گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے
باقی سب شاعروں کے لیے تو ایسا اہتمام کیا نہیں جا سکتا۔ جو شاعر جس حد تک مقبول ہے اس حد تک خطرے میں ہے۔
ایاز امیر صاحب کا کالم جب سے اردو میں نمودار ہونا شروع ہوا ہے ہم ان کی انگریزی سے بے نیاز ہو گئے ہیں۔ یہ جو ان کے کالم میں شعر اور مصرعے بلا تکلف نمودار ہوتے چلے جاتے ہیں انگریزی میں ان کا وہ بندوبست کیسے کرتے ہیں۔ خیر اس وقت جو کالم ہمارے پیش نظر ہے اس میں سودا کا ایک مصرعہ نقل کرتے ہوئے ان سے ایک ننھی سی چوک ہو گئی مگر شاعری ایسی نامراد صنف ہے کہ ننھی سی چوک بھی اسے سخت ناگوار گزرتی ہے۔ تو سودا کا مصرعہ انھوں نے یوں نقل کیا ہے ع
کیا جانئے تو نے اسے کس حال میں دیکھا
لیجیے سودا کا پورا شعر ہی سن لیجیے تب اندازہ ہو گا کہ اس ننھی سی چوک سے شعر کی کیفیت میں کتنا فرق پڑ گیا؎
سودا جو ترا حال ہے ایسا تو نہیں وہ
کیا جانئے تو نے اسے کس آن میں دیکھا
ان کا مفہوم کس طرح سمجھایا جائے۔ اس کا کوئی بدل ہو تو سمجھایا جائے۔ کہہ لیجیے کہ معشوقانہ ادا یا چھب۔ میر حسن کی مثنوی سے ماخوذ ایک شعر سنئے؎
زمرد کا مونڈھا چمن میں بچھا
وہ بیٹھی عجب ان سے دل رُبا
وہ جو ہم کہہ رہے تھے کہ شاعری ایسی نامراد صنف ہے اور خاص طور پر غزل کہ ننھی سی چوک یا خفیف سا سقم بھی اس کے مزاج پر بار گزرتا ہے۔ اس سلسلہ میں ایک واقعہ سن لیجیے جو ہم نے اعجاز بٹالوی سے سنا۔ ذوالفقار بخاری غزل کہتے کہتے ایک شعر پر آ کر اٹک گئے یا تذبذب کا شکار ہو گئے۔ انھیں اس میں کچھ سقم نظر آ رہا تھا جسے وہ دور نہیں کر پا رہے تھے۔ ان کی پریشانی دیکھ کر ایک بھلے زبان دان نے جو اس وقت اس صحبت میں موجود تھا کہا کہ بخاری صاحب آپ خواہ مخواہ پریشان ہو رہے ہیں۔ یہ ایسا خفیف سا سقم ہے کہ ہزاروں میں کوئی ایک ہو گا جس کی نظر اس پر جائے گی۔ بخاری صاحب بولے کہ وہ جو ہزاروں میں ایک ہوتا ہے اس بدبخت ایک ہی سے تو میں ڈرتا ہوں۔
اب یہ ذکر چل ہی نکلا ہے تو ذرا تھوڑی اور تفصیل سے ہو جائے۔ ہم نے اپنی کسی تحریر میں میر کا ایک شعر نقل کیا؎
مکہ گیا' مدینہ گیا' کربلا گیا
جیسا گیا تھا ویسا ہی ہر پھر کے آ گیا
آفتاب احمد خاں نے ہماری گرفت کی۔ بولے' حضرت' میر نے تو 'چل پھر کے' لکھا تھا۔ تم نے اسے 'ہر پھر کے' بنا دیا۔ ہم نے عذر کیا کہ ہمیں اسی طرح یاد تھا۔ ویسے یہاں ہر پھر کے لکھ دینے سے کیا فرق پڑا۔ بولے کہ ''برادر' یہ ہمہ شما کا شعر نہیں ہے۔ میر کا شعر ہے۔ اس نے جو لفظ جہاں لکھ دیا' اسے آپ وہاں سے ہٹا نہیں سکتے۔ صحیح کہا۔ شاعری کے معاملہ میں یہی تو ایک بڑی دقت ہے۔ کالم لکھا جاتا ہے روا روی میں۔ یادداشت پر بھروسہ کرنا پڑتا ہے۔ خیر میر کے ساتھ یہ سلوک کر لیں۔ گرفت کون کرے گا۔ وہی مائی کا لال کرے گا جس نے میر کے سارے دیوان دھیان سے پڑھے ہوں گے۔ غالب اور اقبال کے سلسلے میں آپ جلدی پکڑے جاتے ہیں۔ ہمارے زمانے میں تو یہی دو شاعر زیادہ پڑھے جاتے ہیں۔ اور غالب نے تو یہ دعوے بھی کر رکھا ہے کہ ؎
گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے
جو لفظ کہ غالبؔ مرے اشعار میں آئے
مگر اقبال نے تو شاید ایسا کوئی دعویٰ نہیں کیا ہے بلکہ اس حد تک انکساری برتی ہے کہ ؎
خوش آ گئی ہے جہاں کو قلندری میری
وگرنہ شعر مرے کیا ہیں شاعری کیا ہے
تو یہاں شاعر کی طرف سے گرفت کا خطرہ نہیں ہے مگر اس شاعر کے جو عقیدت مند ہیں اور ساتھ میں شعر اقبال کے حافظ بھی ہیں۔ ان سے آپ بچ کر کہاں جائیں گے۔ ایک دفعہ ہم سے ایسی چوک ہو گئی۔ فوراً پکڑے گئے۔ گرفت کرنے والے کون تھے۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی۔ کیا کرتے۔ جلدی ہی ہتھیار ڈالنے پڑے۔ مگر پھر انھوں نے یہ کہہ کر ہماری اشک شوئی کر دی۔ اکیلے آپ تو نہیں ہیں۔ کیسا کیسا نامی گرامی نقاد' شاعر' زبان کے اساتذہ ان سب سے یہ خطا ہوتی ہے۔ مجنوں گورکھپوری' فراق' ماہر القادری' احسان دانش۔ کس کس کا نام گنائوں۔ میں نے اس سلسلہ میں ایک رجسٹر رکھ چھوڑا ہے جس میں ایسے سارے مشہور و معروف ادیبوں کے نام درج ہیں جنہوں نے اقبال کے شعر اپنی تحریروں میں غلط درج کیے ہیں۔ اب آپ کا نام بھی اس رجسٹر میں لکھا جائے گا۔
اب ہم شرفا کو وقتاً فوقتاً اپنے کالم کے ذریعہ خبردار کرتے رہتے ہیں کہ غالب و میر کے سلسلہ میں آپ بے خوف و خطر اپنی یادداشت پر بھروسہ کر کے ان کے شعر نقل کریں۔ کوئی روک ٹوک نہیں کرے گا مگر خبردار اقبال کے سلسلہ میں ایسی بے تکلفی مت کرنا۔ پکڑے جائو گے۔ پروفیسر رفیع الدین ہاشمی کے تھانے میں آپ کی رپٹ درج ہو گی اور آپ اقبالی مجرموں میں شمار کیے جائیں گے۔
اے کاش غالب کو بھی کوئی ایسا داروغہ میسر آ جاتا۔ غالب کی مقبولیت غالب کو مہنگی پڑی۔ ایک تو وہ ہیں جو غالب سے ٹکر لینے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر مرزا یگانہ تھے۔ بہت دعوے کیے۔ بہت زور لگایا۔ جب دیکھا کہ یہ ناہنجار لوگ ہمارا لوہا مانتے ہی نہیں۔ بس غالب غالب کی رٹ لگا رکھی ہے تو آخر یہ کہہ کر چپ ہو گئے کہ؎
غالب و میرزا یگانہ کا
آج کیا فیصلہ کرے کوئی
ظفر اقبال کو بھی آج نہیں تو کل' اور کل نہیں تو پرسوں سمجھوتے کی کوئی ایسی ہی راہ نکالنی پڑے گی۔
ارے ہم کس طرف نکل گئے۔ صرف اتنا کہنا چاہتے تھے کہ غالبِ خستہ کو بھی کوئی رفیع الدین ہاشمی ایسا میسر آ جائے۔ اس شاعر کے مداحوں' محبوں' حریفوں' رقیبوں کا نام پوچھنے والا کوئی تو ہو۔
