مرگ انبوہ ہولوکاسٹ پہلاحصہ
مغرب،جس میں خاص طور پر یورپ ، امریکا، برطانیہ، فرانس وغیرہ میں اظہار رائے کے نام پر مذاہب کو ہی نشانہ نہیں بنایا جاتا۔
فرانس میں دشنامی جریدے کی جانب سے گستاخانہ خاکوں کی بار بار اشاعت و مغرب کی جانب سے اسے اظہار رائے کی آزادی سے تشبیہ دینے کی روش نے مسلم امہ میں ایک بے چینی سی کیفیت پیدا کردی اور مختلف ممالک میں حسب استطاعت عوامی مظاہرے کیے گئے لیکن بدقسمتی سے کسی بھی مسلم ملک نے ایسا کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا جس بنا پر فرانس یا مغرب اس بات کے لیے مجبور ہوجائے۔
آزادی اظہار رائے کا مطلب کسی بھی مذہب پر بحث بھی ہوسکتا ہے اس پر اپنے تحفظات یا دلائل سے سمجھنے یا سمجھانے کی بات تو ہو سکتی ہے لیکن کسی بھی مذہب کے پیروکاروں کی مقدس ہستیوں کی تضیحک و توہین،آزادی اظہار رائے کے بجائے ایک ایسی نفسیاتی کیفیت کا اظہار ہے جس میں دشنامی اپنی تمام تر قوت کے باوجود مکمل بے بس ہوجائے اورمایوسی کے عالم میں ایسی حرکتیں کرے جو ابلیست کہلائے، ابلیس نے جب آدم کو سجدہ نہیں کیا تھا تو اس نے خوئے مایوسی میں خداوند کریم کے سامنے یہی چیلنج رکھا تھا کہ میں تیرے بندوں کو بھٹکاؤں گا ۔ عالم مایوسی میں کی جانے والی منفی روش کا دوسرا نام' ابلسیت' ہے ۔
جس کا مظاہرہ مغرب میں' اسلام فوبیا' سے خوفزدہ ہو کر بار بار کیا جاتا رہتا ہے۔انسان اپنی جذباتیت و والہانہ وابستگی میں ردعمل میں ایسے امور سر انجام دے دیتا ہے جس کا پھر کسی اخلاقیات سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔اس عمل کو کوئی سازش کہیں یا پھر کاروباری نقطہ نظر سے سستی شہرت حاصل کرنے کی غلیظ حرکت ، کوئی بھی باشعور اس عمل کو جائز نہیں قرار دے گا۔
مغرب،جس میں خاص طور پر یورپ ، امریکا، برطانیہ، فرانس وغیرہ میں اظہار رائے کے نام پر مذاہب کو ہی نشانہ نہیں بنایا جاتا بلکہ کسی بھی شہرت یافتہ فرد کی ذاتی زندگیوں کو بھی خبر کا حصہ بنا کر اپنے ابلیسی اطوارکوکوئی نہ کوئی نام دیا جاتا ہے۔ جس وقت دشنامی جریدے نے ناپاک جسارت کا مظاہرہ کیا تو پہلے پہل اندازہ تھا کہ شاید مسلم حکومتیں اپنی تمام تر کمزوری تفرقے کے باوجود اس اہم ایشو پر متفق نظر آئیں گی لیکن ایسا نہیں ہوسکا، تیل کی دولت سے مالا مال عرب ممالک اپنی عیش پرستانہ روش میں اس قدرگم ہیں کہ انھیں اپنے محلات سے باہرکی دنیا دکھائی ہی نہیں دیتی۔
یقینی طور پر قارئین نے مشہور زمانہ ہولوکاسٹ کے بارے میں سنا اور پڑھا ہوگا لیکن دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ بیشتر کالم نویس، تجزیہ نگاروں یا اینکر پرسنز نے اس موضوع کو ابھارنے کی سنجیدگی سے کوشش نہیں کی ۔ ایسا لگا جیسے یورپ کی طرح مسلم ممالک بشمول پاکستان میں بھی ہولوکاسٹ پر گفتگو کرنے پر پابندی ہے۔مرگ انبوہ جسے انگریزی میں Holocaustکہا جاتا ہے دراصل دوسری جنگ عظیم کے دوران قتل عام کا شکار ہونے والے تقریباً یہودیوں کے چانسلر ہٹلر کی نازی افواج کے ہاتھوں مبینہ ہلاکتوں سے منسوب ہے، اسے یہودیوں کی نسل کشی بھی کہا جاتا ہے۔
