ڈاکٹر یا……
کوئی بھی مریض بڑی امیدوں اور بلند توقعات کے تحت ڈاکٹر اور سرجن کے پاس جاتا ہے۔
پشاور سے اندوہناک خبر آئی ہے کہ معروف پشتو گلوکارہ کرشمہ شہزادی چارسدہ کے قریب طبیعت اچانک خراب ہونے پر مقامی کلینک میں چل بسیں۔ گلوکارہ کی والدہ نے الزام لگایا کہ ڈاکٹر نے غلط انجکشن لگایا جس سے کرشمہ کی حالت دگرگوں ہو گئی۔ انھیں فوری طور پر پشاور کے اسپتال میں پہنچایا گیا لیکن وہ جاں بر نہ ہوسکیں۔
خدا ان کی مغفرت کرے۔ گزشتہ برس شیخوپورہ سے منتخب ہونے والے ہمارے دوست اور نوجوان رکن صوبائی اسمبلی خرم گلفام، جن کی عمر صرف 35 سال تھی، کی اچانک موت نے دل کو اب تک افسردہ کر رکھا ہے۔ ڈاکٹروں نے مبینہ طور پر جس طرح سنگین اور قابلِ گرفت غفلت کا مظاہرہ کیا، اس سانحہ نے دل و دماغ کو ہنوز اپنے قلاوے میں لے رکھا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مقتول و مرحوم ایم پی اے کے جنازہ میں بنفسِ نفیس شریک ہوئے۔
ان کا جانا بنتا بھی تھا۔ بتایا گیا ہے کہ ایک چھوٹے سے آپریشن کے دوران ڈاکٹروں نے ایم پی اے خرم گلفام کو ضرورت سے کہیں زیادہ بے ہوشی کی دوا (Anesthesia) دے دی تھی۔ اس کے بعد گلفام صاحب ہوش میں نہ آ سکے۔ انستھیسیا دینا ایک بہت مشکل میڈیکل آرٹ ہے۔ آپریشن کے دورانئے اور زیرِ سرجری مریض کی جسمانی صورتحال کو پیشِ نگاہ رکھ کر بے ہوشی کی دوا کی مقدار کا تعین کیا جاتا ہے۔ افسوس خرم گلفام کی سرجری کرنے والوں نے مبینہ طور پر یہ دوا ضرورت سے زیادہ مقدار میں دے دی جو ان کی موت کا موجب بن گئی۔
کوئی بھی مریض بڑی امیدوں اور بلند توقعات کے تحت ڈاکٹر اور سرجن کے پاس جاتا ہے۔ مرض سے کامل شفا اور نجات تو خدا کی طرف سے ملتی ہے لیکن حکماء اور ڈاکٹروں کو اللہ کریم نے ایک وسیلہ بنا رکھا ہے۔ بیماری تو خدا کی طرف سے ملتی ہے اور اسی کی طرف سے شفا۔ ڈاکٹر محض بہانہ ہیں۔ مغربی ممالک اور شمالی امریکا کے برعکس ہمارے ہاں یہ اکثر دیکھا گیا ہے اور آئے روز اس حوالے سے خبریں شایع اور نشر بھی ہوتی ہیں کہ ڈاکٹروں کی نااہلی اور غفلت سے مریض چل بستا ہے لیکن ذمے دار ڈاکٹر کا احتساب نہیں ہوتا۔
بے وقت مرنے والے کے لواحقین چند روز تک واویلا کرتے ہیں اور پھر صبر شکر کر کے خاموش بیٹھ جاتے ہیں۔ اکثر ڈاکٹروں کی مجرمانہ نااہلی کے باعث مرنے والے کو ''اللہ کی مرضی'' سے معنون کر کے خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے۔ یہ رویہ ڈاکٹروں کو شہ دینے اور ان کی غلطیوں کی مزید حوصلہ افزائی کا باعث بنتا ہے۔ مغربی ممالک میں چونکہ غفلت اور نااہلی کے باعث مرنے والے مریض کے لواحقین کی شکایت پر عدالتوں کی طرف سے اسپتالوں اور ذمے د ار ڈاکٹروں کو سخت سزائیں سنائی جاتی اور انھیں بھاری بھرکم جرمانے کیے جاتے ہیں، اس لیے وہاں اس طرح کے سانحات کی تعداد کم کم ہے۔
