بلدیہ گارمنٹس فیکٹری کا سانحہ
آتشزنی کے اس ہولناک سانحہ پر عدالتی پروسیس جاری ہے اس لیے اس پر رائے زنی قبل از وقت اور نامناسب ہے۔
بلدیہ ٹاؤن میں واقع ایک گارمنٹس فیکٹری میں آتشزدگی کا سانحہ بھتے کے تنازعے کی وجہ سے رونما ہوا، فیکٹری میں 257 افراد کی ہلاکت حادثہ نہیں قتل تھا، ایک سیاسی جماعت کے کارکنوں نے 20 کروڑ روپے بھتہ طلب کیا تھا، یہ بات سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مقبول باقر کی سربراہی میں دو رکنی بنچ کے روبرو پیش کی جانے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی رپورٹ میں بتائی گئی، سانحہ بلدیہ ٹاؤن از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران جمعہ کو رینجرز کے وکیل نے جے آئی ٹی رپورٹ عدالت میں پیش کر دی۔
عدالت نے سربمہر رپورٹ کو ریکارڈ کا حصہ بنا لیا، چیف جسٹس مقبول باقر کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے غیر سرکاری تنظیم ''پائلر'' اور دیگر درخواستوں کی سماعت کی، واضح رہے کہ جسٹس (ر) زاہد قربان علوی پر مشتمل تحقیقاتی کمیشن نے شارٹ سرکٹ کو آتشزدگی کا سبب بتایا تھا۔ آتشزنی کے اس ہولناک سانحہ پر عدالتی پروسیس جاری ہے اس لیے اس پر رائے زنی قبل از وقت اور نامناسب ہے، اس کا فیصلہ عدالت شواہد و ٹھوس ثبوتوں کی روشنی میں کرے گی تاہم اس سانحہ کے انسانی پہلوؤں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، اس واقعہ کی بازگشت عالمی سطح پر سنی گئی۔
امریکا، برطانیہ، فرانس، چین، بھارت، ایران، قطر سمیت عالمی ادارہ محنت، پاکستان و ایشین انسانی حقوق کمیشن اور سول سوسائٹی نے اسے درد انگیز سانحہ قرار دیا تھا، نیو یارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ آگ لگنے کے 75 منٹ بعد فائر بریگیڈ کی گاڑیاں جائے وقوعہ پر پہنچیں اس وقت بہت دیر ہو چکی تھی، لاشیں کوئلہ بن گئی تھیں، اور متعدد مرد ہنر مند اور سیکڑوں محنت کش خواتین لرزہ خیز آگ کی نذر ہو گئیں، اسی روز لاہور کی ایک جوتا ساز فیکٹری بھی صبح آگ جل اٹھی تھی لیکن کاریگر خوش قسمتی سے اس وقت تک کام پر پہنچے نہیں تھے مگر کروڑوں کی مشینری، عمارت اور سامان جل کر راکھ ہو گئے۔
بلدیہ گارمنٹس فیکٹری کیس کے سلسلہ میں قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے ایک سیاسی جماعت کے کارکن رضوان قریشی کو مقدمہ میں ملوث ہونے پر گرفتار کیا تھا، اس نے 22 جون2013 ء کو جے آئی ٹی ٹیم کے روبرو انکشافات کیے، ملزم کے ایم سی میں سینیٹری ورکر کی حیثیت سے ملازمت کرتا ہے۔ ملزم نے مزید بتایا کہ صوبے کے اعلیٰ ترین عہدیدار کے فرنٹ مین نے فیکٹری مالکان سے مقدمہ ختم کرانے کے لیے 15 کروڑ روپے وصول کیے، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملزم کو کینیڈا سے ڈاکٹر خالد نے 7 جون 2013ء کو ایک ہٹ لسٹ بھی دی۔
