے۔