ہالو کاسٹ دراصل یونانی لفظ holokaustonسے بنا ہے جس کے معنی '' مکمل جلادینا'' ہیں یا راہ خدا میں جان قربان کردینا ۔ اسی لفظ کی لاطینی شکل holokauston کو پہلی دفعہ یہودیوں کے قتلِ عام سے بارہویں صدی کے وقائع نگاروں روجر آف ہاؤڈن اور رچرڈ آف ڈیوس نے۰1190ء میں منسوب کیا ، انسیویں صدی کے اوائل تک یہ لفظ ناگہانی آفتوں اور مصیبتوں کے لیے مستعمل رہا ۔ بائیبل میں استعمال ہونے والا لفظ ' سوہ' انگریزی میں Sho'ahاور shoجس کے معنی آفت کے ہیں1940 کے اوائل میں عبرانی میں ہولوکاسٹ کا متبادل مستند لفظ بن گیا ۔
' سوہ 'کو یہودی بھی کئی وجوہات کی بناء پر زیادہ موزوں سمجھتے ہیں،جن سے ایک لفظ ہولوکاسٹ کی دل آزار ہییت بھی ہے۔اٹھارویں صدی تک لفظ ہولوکاسٹ ایسے واقعات کے لیے استعمال کیا جاتا تھا،جس میں پُرتشدد طریقوں سے بڑے پیمانے پرانسانی جانوںکا زیاں ہوا ہو۔مثال کے طور پر ونسٹن چرچل اور اُن کے ہم عصر ادیب وکالم نگار دوسرے جنگِ عظیم سے قبل یہ لفظ آرمینیوں کے قتل عام اور پہلی جنگ عظیم کے لیے استعمال کرتے تھے۔1950 سے اس لفظ کے استعمال سے اجتناب کا رجحان بڑھا ہے اور اب یہ لفظ مرگِ انبوہ یا ہولوکاسٹ کے نام سے' نازی مظالم 'کی یاد کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
جس کو انگریزی میں بڑے Hسے لکھا جاتا ہے ۔ مرگِ انبوہ دراصل ہولو کاسٹ کا اردو ترجمہ ہے لیکن ہولوکاسٹ بھی عبرانی لفظ' سوہ 'کا ترجمہ ہے، جس میں معنی'' ناگہانی آفت، مصیبت، وبا یا تباہی '' کے ہیں۔ 1940میں یروشلم میں چھپنے والے ایک کتابچے میں اس لفظ کا استعمال ہوا جس کا عنوان تھا'' پولینڈ کے یہودیوں کا قتل عام۔'' اس سے قبل سوہ یا سوہا کا استعمال نازیوں کو مصیبت یا آفت سے مشابہت دینے سے کیا جاتا تھا مثلاََ 1934ء میں چیم عزرائل نے صہیونی کمیٹی کو کہا تھا کہ ''ہٹلر کا اقتدار میں آنا unvorhergesehene Katastropha, etwa ein neur Weltkrieg ترجمہ: ایک ناگہانی مصیبت یا ایک نئی جنگ ِ عظیم'' عبرانی صحافتی اداروں نے لفظ "Katastropha"کا متبادل ترجمہ ' سوہا ' کے طور پر کیا تھا۔
1942 کے وسط میں یروشلم کیمورخ بینزون دیئیر (دینابرگ) نے متحدہ امدادی کمیٹی برائے یہوداںِ پولینڈ کے ذریعے ایک کتاب چھپوائی اس میں لفظ'سوہا' کا استعمال یورپ میں یہودیوں کو مٹانے کی کوششوں کی وضاحت میں کیا اور اس کو یہودیوں کے لیے ایک ناگہانی مصیبت اور ایک نئی صورتحال قرار دیا ، جس سے یہودی کبھی نبردآزما نہیں ہوئے تھے۔اس اصطلاح کی منظوری 12؍اپریل1951 کو اسرائیلی قانون سازی کے ادارے نے دی جس کو ''الکنیست'' بھی کہا جاتا ہے اور اس کو قومی یادگار دن کے طور پر منانے کی بھی منظوری دی گئی۔
1950ء تک مرگِ انبوہ ''یادویشم'' کے نام سے مشہور ہو گیا۔ ایک عرصے تک جرمن مورخین اس کے لیے "Volkermord"یعنی قتل عام یا اس کا مکمل جمہ "der Volkermord an den Juden"یعنی یہودیوں لوگوں کا قتلِ عام کی اصطلاح استعمال کیا کرتے تھے جب کہ آج کل جرمنی میں بھی اس کی عام اصطلاح ''مرگ ِانبوہ''یا ''سوہ'' ہے جب کہ اس قبل لفظ مرگِ انبوہ (ہولوکاسٹ) کا استعمال محض یہودیوں کے لیے نہیں کیا جاتا تھا۔