مجھے چند روز قبل لاہور کے ایک سینئر اخبار نویس اپنا تجربہ سناتے ہوئے بتا رہے تھے: ''گزشتہ ماہ میرے ساتھ ایک خوفناک سانحہ ہوا۔ میری ایک عزیزہ کی دائیں آنکھ کے اوپر ایک پھنسی نکل آئی تھی۔ مَیں ان کی والدہ کے ہمراہ انھیں جیل روڈ (لاہور) کے ایک پرائیویٹ کلینک میں لے گیا۔ ڈاکٹروں نے بھاری اور من پسند فیس وصول کرنے کے بعد کہا کہ اس پھنسی کا آپریشن کرنا پڑے گا، درد سے بچنے کے لیے ہم مریضہ کو ہلکا سا انستھیسیا دیں گے، آپریشن میں محض پندرہ منٹ لگیں گے۔ ہم مان گئے۔
مریضہ کو ڈاکٹر آپریشن تھیٹر میں لے گئے اور ہم لوگ ویٹنگ روم میں بیٹھ گئے۔ جب زیادہ وقت گزر گیا تو مجھے تشویش ہونے لگی۔ مَیں اٹھا اور آپریشن تھیٹر کی نرس سے رابطہ کیا۔ وہ بولی: پریشانی کی کوئی بات نہیں، مریضہ کے ہوش میں آنے کا انتظار کر رہے ہیں، ابھی آپ لوگ انھیں لے کر گھر چلے جائیں گے۔ پھر ایک گھنٹہ مزید گزر گیا۔ جب ہمارا انتظار تیسرے گھنٹے میں داخل ہوا تو آپریشن تھیٹر سے ایک ڈاکٹر برآمد ہوا اور اس نے گہری سنجیدگی سے کہا کہ آپ کی مریضہ چل بسی ہیں، ہمیں افسوس ہے۔
ہم تو سر پیٹ کر رہ گئے۔ چھوٹی سی پھنسی کا علاج کرانے آئے تھے اور اب میّت لے کر گھر جا رہے تھے۔'' سینئر صحافی نے افسوس اور رنج کے ساتھ بتایا کہ اس پرائیویٹ اور مہنگے کلینک کے نااہل ڈاکٹروں نے ضرورت سے زیادہ انستھیسیا دے دیا تھا جو موت کا باعث بن گیا۔ روتے دھوتے اور بغیر کسی احتجاج کے وہ میت لے کر گھر آ گئے۔ مَیں نے کہا: آپ نے غلطی کی، کم از کم بلند آواز کے ساتھ متعلقہ ڈاکٹروں اور اسپتال انتظامیہ کے خلاف احتجاج تو کیا جاتا، وہاں فِیل مچایا جاتا، توڑ پھوڑ کی جاتی اور تحقیقات کروائی جاتیں۔
اس کا کم از کم یہ فائدہ ضرور ہوتا کہ آیندہ وہ احتیاط کا مظاہرہ کرتے، اس ڈر کے ساتھ کہ ان کا عوامی احتساب بھی ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر اور سرجن حضرات ہمارے خاموش رویوں کی وجہ سے بداحتیاط ہو رہے ہیں۔ ان کے حوصلے مزید بڑھ کر متاثرہ مریض کے لواحقین کے خلاف جارحیت اور تشدد میں بھی ڈھلتے جا رہے ہیں۔ معاشرے کے لیے یہ رویہ قابلِ مذمت ہے۔ اس کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ مجھے ذاتی حیثیت میں بھی ایسے ڈاکٹروں اور اسپتالوں سے واسطہ پڑا ہے کہ راقم الحروف گزشتہ دو دہائیوں سے گردے کے امراض میں مبتلا رہا ہے۔
لاہور کے دو معروف اسپتالوں میں مجھے تلخ تجربات سے گزرنا پڑا ہے، حالانکہ میرے پاس سفارش بھی تھی اور ڈاکٹروں سے ذاتی دوستیاں بھی۔ گردے کا درد بوجہ پتھری، ایسا نامراد درد ہے کہ کوئی پتہ نہیں یہ کب عود آئے۔ اسی وجہ سے مجھے بار بار درد کے خاتمے اور ڈرپ لگوانے کے لیے جانا پڑتا تھا۔ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ ڈاکٹر اور نرس آپس میں گپیں بھی ہانک رہے ہیں اور مجھے ڈرپ بھی لگا رہے ہیں لیکن عدم توجہ کی وجہ سے بار بار، کئی جگہ پر ڈرپ نیڈل کھبوئی جا رہی ہے۔ ہاتھ کی پشت اور بازو زخمی ہوتے رہتے تھے۔ احتجاج کیا جاتا تو جواب میں مزید عدم تعاون ملتا۔
