آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا

اگر دیکھا جائے تو حفیظ کو آدھی خدمات کے ساتھ کھلانا ایک خطرناک فیصلہ تھا۔

اگر دیکھا جائے تو حفیظ کو آدھی خدمات کے ساتھ کھلانا ایک خطرناک فیصلہ تھا۔ فوٹو اے ایف پی

ورلڈ کپ شروع ہونے سے پہلے ہی پاکستان کی دوسری وکٹ گرگئی۔ پروفیسر حفیظ کی آدھی خدمات بھی اب ٹیم کو میسر نہیں رہیں۔ پابندی کے باعث ان کی بولنگ سے تو ٹیم ویسے ہی محروم تھی، پنڈلی کی تکلیف نے ان کو پورے ہی ایونٹ سے باہر کردیا ہے۔

حفیظ کی صلاحیتوں پر کسی کو ابہام نہیں، بلاشبہ وہ ایک مکمل آل رائونڈ پیکج کی صورت میں محدود اوورز کے فارمیٹ کے لیے انتہائی اہم کھلاڑی ہیں، لیکن غیرقانونی ایکشن کی وجہ سے بولنگ پر پابندی کے بعد وہ ٹیم کے لئے حقیقی معنوں میں آدھے رہ گئے تھے۔ بطور اسپیشلسٹ بیٹسمین ٹیم میں ان کی موجودگی پر اعتراضات سامنے آتے رہے جس وجہ سے ان پر دباو بھی بہت زیادہ بڑھ گیا تھا۔ اگرچہ نیوزی لینڈ کے خلاف حفیظ نے 80 پلس کی اننگز کھیلی، لیکن اچھے آغاز کو ٹیم کے مفاد میں تبدیل نہیں کرپائے اور پاکستان وہ میچ ہار گیا۔

اگر دیکھا جائے تو حفیظ کو آدھی خدمات کے ساتھ کھلانا ایک خطرناک فیصلہ تھا۔ آسٹریلیا کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں پر انجریز کے باعث شین واٹسن نے کئی مرتبہ بولنگ سے جان چھڑا کر بطور اسپیشلسٹ بیٹسمین کھیلنے کی خواہش ظاہر کی، لیکن ان پر واضح کردیا گیا تھا کہ اگر ان کو آسٹریلوی ٹیم میں اپنی جگہ برقرار رکھنا ہے تو بیٹنگ کے ساتھ بولنگ کرنا پڑے گی ورنہ تو اسپیشلسٹ بیٹسمین اور بہت ہیں۔

حفیظ کی بولنگ پر پابندی کی وجہ سے ٹیم کا بیلنس کافی متاثر ہوا۔ نیوزی لینڈ میں پانچویں بولر کی کمی شدت کے ساتھ محسوس کی گئی۔ 10 اوورز پورے کرنے کیلئے یونس خان، حارث سہیل اور احمد شہزاد سے بولنگ کرائی گئی لیکن تینوں نے مل کر 93 رنز دیئے۔ حفیظ کو بولنگ ٹیسٹ کیلئے آئی سی سی کی جانب سے 6 فروری کی تاریخ ملی مگر پنڈلی پر چوٹ کی وجہ سے وہ بولنگ کا تجزیہ نہیں کراپائے۔ اب تو ڈاکٹروں نے انہیں ایک ماہ آرام کا مشورہ دے دیا ہے، فٹ ہونے کے بعد ہی دوبارہ نئی تاریخ کے لئے آئی سی سی سے رجوع کریں گے۔



فوٹو؛ اے ایف پی

ورلڈ کپ مہم پر نکلی پاکستانی ٹیم کے لئے یہ دوسرا دھچکا ہے۔ اس سے قبل جنید خان بھی انجری کی وجہ سے اسکواڈ سے باہر ہوچکے ہیں۔ فاسٹ بولر کے متبادل کے طور پر راحت علی کا انتخاب ہوا جبکہ حفیظ کی جگہ اب ناصر جمشید کو بھیجا جارہا ہے۔ میگا ایونٹ کے لئے جو ٹیم منتخب کی گئی تھی اس پر کافی شور مچا تھا لیکن متبادل کھلاڑیوں کا انتخاب تو اور بھی حیران کن ہے۔ صرف ایک ون ڈے کھیلنے والے راحت کا انتخاب بورڈ چیئرمین شہریار خان کی خواہش پرعمل میں آیا اور وہ اس بات کا کھل کر اعتراف کرچکے ہیں کہ انہوں نے راحت کو ٹیم کا حصہ بنانے کے لئے اپنے خصوصی اختیارات استعمال کئے۔ اب اگر راحت ورلڈ کپ میں شائقین کرکٹ کو راحت پہنچانے میں ناکام رہتے ہیں تو پھر ذمہ داری براہ راست شہریار خان پر عائد ہوگی اور اگر راحت خود پر کئے جانے والے اعتماد پر پورا اترتے ہیں تو پھر کریڈٹ کے مستحق بھی شہریار ہی ہوں گے۔


