کفارہ کا وقت سچائی کی ضرورت
جنگ جیتنا ہے تو اچھے برے کی تمیز ختم‘ جانبداری سے اجتناب کر کے ہر قسم کی دہشتگردی کا سر سختی سے کچلنا ہو گا۔
یکجہتی اور یکسوئی کی جس قدر ضرورت پاکستانی قو م کو آج ہے اس سے پہلے کبھی نہ تھی۔ پہلی اسلامی ایٹمی طاقت کو دہشت گردوں نے مفلوج کر رکھا ہے۔ کہیں تخریب کار انسانی جانوں سے کھیل رہے ہیں تو کہیں کرپٹ عناصر مالی دہشتگردی سے قوم کے ارمانوں کا خون کر رہے ہیں۔
انتظامی افراتفری' بدانتظامی و بدنظمی سے آئین و قانون کا قتل عام ہو رہا ہے۔ دہشتگردی کے عفریت سے نجات ملکی سلامتی کے لیے ناگزیر ہے۔ لیکن اس کے لیے جس قومی اتحاد و یگانگت اور اتفاق رائے کی ضرورت ہے اس کا فقدان ہے۔
کوئی ٹھوس اقدام' واضح حکمت عملی' مربوط' متواتر' منظم پالیسی' حتیٰ کہ قومی اتفاق رائے کے لیے کوئی موثر کوشش دکھائی نہیں دے رہی۔ یہ جانتے بوجھتے کہ ڈھیلے ڈھالے فیصلوں' بے دلی سے کیے گئے اقدامات سے دہشتگردی کے جن کو بوتل میں بند کرنا ممکن نہیں۔ اگرچہ فوج یہ ذمے داری بحسن و خوبی انجام دے رہی ہے اور فقیدالمثال قربانیاں پیش کر رہی ہے تاہم دہشتگردی کے عفریت کو قابو کرنا کسی ادارے کے لیے تنہا ممکن نہیں۔
جنگ جیتنا ہے تو اچھے برے کی تمیز ختم' جانبداری سے اجتناب کر کے ہر قسم کی دہشتگردی کا سر سختی سے کچلنا ہو گا۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے مہاشے آج بھی دہشتگردی کی اقسام میں الجھے ہوئے ہیں۔ اس مرحلے پر بھی کچھ گروپوں کو بچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
طالبان کے سجنا گروپ اور حقانی نیٹ ورک کے لیے اب بھی ڈھکی چھپی ہمدردی پائی جاتی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ دہشتگردی کی تعریف پر اتفاق نہیں ہو پایا۔ ایک ایسا ملک جس کی بنیاد کو کرپشن اور در و دیوار کو دہشتگردی نے چھلنی کر رکھا ہو' جہاں تعلیمی ادارے' عبادت گاہیں محفوظ نہ ہوں' جو دنیا کے تین خطرناک ممالک میں سے ایک ہو۔
قومی منصوبے کمیشن اور کک بیکس کی غلاظت سے لتھڑے ہوں' سیاحتی مقامات کے دروازوں پر تخریب کار بیٹھے ہوں' بیرونی سرمایہ کار تحفظات کا شکار ہوں' جہاں توانائی کی شدید کمی کے باوجود بجلی' گیس' پانی کی چوری ہو رہی ہو' لوڈشیڈنگ کے باعث صنعت' تجارت' زراعت تباہ حالی سے دوچار ہو اور جس کے مستقبل پر کئی سوالیہ نشانات لگے ہوں اور اس کی قیادت کو دہشتگردی کے خاتمہ کے لیے خود پر نیند حرام کر لینا چاہیے۔
دہشتگردی کے خلاف جنگ میں دوسرا فریق کون ہے' حکومت' فوج یا قوم' اگر حکومت ہے تو وہ تذبذب کا شکار ہے۔ اگر فوج تو وہ خم ٹھونک کر میدان عمل میں ڈٹی ہوئی ہے۔ اور اگر دوسرا فریق قوم ہے تو قوم کہاں ہے؟ اگر ہے تو دکھائی کیوں نہیں دیتا؟ قوم کی شیرازہ بندی حکومت کی ذمے داری ہے مگر کسی حکومت نے اس اہم فریضے کو اہمیت نہیں دی بلکہ سیاسی مفادات کیلیے قوم کا شیرازہ بکھیرنے سے بھی گریز نہ کیا گیا۔