باقی سب شاعروں کے لیے تو ایسا اہتمام کیا نہیں جا سکتا۔ جو شاعر جس حد تک مقبول ہے اس حد تک خطرے میں ہے۔ رہ گئے بیچارے دو نمبری شاعر۔ ان کا معاملہ یہ ہے کہ ان کا کوئی شعر ذہن نشین ہو بھی جائے تو خالی شعر کو بیشک پر لگ جائیں۔ شاعر کا نام فراموش ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی بھلا مانس حافظہ پر زور دے کر شاعر کا نام بتا دے تو پھر شعر بھی شاعر کے ساتھ دو نمبری ہو جاتا ہے اور حافظہ اسے فراموش کر دیتا ہے۔
کیا جانئے تو نے اسے کس حال میں دیکھا
لیجیے سودا کا پورا شعر ہی سن لیجیے تب اندازہ ہو گا کہ اس ننھی سی چوک سے شعر کی کیفیت میں کتنا فرق پڑ گیا؎
سودا جو ترا حال ہے ایسا تو نہیں وہ
کیا جانئے تو نے اسے کس آن میں دیکھا
ان کا مفہوم کس طرح سمجھایا جائے۔ اس کا کوئی بدل ہو تو سمجھایا جائے۔ کہہ لیجیے کہ معشوقانہ ادا یا چھب۔ میر حسن کی مثنوی سے ماخوذ ایک شعر سنئے؎
زمرد کا مونڈھا چمن میں بچھا
وہ بیٹھی عجب ان سے دل رُبا
وہ جو ہم کہہ رہے تھے کہ شاعری ایسی نامراد صنف ہے اور خاص طور پر غزل کہ ننھی سی چوک یا خفیف سا سقم بھی اس کے مزاج پر بار گزرتا ہے۔ اس سلسلہ میں ایک واقعہ سن لیجیے جو ہم نے اعجاز بٹالوی سے سنا۔ ذوالفقار بخاری غزل کہتے کہتے ایک شعر پر آ کر اٹک گئے یا تذبذب کا شکار ہو گئے۔ انھیں اس میں کچھ سقم نظر آ رہا تھا جسے وہ دور نہیں کر پا رہے تھے۔ ان کی پریشانی دیکھ کر ایک بھلے زبان دان نے جو اس وقت اس صحبت میں موجود تھا کہا کہ بخاری صاحب آپ خواہ مخواہ پریشان ہو رہے ہیں۔ یہ ایسا خفیف سا سقم ہے کہ ہزاروں میں کوئی ایک ہو گا جس کی نظر اس پر جائے گی۔ بخاری صاحب بولے کہ وہ جو ہزاروں میں ایک ہوتا ہے اس بدبخت ایک ہی سے تو میں ڈرتا ہوں۔
اب یہ ذکر چل ہی نکلا ہے تو ذرا تھوڑی اور تفصیل سے ہو جائے۔ ہم نے اپنی کسی تحریر میں میر کا ایک شعر نقل کیا؎
مکہ گیا' مدینہ گیا' کربلا گیا
جیسا گیا تھا ویسا ہی ہر پھر کے آ گیا
آفتاب احمد خاں نے ہماری گرفت کی۔ بولے' حضرت' میر نے تو 'چل پھر کے' لکھا تھا۔ تم نے اسے 'ہر پھر کے' بنا دیا۔ ہم نے عذر کیا کہ ہمیں اسی طرح یاد تھا۔ ویسے یہاں ہر پھر کے لکھ دینے سے کیا فرق پڑا۔ بولے کہ ''برادر' یہ ہمہ شما کا شعر نہیں ہے۔ میر کا شعر ہے۔ اس نے جو لفظ جہاں لکھ دیا' اسے آپ وہاں سے ہٹا نہیں سکتے۔ صحیح کہا۔ شاعری کے معاملہ میں یہی تو ایک بڑی دقت ہے۔ کالم لکھا جاتا ہے روا روی میں۔ یادداشت پر بھروسہ کرنا پڑتا ہے۔ خیر میر کے ساتھ یہ سلوک کر لیں۔ گرفت کون کرے گا۔ وہی مائی کا لال کرے گا جس نے میر کے سارے دیوان دھیان سے پڑھے ہوں گے۔ غالب اور اقبال کے سلسلے میں آپ جلدی پکڑے جاتے ہیں۔ ہمارے زمانے میں تو یہی دو شاعر زیادہ پڑھے جاتے ہیں۔ اور غالب نے تو یہ دعوے بھی کر رکھا ہے کہ ؎
گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے
جو لفظ کہ غالبؔ مرے اشعار میں آئے