لاہور کے ایک معروف سرجن نے میرے گردے کی سرجری کر کے پتھری نکالی کہ وہ کمال کے سرجن تھے۔ یہ کوئی دو عشرے قبل کی بات ہے۔ اب گزشتہ دنوں مجھے ایک بار پھر اسی تکلیف دہ عمل سے گزرنا پڑا ہے۔ جس قابلِ احترام سرجن نے میری دوبارہ سرجری کی ہے، انھوں نے مجھے بتایا کہ جس سرجن نے پہلے تمہارا آپریشن کیا تھا، اس نے تو تمہارا ستیا ناس کر دیا ہے۔ مَیں سخت پریشان ہوا اور معاً میری آنکھوں کے سامنے مرحوم سرجن کا چہرہ گھوم گیا۔ مَیں نے اپنے موجودہ سرجن سے کہا کہ حضور، آپ اپنے کام کے ماہر اور ٹیکنیشن ہیں، ہمیں کیا معلوم کہ آپریشن کے دوران، بے ہوشی کے عالم میں ہم سے کیا کیا جا رہا ہے۔
وطنِ عزیز کے پرائیویٹ میڈیکل کالجوں، چین اور وسط ایشیا کے مشکوک طبی اداروں سے، بھاری فیسوں کے زور پر، جو لڑکے لڑکیاں پڑھ کر ہمارے اسپتالوں اور کلینکوں میں پہنچ رہے ہیں، ان سے تو خدا ہی بچائے کہ وہ جن اداروں سے فارغ التحصیل ہو رہے ہیں، وہاں اچھے پریکٹیکل کی کوئی سہولت موجود ہے نہ منسلکہ کوئی اسپتال میسر۔ ہمارے ایک عزیز کی بیٹی نے سات سال قبل ایف ایس سی پری میڈیکل میں کم نمبر لیے۔
اسے کسی بھی میڈیکل کالج میں میرٹ پر داخل نہیں مل سکتا تھا لیکن ان کے والد صاحب نے پیسے کے زور پر اپنی بیٹی کو ایک نجی میڈیکل کالج میں داخلہ دلوا دیا۔ اب یہ بچی ایک سرکاری اسپتال میں ''مستند'' ڈاکٹر ہے؛ چنانچہ بھیانک نتائج سامنے ہیں۔ اور خدا ''بھلا'' کرے ہماری ان حکومتوں کا جنہوں نے دھڑا دھڑ پرائیویٹ میڈیکل کالج منظور کیے۔ اب انھی پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کے کئی فارغ التحصیل ''ڈاکٹر'' بلائے جان بن رہے ہیں۔
خدا ان کی مغفرت کرے۔ گزشتہ برس شیخوپورہ سے منتخب ہونے والے ہمارے دوست اور نوجوان رکن صوبائی اسمبلی خرم گلفام، جن کی عمر صرف 35 سال تھی، کی اچانک موت نے دل کو اب تک افسردہ کر رکھا ہے۔ ڈاکٹروں نے مبینہ طور پر جس طرح سنگین اور قابلِ گرفت غفلت کا مظاہرہ کیا، اس سانحہ نے دل و دماغ کو ہنوز اپنے قلاوے میں لے رکھا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مقتول و مرحوم ایم پی اے کے جنازہ میں بنفسِ نفیس شریک ہوئے۔
ان کا جانا بنتا بھی تھا۔ بتایا گیا ہے کہ ایک چھوٹے سے آپریشن کے دوران ڈاکٹروں نے ایم پی اے خرم گلفام کو ضرورت سے کہیں زیادہ بے ہوشی کی دوا (Anesthesia) دے دی تھی۔ اس کے بعد گلفام صاحب ہوش میں نہ آ سکے۔ انستھیسیا دینا ایک بہت مشکل میڈیکل آرٹ ہے۔ آپریشن کے دورانئے اور زیرِ سرجری مریض کی جسمانی صورتحال کو پیشِ نگاہ رکھ کر بے ہوشی کی دوا کی مقدار کا تعین کیا جاتا ہے۔ افسوس خرم گلفام کی سرجری کرنے والوں نے مبینہ طور پر یہ دوا ضرورت سے زیادہ مقدار میں دے دی جو ان کی موت کا موجب بن گئی۔
