میرا شہر میرا گائوں دِیر
چاروں طرف سرسبز پہاڑوں میں گھِری وادی' دِیر'
یہاں ہمارے آس پاس کے علاقوں میں لڑکیوں کے لیے ''اکلوتا'' کالج ''دِیر'' میں ہے۔ چوںکہ میرا ننھیال بھی اسی شہر میں ہے اس لیے خدا نے مجھے ہاسٹل کی ''دال'' سے بچایا ہوا ہے اور میں اپنے نانا کے ہاں رہ کر تعلیم کے مراحل بخیروعافیت طے کررہی ہوں۔
میرے ایف ایس سی فرسٹ ایئر کے پرچے ختم ہوئے تو پریکٹیکلز کے دنوں تک فارغ بیٹھی تھی۔ سوچا کیوں نہ کرنیں ساتھیوں سے اپنے اس خوب صورت علاقے دِیر کا تعارف کرادوں۔
ساتھیو! ضلع دِیر صوبہ خیبر پختون خوا میں واقع ہے۔ اس کے دو حصّے ہیں، دِیرلوئر (دِیرزیریں) اور دِیراَپَر (دِیربالا)۔ دِیربالا کے آخری سِرے پر واقع ''خاص دِیر'' قابلِ ذکر ہے۔
چاروں طرف سے سرسبز پہاڑوں میں گھِری وادیٔ دِیر قدرت کے بے پناہ حُسن کا شاہ کار ہے کہ جو دیکھے تو بس دیکھتا ہی رہ جائے۔
قیام ِ پاکستان سے پہلے یہ ایک الگ ریاست تھی اور پاکستان بننے کے بعد بھی بہاول پور اور قلات کی ریاست کی طرح برسوں ایک مستقل ریاست کی حیثیت میں قائم رہی۔ یہ 1969ء میں پاکستان میں ضم کی گئی اور 1970ء مالاکنڈ ڈویژن بننے کے بعد اِسے ضلع کا درجہ دیا گیا۔ اِس کا کُل رقبہ 3699 مربع کلومیٹر ہے۔
ریاست دِیر میں پُشت درپُشت نوابوں کی حکم رانی رہی۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں ''ریاست دِیر'' کا نام بہت اہمیت کا حامل ہے اور اس بارے میں بے شمار کتابیں بھی لکھی جاچکی ہیں۔
نواب شاہ جہاں دِیر کی نوابی حکومت کی آخری کڑی تھے۔ اُن کا عظیم الشّان محل آج بھی یہاں اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔ اِتنا ہی نہیں بلکہ اس وقت کے نوادرات، قیمتی برتن اور دوسری چیزیں بھی محفوظ حالت میں موجود ہیں۔ نواب دِیر کا بلند جگہ پر 200 کنال رقبے پر واقع ذاتی شاہی محل موجودہ شکل میں1926 ء میں نواب شاہ جہاں نے تعمیر کرایا تھا۔ (سترہویں صدی میں لکڑی کا تعمیرشُدہ محل آگ سے جل کر راکھ ہوگیا تھا۔) اِس محل میں وسیع دالان، کئی طرح کے برآمدے، درجنوں کمرے، چاروں طرف قلعہ نما بُرجیاں، پھل دار درختوں والا شاہی باغ، ملحقہ قبرستان، نواب کے دفاتر، تخت اور اسلحہ خانہ موجود ہیں۔
محل کے مرکزی دروازے کے سامنے کسی دَور کا ''شاہی مہمان خانہ'' آج کل ''دِیرہوٹل'' کے روپ میں موجود ہے جس میں وائسرائے ہند، پاکستان کے گورنر جنرل غلام محمد، خواجہ ناظم الدین، اسکندر مرزا، فیروز خان نون اور جنرل ایوب خان سمیت دیگر اہم شخصیات قیام پذیر رہ چکی ہیں۔