ابتدا میں یہ قوم صوبوں اور زبان کی بنیاد پر تقسیم ہوئی' پھر مذہب و مسلک نے منقسم کیا۔ پختونستان' سندھو دیش' آزاد بلوچستان' جناح پور کے نعرے بھی سننے کو ملے۔ ہر فرد اور گروہ نے پوری قوم کو اپنے طرز' طریق اور نظریات کے سانچے میں ڈھالنا چاہا۔ مگر پاکستانیوں کو ایک قوم بنانے کی کوئی کوشش نہ کی گئی۔ غیر جماعتی انتخابات اور غیر ضروری مارشل لاؤں نے قوم کو متحد نہ ہونے دیا۔
اس کا نتیجہ ہے کہ ہر شخص ملکی و قومی مفادات پر ذاتی مفاد کو ترجیح دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک و قوم کے نقصان سے کسی کو دلچسپی نہیں۔ اجتماعی مفاد کی نگہبانی پر کوئی آمادہ نہیں۔ ہر حکومت نے اپنے فرض سے دانستہ پہلو تہی کی۔ نتیجے میں بندوق کے ذریعے تبلیغ کو رواج ملا جس کا منطقی نتیجہ دہشتگردی کی شکل میں سامنے آیا ۔
اقبالؒ نے کہا تھا ''درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو'' مگر کہیں بے جا مراعات' ضرورت سے زیادہ دولت اور کہیں فاقہ مستی' غربت و افلاس نے احساس کو تھپک تھپک کر سلا دیا۔ انسانیت اور انسانوں کے لیے درد کے احساس کا فطری جذبے کو خود غرضی' مفاد پرستی کا زہر دے کر موت کی وادی میں دھکیل دیا گیا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ بھائی بھائی' ہمسایہ ہمسائے کا دشمن بن بیٹھا۔اجتماعی زندگی کا وجود ختم ہوگیا۔ افراد ملت سے کٹ گئے' قوم نابود ہو گئی اور فرد اہمیت اختیار کر گئے۔
ایثار کا جذبہ انسانوں ہی نہیں جانوروں کو بھی ودیعت کیا گیا مگر یہ جذبہ دراصل انسانیت اور احساس سے جڑا ہوا ہے۔ انسانیت مر جائے تو احساس از خود مر جاتا ہے اور احساس درد مندی ختم ہو جائے تو ایثار کا جذبہ بھی تحلیل ہو جاتا ہے جس کے بعد انسان وضع قطع سے تو انسان ہی رہتا ہے مگر سوچ' فکر اور نظریے میں وحشی درندہ بن جاتا ہے۔ یہی دہشت گر ہوتا ہے جو انسان کے روپ میں خونخوار بھیڑیئے ہیں۔ وجہ احساس کی موت۔
سچائی بھی قدرت کا ایسا عطیہ ہے جو پیدائشی طور پر انسان کو عطا کیا جاتا ہے۔ انسانیت' احساس' ایثار کے اوصاف انسان کے اندر موجود ہوں تو سچائی کی شمع دل و ذہن میں فروزاں رہتی ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں' ہر مذہب و ملت میں جھوٹ کو بدترین فعل شمار کیا جاتا ہے اور ہم تو مسلمان ہونے کے دعویدار ہیں' قرآن نے بار بار جھوٹوں پر لعنت برسائی' نبی پاکؐ نے جھوٹ کو تمام برائیوں کی جڑ قرار دیا مگر ہم نے ہر سطح پر سچائی سے ناطہ توڑ کر جھوٹ کو اپنی زندگی کا مستقل حصہ بنا لیا۔ کذب بیانی نے پاکستانی قوم کو اخلاقی پستی کی اتھاہ گہرائی میں دھکیل دیا۔
دہشتگردی کے جس عفریت نے ملک و قوم کو اپنے خونیں پنجوں میں جکڑ رکھا ہے اس کی بنیادی وجہ انسانیت' احساس' ایثار اور سچائی جیسے اوصاف کا عنقا ہو جانا ہے۔ انسانیت کا لحاظ اور انسان کا درد ہوتا تو کوئی زیادہ منافع کے لیے دہشتگردوں کو دھماکا خیز مواد' بال بیرنگ' یوریا کھاد فراہم نہ کرتا۔ ان کو خوراک اور اجناس نہ دیتا' گاڑیاں فروخت نہ کرتا' گھر زیادہ کرائے پر نہ دیے جاتے' رشوت لے کر غیرملکی دہشتگردوں کو شناختی کارڈ اور پاسپورٹ نہ بنا کر دیے جاتے' زیادہ رقم کے عوض غیر رجسٹرڈ سمیں نہ جاری کی جاتیں۔