کوئی بھی مریض بڑی امیدوں اور بلند توقعات کے تحت ڈاکٹر اور سرجن کے پاس جاتا ہے۔ مرض سے کامل شفا اور نجات تو خدا کی طرف سے ملتی ہے لیکن حکماء اور ڈاکٹروں کو اللہ کریم نے ایک وسیلہ بنا رکھا ہے۔ بیماری تو خدا کی طرف سے ملتی ہے اور اسی کی طرف سے شفا۔ ڈاکٹر محض بہانہ ہیں۔ مغربی ممالک اور شمالی امریکا کے برعکس ہمارے ہاں یہ اکثر دیکھا گیا ہے اور آئے روز اس حوالے سے خبریں شایع اور نشر بھی ہوتی ہیں کہ ڈاکٹروں کی نااہلی اور غفلت سے مریض چل بستا ہے لیکن ذمے دار ڈاکٹر کا احتساب نہیں ہوتا۔
بے وقت مرنے والے کے لواحقین چند روز تک واویلا کرتے ہیں اور پھر صبر شکر کر کے خاموش بیٹھ جاتے ہیں۔ اکثر ڈاکٹروں کی مجرمانہ نااہلی کے باعث مرنے والے کو ''اللہ کی مرضی'' سے معنون کر کے خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے۔ یہ رویہ ڈاکٹروں کو شہ دینے اور ان کی غلطیوں کی مزید حوصلہ افزائی کا باعث بنتا ہے۔ مغربی ممالک میں چونکہ غفلت اور نااہلی کے باعث مرنے والے مریض کے لواحقین کی شکایت پر عدالتوں کی طرف سے اسپتالوں اور ذمے د ار ڈاکٹروں کو سخت سزائیں سنائی جاتی اور انھیں بھاری بھرکم جرمانے کیے جاتے ہیں، اس لیے وہاں اس طرح کے سانحات کی تعداد کم کم ہے۔
مجھے چند روز قبل لاہور کے ایک سینئر اخبار نویس اپنا تجربہ سناتے ہوئے بتا رہے تھے: ''گزشتہ ماہ میرے ساتھ ایک خوفناک سانحہ ہوا۔ میری ایک عزیزہ کی دائیں آنکھ کے اوپر ایک پھنسی نکل آئی تھی۔ مَیں ان کی والدہ کے ہمراہ انھیں جیل روڈ (لاہور) کے ایک پرائیویٹ کلینک میں لے گیا۔ ڈاکٹروں نے بھاری اور من پسند فیس وصول کرنے کے بعد کہا کہ اس پھنسی کا آپریشن کرنا پڑے گا، درد سے بچنے کے لیے ہم مریضہ کو ہلکا سا انستھیسیا دیں گے، آپریشن میں محض پندرہ منٹ لگیں گے۔ ہم مان گئے۔
مریضہ کو ڈاکٹر آپریشن تھیٹر میں لے گئے اور ہم لوگ ویٹنگ روم میں بیٹھ گئے۔ جب زیادہ وقت گزر گیا تو مجھے تشویش ہونے لگی۔ مَیں اٹھا اور آپریشن تھیٹر کی نرس سے رابطہ کیا۔ وہ بولی: پریشانی کی کوئی بات نہیں، مریضہ کے ہوش میں آنے کا انتظار کر رہے ہیں، ابھی آپ لوگ انھیں لے کر گھر چلے جائیں گے۔ پھر ایک گھنٹہ مزید گزر گیا۔ جب ہمارا انتظار تیسرے گھنٹے میں داخل ہوا تو آپریشن تھیٹر سے ایک ڈاکٹر برآمد ہوا اور اس نے گہری سنجیدگی سے کہا کہ آپ کی مریضہ چل بسی ہیں، ہمیں افسوس ہے۔
ہم تو سر پیٹ کر رہ گئے۔ چھوٹی سی پھنسی کا علاج کرانے آئے تھے اور اب میّت لے کر گھر جا رہے تھے۔'' سینئر صحافی نے افسوس اور رنج کے ساتھ بتایا کہ اس پرائیویٹ اور مہنگے کلینک کے نااہل ڈاکٹروں نے ضرورت سے زیادہ انستھیسیا دے دیا تھا جو موت کا باعث بن گیا۔ روتے دھوتے اور بغیر کسی احتجاج کے وہ میت لے کر گھر آ گئے۔ مَیں نے کہا: آپ نے غلطی کی، کم از کم بلند آواز کے ساتھ متعلقہ ڈاکٹروں اور اسپتال انتظامیہ کے خلاف احتجاج تو کیا جاتا، وہاں فِیل مچایا جاتا، توڑ پھوڑ کی جاتی اور تحقیقات کروائی جاتیں۔
