دنیا پر جنت کا تحفہ
چینی معاشرے میں اس طرح کا عمل کرنے کا سوچنا بھی موت ہے۔آپ کو تعلیم سے عاری خواتین کم ہی ملیں گی۔
راقم الحروف چین میں ہی موجود ہے۔جگر کی پیوندکاری کی ٹریننگ،والد کی ناساز طبیعت کے علاج کے بہانے سے یہاں آ توگیا ،مگر بار بار وطن کے ساتھ اس قوم کے موازنہ کرنے کو طبیعت مچلتی رہتی ہے۔ہم اپنے دیس کو لعن طعن کرنے پر ہمہ دم تیار رہتے ہیں،سچ پوچھیں تو لاکھ مصائب کے باوجود ہم شہزادوں کی زندگی بسر کر رہے ہیں ۔
ہم ایک ایسے معاشرے کے باسی ہیں،جہاں ہم بہت زیادہ حکومتی پابندیوں کا شکار نہیں ہیں۔ ہمارا انٹرنیٹ آزاد ہے،ہم سماجی روابط میں آزاد ہیں،نہ کوئی زبان کی قید ہے اور نہ ہی کوئی حکومتی مداخلت۔آپ فیس بک پے چاہیں،کسی گوری میم سے محبت کریں،اسے بیاہ کر یہاں لے آئیں،یا اس کے ذریعے یہاں سے رخصت ہوجائیں۔نام کو ملک میں طرح طرح کی ویب سائٹس بند ہیں،مگر آسان سے آسان پراکسی سائٹس اور وی پی این تبدیل کرکے ،پوری دنیا ہماری دسترس میں ہے۔
ایسا چین میں ناممکن ہے۔یہاں گوگل اور فیس بک کے ساتھ ساتھ ،ہمارے لیے تو سب ہی بند ہے۔پتہ نہیں اگر یہ چینی زبان میں سب کھول لیتے ہیں ، تو بھی تعلیم کیسے حاصل کرتے ہیں،سماجی رابطے کیسے رکھتے ہیں؟ایسے معاشرے میں ایک پاکستانی یا انڈین کا تو دم گھٹنے لگتا ہے۔ایسی ہی شکایت مجھے میرے یہاں کے عربی،لبنانی،امارات کے دوستوں نے بھی کی۔
دم گھٹنے کے لیے انٹرنیٹ کی بندش تو ایک چھوٹی سی سزا ہے۔آپ پاکستانی ہوکر ایک ایسے معاشرے میں کیسے رہ سکتے ہیں،جہاں آپ کو ایک اولاد کے علاوہ دوسرا بچہ پیدا کرنے کی اجازت نہ ہو،آپ کی بیگم یاگرل فرینڈ آپ سے دس گنا زیادہ کام کرتی ہو۔عمر کا لحاظ ختم ہو اور بس کام کام کرنا ہو۔مہنگائی اپنے عروج پر ہو۔آپ کو چوبیس گھنٹے بجلی،پیٹرول تو مل جائے ، مگر گھر کے سارے افراد اتنا کام کرنے کے باوجود بھی ،کئی کئی منزلہ عمارتوں کے تنگ اور بند ایک کمرے کے کٹیا نما اپارٹمنٹس میں رہنے پر مجبور ہوں، اور یہ طرزِ رہائش بھی،شاہانہ مانا جاتا ہو۔ہم لوگ تو خواتین کی تکریم میں اس قدر آگے نکل گئے ہیں کہ اپنے ملک و قوم کا اتنا پیسہ لگوا کر،ان کی آدھی عمر کتابوں میں غرق کرکے انھیں فقط اچھے رشتوں کی تلاش میں ڈاکٹر یا انجینئر بنا دیتے ہیں اور پھر پوری عمر انھیں امورِ خانہ داری کے علاوہ کوئی کام نہیں کرنے دیتے۔