قومی احساس اور ایثار موجود ہوتا تو ہر شخص اپنے اردگرد پر نگاہ رکھتا۔ جہاں کچھ گڑبڑ دکھائی دیتی' متعلقہ اداروں کو آگاہ کیا جاتا تا کہ دہشتگردوں کو کھل کھیلنے کا موقع نہ مل سکتا۔ مگر ہم نے اس اجتماعی مسئلہ سے انفرادی طور پر بھی خود کو الگ کر کے اپنی اپنی دنیا بسا لی۔ قوم کی رگ و جان میں خود غرضی' مفاد پرستی کا خنجر گہرائی تک اتار کر جسد قومی کو لہولہان کر ڈالا۔
درج بالا قباحتوں کے ساتھ ساتھ کرپشن کا ناسور دیمک کی طرح قوم کی جڑیں نگل گیا۔ سرکار یا اداروں کے کرتا دھرتاؤں نے ملکی و قومی مفاد کو تج کر ذاتی مفادات حاصل کیے۔ تھانے' پٹوار' ماتحت عدلیہ' بجلی' گیس' پانی کے محکموں' تعلیمی اداروں' اسپتالوں' ترقیاتی اداروں میں لوٹ مار کا جو بازار گرم ہے' ہر حکومت اس سے آگاہ تھی اور ہے۔ مگر کسی نے اس رسم بد کی بیخ کنی کی کوشش نہ کی بلکہ ایک حد تک کرپشن کو جائز قرار دے دیا گیا۔ اس روش کو تبدیل نہ کرنے کی واحد وجہ کرپشن کے راستے کھلے رکھنا ہیں تا کہ حکمرانوں کی کرپشن کے راستے بھی کھلے رہیں۔ اور اس کی وجہ بھی احساس' ایثار اور سچائی سے عاری ہونا ہے۔
سچ یہ ہے کہ کرپشن بھی ملک و قوم سے غداری اور بدترین قسم کی دہشتگردی ہے' کسی دانشور کا قول ہے ''ضمیر کا سودا کرنا پہلی مرتبہ مشکل ہوتا ہے' جب ایک بار قیمت لگ جائے تو پھر زیادہ بولی پر بار بار ضمیر کو مارنا کچھ دشوار نہیں رہتا'' ہماری سرکاری مشینری جب ایک بار مالی دہشتگردی میں ملوث ہو جاتی ہے تو اسے دہشتگردی میں آلۂ کار بننے میں جھجک نہیں ہوتی۔ اس لیے دہشتگردی کے خاتمہ کے لیے سرکاری اداروں میں آپریشن کلین اپ وقت کی ضرورت ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو دہشتگردوں کو سہولت کار اور آلۂ کار میسر آتے رہیں گے۔
قومی قیادت اگر واقعی دہشتگردی سے نجات حاصل کرنے میں سنجیدہ ہے تو پہلے پاکستان میں بسنے والے ہر زبان' صوبے' مذہب' مسلک' رنگ' نسل سے تعلق رکھنے والوں کو ایک قوم بنانا ہو گا۔ انسانیت' احساس' ایثار' سچائی کے اوصاف کو فروغ دینا ہو گا۔ ہر قسم کی دہشتگردی میں ملوث لوگوں کو عبرت کا نشان بنانا ہو گا اور اس کے لیے حکمرانوں کو پہلے خود کو تبدیل کرنا ہو گا جب تک اوپر تبدیلی نہ آئی نیچے کے حالات کو بہتر بنانا ممکن ہو گا نہ ہی دہشتگردی کے خلاف قومی یکجہتی' یکجائی' یکسوئی اور یکسانی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔
ملک کی ناؤ جس منجدھار میں پھنس چکی ہے اس کے ذمے دار سیاستدان' سول و فوجی حکمران' بیورو کریسی اور عام شہری سب ہیں اور اب اس جرم عظیم کے کفارہ کا موقع ہے۔ اب بھی ہم نے قومی فریضہ ادا نہ کیا تو ملک و قوم کا (خاکم بدہن) شاید کوئی وجود ہی نہ رہے۔
