بیوٹی پارلرز ہزاروں خواتین اور لڑکیوں کے روزگار کا ذریعہ بن گئے
بیوٹی پارلرز اور سیلونز میں کام کرنے والی زیادہ تر خواتین کا تعلق متوسط علاقوں سے ہوتا ہے
ملک میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود لڑکیاں حصول روزگار کیلیے پریشان ہیں، لڑکیاں اور خواتین باعزت روزگار کیلیے بیوٹیشن کے شعبے سے منسلک ہورہی ہیں، شہر میں بیوٹی پارلرز کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔
خواتین کا بناؤ سنگھار کرنے والی بیوٹیشن کم اجرت کے باعث زبوں حالی کا شکار ہیں، بیوٹی پارلرز میں ماہوار6 تا 15ہزار روپے پر خدمات انجام دینے والی بیوٹیشن گاہکوں کی جانب سے کام کی ناپسندیدگی پر تذلیل کا بھی شکار ہوتی ہیں، ایکسپریس نے بیوٹی پارلرز پر سروے کیا، بیوٹی پارلرز میں بیوٹیشن بناؤ سنگھار کے ذریعے دوسری خواتین کو خوبصورت بناتی ہیں لیکن ان کی اپنی زندگی بے رونق اور مشکل ہوتی ہیں، غریب اور متوسط گھرانوں کی خواتین گھرکی کفالت کرنے کیلیے ملازمت کرتی ہیں ایسی لڑکیوں اور خواتین کی اکثریت کم تعلیم یافتہ ہوتی ہے جو میٹرک یا انٹر کے بعد مختلف چھوٹے پارلرز سے بیوٹی پارلر کے کورسز کرکے پوش علاقوں طارق روڈ ،بہادرآباد،ڈیفنس،زمزمہ،حیدری اور گلشن اقبال میں قائم بیوٹی پارلرز اور سیلون میں ملازمت کرتی ہیں بیوٹی پارلر کے مالکان کام کے عوض ان خواتین کو 6 تا 15ہزار روپے تک ماہانہ معاوضہ دیتے ہیں بیوٹی پارلر میں ایک فیشل کی فیس 1500 روپے وصول کی جاتی ہے اور ایک لڑکی دن میں کم و بیش 5 فیشل کرتی ہیں بیشتر لڑکیوں اور خواتین کو ملازمت کی مجبوری کی خاطر پیڈی کیور، فیشل اور ویکسنگ جیسے کام بھی کرنے پڑتے ہیں ۔
خواتین بیوٹیشن کو امیر خواتین کی جانب سے کام کی ناپسندیدگی کی صورت میں غصے اور برہمی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے بعض دفعہ خواتین کو بالوں کے اسٹائل،میک اپ اور آئی برو پسند نہیں آتے اور کچھ حساس جلد کی خواتین کے چہرے پر فیشل کے بعد الرجی ہوجاتی ہے جس سے جلد سرخ اور جلنی شروع ہوجاتی ہیں جس پر گاہک خواتین کی شکایت پر بیوٹی پارلر مالکان بیوٹیشن کو جلی کٹی سنانے لگتے ہیں، بیوٹیشن اور عملے کو کم معاوضہ دینے کے ضمن میں سیلون مالکان کا کہنا ہے کہ پوش علاقوں میں پارلرزکا کرایہ زیادہ ہوتا ہے بیوٹیشن اور عملے کی کثیر تعداد کو تنخواہ دینی ہوتی ہے پارلر میںاعلیٰ اور معیاری کاسمیٹکس، آلات اور مشینیں استعمال ہوتی ہیں جس پر بھاری لاگت آتی ہے بیوٹی پارلرز اور سیلون میں کام کرنے والی خواتین غربت کے باعث مالی پریشانی کا شکار رہتی ہیں بیوہ اور طلاق یافتہ خواتین بھی بیوٹیشن بن کر اپنے بچوں کی کفالت کررہی ہیں۔