یہودیوں کی جانب سے یہ دعوی کیاجاتا ہے کہ لاکھوں یہودیوں مرد،عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کے علاوہ اشتراکیت پسندوں،پولینڈ کے مشترکہ قومیت کے حامل باشندے ، غلاموں ، معذوروں،ہم جنس پرستوں، سیاسی اورمذہبی اقلیتوں کو انتہائی بے دردی سے موت کے گھاٹ اتارا گیا۔تاہم بیشتر ماہرین دیگر قومیتی ومذہبی افراد کے قتلِ عام کو مرگ ِ انبوہ( ہولوکاسٹ) کا حصہ ماننا سے صریحاً انکار کرتے ہیں اور اسے صرف یہودیوں کے قتل عام تک محدود رکھتے ہیں۔جسے نازیوں نے ''یہودیوں کے سوال کا حتمی حل'' قرار دیا تھا۔اس وقت نازیوں کی فوج کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں کی تعداد تقریباََ نوے سے گیارہ ملین تک بتائی جاتی ہے۔
نازیوں کی جانب سے یہودیوں و دیگر کی ہلاکتوں کے حوالے سے یہ باورکرایا جاتا ہے کہ ان سے غلاموں کی طرح کام لیا جاتا تھا اور اس وقت تک ان سے کام لیا جاتا جب تک وہ تھکن یا بیماری کے ہاتھوں شکار ہوکر موت کی وادی میں اتر نہ جاتے ، یہاں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ جب نازی فتوحات کا سلسلہ مشرقی یورپ میں پہنچا تو اینساٹزگروپین ( جرمنی کی خصوصی ٹاسک فورس) کو یہ ہدف دیا گیا کہ یہودیوں اورسیاسی حریفوں کو ڈھونڈ کر بے دریغ قتل کردیا جائے ۔
ان قصائص میں بتایا گیا کہ یہودیوں اور رومانیوں کو سیکڑوں میل دور بنائے گئے،مقتل گاہوں پر جانوروں کی طرح ریل گاڑیوں میں ٹھونس کرگھیتو منتقل کردیا ، جہاں زندہ پہنچ جانے والوں کو گیس چیمبر کے زریعے موت کے گھاٹ اُتار دیا جاتا،جرمنی کے تمام شاہی افسروں کو اس نسل کشی کا ذمے دار قرار دیا جاتا ہے کہ انھوں نے اس ملک کو ''نسل کشی کے اڈے'' میں تبدیل کر دیا۔
(جاری ہے)
آزادی اظہار رائے کا مطلب کسی بھی مذہب پر بحث بھی ہوسکتا ہے اس پر اپنے تحفظات یا دلائل سے سمجھنے یا سمجھانے کی بات تو ہو سکتی ہے لیکن کسی بھی مذہب کے پیروکاروں کی مقدس ہستیوں کی تضیحک و توہین،آزادی اظہار رائے کے بجائے ایک ایسی نفسیاتی کیفیت کا اظہار ہے جس میں دشنامی اپنی تمام تر قوت کے باوجود مکمل بے بس ہوجائے اورمایوسی کے عالم میں ایسی حرکتیں کرے جو ابلیست کہلائے، ابلیس نے جب آدم کو سجدہ نہیں کیا تھا تو اس نے خوئے مایوسی میں خداوند کریم کے سامنے یہی چیلنج رکھا تھا کہ میں تیرے بندوں کو بھٹکاؤں گا ۔ عالم مایوسی میں کی جانے والی منفی روش کا دوسرا نام' ابلسیت' ہے ۔
جس کا مظاہرہ مغرب میں' اسلام فوبیا' سے خوفزدہ ہو کر بار بار کیا جاتا رہتا ہے۔انسان اپنی جذباتیت و والہانہ وابستگی میں ردعمل میں ایسے امور سر انجام دے دیتا ہے جس کا پھر کسی اخلاقیات سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔اس عمل کو کوئی سازش کہیں یا پھر کاروباری نقطہ نظر سے سستی شہرت حاصل کرنے کی غلیظ حرکت ، کوئی بھی باشعور اس عمل کو جائز نہیں قرار دے گا۔