نوٹ: قومی اخبار روزنامہ ایکسپریس کی ادارتی ٹیم کا حصہ بننا میرے جیسے صحافتی طالب علم کے لیے فخر و ناز کی بات ہے کہ مجھے ملک کے سینئر ترین کالم نگاروں' تجزیہ کاروں کے ساتھ کام کرنے اور مزید کچھ سیکھنے کے مواقع میسر آئیں گے۔ امید ہے کہ سینئر صحافیوں کی رہنمائی بھی حاصل رہے گی۔ اس حوالے سے راقم اخبار کی انتظامیہ اور ادارتی بورڈ کا مشکور اور ممنون احسان ہے۔
انتظامی افراتفری' بدانتظامی و بدنظمی سے آئین و قانون کا قتل عام ہو رہا ہے۔ دہشتگردی کے عفریت سے نجات ملکی سلامتی کے لیے ناگزیر ہے۔ لیکن اس کے لیے جس قومی اتحاد و یگانگت اور اتفاق رائے کی ضرورت ہے اس کا فقدان ہے۔
کوئی ٹھوس اقدام' واضح حکمت عملی' مربوط' متواتر' منظم پالیسی' حتیٰ کہ قومی اتفاق رائے کے لیے کوئی موثر کوشش دکھائی نہیں دے رہی۔ یہ جانتے بوجھتے کہ ڈھیلے ڈھالے فیصلوں' بے دلی سے کیے گئے اقدامات سے دہشتگردی کے جن کو بوتل میں بند کرنا ممکن نہیں۔ اگرچہ فوج یہ ذمے داری بحسن و خوبی انجام دے رہی ہے اور فقیدالمثال قربانیاں پیش کر رہی ہے تاہم دہشتگردی کے عفریت کو قابو کرنا کسی ادارے کے لیے تنہا ممکن نہیں۔
جنگ جیتنا ہے تو اچھے برے کی تمیز ختم' جانبداری سے اجتناب کر کے ہر قسم کی دہشتگردی کا سر سختی سے کچلنا ہو گا۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے مہاشے آج بھی دہشتگردی کی اقسام میں الجھے ہوئے ہیں۔ اس مرحلے پر بھی کچھ گروپوں کو بچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
طالبان کے سجنا گروپ اور حقانی نیٹ ورک کے لیے اب بھی ڈھکی چھپی ہمدردی پائی جاتی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ دہشتگردی کی تعریف پر اتفاق نہیں ہو پایا۔ ایک ایسا ملک جس کی بنیاد کو کرپشن اور در و دیوار کو دہشتگردی نے چھلنی کر رکھا ہو' جہاں تعلیمی ادارے' عبادت گاہیں محفوظ نہ ہوں' جو دنیا کے تین خطرناک ممالک میں سے ایک ہو۔
قومی منصوبے کمیشن اور کک بیکس کی غلاظت سے لتھڑے ہوں' سیاحتی مقامات کے دروازوں پر تخریب کار بیٹھے ہوں' بیرونی سرمایہ کار تحفظات کا شکار ہوں' جہاں توانائی کی شدید کمی کے باوجود بجلی' گیس' پانی کی چوری ہو رہی ہو' لوڈشیڈنگ کے باعث صنعت' تجارت' زراعت تباہ حالی سے دوچار ہو اور جس کے مستقبل پر کئی سوالیہ نشانات لگے ہوں اور اس کی قیادت کو دہشتگردی کے خاتمہ کے لیے خود پر نیند حرام کر لینا چاہیے۔
دہشتگردی کے خلاف جنگ میں دوسرا فریق کون ہے' حکومت' فوج یا قوم' اگر حکومت ہے تو وہ تذبذب کا شکار ہے۔ اگر فوج تو وہ خم ٹھونک کر میدان عمل میں ڈٹی ہوئی ہے۔ اور اگر دوسرا فریق قوم ہے تو قوم کہاں ہے؟ اگر ہے تو دکھائی کیوں نہیں دیتا؟ قوم کی شیرازہ بندی حکومت کی ذمے داری ہے مگر کسی حکومت نے اس اہم فریضے کو اہمیت نہیں دی بلکہ سیاسی مفادات کیلیے قوم کا شیرازہ بکھیرنے سے بھی گریز نہ کیا گیا۔
ابتدا میں یہ قوم صوبوں اور زبان کی بنیاد پر تقسیم ہوئی' پھر مذہب و مسلک نے منقسم کیا۔ پختونستان' سندھو دیش' آزاد بلوچستان' جناح پور کے نعرے بھی سننے کو ملے۔ ہر فرد اور گروہ نے پوری قوم کو اپنے طرز' طریق اور نظریات کے سانچے میں ڈھالنا چاہا۔ مگر پاکستانیوں کو ایک قوم بنانے کی کوئی کوشش نہ کی گئی۔ غیر جماعتی انتخابات اور غیر ضروری مارشل لاؤں نے قوم کو متحد نہ ہونے دیا۔
