آرام میرا بھی حق ہے
ملازمت پیشہ خواتین اہل خانہ کی توجہ چاہتی ہیں
ہمارے ہاں ملازمت پیشہ لڑکیوں کے لیے دُہرا معیار کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بالخصوص جب وہ شادی کے بعد کسی ملازمت کا بار اٹھاتی ہیں، تو کئی گمبھیر مسائل ان کی راہ میں حائل ہوتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ یہ معاشرہ مردو ں کا ہے۔ اس لیے اکثر باصلاحیت خواتین کو دوران ملازمت اپنے ساتھ کام کرنے والے مرد ساتھیوں کے مختلف رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات دفتری سیاست سہنا پڑتی ہے۔ پیشہ ورانہ دائرہ کار کو مردوں کا میدان سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین کو اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی ادائی میں مشکلات پیش آتی ہیں، کیوں کہ کوئی ان کے کام پر اعتماد کرنے کو تیار ہی نہیں ہوتا۔
معاشرے میں ابھی بھی کھلے دل سے عورتوں کے حقوق کو تسلیم کرنے کی روایات کلی طور پر قائم نہیں ہوسکی ہے۔ ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا اور انہیں ہر شعبہ حیات میں ذہنی اور عقلی طور پر تسلیم کرنا اتنا آسان نہیں۔ ان سب باتوں کے باوجود معاشرے میں خواتین کی ملازمت کے حوالے سے خاصی تبدیلی آئی ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی، بینکاری، ذرایع اِبلاغ اور تعلیم کے شعبوں میں خواتین ہی چھائی ہوئی ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ جب ایک مرد شام کو گھر لوٹتا ہے، تو سب اس کے آگے پیچھے ہوتے ہیں۔۔۔ بیوی کھانے اور چائے کا اہتمام کر رہی ہے کہ شوہر پورے دن کی مشقت کے بعد تھکا ہارا آیا ہے، جب کہ نوکری پیشہ لڑکیوں کو تنہا ہی دو محاذوں پر لڑنا پڑتا ہے۔ ملازمت سے واپسی پر گھر کے مسائل منہ کھولے اس کے سامنے ہوتے ہیں اور وہ دَم لیے بنا ہی ان سے نمٹنے میں لگ جاتی ہے۔
ملازمت کے باوجود خواتین پر مکمل طور پر گھر کی ذمہ داریاں بھی ڈال دینا انتشار کا باعث ہے۔ بہت سے گھرانوں میں مردوں کو اونچے سنگھاسن پر بٹھا دیا جاتا ہے۔ وہ گھر کے کسی بھی کام کو ہاتھ لگانا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ اس طرح سارا بوجھ بار اس گھر کی عورت پر آجاتا ہے۔ دو کشتیوں میں سوار وہ عورت جلد ہی تھک جاتی ہے اور کسی ایک محاذ سے فرار اختیار کرنے لگتی ہے۔ متوسط طبقے میں ایسی خواتین بھی ہیں، جو اپنے چھوٹے بچوں کو گھروں پر چھوڑ کر نوکری کے لیے مجبوراً نکلتی ہیں۔ اس طرح وہ اپنے خاندان کو ناکافی وقت دینے پر اپنے آپ کو قصوروار سمجھنے لگتی ہیں۔