چینی معاشرے میں اس طرح کا عمل کرنے کا سوچنا بھی موت ہے۔آپ کو تعلیم سے عاری خواتین کم ہی ملیں گی،مگر تعلیم ہو یا نہ ہو،عورت کا گھر بیٹھنا اور مرد کے ساتھ برابر کی یا اس سے زیادہ کی کمائی نہ کرنا،یہاں عورت کے لیے جرم ہے۔سچ تو یہ ہے کہ عورت اگر یہاں یہ سب نہ کرے تو وہ یہاں survive ہی نہیں کرپائے گی۔ہم تو نہ جانے ان کاموں کو معاشرے میں کیا کیا نام دے دیتے ہیں،مگر یہ سچ ہے کہ یہاں مساج سینٹر اور اس طرح کی بہت سی اور عیش پرستیوں یا عورت فروشی کی آڑ میں یہاں کی عورت اپنی معاشرتی بقا ڈھونڈ رہی ہے۔چین کی ریاست کبھی بھی ان کاموں کی حوصلہ افزائی کرکے تھائی لینڈ، ہانگ کانگ، مکاؤ کی طرح اپنی ریاست پر سیاحوں کی عیاشی کے گڑھ کا ٹھپہ نہیں لگانا چاہتی، ریاستی بندش ایک طرف،مگر یہ سچ ہے کہ یہاں معاشرتی بقا نے عورت کو جگہ جگہ پر مکاؤ کھولنے کی اجازت دے رکھی ہے۔
یہاں ایک اور چیز جو پاکستانی معاشرے کو ان سے بہت بہتر شناخت دیتی ہے،وہ ان کا Non-human values کی پوجا کرنا ہے۔ہمارے ہاں شادی بیاہ، مرگ پر کیا ہوتا ہے،سب کو معلوم ہے۔ یہاں ایسا کچھ نہیں ہوتا، شادی خاموشی سے،وہ بھی اگر ضرورت محسوس ہوئی تھی، اور مرگ بس ایک بڑی سی ٹرے میں لاش رکھ کر،چند پیسے دے کر ،ایک بھٹی کی نذر۔ ہاں اگر آپ یہاں چینی مسلمان ہیں، تو انتہائی مہنگے داموں زمین خرید کر دفنانے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔
میں نے یہاں کسی ایک بھی جنرل اسٹور یا بڑے سے بڑے مارٹ پر، کوئی چندہ،فطرانہ کا ڈبہ نہیں دیکھا۔یہ لوگ خیرات کرتے ہی نہیں،کیونکہ ایتھیسٹ (بے دین)ہونے کی وجہ سے دوسرے جہاں میں جانے کا کوئی نظریہ یہاں پایا ہی نہیں جاتا، اور انسانی بنیادوں پر کسی کی مدد کے لیے انسانی اقدار کا ہونا ضروری ہے،وہ یہاں ہیں ہی نہیں۔یہاں بھی آپ کو کہیں کہیں سڑک پر لوگ تھوکتے اور سڑک کو بیت الخلاء کے طور پر استعمال کرتے نظر آہی جاتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ چین ہمارا دوست ملک ہے، مگر یہاں کے معاشرے کی بے حسی دیکھ کر یہ نہیں لگتا کہ ان کے حکمران ہماری خاطر کوئی بڑی قربانی دیں گے۔گو حکومتی سطح پر اغلاط کے ڈھیر نے بہت سے معاملات میں ہماری زندگی سے امن اور بنیادی ضروریات چھین کر اسے نرخ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، مگر پھر بھی دنیا کی سب سے بڑی اکانومی والے ملک کے باسیوں کے مقابلے میں ، ہماری زندگی قدرے سہل ہے۔
