چار پابندیاں

گھر تعمیر کریں تو پابندی ہوتی ہے کہ برابر والے پلاٹ سے فاصلہ رکھنے کے لیے اتنی جگہ چھوڑ دیں۔

03332257239@hotmail.com

مکبھی بیمار ہوکر آپ کو ڈاکٹر کے پاس جانا پڑا ہے؟ آپ کہیں گے یہ بھی عجیب و غریب سوال ہے۔ ہر انسان بیمار پڑتا ہے اور اسے علاج کے لیے کسی حکیم، وید، طبیب یا ڈاکٹر کے پاس جانا پڑتا ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ بچے اس لیے کہتے ہیں کہ وہ ڈاکٹر یا استاد بنیں گے کہ ان کا واسطہ سب سے پہلے ان ہی دو لوگوں سے پیش آتا ہے۔ بیمار ہوتے ہیں تو معالج پابندی لگاتے ہیں کہ کھٹا میٹھا نہیں کھانا، ٹھنڈ میں باہر نہیں نکلنا۔ کسی کا وزن زیادہ ہو تو ڈاکٹر کہتے ہیں کہ آپ کو تلی ہوئی چیزیں، آلو، کولڈ ڈرنکس اور چاول نہیں لینے۔ امتحان قریب ہوں تو اساتذہ کرام کہتے ہیں کہ کھیل کود بند، فلمیں ٹی وی اور کمپیوٹر وموبائل سے پرہیز کریں۔

گھر تعمیر کریں تو پابندی ہوتی ہے کہ برابر والے پلاٹ سے فاصلہ رکھنے کے لیے اتنی جگہ چھوڑ دیں۔ اخبار اور ٹی وی پر پابندیاں ہوتی ہیں۔ سمجھایا جاتا ہے کہ معاشرے کے یہ انداز ہیں اور مذہب کی یہ روایات ہیں جب کہ سیاست میں یہ احتیاط کرنی ہے۔ پابندی کے حوالے سے آخری جملہ جس میں تمام باتیں سما جاتی ہیں وہ یہ ہے کہ ''آپ کی آزادی وہاں تک ہے جہاں تک دوسرے کی ناک شروع نہیں ہوجاتی۔'' مسجدوں کی انتظامیہ سے لاؤڈ اسپیکرز کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ وہ خطبے اور اذان کی ندا اہل محلہ کو سنا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ آواز کو صرف چار دیواری تک محدود رکھنا ہوگا۔

بیمار ہوں تو پابندیاں، امتحان شروع ہوجائیں تو کھیل کود کم کرنے کا کہا جاتا ہے، گھر بنائیں تو اپنی ہی زمین پر تعمیرات کی پابندی اور اخبار و ٹی وی کو احتیاط کا مشورہ۔ مغرب میں کچھ فلمیں صرف بڑوں کے لیے بنتی ہیں جنھیں بچوں کو دیکھنے کی ممانعت ہوتی ہے۔ الیکشن میں ووٹ ڈالنا ہو تو اٹھارہ سال کا ہونا ضروری ہے جب کہ انتخابی دنگل میں حصہ لینے کے لیے پچیسویں سالگرہ کا منایا جانا لازمی ہے۔

بلاول کے بارے میں بھی کہا جاتا تھا کہ عمر کی یہ حد گزارنے پر اسمبلی میں آئیں گے۔ دیکھیں یہ کام کب ہوتا ہے۔ یہ طے ہے کہ اب ان پر یہ پابندی نہیں۔ گورنر کے لیے 35اور صدر بننے کے لیے پینتالیس سال کا ہونا لازمی ہوتا ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ آپ کسی دوسرے ملک کے شہری نہ ہوں۔ یقین جانیے کہ دنیا میں جینے پر بھی پابندی ہے۔ کوئی بھی آب حیات پی کر نہیں آیا کہ ہمیشہ زندہ رہے گا۔ شاعر نے یوں کہا کہ ''یہاں جینے کی پابندی وہاں مرنے کی پابندی۔''

