کیا یہ کوئی راکٹ سائنس ہے

امریکا اور انگلینڈ میں تو اس سے متعلق باقاعدہ فون کارڈ کھلے عام بکتے ہیں

Amjadislam@gmail.com

شارجہ سے افتخار احمد بٹ کا فون آیا مگر میرے فون کی اسکرین پر اس کے Save کیے ہوئے نام کی جگہ ایک پاکستان کا لوکل نمبر ابھرا میں نے اس کی بات سنے بغیر تقریر شروع کر دی کہ شرم کرو اللہ نے تمہیں تمہاری ضرورت سے کہیں زیادہ دولت سے نوازا ہے مگر اس کے باوجود تم ناجائز طریقے سے چند روپے بچانے کا گھٹیا کام کر رہے ہو۔

آگے سے اس کی حیران اور پریشان قسم کی آواز سنائی دی کہ میرا قصور تو بتاؤ! میں نے کہا اتنے بھولے نہ بنو تم نے کسی غیر قانونی اور جعلی ٹیلی فون ایکسچینج سے ساز باز کر کے ایک HACK کیے ہوئے نمبر سے مجھے فون کیا ہے کیونکہ یہ سستا پڑتا ہے اس کی آواز رونے والی ہو گئی بولا خدا کی قسم میں تمہیں اپنے موبائل نمبر سے فون کرتا ہوں تم مجھے پچاس سال سے جانتے ہو، کیا میں نے پہلے کبھی ایسی بیہودہ حرکت کی ہے، اس کی بات بالکل درست تھی لیکن دوسری طرف نمبر دکھائی دے رہا تھا وہ بھی ایک حقیقت تھا۔ تفتیش پر معلوم ہوا کہ یہ کاروبار آج کل بہت زوروں پر ہے۔

امریکا اور انگلینڈ میں تو اس سے متعلق باقاعدہ فون کارڈ کھلے عام بکتے ہیں اور بیشتر خریدار یہ جانے بغیر انھیں استعمال کرتے ہیں کہ یہ کوئی رعایتی نہیں بلکہ ناجائز اور فراڈ پر مبنی کاروبار ہے جس میں شامل کچھ گروہ مل کر ایسے جعلی اور خفیہ Exchange تیار کرتے ہیں کہ ٹیکنالوجی اور سروس تو کسی باقاعدہ موبائل کمپنی کی استعمال ہوتی ہے مگر رقم ان فراڈیوں کی جیب میں جاتی ہے۔ ظاہر ہے کسی دوسرے ملک سے آنے والی کال جس مقامی موبائل نمبر کے ذریعے وصول کنندہ تک پہنچتی ہے۔

اس کی سم کسی غلط اور ناجائز طریقے سے حاصل کی گئی ہو گی کہ کسی قابل شناخت نمبر سے ایسا کاروبار ممکن نہیں، جب سے دہشتگردی کی روک تھام کے حوالے سے صارفین کو اپنے نام پر جاری ہونے والی سم یا سموں کی تصدق کے مراحل سے گزرا جا رہا ہے یہ بات بہت شدت سے اور کھل کر سامنے آ رہی ہے کہ بہت سے ناموں پر ایسی سمیں جاری ہیں جن کے لیے نہ ان لوگوں نے کبھی درخواست دی اور نہ ہی انھیں اس بات کا علم ہے کہ ان کے نام پر کچھ ایسی اضافی سمیں حاصل کی گئی ہیں جن کے استعمال کنندگان کے بارے میں وہ سرے سے کچھ نہیں جانتے۔

خود میرے ڈرائیور شہباز نے بتایا کہ اس نے دو سمیں جاری کروائی تھیں جن میں سے ایک اس کے اور دوسری اس کی بیوی کے استعمال میں ہے مگر اب معلوم ہوا ہے کہ اس کے نام پر ریکارڈ میں اب تک چھ سمیں جاری ہو چکی ہیں اور آج کل اسے ان چار اضافی سموں کو بند کروانے کے لیے بار بار چکر لگانے پڑ رہے ہی۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت بارہ کروڑ سمیں گردش میں ہیں جو شاید فی کس کے تناسب کے حساب سے اپنی جگہ پر ایک عالمی ریکارڈ ہے۔