یہ دلخراش انکشافات سیاسی کلچر کے اخلاقی انحطاط کا شکستہ تر آئینہ ہیں جب کہ فیکٹریوں کے حالات کار، ان پر لاگو فیکٹری ایکٹ پر محکمہ محنت کے ارباب بست و کشاد کتنے ذمے دارانہ احساس فرض کے ساتھ عملدرآمد کراتے ہیں مذکورہ فیکٹریوں میں لگنے والی آگ کی تباہ کاریاں اس کی نوحہ خواں ہیں۔ ملک بھر میں ہزاروں فیکٹریاں، ملیں اور کارخانے موت کے جال ''ڈیتھ ٹریپ'' ہیں، اس لیے امید کی جانی چاہیے کہ اس سانحہ کے حقائق انصاف کے ترازو میں تُلیں گے اور سچ سامنے لایا جائے گا۔
عدالت نے سربمہر رپورٹ کو ریکارڈ کا حصہ بنا لیا، چیف جسٹس مقبول باقر کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے غیر سرکاری تنظیم ''پائلر'' اور دیگر درخواستوں کی سماعت کی، واضح رہے کہ جسٹس (ر) زاہد قربان علوی پر مشتمل تحقیقاتی کمیشن نے شارٹ سرکٹ کو آتشزدگی کا سبب بتایا تھا۔ آتشزنی کے اس ہولناک سانحہ پر عدالتی پروسیس جاری ہے اس لیے اس پر رائے زنی قبل از وقت اور نامناسب ہے، اس کا فیصلہ عدالت شواہد و ٹھوس ثبوتوں کی روشنی میں کرے گی تاہم اس سانحہ کے انسانی پہلوؤں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، اس واقعہ کی بازگشت عالمی سطح پر سنی گئی۔
امریکا، برطانیہ، فرانس، چین، بھارت، ایران، قطر سمیت عالمی ادارہ محنت، پاکستان و ایشین انسانی حقوق کمیشن اور سول سوسائٹی نے اسے درد انگیز سانحہ قرار دیا تھا، نیو یارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ آگ لگنے کے 75 منٹ بعد فائر بریگیڈ کی گاڑیاں جائے وقوعہ پر پہنچیں اس وقت بہت دیر ہو چکی تھی، لاشیں کوئلہ بن گئی تھیں، اور متعدد مرد ہنر مند اور سیکڑوں محنت کش خواتین لرزہ خیز آگ کی نذر ہو گئیں، اسی روز لاہور کی ایک جوتا ساز فیکٹری بھی صبح آگ جل اٹھی تھی لیکن کاریگر خوش قسمتی سے اس وقت تک کام پر پہنچے نہیں تھے مگر کروڑوں کی مشینری، عمارت اور سامان جل کر راکھ ہو گئے۔
بلدیہ گارمنٹس فیکٹری کیس کے سلسلہ میں قانون نافذ کرنیوالے اداروں نے ایک سیاسی جماعت کے کارکن رضوان قریشی کو مقدمہ میں ملوث ہونے پر گرفتار کیا تھا، اس نے 22 جون2013 ء کو جے آئی ٹی ٹیم کے روبرو انکشافات کیے، ملزم کے ایم سی میں سینیٹری ورکر کی حیثیت سے ملازمت کرتا ہے۔ ملزم نے مزید بتایا کہ صوبے کے اعلیٰ ترین عہدیدار کے فرنٹ مین نے فیکٹری مالکان سے مقدمہ ختم کرانے کے لیے 15 کروڑ روپے وصول کیے، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملزم کو کینیڈا سے ڈاکٹر خالد نے 7 جون 2013ء کو ایک ہٹ لسٹ بھی دی۔
یہ دلخراش انکشافات سیاسی کلچر کے اخلاقی انحطاط کا شکستہ تر آئینہ ہیں جب کہ فیکٹریوں کے حالات کار، ان پر لاگو فیکٹری ایکٹ پر محکمہ محنت کے ارباب بست و کشاد کتنے ذمے دارانہ احساس فرض کے ساتھ عملدرآمد کراتے ہیں مذکورہ فیکٹریوں میں لگنے والی آگ کی تباہ کاریاں اس کی نوحہ خواں ہیں۔ ملک بھر میں ہزاروں فیکٹریاں، ملیں اور کارخانے موت کے جال ''ڈیتھ ٹریپ'' ہیں، اس لیے امید کی جانی چاہیے کہ اس سانحہ کے حقائق انصاف کے ترازو میں تُلیں گے اور سچ سامنے لایا جائے گا۔