کیا کوئی ایسا انسان ہوسکتا ہے جس پر پابندی نہ ہو۔ سرکاری ملازمت ہو اور ساٹھ سال تک کے ہو جاؤ تو ریٹائرڈ۔ ہائی کورٹ میں باسٹھ اور سپریم کورٹ میں 65 سال کا ہونے پر جج کو گھر جانا ہوتا ہے۔ امریکا میں ایک پابندی ہے اور ایک نہیں جب کہ ہمارے ہاں اس کا الٹ ہے۔ سپرپاور کے صدر کو چار چار سال کی دو میعاد مکمل کرنے کے بعد گھر جانا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں وزیر اعظم کے لیے کوئی پابندی نہیں۔ مشرف نے لگائی تو ہم نے اٹھارویں ترمیم میں ختم کردی۔

امریکا میں سپریم کورٹ کے جج کی ریٹائرمنٹ کی کوئی عمر نہیں۔ جب تک وہ سمجھے کہ جسمانی اور ذہنی طور پر کام کرسکتا ہے کوئی اسے نہیں کہہ سکتا کہ بابا! اب پوتے نواسیوں کو بہلاؤ یا کتابیں پڑھو یا گالف کھیلو۔ ان تمام رعایتوں کے باوجود ایک پابندی تو لگتی ہی لگتی ہے جس کا ہم اوپر تذکرہ کرچکے ہیں۔ ملک الموت کو آنے سے کون روک سکتا ہے۔ بے شک پاکستانی وزیر اعظم جتنی مرتبہ چاہے حلف اٹھائے اور امریکی جج جب تک چاہے فیصلے دیتا رہے لیکن عزرائیل کو آنے سے کون روک سکتا ہے۔ پاکستانی سیاستدانوں اور امریکی ججوں کی یہ آزادی بھی ایک پابندی میں لپٹی ہوئی ہے۔

پابندی کا شکار انسان تو ہوتے ہیں لیکن کیا ادارے آزاد ہوتے ہیں؟ ہم میڈیا کے بارے میں کہہ چکے ہیں کہ انھیں خود پر سنسر لگانا پڑتا ہے۔ یہ ریاست کا چوتھا ستون کہلاتا ہے۔ ریاست کا تیسرا سہارا عدلیہ ہے جس کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر کی بات ہوچکی ہے۔ انتظامیہ یعنی بیوروکریسی بھی بہت سی پابندیوں کا شکار ہوتی ہے۔


یہ ریاست کا دوسرا ستون کہلاتی ہے۔ قومی اسمبلی و سینیٹ جسے ملا کر پارلیمنٹ کہتے ہیں اس پر کوئی پابندی ہے؟ منتخب نمایندے اپنے آپ کو سپریم ادارہ کہتے ہیں۔ عظیم کون؟ یہ سوال اپنی جگہ بحث طلب ہے لیکن کیا مجلس شوریٰ ہر قسم کے فیصلے کرنے میں آزاد ہے؟ برطانیہ کی پارلیمنٹ کو ہر قسم کا اختیار ہے۔ کیا اتنی طاقت پاکستان و بھارت کے منتخب نمایندوں کو ہے؟

''مرد کو عورت اور عورت کو مرد بنانے کے علاوہ برطانیہ کے عوامی نمایندے ہر قسم کی قانون سازی کرسکتے ہیں۔'' یہ بیش بہا اختیارات ہمارے منتخب اداروں کو حاصل نہیں۔ پاکستان کی سپریم کورٹ نے پچھلی صدی سے پارلیمنٹ پر کچھ پابندیاں عاید کی ہوئی ہیں۔ 21 جنوری والے کالم ''مہارت'' میں ہم نے اکیسویں آئینی ترمیم کے حوالے سے کہا تھا کہ یہ اعلیٰ عدلیہ میں اس حوالے سے چیلنج ہوگی کہ کیا فوجی عدالتوں کا قیام عدالتی اختیارات میں مداخلت ہے؟ کیا منتخب ادارے پر چار پابندیاں عاید نہیں؟

ہم نے یہ بات چار سطروں میں سمیٹ دی تھی۔آج اس مرحلے پر جب آپ پچاس فیصد سے زیادہ کالم پڑھ چکے ہیں، ہم ان پابندیوں کا خلاصہ بیان کر رہے ہیں۔ سوال چونکہ عدالت عظمیٰ میں زیر تصفیہ ہے اس لیے ہم مقدمے کی میرٹ پر کسی بھی حوالے سے گفتگو کیے بغیر ماضی میں عائد کی گئی عدالتی پابندیوں کو زیر بحث لائیں گے۔