اس پر میرا ذہن ماضی کی طرف لوٹا تو مجھے یاد آیا کے یہ سب کچھ گزشتہ بیس پچیس برسوں کے اندر ہوا ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے 1989ء میں جب میں دوسری بار انگلستان کے سفر پر روانہ ہوا تو اس وقت تک موبائل فون اگر پاکستان میں آ چکا تھا تو کم از کم مجھے اسے دیکھنے کی سعادت نصیب نہیں ہوئی تھی اور یہ بھی یاد ہے کہ شروع شروع میں موبائل کے نام پر جو انسٹرومنٹ آیا تھا اسے اٹھانے کے لیے علیحدہ سے ایک ملازم ساتھ رکھنا پڑتا تھا تو ہوا یوں کہ جب برادرم مکرم جاوید سید ہیتھرو کے ایئرپورٹ سے ایک بڑی شاندار سی گاڑی میں مجھے لے کر اپنے گھر کی طرف روانہ ہوا تو میں نے دیکھا کہ میری اور اس کی سیٹ کی درمیانی جگہ پر اور چیزوں کے علاوہ ایک سیاہ رنگ کی کوئی چیز بھی پڑی ہے جس کا سائز کسی ضخیم ادبی رسالے سے ملتا جلتا ہے۔


لمبے سفر کی تھکن اور عزیز دوست سے کئی برس بعد کی ملاقات کی بے تابی کی وجہ سے میں نے اس کی طرف زیادہ دھیان نہیں دیا۔ ایئرپورٹ سے نکلنے کے کچھ دیر بعد اس نے بہت رواروی کے انداز میں کہا ''بھابی سے بات کرو گے'' میں نے کہا کیوں نہیں تمہارے گھر پہنچ کر پہلا کام یہی کروں گا کہ یہی وعدہ کر کے میں گھر سے چلا تھا، بولا تو کر لو، میں نے سوچا کہ وہ مجھے کسی پبلک فون پر رک کر بات کروانے کا کہہ رہا ہے کہ انگریزی فلموں کی وساطت سے یہ بات میرے علم میں تھی کہ وہاں سے اوورسیز کال بھی کی جا سکتی ہے۔ سو میں نے کہا کہ اس وقت کہیں رکنے کا موڈ نہیں گھر چل کر ہی فون کرینگے، بولا، رکنے کو کون کہہ رہا ہے یہیں گاڑی میں سے بات کر لیتے ہیں۔

یہ فون پڑا ہے ملا لو۔ میں نے کہا کہ میں سائنس کا کوئی اچھا اسٹوڈنٹ نہیں رہا مگر اب اتنا جاہل بھی نہیں کہ مجھے یہ بھی پتہ نہ ہو کہ تار اور کنکشن کے بغیر فون نہیں ہو سکتا۔ اس پر اس نے ایک ریسور سا اٹھایا اور کہا اچھا نمبر بتاؤ، میری سمجھ میں یہی آیا کہ وہ مجھ سے کوئی مذاق کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ سو میں نے برے کو گھر تک پہنچانے کی نیت سے نمبر بول دیا اس نے اس کالے سے ڈبے پر بنے ہوئے کچھ ہندسوں کو دبایا اور ریسور کان سے لگا لیا۔ ابھی میں اسے ''یہ کیا ڈرامہ کر رہے ہو یار'' کہنے ہی والا تھا کہ اس نے ریسیور میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا، لو بات کرو بیل جا رہی ہے۔