20 سالہ نازیہ نے بتایا کہ اس کے والد کا بچپن میں انتقال ہوگیا تھا، ضعیف ماں کا ساتھ ہے۔اس کا بڑا بھائی گونگا بہرا ہے، لیکن فرنیچر کی دکان پر مزدوری کرتا ہے، اس کی چچی نے غیرمذہب میں رشتہ تلاش کیا جس پر گھر والوں نے بھروسہ کرکے بنا جانچ پڑتال لڑکی کی شادی کرادی، شادی کے بعد نازیہ کو معلوم ہوا کہ گھر والے غیر مذہب اورکالا علم کرتے ہیں، ایک ماہ کے بعد لڑکی گھر چھوڑ کر میکے آگئی اورشوہرسے طلاق لے لی، ڈپریشن سے نجات کے لیے لڑکی کی والدہ نے بیٹی کو بیوٹی پارلر کا کورس کرایا،جس کے بعد وہ بیوٹی پارلر میں ملازمت کررہی ہیں، نازیہ نے بتایا کہ مالی وسائل اپنا ذاتی پارلر کھولنے کی اجازت نہیں دیتے، 30سالہ نجمہ 8 سال سے پارلر میں ملازمت کررہی ہیں جس کے دو بیٹے ہیں اس کے گھریلو حالات بچوں کو اعلیٰ معیار کے اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں دیتے، شوہر کی ماہانہ آمدنی کم ہے، اس وجہ سے پارلر میں کام کرکے تمام تنخواہ اپنے بچوں کی بہتر تعلیم کے حصول میں صرف کررہی ہیں۔
شہر کے بیوٹی پارلرز اور سیلونز میں کام کرنے والی زیادہ تر خواتین کا تعلق متوسط علاقوں سے ہوتا ہے، خواتین کو ٹرانسپورٹ کے مسائل کا سامنا رہتا ہے، بیشتر خواتین شہر میں بسوں کی قلت کے باعث چنگچی رکشوں میں سفر کرتی ہیں بعض اوقات رکشوں کے بھاری کرائے کی ادائیگی کے بعد کام پر پہنچتی ہیں،خواتین کا کہنا ہے کہ حکومت سندھ اگر خواتین کو روزگار کی سہولت نہیں دے سکتی تو کم سے کم بہتر ٹرانسپورٹ کی سہولت ہی فراہم کردے تاکہ خواتین آسانی سے اپنے کام پر آجاسکیں، ملازمت پیشہ خواتین کے لیے خواتین بس سروس یا میٹرو بس سروس کی طرح سہولت فراہم کی جائے جس سے خواتین کو سفری سہولت حاصل ہوسکے۔
خواتین کا بناؤ سنگھار کرنے والی بیوٹیشن کم اجرت کے باعث زبوں حالی کا شکار ہیں، بیوٹی پارلرز میں ماہوار6 تا 15ہزار روپے پر خدمات انجام دینے والی بیوٹیشن گاہکوں کی جانب سے کام کی ناپسندیدگی پر تذلیل کا بھی شکار ہوتی ہیں، ایکسپریس نے بیوٹی پارلرز پر سروے کیا، بیوٹی پارلرز میں بیوٹیشن بناؤ سنگھار کے ذریعے دوسری خواتین کو خوبصورت بناتی ہیں لیکن ان کی اپنی زندگی بے رونق اور مشکل ہوتی ہیں، غریب اور متوسط گھرانوں کی خواتین گھرکی کفالت کرنے کیلیے ملازمت کرتی ہیں ایسی لڑکیوں اور خواتین کی اکثریت کم تعلیم یافتہ ہوتی ہے جو میٹرک یا انٹر کے بعد مختلف چھوٹے پارلرز سے بیوٹی پارلر کے کورسز کرکے پوش علاقوں طارق روڈ ،بہادرآباد،ڈیفنس،زمزمہ،حیدری اور گلشن اقبال میں قائم بیوٹی پارلرز اور سیلون میں ملازمت کرتی ہیں بیوٹی پارلر کے مالکان کام کے عوض ان خواتین کو 6 تا 15ہزار روپے تک ماہانہ معاوضہ دیتے ہیں بیوٹی پارلر میں ایک فیشل کی فیس 1500 روپے وصول کی جاتی ہے اور ایک لڑکی دن میں کم و بیش 5 فیشل کرتی ہیں بیشتر لڑکیوں اور خواتین کو ملازمت کی مجبوری کی خاطر پیڈی کیور، فیشل اور ویکسنگ جیسے کام بھی کرنے پڑتے ہیں ۔