اگر وزیر اعظم چاہیں کہ وہ صدر پاکستان بن کر انتظامیہ کو چلائیں تو یہ ممکن نہیں۔ پارلیمانی سے صدارتی نظام حکومت نافذ کرنا موجودہ نوعیت کی پارلیمنٹ کا اختیار نہیں۔ ایسی کوشش اندرا گاندھی نے کی تھی جسے ابتدا میں ہی رد کردیا گیا تھا۔ یہ پہلی پابندی ہے جس سے دو تہائی تو کیا سو فیصد اراکین بھی آزاد نہیں ہوسکتے۔ دوسری پابندی یہ ہے کہ ہمارے منتخب نمایندے صوبوں کو ختم نہیں کرسکتے۔

وہ نہیں کہہ سکتے کہ انگلینڈ یا بنگلہ دیش کی طرح ہم بغیر کسی صوبے کے Unitary یعنی وحدانی مملکت کا نظام چلائیں گے۔ ہم نے کالم میں کہا تھا کہ پارلیمانی نظام اور وفاقیت سے چھیڑ چھاڑ کا اختیار کسی کو نہیں۔ تیسری پابندی اسلامی دفعات میں کمی سے ہے۔ چوتھی پابندی پارلیمنٹ پر یہ عائد ہے کہ وہ عدالتوں کے اختیارات کو محدود نہیں کرسکتی۔ سپریم کورٹ اسی حوالے سے ملٹری کورٹس کے قیام کا جائزہ لے گی کہ یہ عدالتی اختیارات میں کمی تو نہیں؟

صدی کے اختتامی زمانے میں بے نظیر بھٹو کی حکومت تھی۔ چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے دور میں ''ججز کیس'' نے بہت سارے معاملات طے کردیے۔ انتظامیہ سے عدالتی اختیارات میں کمی کرنے والی قینچی واپس لے لی تھی جو عدالت کے بال و پر کترتی تھی۔ یہی الفاظ تھے جب ہم نے اپنے کالم میں PLD 1996 SC 324پر تبصرہ کیا تھا۔ چند سال گزرے تو فیصلے کی تعریف کرنے والی مسلم لیگ ن کی قیادت وزیر اعظم ہاؤس کی مکین تھی۔ ان کی جسٹس سجاد علی شاہ سے کشمکش تاریخ کا حصہ ہے۔

اقتدار میں دوسری مرتبہ آنے کے بعد نواز شریف نے انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کے قیام کی منظوری دی۔ اس وقت پاکستان کی عدالت عظمیٰ کے سربراہ جسٹس اجمل میاں تھے۔ انھوں نے محرم علی والے کیس PLD 1998 SC 1445میں انصاف کی فراہمی کے رہنما اصول طے کردیے تھے۔ اس کے بعد ان ہی کی سربراہی میں شیخ لیاقت والے کیس میں حکومت کے فوجی عدالتوں کے قیام کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا تھا (PLD 1999 SC 504)۔

ہمارا ایک ماہ قبل والا کالم ان الفاظ میں اختتام کی جانب بڑھا تھا کہ ''اب پہلی مرتبہ کثیر عوامی حمایت اور بھرپور پارلیمانی تائید کے ساتھ فوجی عدالتیں قائم ہو رہی ہیں۔ اس میں پہلی مشکل یہ ہوگی کہ یہ سپریم کورٹ میں چیلنج ہوں گی۔'' ہم نے پارلیمنٹ کے لامحدود اختیار کا سوال اٹھایا تھا۔ پاکستان کی مجلس شوریٰ آئین کے بنیادی ڈھانچے کو نہیں بدل سکتی۔ اس کے لیے دستور ساز اسمبلیاں ہوتی ہیں جیسے قیام پاکستان اور سقوط ڈھاکہ کے بعد والی اسمبلیاں تھیں۔ ملٹری کورٹس اور پارلیمانی اختیارات کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ ہر اختیار پر کچھ نہ کچھ پابندیاں ہوتی ہیں۔ پارلیمنٹ کے اختیارات پر بھی عائد ہیں یہ چار پابندیاں۔
Load Next Story