نوبیاہتا لڑکیوں کی اکثریت اس بات سے بھی پریشان ہو جاتی ہے کہ جب وہ دفتر سے تھکی ہاری لوٹتی ہیں، تو معمول کے مسائل کے ساتھ غیر منظم گھریلو امور ان کو کوفت سے دوچار کر دیتے ہیں۔ ایسے میں اگر وقت پر کھانا تیار نہ ہو سکے، تو تکرار اور تلخی در آنے لگتی ہے۔ ایک دوسرے کی چھوٹی چھوٹی باتیں بھی بری لگنے لگتی ہیں اور گھر کی فضا میں ایک کھنچاؤ آجاتا ہے۔ اس طرح بھی نئی شادی شدہ زندگی کا حُسن گہنانے لگتا ہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ ایسے میں آپ اپنے مسائل شوہر کے گوش گزار کرائیے۔ اس طرح انہیں بھی اندازہ ہوگا کہ نوکری آپ کے لیے پھولوں کی سیج نہیں۔ آپ بھی انہی کی طرح پیشہ ورانہ دباؤ سے نبرد آزما ہوتی ہیں اور پھر گھریلو امور بھی دیکھتی ہیں۔ اس سے یقیناً ان کے اندر تبدیلی آئے گی، کیوں کہ گھر کا ماحول مرد اور عورت دونوں کی ہم آہنگی کے ہی مرہون منت ہے، اس لیے مردوں کو بھی دفتری امور کے بعد گھر والوں کو وقت دینا چاہیے۔ رات کا کھانا اہل خانہ کو ایک ساتھ کھانا چاہیے۔
فارغ وقت میں کچھ ایسا کرنا چاہیے، جس سے یک سانیت کا احساس نہ ہو اور سب تازہ دم ہو جائیں۔ کسی دوست یا عزیز کے گھر چلے جائیں، کہیں کھانا کھالیں، کسی تفریحی مقام کا رخ کر لیں۔ بہت سے ایسے چھوٹے چھوٹے کام ہوتے ہیں، جس سے گھر کا ماحول اچھا اور خوش گوار ہو جاتا ہے۔ ایسے چھوٹے چھوٹے کام آپس میں پیار محبت بڑھانے کی وجہ بنتے ہیں۔ گھریلو کاموں میںہاتھ بٹاتے ہوئے مردوں کو کسی قسم کی شرمندگی نہیں ہونی چاہیے۔
جب معاش میں ان کی شریک حیات حصے دار ہے تو گھر کے کاموں میں ان کی ساجھے داری کی کیا بات۔ مرد کا ذرا سا تعاون ان دونوں کی زندگی میں آسانیاں فراہم کر سکتا ہے، اور انہیں یہ احساس آپ دلا سکتی ہیں کہ زندگی کی خوب صورتی برقرار رکھنے کے لیے رشتے کو بھی وقت دینا ضروری ہے۔ یہ ایک مسلّم حقیقت ہے کہ ملازمت پیشہ جوڑوں کے پاس وقت کی کمی ہوتی ہے، اس لیے یہ بات بھی پیش نظر ہونی چاہیے کہ کہیں معاشی معاملات کی درستگی میں ازدواجی تعلقات میں فرق نہ پڑے۔
کہا جاتا ہے کہ یہ معاشرہ مردو ں کا ہے۔ اس لیے اکثر باصلاحیت خواتین کو دوران ملازمت اپنے ساتھ کام کرنے والے مرد ساتھیوں کے مختلف رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعض اوقات دفتری سیاست سہنا پڑتی ہے۔ پیشہ ورانہ دائرہ کار کو مردوں کا میدان سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین کو اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی ادائی میں مشکلات پیش آتی ہیں، کیوں کہ کوئی ان کے کام پر اعتماد کرنے کو تیار ہی نہیں ہوتا۔
معاشرے میں ابھی بھی کھلے دل سے عورتوں کے حقوق کو تسلیم کرنے کی روایات کلی طور پر قائم نہیں ہوسکی ہے۔ ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا اور انہیں ہر شعبہ حیات میں ذہنی اور عقلی طور پر تسلیم کرنا اتنا آسان نہیں۔ ان سب باتوں کے باوجود معاشرے میں خواتین کی ملازمت کے حوالے سے خاصی تبدیلی آئی ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی، بینکاری، ذرایع اِبلاغ اور تعلیم کے شعبوں میں خواتین ہی چھائی ہوئی ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ جب ایک مرد شام کو گھر لوٹتا ہے، تو سب اس کے آگے پیچھے ہوتے ہیں۔۔۔ بیوی کھانے اور چائے کا اہتمام کر رہی ہے کہ شوہر پورے دن کی مشقت کے بعد تھکا ہارا آیا ہے، جب کہ نوکری پیشہ لڑکیوں کو تنہا ہی دو محاذوں پر لڑنا پڑتا ہے۔ ملازمت سے واپسی پر گھر کے مسائل منہ کھولے اس کے سامنے ہوتے ہیں اور وہ دَم لیے بنا ہی ان سے نمٹنے میں لگ جاتی ہے۔