جہاں تک ناصر جمشید کا تعلق ہے۔ ان کی صلاحیتوں کا شورو غوغا اس وقت مچا جب وہ 2008 میں زمبابوے کے خلاف ہوم سیریز کی صورت میں سامنے آئے۔ پانچ میچز میں انہوں نے 195 رنز اسکور کئے جس میں دو ففٹیز شامل تھیں۔ اس کا صلہ ایشیا کپ میں شرکت کی صورت میں ملا جس میں انہوں نے بنگلہ دیش اور بھارت کے خلاف ففٹیز اسکور کیں۔ 2009 میں صرف تین میچز کھیلے جس میں آسٹریلیا کے خلاف 9 اور سری لنکا سے دو میچز میں صفر اور ایک رن بنایا۔

یہ وہی سال تھا جس میں وہ کسی اور لڑکے کی جگہ نویں کا امتحان دیتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے اور حوالات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ناصر جمشید کی دوسری اور دھماکہ خیز واپسی 2012 میں ہوئی جب انہوں نے بھارت کے خلاف اس کے اپنے میدانوں پر دو سنچریاں اسکور کیں اور تیسری بنگلہ دیش میں ایشیا کپ کے دوران بنائی۔

2013 کے شروع میں بھارت کے خلاف سنچری کے بعد باقی 30 سے زائد میچز میں ناصر جمشید نے صرف دو ففٹیز اسکور کیں، دونوں ہی ویسٹ انڈیز کے خلاف بنائی۔ اس طرح سال ختم ہونے سے پہلے ہی انہیں ٹیم سے باہر کردیا گیا۔ ناصر جمشید نے تیسری انٹری گزشتہ سال دسمبر میں دی، جب نیوزی لینڈ کے خلاف انہیں آخری دو ون ڈے میچز کھلائے گئے، ایک میں 46 بالز پر 30 رنز بنائے اور دوسرے میں صفر پر آئوٹ ہوئے۔ دونوں مرتبہ ایل بی ڈبلیو ہوئے۔ اب ان کو ورلڈ کپ میں بطور اسپیشلسٹ اوپنر منتخب کرلیا گیا ہے۔

ایشیا سے باہر ناصر جمشید کا ریکارڈ انتہائی مایوس کن ہے، جنوبی افریقہ میں انہوں نے پانچ میچز میں صرف 71 رنز 14.20 کی اوسط سے بنائے ہیں انگلینڈ میں تین میچز میں 31.33 کی ایوریج سے 94 رنز اسکور کئے۔ اعداد وشمار کے لحاظ سے تو ناصر جمشید کا انتخاب بھی ایک خطرناک فیصلہ دکھائی دیتا ہے لیکن چونکہ وہ پہلی مرتبہ ورلڈ کپ کھیل رہے ہیں اس لئے یہ امید بہرحال رکھی جاسکتی ہے کہ اس میں وہ ایک بار پھر ویسا ہی کھیل پیش کرپائیں جس کا مظاہرہ انہوں نے چنئی (ناٹ آئوٹ 101) اور کولکتہ (106 رنز) میں کیا تھا۔ بھارت کے خلاف ان کی عمدہ بیٹنگ کو دیکھتے ہوئے اس بات کا قوی امکان ہے کہ ٹیم مینجمنٹ انہیں براہ راست 15 فروری کو شیڈول روایتی حریف کے خلاف میدان میں اتارے گی۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ وہ خود سے وابستہ توقعات پر کس حد تک پورا اترتے ہیں۔

آسٹریلیاکی کنڈیشنز کافی سخت ہوتی ہیں اور یہاں پر اچھے اچھوں کے چھکے چھوٹ جاتے ہیں۔ حفیظ کا انجرڈ ہونا کسی صورت اچھا شگون نہیں کیونکہ صرف وہی نہیں اور بھی چند کھلاڑی فٹنس مسائل سے دوچار ہیں۔ اس ایونٹ میں سب سے زیادہ توقعات محمد عرفان سے وابستہ ہیں، ٹیم مینجمنٹ کے لئے ان کو احتیاط سے استعمال کرنا بہت بڑا چیلنج ہوگا۔ وہ ماضی میں فٹنس مسائل سے دوچار رہے ہیں اور اس وقت جو بولنگ اٹیک کی پوزیشن ہے اس میں عرفان کا پورے ایونٹ کے دوران مکمل فٹ رہنا اشد ضروری ہے۔ ساتھ ہی وہاب ریاض بھی انجری سے دوچار رہے ہیں۔

صورتحال حقیقت میں کافی گھمبیر ہے۔ معین خان کی عدم موجودگی میں 'چیف سلیکٹر' کی ذمہ داریاں سنبھالنے والے شہریار خان کو ہمارا مشورہ ہے کہ وہ چند اور 'متبادل' کھلاڑیوں کا بندوبست کرلیں ورنہ بے کار میں آسٹریلوی ویزے لگوانے میں وقت ضائع ہوگا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story