یہ بھی سچ ہے کہ ہماری معاشرتی اقدار،ہمارے دین اور ہمارے رہن سہن نے ہماری زندگی کو آج بھی ہمارے لیے ان سب حالات کے باوجود ،چین جیسے طاقتور ملکوں کے شہریوں کی زندگی سے بہت بہتر درجہ دے رکھا ہے۔ جو تبدیلیاں کرنے کی ضرورت ہے،وہ فقط ایک خواب لگتی ہیں،مگر اگر ان میں سے ہم نصف بھی کر پائے تو ہم اپنی نسلوں کو چین جیسے ملکوں کے مقابلے میں دنیا پر جنت کا تحفہ دینے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
ہم ایک ایسے معاشرے کے باسی ہیں،جہاں ہم بہت زیادہ حکومتی پابندیوں کا شکار نہیں ہیں۔ ہمارا انٹرنیٹ آزاد ہے،ہم سماجی روابط میں آزاد ہیں،نہ کوئی زبان کی قید ہے اور نہ ہی کوئی حکومتی مداخلت۔آپ فیس بک پے چاہیں،کسی گوری میم سے محبت کریں،اسے بیاہ کر یہاں لے آئیں،یا اس کے ذریعے یہاں سے رخصت ہوجائیں۔نام کو ملک میں طرح طرح کی ویب سائٹس بند ہیں،مگر آسان سے آسان پراکسی سائٹس اور وی پی این تبدیل کرکے ،پوری دنیا ہماری دسترس میں ہے۔
ایسا چین میں ناممکن ہے۔یہاں گوگل اور فیس بک کے ساتھ ساتھ ،ہمارے لیے تو سب ہی بند ہے۔پتہ نہیں اگر یہ چینی زبان میں سب کھول لیتے ہیں ، تو بھی تعلیم کیسے حاصل کرتے ہیں،سماجی رابطے کیسے رکھتے ہیں؟ایسے معاشرے میں ایک پاکستانی یا انڈین کا تو دم گھٹنے لگتا ہے۔ایسی ہی شکایت مجھے میرے یہاں کے عربی،لبنانی،امارات کے دوستوں نے بھی کی۔
دم گھٹنے کے لیے انٹرنیٹ کی بندش تو ایک چھوٹی سی سزا ہے۔آپ پاکستانی ہوکر ایک ایسے معاشرے میں کیسے رہ سکتے ہیں،جہاں آپ کو ایک اولاد کے علاوہ دوسرا بچہ پیدا کرنے کی اجازت نہ ہو،آپ کی بیگم یاگرل فرینڈ آپ سے دس گنا زیادہ کام کرتی ہو۔عمر کا لحاظ ختم ہو اور بس کام کام کرنا ہو۔مہنگائی اپنے عروج پر ہو۔آپ کو چوبیس گھنٹے بجلی،پیٹرول تو مل جائے ، مگر گھر کے سارے افراد اتنا کام کرنے کے باوجود بھی ،کئی کئی منزلہ عمارتوں کے تنگ اور بند ایک کمرے کے کٹیا نما اپارٹمنٹس میں رہنے پر مجبور ہوں، اور یہ طرزِ رہائش بھی،شاہانہ مانا جاتا ہو۔ہم لوگ تو خواتین کی تکریم میں اس قدر آگے نکل گئے ہیں کہ اپنے ملک و قوم کا اتنا پیسہ لگوا کر،ان کی آدھی عمر کتابوں میں غرق کرکے انھیں فقط اچھے رشتوں کی تلاش میں ڈاکٹر یا انجینئر بنا دیتے ہیں اور پھر پوری عمر انھیں امورِ خانہ داری کے علاوہ کوئی کام نہیں کرنے دیتے۔
چینی معاشرے میں اس طرح کا عمل کرنے کا سوچنا بھی موت ہے۔آپ کو تعلیم سے عاری خواتین کم ہی ملیں گی،مگر تعلیم ہو یا نہ ہو،عورت کا گھر بیٹھنا اور مرد کے ساتھ برابر کی یا اس سے زیادہ کی کمائی نہ کرنا،یہاں عورت کے لیے جرم ہے۔سچ تو یہ ہے کہ عورت اگر یہاں یہ سب نہ کرے تو وہ یہاں survive ہی نہیں کرپائے گی۔