خواتین بیوٹیشن کو امیر خواتین کی جانب سے کام کی ناپسندیدگی کی صورت میں غصے اور برہمی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے بعض دفعہ خواتین کو بالوں کے اسٹائل،میک اپ اور آئی برو پسند نہیں آتے اور کچھ حساس جلد کی خواتین کے چہرے پر فیشل کے بعد الرجی ہوجاتی ہے جس سے جلد سرخ اور جلنی شروع ہوجاتی ہیں جس پر گاہک خواتین کی شکایت پر بیوٹی پارلر مالکان بیوٹیشن کو جلی کٹی سنانے لگتے ہیں، بیوٹیشن اور عملے کو کم معاوضہ دینے کے ضمن میں سیلون مالکان کا کہنا ہے کہ پوش علاقوں میں پارلرزکا کرایہ زیادہ ہوتا ہے بیوٹیشن اور عملے کی کثیر تعداد کو تنخواہ دینی ہوتی ہے پارلر میںاعلیٰ اور معیاری کاسمیٹکس، آلات اور مشینیں استعمال ہوتی ہیں جس پر بھاری لاگت آتی ہے بیوٹی پارلرز اور سیلون میں کام کرنے والی خواتین غربت کے باعث مالی پریشانی کا شکار رہتی ہیں بیوہ اور طلاق یافتہ خواتین بھی بیوٹیشن بن کر اپنے بچوں کی کفالت کررہی ہیں۔
20 سالہ نازیہ نے بتایا کہ اس کے والد کا بچپن میں انتقال ہوگیا تھا، ضعیف ماں کا ساتھ ہے۔اس کا بڑا بھائی گونگا بہرا ہے، لیکن فرنیچر کی دکان پر مزدوری کرتا ہے، اس کی چچی نے غیرمذہب میں رشتہ تلاش کیا جس پر گھر والوں نے بھروسہ کرکے بنا جانچ پڑتال لڑکی کی شادی کرادی، شادی کے بعد نازیہ کو معلوم ہوا کہ گھر والے غیر مذہب اورکالا علم کرتے ہیں، ایک ماہ کے بعد لڑکی گھر چھوڑ کر میکے آگئی اورشوہرسے طلاق لے لی، ڈپریشن سے نجات کے لیے لڑکی کی والدہ نے بیٹی کو بیوٹی پارلر کا کورس کرایا،جس کے بعد وہ بیوٹی پارلر میں ملازمت کررہی ہیں، نازیہ نے بتایا کہ مالی وسائل اپنا ذاتی پارلر کھولنے کی اجازت نہیں دیتے، 30سالہ نجمہ 8 سال سے پارلر میں ملازمت کررہی ہیں جس کے دو بیٹے ہیں اس کے گھریلو حالات بچوں کو اعلیٰ معیار کے اسکول میں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں دیتے، شوہر کی ماہانہ آمدنی کم ہے، اس وجہ سے پارلر میں کام کرکے تمام تنخواہ اپنے بچوں کی بہتر تعلیم کے حصول میں صرف کررہی ہیں۔
شہر کے بیوٹی پارلرز اور سیلونز میں کام کرنے والی زیادہ تر خواتین کا تعلق متوسط علاقوں سے ہوتا ہے، خواتین کو ٹرانسپورٹ کے مسائل کا سامنا رہتا ہے، بیشتر خواتین شہر میں بسوں کی قلت کے باعث چنگچی رکشوں میں سفر کرتی ہیں بعض اوقات رکشوں کے بھاری کرائے کی ادائیگی کے بعد کام پر پہنچتی ہیں،خواتین کا کہنا ہے کہ حکومت سندھ اگر خواتین کو روزگار کی سہولت نہیں دے سکتی تو کم سے کم بہتر ٹرانسپورٹ کی سہولت ہی فراہم کردے تاکہ خواتین آسانی سے اپنے کام پر آجاسکیں، ملازمت پیشہ خواتین کے لیے خواتین بس سروس یا میٹرو بس سروس کی طرح سہولت فراہم کی جائے جس سے خواتین کو سفری سہولت حاصل ہوسکے۔