کہتے ہیںکہ نواب شاہ جہاں بڑا ظالم شخص تھا۔ اُس نے دِیر کے عوام پر بہت مظالم ڈھائے تھے۔ سب سے بڑا ظلم تو اُس نے یہ کیا تھا کہ علاقے کے لوگوں کو تعلیم کی فراہمی سے محروم رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ دِیر کے عوام تعلیم کے میدان میں بہت پیچھے رہ گئے اور یہی دِیر کی پس ماندگی کی بڑی وجہ ثابت ہوئی۔ نواب شاہ جہاں چوںکہ خود اَن پڑھ تھا لہٰذا، عوام کو جہالت کی تاریکیوں سے نکال کر علم کی روشنی سے روشناس کرانا اپنی نوابی کے لیے خطرہ سمجھتا تھا۔
وادیٔ دِیر میں موسم معتدل رہتا ہے۔ سخت گرمی کا کوئی خاص اثر نہیں رہتا کیوںکہ موسم گرما میں زیادہ سے زیادہ درجۂ حرارت 30 درجے سینٹی گریڈ تک رہتا ہے۔ سردیوں میں البتہ درجۂ حرارت -4 سے -14 درجے سینٹی گریڈ تک گرجاتا ہے۔
وادیٔ دِیر کے کچھ علاقوں کلاکوٹ، بری کوٹ، تھل اور لاموتی میں موسم گرما میں بھی نسبتاً زیادہ ٹھنڈک ہوتی ہے۔ لہٰذا، یہاں آنے والوں کے لیے گرم کپڑے رکھنا اشد ضروری ہے۔ اس وادی میں کوہ پیمائی، خیمہ بستیاں بسانے اور کوہساروں کے ذیلی راستوں پر سفر کرنے کا اصل موسم گرمیوں کے آغاز یعنی مئی، جون کا ہے۔ ویسے مون سون سے بچے ہونے کی وجہ سے جولائی، اگست بھی سیاحت کے عروج کا زمانہ ہے۔ دِیر میں آخیر گرما کا موسم پھل پھول، میوہ جات سے بھرپور اور ہر طرف سبزہ لیے ہوتا ہے۔ تاہم، سردیوں کے آغاز میں بھی پت جھڑ اپنے سنہرے، سرخ، زرد اور نارنجی رنگوں کے درختوں، دَھان کی خوشبوئوں اور چناروں کے آتشی رنگ لیے ایک دل فریب نظارہ پیش کرتا ہے۔
یہاں سالانہ بارش کی شرح 680 ملی میٹر ہے۔ برف باری بھی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ پندرہ فٹ تک برف باری ہونا تو معمول کی بات ہے جس کی وجہ سے یہاں سے چترال جانے والی سڑک ''لواری ٹاپ'' کے مقام پر بند ہوجاتی ہے۔ کئی مہینوں کے لیے یہ راستہ بند ہوجانے کی وجہ سے دِیر اور چترال کی نہ صرف روزمرہ کی ضروریات ِزندگی بلکہ کاروبار بھی بہت متاثر رہتا ہے۔ اس کے باوجود انتہائی اہم ضروریات کے باعث لوگ لواری ٹاپ کو پیدل عبور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ کوشش خودکُشی کے مترادف ہوتی ہے۔ کیوںکہ اس کوشش میں برف کی گہرائیاں ہزاروں لوگوں کی آخری منزل بن چکی ہیں اور ان کی لاشیں بھی نہ مل پائیں۔ اس سنگین صورت ِ حال کے پیشِ نظر حکومت نے پہاڑوں کو کاٹ کر کئی کھرب روپوں کی لاگت سے ایک شاہ راہ بذریعہ سُرنگ (Tunnel) بنائی جس سے چترال اور دِیر کا فاصلہ آٹھ گھنٹے سے گھٹ کر صرف تین گھنٹے کا رہ گیا۔ تاحال اس شاہ راہ کی تعمیر مکمل طور پر تکمیل کو نہیں پہنچی تاہم، عارضی طور پر اس پر آمدورفت جاری کی گئی ہے۔
دِیر میں ایک بہت بڑا پلے گرائونڈ بھی ہے جو سہ پہر کے وقت مختلف کھیل کھیلنے والوں اور تماشائی لڑکوں سے کھَچاکھَچ بھرا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اس گرائونڈ میں ہرسال مختلف قسم کے ٹورنامنٹس بھی منعقد ہوتے ہیں۔