اس کا کم از کم یہ فائدہ ضرور ہوتا کہ آیندہ وہ احتیاط کا مظاہرہ کرتے، اس ڈر کے ساتھ کہ ان کا عوامی احتساب بھی ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر اور سرجن حضرات ہمارے خاموش رویوں کی وجہ سے بداحتیاط ہو رہے ہیں۔ ان کے حوصلے مزید بڑھ کر متاثرہ مریض کے لواحقین کے خلاف جارحیت اور تشدد میں بھی ڈھلتے جا رہے ہیں۔ معاشرے کے لیے یہ رویہ قابلِ مذمت ہے۔ اس کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ مجھے ذاتی حیثیت میں بھی ایسے ڈاکٹروں اور اسپتالوں سے واسطہ پڑا ہے کہ راقم الحروف گزشتہ دو دہائیوں سے گردے کے امراض میں مبتلا رہا ہے۔
لاہور کے دو معروف اسپتالوں میں مجھے تلخ تجربات سے گزرنا پڑا ہے، حالانکہ میرے پاس سفارش بھی تھی اور ڈاکٹروں سے ذاتی دوستیاں بھی۔ گردے کا درد بوجہ پتھری، ایسا نامراد درد ہے کہ کوئی پتہ نہیں یہ کب عود آئے۔ اسی وجہ سے مجھے بار بار درد کے خاتمے اور ڈرپ لگوانے کے لیے جانا پڑتا تھا۔ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ ڈاکٹر اور نرس آپس میں گپیں بھی ہانک رہے ہیں اور مجھے ڈرپ بھی لگا رہے ہیں لیکن عدم توجہ کی وجہ سے بار بار، کئی جگہ پر ڈرپ نیڈل کھبوئی جا رہی ہے۔ ہاتھ کی پشت اور بازو زخمی ہوتے رہتے تھے۔ احتجاج کیا جاتا تو جواب میں مزید عدم تعاون ملتا۔
لاہور کے ایک معروف سرجن نے میرے گردے کی سرجری کر کے پتھری نکالی کہ وہ کمال کے سرجن تھے۔ یہ کوئی دو عشرے قبل کی بات ہے۔ اب گزشتہ دنوں مجھے ایک بار پھر اسی تکلیف دہ عمل سے گزرنا پڑا ہے۔ جس قابلِ احترام سرجن نے میری دوبارہ سرجری کی ہے، انھوں نے مجھے بتایا کہ جس سرجن نے پہلے تمہارا آپریشن کیا تھا، اس نے تو تمہارا ستیا ناس کر دیا ہے۔ مَیں سخت پریشان ہوا اور معاً میری آنکھوں کے سامنے مرحوم سرجن کا چہرہ گھوم گیا۔ مَیں نے اپنے موجودہ سرجن سے کہا کہ حضور، آپ اپنے کام کے ماہر اور ٹیکنیشن ہیں، ہمیں کیا معلوم کہ آپریشن کے دوران، بے ہوشی کے عالم میں ہم سے کیا کیا جا رہا ہے۔
وطنِ عزیز کے پرائیویٹ میڈیکل کالجوں، چین اور وسط ایشیا کے مشکوک طبی اداروں سے، بھاری فیسوں کے زور پر، جو لڑکے لڑکیاں پڑھ کر ہمارے اسپتالوں اور کلینکوں میں پہنچ رہے ہیں، ان سے تو خدا ہی بچائے کہ وہ جن اداروں سے فارغ التحصیل ہو رہے ہیں، وہاں اچھے پریکٹیکل کی کوئی سہولت موجود ہے نہ منسلکہ کوئی اسپتال میسر۔ ہمارے ایک عزیز کی بیٹی نے سات سال قبل ایف ایس سی پری میڈیکل میں کم نمبر لیے۔
اسے کسی بھی میڈیکل کالج میں میرٹ پر داخل نہیں مل سکتا تھا لیکن ان کے والد صاحب نے پیسے کے زور پر اپنی بیٹی کو ایک نجی میڈیکل کالج میں داخلہ دلوا دیا۔ اب یہ بچی ایک سرکاری اسپتال میں ''مستند'' ڈاکٹر ہے؛ چنانچہ بھیانک نتائج سامنے ہیں۔ اور خدا ''بھلا'' کرے ہماری ان حکومتوں کا جنہوں نے دھڑا دھڑ پرائیویٹ میڈیکل کالج منظور کیے۔ اب انھی پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کے کئی فارغ التحصیل ''ڈاکٹر'' بلائے جان بن رہے ہیں۔