ہم تو نہ جانے ان کاموں کو معاشرے میں کیا کیا نام دے دیتے ہیں،مگر یہ سچ ہے کہ یہاں مساج سینٹر اور اس طرح کی بہت سی اور عیش پرستیوں یا عورت فروشی کی آڑ میں یہاں کی عورت اپنی معاشرتی بقا ڈھونڈ رہی ہے۔چین کی ریاست کبھی بھی ان کاموں کی حوصلہ افزائی کرکے تھائی لینڈ، ہانگ کانگ، مکاؤ کی طرح اپنی ریاست پر سیاحوں کی عیاشی کے گڑھ کا ٹھپہ نہیں لگانا چاہتی، ریاستی بندش ایک طرف،مگر یہ سچ ہے کہ یہاں معاشرتی بقا نے عورت کو جگہ جگہ پر مکاؤ کھولنے کی اجازت دے رکھی ہے۔
یہاں ایک اور چیز جو پاکستانی معاشرے کو ان سے بہت بہتر شناخت دیتی ہے،وہ ان کا Non-human values کی پوجا کرنا ہے۔ہمارے ہاں شادی بیاہ، مرگ پر کیا ہوتا ہے،سب کو معلوم ہے۔ یہاں ایسا کچھ نہیں ہوتا، شادی خاموشی سے،وہ بھی اگر ضرورت محسوس ہوئی تھی، اور مرگ بس ایک بڑی سی ٹرے میں لاش رکھ کر،چند پیسے دے کر ،ایک بھٹی کی نذر۔ ہاں اگر آپ یہاں چینی مسلمان ہیں، تو انتہائی مہنگے داموں زمین خرید کر دفنانے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔
میں نے یہاں کسی ایک بھی جنرل اسٹور یا بڑے سے بڑے مارٹ پر، کوئی چندہ،فطرانہ کا ڈبہ نہیں دیکھا۔یہ لوگ خیرات کرتے ہی نہیں،کیونکہ ایتھیسٹ (بے دین)ہونے کی وجہ سے دوسرے جہاں میں جانے کا کوئی نظریہ یہاں پایا ہی نہیں جاتا، اور انسانی بنیادوں پر کسی کی مدد کے لیے انسانی اقدار کا ہونا ضروری ہے،وہ یہاں ہیں ہی نہیں۔یہاں بھی آپ کو کہیں کہیں سڑک پر لوگ تھوکتے اور سڑک کو بیت الخلاء کے طور پر استعمال کرتے نظر آہی جاتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ چین ہمارا دوست ملک ہے، مگر یہاں کے معاشرے کی بے حسی دیکھ کر یہ نہیں لگتا کہ ان کے حکمران ہماری خاطر کوئی بڑی قربانی دیں گے۔گو حکومتی سطح پر اغلاط کے ڈھیر نے بہت سے معاملات میں ہماری زندگی سے امن اور بنیادی ضروریات چھین کر اسے نرخ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، مگر پھر بھی دنیا کی سب سے بڑی اکانومی والے ملک کے باسیوں کے مقابلے میں ، ہماری زندگی قدرے سہل ہے۔
یہ بھی سچ ہے کہ ہماری معاشرتی اقدار،ہمارے دین اور ہمارے رہن سہن نے ہماری زندگی کو آج بھی ہمارے لیے ان سب حالات کے باوجود ،چین جیسے طاقتور ملکوں کے شہریوں کی زندگی سے بہت بہتر درجہ دے رکھا ہے۔ جو تبدیلیاں کرنے کی ضرورت ہے،وہ فقط ایک خواب لگتی ہیں،مگر اگر ان میں سے ہم نصف بھی کر پائے تو ہم اپنی نسلوں کو چین جیسے ملکوں کے مقابلے میں دنیا پر جنت کا تحفہ دینے میں کامیاب ہوجائیں گے۔