یہاں کی اہم چیزیں چاقو اور ٹوپی ہیں جو پاکستان بھر میں مشہور ہیں۔ دِیر کے پختون اپنی مہمان نوازی اور اخلاص کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ یہاں مختلف زبانوں اور لہجوں کے لوگ آباد ہیں۔ اکثریت تھل اور لاموتی میں رائج لہجہ استعمال کرتی ہے
اگرچہ یہ لوگ تعلیم کے لحاظ سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں پھر بھی پچھلے وقتوں کی نسبت خاصی پیش رفت ہوئی ہے۔ اس وقت سرکاری اور پرائیویٹ دونوں سطحوں پر، بہت سے پرائمری، مڈل اور ہائی اسکولز ہیں۔ لڑکیوں کا گورنمنٹ کالج جس کا ذکر پہلے بھی کیا گیا ہے، تعلیمی میدان میں لڑکیوں کی ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ لڑکوں کے لیے ایک بہت بڑے رقبے پر پھیلا ہوا گورنمنٹ کالج ہے۔ لیکن اپنی ناقص تعلیمی کارکردگی کی بِِناء پر نہ ہونے کے برابر ہے۔
اگرچہ موجودہ صورت حال میں دِیر ترقی کی طرف رواں دواں ہے۔ تاہم، پچھلے بہت سے برسوں کی ترقی کی کمی کو پورا کرنے میں ابھی بہت وقت لگے گا۔ کیوںکہ اس وقت بہت کم لوگ دِیرکے نام سے واقف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب یہاں کے لوگ دوسرے بڑے شہروں میں جاتے ہیں تو اپنا تعارف دِیر کی بجائے ''سوات'' کے حوالے سے کراتے ہیں۔
مجھے امید ہے کہ میری اس تحریر سے کرنیں کے بہت سے ساتھی پاکستان کے ایک اہم علاقے سے واقف ہوچکے ہوںگے اور اب یہاں آنے کی کوشش بھی کریںگے۔
میرے ایف ایس سی فرسٹ ایئر کے پرچے ختم ہوئے تو پریکٹیکلز کے دنوں تک فارغ بیٹھی تھی۔ سوچا کیوں نہ کرنیں ساتھیوں سے اپنے اس خوب صورت علاقے دِیر کا تعارف کرادوں۔
ساتھیو! ضلع دِیر صوبہ خیبر پختون خوا میں واقع ہے۔ اس کے دو حصّے ہیں، دِیرلوئر (دِیرزیریں) اور دِیراَپَر (دِیربالا)۔ دِیربالا کے آخری سِرے پر واقع ''خاص دِیر'' قابلِ ذکر ہے۔
چاروں طرف سے سرسبز پہاڑوں میں گھِری وادیٔ دِیر قدرت کے بے پناہ حُسن کا شاہ کار ہے کہ جو دیکھے تو بس دیکھتا ہی رہ جائے۔
قیام ِ پاکستان سے پہلے یہ ایک الگ ریاست تھی اور پاکستان بننے کے بعد بھی بہاول پور اور قلات کی ریاست کی طرح برسوں ایک مستقل ریاست کی حیثیت میں قائم رہی۔ یہ 1969ء میں پاکستان میں ضم کی گئی اور 1970ء مالاکنڈ ڈویژن بننے کے بعد اِسے ضلع کا درجہ دیا گیا۔ اِس کا کُل رقبہ 3699 مربع کلومیٹر ہے۔
ریاست دِیر میں پُشت درپُشت نوابوں کی حکم رانی رہی۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں ''ریاست دِیر'' کا نام بہت اہمیت کا حامل ہے اور اس بارے میں بے شمار کتابیں بھی لکھی جاچکی ہیں۔