اس کا نتیجہ ہے کہ ہر شخص ملکی و قومی مفادات پر ذاتی مفاد کو ترجیح دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک و قوم کے نقصان سے کسی کو دلچسپی نہیں۔ اجتماعی مفاد کی نگہبانی پر کوئی آمادہ نہیں۔ ہر حکومت نے اپنے فرض سے دانستہ پہلو تہی کی۔ نتیجے میں بندوق کے ذریعے تبلیغ کو رواج ملا جس کا منطقی نتیجہ دہشتگردی کی شکل میں سامنے آیا ۔
اقبالؒ نے کہا تھا ''درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو'' مگر کہیں بے جا مراعات' ضرورت سے زیادہ دولت اور کہیں فاقہ مستی' غربت و افلاس نے احساس کو تھپک تھپک کر سلا دیا۔ انسانیت اور انسانوں کے لیے درد کے احساس کا فطری جذبے کو خود غرضی' مفاد پرستی کا زہر دے کر موت کی وادی میں دھکیل دیا گیا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ بھائی بھائی' ہمسایہ ہمسائے کا دشمن بن بیٹھا۔اجتماعی زندگی کا وجود ختم ہوگیا۔ افراد ملت سے کٹ گئے' قوم نابود ہو گئی اور فرد اہمیت اختیار کر گئے۔
ایثار کا جذبہ انسانوں ہی نہیں جانوروں کو بھی ودیعت کیا گیا مگر یہ جذبہ دراصل انسانیت اور احساس سے جڑا ہوا ہے۔ انسانیت مر جائے تو احساس از خود مر جاتا ہے اور احساس درد مندی ختم ہو جائے تو ایثار کا جذبہ بھی تحلیل ہو جاتا ہے جس کے بعد انسان وضع قطع سے تو انسان ہی رہتا ہے مگر سوچ' فکر اور نظریے میں وحشی درندہ بن جاتا ہے۔ یہی دہشت گر ہوتا ہے جو انسان کے روپ میں خونخوار بھیڑیئے ہیں۔ وجہ احساس کی موت۔
سچائی بھی قدرت کا ایسا عطیہ ہے جو پیدائشی طور پر انسان کو عطا کیا جاتا ہے۔ انسانیت' احساس' ایثار کے اوصاف انسان کے اندر موجود ہوں تو سچائی کی شمع دل و ذہن میں فروزاں رہتی ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں' ہر مذہب و ملت میں جھوٹ کو بدترین فعل شمار کیا جاتا ہے اور ہم تو مسلمان ہونے کے دعویدار ہیں' قرآن نے بار بار جھوٹوں پر لعنت برسائی' نبی پاکؐ نے جھوٹ کو تمام برائیوں کی جڑ قرار دیا مگر ہم نے ہر سطح پر سچائی سے ناطہ توڑ کر جھوٹ کو اپنی زندگی کا مستقل حصہ بنا لیا۔ کذب بیانی نے پاکستانی قوم کو اخلاقی پستی کی اتھاہ گہرائی میں دھکیل دیا۔
دہشتگردی کے جس عفریت نے ملک و قوم کو اپنے خونیں پنجوں میں جکڑ رکھا ہے اس کی بنیادی وجہ انسانیت' احساس' ایثار اور سچائی جیسے اوصاف کا عنقا ہو جانا ہے۔ انسانیت کا لحاظ اور انسان کا درد ہوتا تو کوئی زیادہ منافع کے لیے دہشتگردوں کو دھماکا خیز مواد' بال بیرنگ' یوریا کھاد فراہم نہ کرتا۔ ان کو خوراک اور اجناس نہ دیتا' گاڑیاں فروخت نہ کرتا' گھر زیادہ کرائے پر نہ دیے جاتے' رشوت لے کر غیرملکی دہشتگردوں کو شناختی کارڈ اور پاسپورٹ نہ بنا کر دیے جاتے' زیادہ رقم کے عوض غیر رجسٹرڈ سمیں نہ جاری کی جاتیں۔