اس ایک لمحے کی ایکسائٹ منٹ کو میں آج تک نہیں بھولا، جب مجھے دوسری طرف سے اپنی بیگم کی ہیلو ہیلو کی آواز سنائی دی۔ سن رکھا تھا کہ Miriclas do Happen مگر وہ تجربہ اس وقت واقعی ایک معجزے سے کم نہ تھا۔ پھر یوں ہوا کہ یہ آسیب ہمارے ملک میں بھی آ گیا اور پھر آتا چلا گیا اور اب یہ عالم ہے کہ آپ اپنے چوکیدار، مالی، دھوبی، جمعدار، سبزی والے بلکہ بعض صورتوں میں مانگنے والوں تک کو یہ بولنے والا توتا کان سے لگائے دیکھتے ہیں۔ جیب میں اگلے وقت کے کھانے کے لیے کچھ ہو نہ ہو موبائل ضرور ہوتا ہے۔ اس انتہائی ضرورت کے وقت استعمال کی جانے والی چیز کو جس طرح سے ہم نے لباس اور جوتوں کی طرح زندگی کا حصہ بنا لیا ہے یہ ہمارا ہی کمال ہے اور غالباً یہی وجہ ہے کہ فراڈ کرنے والوں نے بھی ہماری اس عادت میں کمائی کے نت نئے راستے دریافت کر لیے ہیں۔

آج کل ایک عام اور کثرت سے کیا جانے والا فراڈ وہ SMS بھی ہیں جو آپ کو مختلف نمبروں سے یہ اطلاع دیتے ہیں کہ آپ کا نام بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں شامل ہو گیا ہے اپنے حصے کے 25 ہزار روپے حاصل کرنے کے لیے فوری طور پر ان معلومات کے ساتھ ہم سے رابطہ قائم کیجیے۔ اس کے بعد یہ لوگ جال میں پھنسنے والوں کے ساتھ کیا کرتے ہیں یہ اپنی جگہ پر ایک طویل دورانیے کا ایسا ڈرامہ ہے جس کے سین شمار سے باہر ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ یہ سارا فراڈ لوکل نمبروں سے کیا جاتا ہے۔

میں نے انتظامیہ، پولیس اور اندرونی سیکیورٹی سے متعلق کئی دوستوں سے اس کے بارے میں بات کی ہے کہ انھیں عوام کو ان دھوکے بازوں سے بچانے کے لیے عملی اقدامات کرنے چاہئیں اور ایسے تمام لوگوں کو گرفتار کرکے انھیں قرار واقعی سزا دلوانی چاہیے کہ فی زمانہ جس طرح کی ٹیکنالوجی ان کے پاس موجود ہے اس کی مدد سے ان لوگوں کا سراغ لگانا کوئی بہت زیادہ مشکل نہیں مگر حرام ہے کہ کسی کے کان پر جوں بھی رینگی ہو۔ سب کے سب لولے لنگڑے بہانے کر کے بات ٹال دیتے ہیں۔

اب جب کہ نادرا، موبائل کمپنیاں، پیمرا، سیکیورٹی ایجنسیاں اور میڈیا سب کے سب دہشت گردی کے حوالے سے ہی سہی مگر ایک صفحے یعنی Page پر ہیں میں ایک بار پھر تمام متعلقہ اداروں اور ان کے افسران کی توجہ اس طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ اس انتہائی، عام اور قابل گرفت سائبر کرائم کے بارے میں خصوصی اور فوری توجہ سے کام لیں اور ایک بھر پور مہم کے ذریعے اس بزنس میں ملوث فراڈیوں کو گرفتار کر کے ایسی سزائیں دیں کہ آئندہ کسی کو عوام کا پیسہ لوٹنے اور ملک کا امیج برباد کرنے کی جرأت نہ ہو۔ اول تو یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں اور اگر ہے بھی تو کیا یہ بھی ایک حقیقت نہیں ہے کہ ہم دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت کا درجہ رکھتے ہیں۔
Load Next Story