مغرب،جس میں خاص طور پر یورپ ، امریکا، برطانیہ، فرانس وغیرہ میں اظہار رائے کے نام پر مذاہب کو ہی نشانہ نہیں بنایا جاتا بلکہ کسی بھی شہرت یافتہ فرد کی ذاتی زندگیوں کو بھی خبر کا حصہ بنا کر اپنے ابلیسی اطوارکوکوئی نہ کوئی نام دیا جاتا ہے۔ جس وقت دشنامی جریدے نے ناپاک جسارت کا مظاہرہ کیا تو پہلے پہل اندازہ تھا کہ شاید مسلم حکومتیں اپنی تمام تر کمزوری تفرقے کے باوجود اس اہم ایشو پر متفق نظر آئیں گی لیکن ایسا نہیں ہوسکا، تیل کی دولت سے مالا مال عرب ممالک اپنی عیش پرستانہ روش میں اس قدرگم ہیں کہ انھیں اپنے محلات سے باہرکی دنیا دکھائی ہی نہیں دیتی۔
یقینی طور پر قارئین نے مشہور زمانہ ہولوکاسٹ کے بارے میں سنا اور پڑھا ہوگا لیکن دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ بیشتر کالم نویس، تجزیہ نگاروں یا اینکر پرسنز نے اس موضوع کو ابھارنے کی سنجیدگی سے کوشش نہیں کی ۔ ایسا لگا جیسے یورپ کی طرح مسلم ممالک بشمول پاکستان میں بھی ہولوکاسٹ پر گفتگو کرنے پر پابندی ہے۔مرگ انبوہ جسے انگریزی میں Holocaustکہا جاتا ہے دراصل دوسری جنگ عظیم کے دوران قتل عام کا شکار ہونے والے تقریباً یہودیوں کے چانسلر ہٹلر کی نازی افواج کے ہاتھوں مبینہ ہلاکتوں سے منسوب ہے، اسے یہودیوں کی نسل کشی بھی کہا جاتا ہے۔
ہالو کاسٹ دراصل یونانی لفظ holokaustonسے بنا ہے جس کے معنی '' مکمل جلادینا'' ہیں یا راہ خدا میں جان قربان کردینا ۔ اسی لفظ کی لاطینی شکل holokauston کو پہلی دفعہ یہودیوں کے قتلِ عام سے بارہویں صدی کے وقائع نگاروں روجر آف ہاؤڈن اور رچرڈ آف ڈیوس نے۰1190ء میں منسوب کیا ، انسیویں صدی کے اوائل تک یہ لفظ ناگہانی آفتوں اور مصیبتوں کے لیے مستعمل رہا ۔ بائیبل میں استعمال ہونے والا لفظ ' سوہ' انگریزی میں Sho'ahاور shoجس کے معنی آفت کے ہیں1940 کے اوائل میں عبرانی میں ہولوکاسٹ کا متبادل مستند لفظ بن گیا ۔
' سوہ 'کو یہودی بھی کئی وجوہات کی بناء پر زیادہ موزوں سمجھتے ہیں،جن سے ایک لفظ ہولوکاسٹ کی دل آزار ہییت بھی ہے۔اٹھارویں صدی تک لفظ ہولوکاسٹ ایسے واقعات کے لیے استعمال کیا جاتا تھا،جس میں پُرتشدد طریقوں سے بڑے پیمانے پرانسانی جانوںکا زیاں ہوا ہو۔مثال کے طور پر ونسٹن چرچل اور اُن کے ہم عصر ادیب وکالم نگار دوسرے جنگِ عظیم سے قبل یہ لفظ آرمینیوں کے قتل عام اور پہلی جنگ عظیم کے لیے استعمال کرتے تھے۔1950 سے اس لفظ کے استعمال سے اجتناب کا رجحان بڑھا ہے اور اب یہ لفظ مرگِ انبوہ یا ہولوکاسٹ کے نام سے' نازی مظالم 'کی یاد کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
جس کو انگریزی میں بڑے Hسے لکھا جاتا ہے ۔ مرگِ انبوہ دراصل ہولو کاسٹ کا اردو ترجمہ ہے لیکن ہولوکاسٹ بھی عبرانی لفظ' سوہ 'کا ترجمہ ہے، جس میں معنی'' ناگہانی آفت، مصیبت، وبا یا تباہی '' کے ہیں۔ 1940میں یروشلم میں چھپنے والے ایک کتابچے میں اس لفظ کا استعمال ہوا جس کا عنوان تھا'' پولینڈ کے یہودیوں کا قتل عام۔'' اس سے قبل سوہ یا سوہا کا استعمال نازیوں کو مصیبت یا آفت سے مشابہت دینے سے کیا جاتا تھا مثلاََ 1934ء میں چیم عزرائل نے صہیونی کمیٹی کو کہا تھا کہ ''ہٹلر کا اقتدار میں آنا unvorhergesehene Katastropha, etwa ein neur Weltkrieg ترجمہ: ایک ناگہانی مصیبت یا ایک نئی جنگ ِ عظیم'' عبرانی صحافتی اداروں نے لفظ "Katastropha"کا متبادل ترجمہ ' سوہا ' کے طور پر کیا تھا۔