مگر اقبال نے تو شاید ایسا کوئی دعویٰ نہیں کیا ہے بلکہ اس حد تک انکساری برتی ہے کہ ؎
خوش آ گئی ہے جہاں کو قلندری میری
وگرنہ شعر مرے کیا ہیں شاعری کیا ہے
تو یہاں شاعر کی طرف سے گرفت کا خطرہ نہیں ہے مگر اس شاعر کے جو عقیدت مند ہیں اور ساتھ میں شعر اقبال کے حافظ بھی ہیں۔ ان سے آپ بچ کر کہاں جائیں گے۔ ایک دفعہ ہم سے ایسی چوک ہو گئی۔ فوراً پکڑے گئے۔ گرفت کرنے والے کون تھے۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی۔ کیا کرتے۔ جلدی ہی ہتھیار ڈالنے پڑے۔ مگر پھر انھوں نے یہ کہہ کر ہماری اشک شوئی کر دی۔ اکیلے آپ تو نہیں ہیں۔ کیسا کیسا نامی گرامی نقاد' شاعر' زبان کے اساتذہ ان سب سے یہ خطا ہوتی ہے۔ مجنوں گورکھپوری' فراق' ماہر القادری' احسان دانش۔ کس کس کا نام گنائوں۔ میں نے اس سلسلہ میں ایک رجسٹر رکھ چھوڑا ہے جس میں ایسے سارے مشہور و معروف ادیبوں کے نام درج ہیں جنہوں نے اقبال کے شعر اپنی تحریروں میں غلط درج کیے ہیں۔ اب آپ کا نام بھی اس رجسٹر میں لکھا جائے گا۔
اب ہم شرفا کو وقتاً فوقتاً اپنے کالم کے ذریعہ خبردار کرتے رہتے ہیں کہ غالب و میر کے سلسلہ میں آپ بے خوف و خطر اپنی یادداشت پر بھروسہ کر کے ان کے شعر نقل کریں۔ کوئی روک ٹوک نہیں کرے گا مگر خبردار اقبال کے سلسلہ میں ایسی بے تکلفی مت کرنا۔ پکڑے جائو گے۔ پروفیسر رفیع الدین ہاشمی کے تھانے میں آپ کی رپٹ درج ہو گی اور آپ اقبالی مجرموں میں شمار کیے جائیں گے۔
اے کاش غالب کو بھی کوئی ایسا داروغہ میسر آ جاتا۔ غالب کی مقبولیت غالب کو مہنگی پڑی۔ ایک تو وہ ہیں جو غالب سے ٹکر لینے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر مرزا یگانہ تھے۔ بہت دعوے کیے۔ بہت زور لگایا۔ جب دیکھا کہ یہ ناہنجار لوگ ہمارا لوہا مانتے ہی نہیں۔ بس غالب غالب کی رٹ لگا رکھی ہے تو آخر یہ کہہ کر چپ ہو گئے کہ؎
غالب و میرزا یگانہ کا
آج کیا فیصلہ کرے کوئی
ظفر اقبال کو بھی آج نہیں تو کل' اور کل نہیں تو پرسوں سمجھوتے کی کوئی ایسی ہی راہ نکالنی پڑے گی۔
ارے ہم کس طرف نکل گئے۔ صرف اتنا کہنا چاہتے تھے کہ غالبِ خستہ کو بھی کوئی رفیع الدین ہاشمی ایسا میسر آ جائے۔ اس شاعر کے مداحوں' محبوں' حریفوں' رقیبوں کا نام پوچھنے والا کوئی تو ہو۔
باقی سب شاعروں کے لیے تو ایسا اہتمام کیا نہیں جا سکتا۔ جو شاعر جس حد تک مقبول ہے اس حد تک خطرے میں ہے۔ رہ گئے بیچارے دو نمبری شاعر۔ ان کا معاملہ یہ ہے کہ ان کا کوئی شعر ذہن نشین ہو بھی جائے تو خالی شعر کو بیشک پر لگ جائیں۔ شاعر کا نام فراموش ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی بھلا مانس حافظہ پر زور دے کر شاعر کا نام بتا دے تو پھر شعر بھی شاعر کے ساتھ دو نمبری ہو جاتا ہے اور حافظہ اسے فراموش کر دیتا ہے۔