ملازمت کے باوجود خواتین پر مکمل طور پر گھر کی ذمہ داریاں بھی ڈال دینا انتشار کا باعث ہے۔ بہت سے گھرانوں میں مردوں کو اونچے سنگھاسن پر بٹھا دیا جاتا ہے۔ وہ گھر کے کسی بھی کام کو ہاتھ لگانا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ اس طرح سارا بوجھ بار اس گھر کی عورت پر آجاتا ہے۔ دو کشتیوں میں سوار وہ عورت جلد ہی تھک جاتی ہے اور کسی ایک محاذ سے فرار اختیار کرنے لگتی ہے۔ متوسط طبقے میں ایسی خواتین بھی ہیں، جو اپنے چھوٹے بچوں کو گھروں پر چھوڑ کر نوکری کے لیے مجبوراً نکلتی ہیں۔ اس طرح وہ اپنے خاندان کو ناکافی وقت دینے پر اپنے آپ کو قصوروار سمجھنے لگتی ہیں۔
نوبیاہتا لڑکیوں کی اکثریت اس بات سے بھی پریشان ہو جاتی ہے کہ جب وہ دفتر سے تھکی ہاری لوٹتی ہیں، تو معمول کے مسائل کے ساتھ غیر منظم گھریلو امور ان کو کوفت سے دوچار کر دیتے ہیں۔ ایسے میں اگر وقت پر کھانا تیار نہ ہو سکے، تو تکرار اور تلخی در آنے لگتی ہے۔ ایک دوسرے کی چھوٹی چھوٹی باتیں بھی بری لگنے لگتی ہیں اور گھر کی فضا میں ایک کھنچاؤ آجاتا ہے۔ اس طرح بھی نئی شادی شدہ زندگی کا حُسن گہنانے لگتا ہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ ایسے میں آپ اپنے مسائل شوہر کے گوش گزار کرائیے۔ اس طرح انہیں بھی اندازہ ہوگا کہ نوکری آپ کے لیے پھولوں کی سیج نہیں۔ آپ بھی انہی کی طرح پیشہ ورانہ دباؤ سے نبرد آزما ہوتی ہیں اور پھر گھریلو امور بھی دیکھتی ہیں۔ اس سے یقیناً ان کے اندر تبدیلی آئے گی، کیوں کہ گھر کا ماحول مرد اور عورت دونوں کی ہم آہنگی کے ہی مرہون منت ہے، اس لیے مردوں کو بھی دفتری امور کے بعد گھر والوں کو وقت دینا چاہیے۔ رات کا کھانا اہل خانہ کو ایک ساتھ کھانا چاہیے۔
فارغ وقت میں کچھ ایسا کرنا چاہیے، جس سے یک سانیت کا احساس نہ ہو اور سب تازہ دم ہو جائیں۔ کسی دوست یا عزیز کے گھر چلے جائیں، کہیں کھانا کھالیں، کسی تفریحی مقام کا رخ کر لیں۔ بہت سے ایسے چھوٹے چھوٹے کام ہوتے ہیں، جس سے گھر کا ماحول اچھا اور خوش گوار ہو جاتا ہے۔ ایسے چھوٹے چھوٹے کام آپس میں پیار محبت بڑھانے کی وجہ بنتے ہیں۔ گھریلو کاموں میںہاتھ بٹاتے ہوئے مردوں کو کسی قسم کی شرمندگی نہیں ہونی چاہیے۔
جب معاش میں ان کی شریک حیات حصے دار ہے تو گھر کے کاموں میں ان کی ساجھے داری کی کیا بات۔ مرد کا ذرا سا تعاون ان دونوں کی زندگی میں آسانیاں فراہم کر سکتا ہے، اور انہیں یہ احساس آپ دلا سکتی ہیں کہ زندگی کی خوب صورتی برقرار رکھنے کے لیے رشتے کو بھی وقت دینا ضروری ہے۔ یہ ایک مسلّم حقیقت ہے کہ ملازمت پیشہ جوڑوں کے پاس وقت کی کمی ہوتی ہے، اس لیے یہ بات بھی پیش نظر ہونی چاہیے کہ کہیں معاشی معاملات کی درستگی میں ازدواجی تعلقات میں فرق نہ پڑے۔