1942 کے وسط میں یروشلم کیمورخ بینزون دیئیر (دینابرگ) نے متحدہ امدادی کمیٹی برائے یہوداںِ پولینڈ کے ذریعے ایک کتاب چھپوائی اس میں لفظ'سوہا' کا استعمال یورپ میں یہودیوں کو مٹانے کی کوششوں کی وضاحت میں کیا اور اس کو یہودیوں کے لیے ایک ناگہانی مصیبت اور ایک نئی صورتحال قرار دیا ، جس سے یہودی کبھی نبردآزما نہیں ہوئے تھے۔اس اصطلاح کی منظوری 12؍اپریل1951 کو اسرائیلی قانون سازی کے ادارے نے دی جس کو ''الکنیست'' بھی کہا جاتا ہے اور اس کو قومی یادگار دن کے طور پر منانے کی بھی منظوری دی گئی۔
1950ء تک مرگِ انبوہ ''یادویشم'' کے نام سے مشہور ہو گیا۔ ایک عرصے تک جرمن مورخین اس کے لیے "Volkermord"یعنی قتل عام یا اس کا مکمل جمہ "der Volkermord an den Juden"یعنی یہودیوں لوگوں کا قتلِ عام کی اصطلاح استعمال کیا کرتے تھے جب کہ آج کل جرمنی میں بھی اس کی عام اصطلاح ''مرگ ِانبوہ''یا ''سوہ'' ہے جب کہ اس قبل لفظ مرگِ انبوہ (ہولوکاسٹ) کا استعمال محض یہودیوں کے لیے نہیں کیا جاتا تھا۔
یہودیوں کی جانب سے یہ دعوی کیاجاتا ہے کہ لاکھوں یہودیوں مرد،عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کے علاوہ اشتراکیت پسندوں،پولینڈ کے مشترکہ قومیت کے حامل باشندے ، غلاموں ، معذوروں،ہم جنس پرستوں، سیاسی اورمذہبی اقلیتوں کو انتہائی بے دردی سے موت کے گھاٹ اتارا گیا۔تاہم بیشتر ماہرین دیگر قومیتی ومذہبی افراد کے قتلِ عام کو مرگ ِ انبوہ( ہولوکاسٹ) کا حصہ ماننا سے صریحاً انکار کرتے ہیں اور اسے صرف یہودیوں کے قتل عام تک محدود رکھتے ہیں۔جسے نازیوں نے ''یہودیوں کے سوال کا حتمی حل'' قرار دیا تھا۔اس وقت نازیوں کی فوج کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں کی تعداد تقریباََ نوے سے گیارہ ملین تک بتائی جاتی ہے۔
نازیوں کی جانب سے یہودیوں و دیگر کی ہلاکتوں کے حوالے سے یہ باورکرایا جاتا ہے کہ ان سے غلاموں کی طرح کام لیا جاتا تھا اور اس وقت تک ان سے کام لیا جاتا جب تک وہ تھکن یا بیماری کے ہاتھوں شکار ہوکر موت کی وادی میں اتر نہ جاتے ، یہاں یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ جب نازی فتوحات کا سلسلہ مشرقی یورپ میں پہنچا تو اینساٹزگروپین ( جرمنی کی خصوصی ٹاسک فورس) کو یہ ہدف دیا گیا کہ یہودیوں اورسیاسی حریفوں کو ڈھونڈ کر بے دریغ قتل کردیا جائے ۔
ان قصائص میں بتایا گیا کہ یہودیوں اور رومانیوں کو سیکڑوں میل دور بنائے گئے،مقتل گاہوں پر جانوروں کی طرح ریل گاڑیوں میں ٹھونس کرگھیتو منتقل کردیا ، جہاں زندہ پہنچ جانے والوں کو گیس چیمبر کے زریعے موت کے گھاٹ اُتار دیا جاتا،جرمنی کے تمام شاہی افسروں کو اس نسل کشی کا ذمے دار قرار دیا جاتا ہے کہ انھوں نے اس ملک کو ''نسل کشی کے اڈے'' میں تبدیل کر دیا۔
(جاری ہے)