نواب شاہ جہاں دِیر کی نوابی حکومت کی آخری کڑی تھے۔ اُن کا عظیم الشّان محل آج بھی یہاں اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔ اِتنا ہی نہیں بلکہ اس وقت کے نوادرات، قیمتی برتن اور دوسری چیزیں بھی محفوظ حالت میں موجود ہیں۔ نواب دِیر کا بلند جگہ پر 200 کنال رقبے پر واقع ذاتی شاہی محل موجودہ شکل میں1926 ء میں نواب شاہ جہاں نے تعمیر کرایا تھا۔ (سترہویں صدی میں لکڑی کا تعمیرشُدہ محل آگ سے جل کر راکھ ہوگیا تھا۔) اِس محل میں وسیع دالان، کئی طرح کے برآمدے، درجنوں کمرے، چاروں طرف قلعہ نما بُرجیاں، پھل دار درختوں والا شاہی باغ، ملحقہ قبرستان، نواب کے دفاتر، تخت اور اسلحہ خانہ موجود ہیں۔
محل کے مرکزی دروازے کے سامنے کسی دَور کا ''شاہی مہمان خانہ'' آج کل ''دِیرہوٹل'' کے روپ میں موجود ہے جس میں وائسرائے ہند، پاکستان کے گورنر جنرل غلام محمد، خواجہ ناظم الدین، اسکندر مرزا، فیروز خان نون اور جنرل ایوب خان سمیت دیگر اہم شخصیات قیام پذیر رہ چکی ہیں۔
کہتے ہیںکہ نواب شاہ جہاں بڑا ظالم شخص تھا۔ اُس نے دِیر کے عوام پر بہت مظالم ڈھائے تھے۔ سب سے بڑا ظلم تو اُس نے یہ کیا تھا کہ علاقے کے لوگوں کو تعلیم کی فراہمی سے محروم رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ دِیر کے عوام تعلیم کے میدان میں بہت پیچھے رہ گئے اور یہی دِیر کی پس ماندگی کی بڑی وجہ ثابت ہوئی۔ نواب شاہ جہاں چوںکہ خود اَن پڑھ تھا لہٰذا، عوام کو جہالت کی تاریکیوں سے نکال کر علم کی روشنی سے روشناس کرانا اپنی نوابی کے لیے خطرہ سمجھتا تھا۔
وادیٔ دِیر میں موسم معتدل رہتا ہے۔ سخت گرمی کا کوئی خاص اثر نہیں رہتا کیوںکہ موسم گرما میں زیادہ سے زیادہ درجۂ حرارت 30 درجے سینٹی گریڈ تک رہتا ہے۔ سردیوں میں البتہ درجۂ حرارت -4 سے -14 درجے سینٹی گریڈ تک گرجاتا ہے۔
وادیٔ دِیر کے کچھ علاقوں کلاکوٹ، بری کوٹ، تھل اور لاموتی میں موسم گرما میں بھی نسبتاً زیادہ ٹھنڈک ہوتی ہے۔ لہٰذا، یہاں آنے والوں کے لیے گرم کپڑے رکھنا اشد ضروری ہے۔ اس وادی میں کوہ پیمائی، خیمہ بستیاں بسانے اور کوہساروں کے ذیلی راستوں پر سفر کرنے کا اصل موسم گرمیوں کے آغاز یعنی مئی، جون کا ہے۔ ویسے مون سون سے بچے ہونے کی وجہ سے جولائی، اگست بھی سیاحت کے عروج کا زمانہ ہے۔ دِیر میں آخیر گرما کا موسم پھل پھول، میوہ جات سے بھرپور اور ہر طرف سبزہ لیے ہوتا ہے۔ تاہم، سردیوں کے آغاز میں بھی پت جھڑ اپنے سنہرے، سرخ، زرد اور نارنجی رنگوں کے درختوں، دَھان کی خوشبوئوں اور چناروں کے آتشی رنگ لیے ایک دل فریب نظارہ پیش کرتا ہے۔