قومی احساس اور ایثار موجود ہوتا تو ہر شخص اپنے اردگرد پر نگاہ رکھتا۔ جہاں کچھ گڑبڑ دکھائی دیتی' متعلقہ اداروں کو آگاہ کیا جاتا تا کہ دہشتگردوں کو کھل کھیلنے کا موقع نہ مل سکتا۔ مگر ہم نے اس اجتماعی مسئلہ سے انفرادی طور پر بھی خود کو الگ کر کے اپنی اپنی دنیا بسا لی۔ قوم کی رگ و جان میں خود غرضی' مفاد پرستی کا خنجر گہرائی تک اتار کر جسد قومی کو لہولہان کر ڈالا۔
درج بالا قباحتوں کے ساتھ ساتھ کرپشن کا ناسور دیمک کی طرح قوم کی جڑیں نگل گیا۔ سرکار یا اداروں کے کرتا دھرتاؤں نے ملکی و قومی مفاد کو تج کر ذاتی مفادات حاصل کیے۔ تھانے' پٹوار' ماتحت عدلیہ' بجلی' گیس' پانی کے محکموں' تعلیمی اداروں' اسپتالوں' ترقیاتی اداروں میں لوٹ مار کا جو بازار گرم ہے' ہر حکومت اس سے آگاہ تھی اور ہے۔ مگر کسی نے اس رسم بد کی بیخ کنی کی کوشش نہ کی بلکہ ایک حد تک کرپشن کو جائز قرار دے دیا گیا۔ اس روش کو تبدیل نہ کرنے کی واحد وجہ کرپشن کے راستے کھلے رکھنا ہیں تا کہ حکمرانوں کی کرپشن کے راستے بھی کھلے رہیں۔ اور اس کی وجہ بھی احساس' ایثار اور سچائی سے عاری ہونا ہے۔
سچ یہ ہے کہ کرپشن بھی ملک و قوم سے غداری اور بدترین قسم کی دہشتگردی ہے' کسی دانشور کا قول ہے ''ضمیر کا سودا کرنا پہلی مرتبہ مشکل ہوتا ہے' جب ایک بار قیمت لگ جائے تو پھر زیادہ بولی پر بار بار ضمیر کو مارنا کچھ دشوار نہیں رہتا'' ہماری سرکاری مشینری جب ایک بار مالی دہشتگردی میں ملوث ہو جاتی ہے تو اسے دہشتگردی میں آلۂ کار بننے میں جھجک نہیں ہوتی۔ اس لیے دہشتگردی کے خاتمہ کے لیے سرکاری اداروں میں آپریشن کلین اپ وقت کی ضرورت ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو دہشتگردوں کو سہولت کار اور آلۂ کار میسر آتے رہیں گے۔
قومی قیادت اگر واقعی دہشتگردی سے نجات حاصل کرنے میں سنجیدہ ہے تو پہلے پاکستان میں بسنے والے ہر زبان' صوبے' مذہب' مسلک' رنگ' نسل سے تعلق رکھنے والوں کو ایک قوم بنانا ہو گا۔ انسانیت' احساس' ایثار' سچائی کے اوصاف کو فروغ دینا ہو گا۔ ہر قسم کی دہشتگردی میں ملوث لوگوں کو عبرت کا نشان بنانا ہو گا اور اس کے لیے حکمرانوں کو پہلے خود کو تبدیل کرنا ہو گا جب تک اوپر تبدیلی نہ آئی نیچے کے حالات کو بہتر بنانا ممکن ہو گا نہ ہی دہشتگردی کے خلاف قومی یکجہتی' یکجائی' یکسوئی اور یکسانی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔
ملک کی ناؤ جس منجدھار میں پھنس چکی ہے اس کے ذمے دار سیاستدان' سول و فوجی حکمران' بیورو کریسی اور عام شہری سب ہیں اور اب اس جرم عظیم کے کفارہ کا موقع ہے۔ اب بھی ہم نے قومی فریضہ ادا نہ کیا تو ملک و قوم کا (خاکم بدہن) شاید کوئی وجود ہی نہ رہے۔
نوٹ: قومی اخبار روزنامہ ایکسپریس کی ادارتی ٹیم کا حصہ بننا میرے جیسے صحافتی طالب علم کے لیے فخر و ناز کی بات ہے کہ مجھے ملک کے سینئر ترین کالم نگاروں' تجزیہ کاروں کے ساتھ کام کرنے اور مزید کچھ سیکھنے کے مواقع میسر آئیں گے۔ امید ہے کہ سینئر صحافیوں کی رہنمائی بھی حاصل رہے گی۔ اس حوالے سے راقم اخبار کی انتظامیہ اور ادارتی بورڈ کا مشکور اور ممنون احسان ہے۔