سابق صدر آصف علی زرداری کا ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین سے ٹیلی فونک رابطہ
طویل عرصے بعد ہونے والے رابطے میں سینیٹ انتخابات اور سندھ حکومت سے متعلق معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
سابق صدر آصف علی زرداری اور ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہوا جس میں سینیٹ انتخابات اور سندھ حکومت سے متعلق معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چئیر مین آصف علی زرداری نے ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین کو ٹیلی فون کیا جس میں دونوں رہنماؤں کے درمیان سینیٹ انتخابات اور سندھ حکومت کے معاملات سمیت دیگر اہم سیاسی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا جب کہ اس موقع پر سابق صدر آصف زرداری کا کہنا تھا کہ سندھ میں مفاہمت اورافہام وتفہیم کی ضرورت ہے اگر دوبارہ ساتھ چلنےکامعاہدہ ہوا تو دیہی اور شہری کوٹہ پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے گا، دونوں جماعتیں مل کر صوبے کی بہتر خدمت کرسکتی ہیں اس لئے دونوں جماعتوں کا اتحاد سندھ کی ترقی کے لئے ضروری ہے، اردو بولنے والوں کا بھی سندھ پراتناہی حق ہے جتنا سندھی بولنے والوں کا ہے۔
واضح رہے کہ ایم کیو ایم کی سندھ حکومت سے علیحدگی کے بعد دونوں جماعتوں کے درمیان شدید سیاسی اختلافات سامنے آئے تھے جب کہ الطاف حسین نے بھی سندھ حکومت کی طرز حکمرانی اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا جس کے بعد دونوں جماعتوں کے درمیان طویل عرصے کے بعد اعلیٰ سطح کا رابطہ ہوا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چئیر مین آصف علی زرداری نے ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین کو ٹیلی فون کیا جس میں دونوں رہنماؤں کے درمیان سینیٹ انتخابات اور سندھ حکومت کے معاملات سمیت دیگر اہم سیاسی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا جب کہ اس موقع پر سابق صدر آصف زرداری کا کہنا تھا کہ سندھ میں مفاہمت اورافہام وتفہیم کی ضرورت ہے اگر دوبارہ ساتھ چلنےکامعاہدہ ہوا تو دیہی اور شہری کوٹہ پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے گا، دونوں جماعتیں مل کر صوبے کی بہتر خدمت کرسکتی ہیں اس لئے دونوں جماعتوں کا اتحاد سندھ کی ترقی کے لئے ضروری ہے، اردو بولنے والوں کا بھی سندھ پراتناہی حق ہے جتنا سندھی بولنے والوں کا ہے۔
واضح رہے کہ ایم کیو ایم کی سندھ حکومت سے علیحدگی کے بعد دونوں جماعتوں کے درمیان شدید سیاسی اختلافات سامنے آئے تھے جب کہ الطاف حسین نے بھی سندھ حکومت کی طرز حکمرانی اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا جس کے بعد دونوں جماعتوں کے درمیان طویل عرصے کے بعد اعلیٰ سطح کا رابطہ ہوا ہے۔