یہاں سالانہ بارش کی شرح 680 ملی میٹر ہے۔ برف باری بھی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ پندرہ فٹ تک برف باری ہونا تو معمول کی بات ہے جس کی وجہ سے یہاں سے چترال جانے والی سڑک ''لواری ٹاپ'' کے مقام پر بند ہوجاتی ہے۔ کئی مہینوں کے لیے یہ راستہ بند ہوجانے کی وجہ سے دِیر اور چترال کی نہ صرف روزمرہ کی ضروریات ِزندگی بلکہ کاروبار بھی بہت متاثر رہتا ہے۔ اس کے باوجود انتہائی اہم ضروریات کے باعث لوگ لواری ٹاپ کو پیدل عبور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ کوشش خودکُشی کے مترادف ہوتی ہے۔ کیوںکہ اس کوشش میں برف کی گہرائیاں ہزاروں لوگوں کی آخری منزل بن چکی ہیں اور ان کی لاشیں بھی نہ مل پائیں۔ اس سنگین صورت ِ حال کے پیشِ نظر حکومت نے پہاڑوں کو کاٹ کر کئی کھرب روپوں کی لاگت سے ایک شاہ راہ بذریعہ سُرنگ (Tunnel) بنائی جس سے چترال اور دِیر کا فاصلہ آٹھ گھنٹے سے گھٹ کر صرف تین گھنٹے کا رہ گیا۔ تاحال اس شاہ راہ کی تعمیر مکمل طور پر تکمیل کو نہیں پہنچی تاہم، عارضی طور پر اس پر آمدورفت جاری کی گئی ہے۔
دِیر میں ایک بہت بڑا پلے گرائونڈ بھی ہے جو سہ پہر کے وقت مختلف کھیل کھیلنے والوں اور تماشائی لڑکوں سے کھَچاکھَچ بھرا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اس گرائونڈ میں ہرسال مختلف قسم کے ٹورنامنٹس بھی منعقد ہوتے ہیں۔
یہاں کی اہم چیزیں چاقو اور ٹوپی ہیں جو پاکستان بھر میں مشہور ہیں۔ دِیر کے پختون اپنی مہمان نوازی اور اخلاص کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ یہاں مختلف زبانوں اور لہجوں کے لوگ آباد ہیں۔ اکثریت تھل اور لاموتی میں رائج لہجہ استعمال کرتی ہے
اگرچہ یہ لوگ تعلیم کے لحاظ سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں پھر بھی پچھلے وقتوں کی نسبت خاصی پیش رفت ہوئی ہے۔ اس وقت سرکاری اور پرائیویٹ دونوں سطحوں پر، بہت سے پرائمری، مڈل اور ہائی اسکولز ہیں۔ لڑکیوں کا گورنمنٹ کالج جس کا ذکر پہلے بھی کیا گیا ہے، تعلیمی میدان میں لڑکیوں کی ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ لڑکوں کے لیے ایک بہت بڑے رقبے پر پھیلا ہوا گورنمنٹ کالج ہے۔ لیکن اپنی ناقص تعلیمی کارکردگی کی بِِناء پر نہ ہونے کے برابر ہے۔
اگرچہ موجودہ صورت حال میں دِیر ترقی کی طرف رواں دواں ہے۔ تاہم، پچھلے بہت سے برسوں کی ترقی کی کمی کو پورا کرنے میں ابھی بہت وقت لگے گا۔ کیوںکہ اس وقت بہت کم لوگ دِیرکے نام سے واقف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب یہاں کے لوگ دوسرے بڑے شہروں میں جاتے ہیں تو اپنا تعارف دِیر کی بجائے ''سوات'' کے حوالے سے کراتے ہیں۔
مجھے امید ہے کہ میری اس تحریر سے کرنیں کے بہت سے ساتھی پاکستان کے ایک اہم علاقے سے واقف ہوچکے ہوںگے اور اب یہاں آنے کی کوشش بھی کریںگے۔