مابعد جدید شاعری و تنقید
اردو میں ابھی تک کوئی ایک بھی ایسی تحریر سامنے نہیں آسکی جو اس سوال کا جواب پیش کرتی
اگرچہ جدیدیت اورمابعد جدیدیت کومغرب ہی سے مستعارلیا گیا ہے،لیکن اردوزبان وادب کے تعلق سے ان دونوں کے مابین ایک بنیادی فرق بہرحال موجود ہے: وہ یہ کہ جدیدیت اردو میں صرف تھیوری کی سطح پر ہی موجود نہیں تھی، بلکہ اردو شاعری کا ایک بڑا اور اہم حصہ ایسا ہے جسے جدید شاعری کہا جاسکتا ہے۔ مابعد جدیدیت اس حوالے سے اردو کے تناظر سے کٹی ہوئی ہے کہ اس میں مابعد جدید شاعری کی ایک بھی مثال موجود نہیں ہے۔
اردو شاعری کا ایک بڑا حصہ اپنے تناظر سے جڑا ہوا ہے۔ ایسی شاعری جس میں بے چینی واضطراب،احتجاج، معنی کی تشکیل کا احساس،شناخت کے قیام کی خواہش، مغرب سے مختلف ہونے کا احساس اور تعقلاتی ، فلسفیانہ اورآئیڈیولاجیکل ترجیحات میں فرق جیسے عوامل موجود ہوں، اس پر تجریدی نوعیت کے مابعد جدید تنقیدی نظریات کا اطلاق کرنا، بغیر اس کا جواز پیش کیے،کسی بھی صورت ایک صحت مند اقدام نہیں ہے۔''اوریجنل'' رجحانات اور نظریات صرف اسی صورت میں سامنے آسکتے ہیں اور تفہیم کا عمل بہتر طریقے سے صرف اسی وقت طے پاسکتا ہے جب کسی بھی سماج کی ساخت یا بنیاد اوراس کی آئیڈیولاجیکل اشکال کا اس سماج کی متضادباطنی حرکت کے پیشِ نظر انتہائی محتاط انداز میں مطالعہ کرتے ہوئے نتائج اخذ کیے جائیں۔
کسی ایسے پس ماندہ علاقے کی شاعری کہ جس میں اپنی ثقافت کے مٹ جانے کا المیہ بیان کیا جائے اس کی تفہیم کے لیے ''ترقی یافتہ'' معاشرے میں تشکیل پائے ہوئے کسی ایسے نظریے کا اطلاق کردیا جائے جو شناختوں کے مٹ جانے کے احساس پر فخر محسوس کررہا ہو، کسی صورت بھی ایک عقل مندانہ اقدام نہیں ہے۔ نظریات کو ان کے ظہور کے پس منظر میں پیش کرنے ہی سے ان معاشروں کے اجزائے ترکیبی کی تفہیم کا عمل طے پاسکتا ہے ۔
اردو میں ابھی تک کوئی ایک بھی ایسی تحریر سامنے نہیں آسکی جو اس سوال کا جواب پیش کرتی ہوکہ مابعد جدید شاعری کے خدوخال کیا ہیں اور یہ جدید شاعری سے کیسے مختلف ہے؟نہ ہی اس سوال کا جواب ہی کہیں موجود ہے کہ جب جدید اور مابعد جدید فن و ادب میں تفریق ہی نہیں کی گئی تو مابعد جدید نظریات کے تجریدی اطلاق کا کیا جواز بنتا ہے؟ کیا اردو میں مابعد جدید شاعری لکھی جارہی ہے؟ اس کا جواب بھی بلاشبہ نفی میں ہی دیا جاسکتا ہے۔
مابعد جدید شاعری کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے مابعد جدید تنقید کو سمجھا جائے، کیونکہ مابعد جدید شاعری وہی ہوسکتی ہے جو مابعد جدید تنقید کے وضع کردہ معیار پر پوری اترتی ہو۔ مابعد جدیدیت جن عوامل کا انکارکرتی ہے،اگر شاعری میں ان کا اقرار کیا جارہا ہے تو اسے مابعد جدید شاعری نہیں کہا جا سکتا۔ مابعد جدید تنقید مرکز کی بجائے لامرکز، مآخذ کی جگہ غیر مآخذ، معنی کے برعکس معنی کے التوا اور موجودگی کی بجائے غیر موجودگی پر انحصارکرتی ہے۔ اگر مرکز، مآخذ، معنی اور موجودگی کے اقرارکا عنصر شاعری میں غالب ہے تو اسے مابعد جدید شاعری نہیں کہا جا سکتا۔ مابعد جدید شاعری ان تمام اصول و قواعد (عروض و بحور)سے انحراف کرتی ہے جس سے کلاسیکی، رومانوی یا جدید شاعری کی تشکیل ہوئی تھی۔اس لیے غزل ، پابنداورآزاد نظم وغیرہ کبھی بھی مابعد جدید شاعری کے زمرے میں نہیں آسکتیں۔وجہ یہ کہ مابعد جدید شاعری ہر صورت میں نئے سانچوں میں ڈھلنے کو ترجیح دیتی ہے۔ڈھلنے کا عمل اگر اصول کی تشکیل کررہا ہو ، ایک ایسا اصول جو پہلے سے موجود نہ ہو تو اسے بھی مابعد جدید شاعری کہا جاسکتا ہے۔
لیکن کسی اور تخلیق میں اس اصول کی پیروی نہیں کی جاسکتی ہے۔اصول کی پابندی کسی نہ کسی سطح پر 'غلبے' کو برقرار رکھنے کی خواہش سے جڑی ہوتی ہے۔مابعد جدید شاعری اپنی تفہیم کے لیے وضع کیے گئے ان تمام پیمانوں کے لیے مزاحمت کو جنم دیتی ہے جن میں خیال، تصور اور معنی کی اہمیت پر زور دیا جائے یا علامتوں، تشبیہات اور استعارات کے پس منظر میں سگنی فائڈ کی تشکیل کا احساس موجود ہو۔گمراہی سے بچنے کے لیے معنی کی احتیاج یا اس کے التوا کے احساس کو مغرب کی جدید جامعات میں تشکیل پائے گئے نظریات میں نہیں بلکہ سماجی و ثقافتی پس منظر میں دیکھنا زیادہ ضروری ہے۔ مابعد جدید شاعری میں ترکیبی استعارات اور تصورات سے انحراف کیا جاتا ہے۔ ترکیب کا مطلب ہی ایک سے زیادہ خیالات یاتصورات کو یکجا کرکے ایک اور سطح پر معنی کی تشکیل کرنا ہوتا ہے۔
ارتباط وتشکیل جیسے مقولات میں مابعد جدیدیت کو کوئی دلچسپی نہیں ہے ، ماسوائے اس کے کہ ان کو 'التوا' میں رکھنے کا جواز تلاش کرسکے۔یہی وجہ ہے کہ مابعد جدید شاعری ترکیبی (Synthetic) کے برعکس تحلیلی(Analytic) طریقہ کار اختیار کرتی ہے۔ مابعد جدید شاعری میں بائنری(Binary) کی تشکیل نہیں کی جاتی، کیونکہ بائنری کی تشکیل میں دو متخالف اقدار، خیالات اور تصورات اپنے روایتی پس منظر میں آمنے سامنے ہوتے ہیں، جن میں سے ایک کا احساس بہرحال زیادہ گہرا ہوتا ہے۔معی کی تشکیل کی احتیاج کے قضیے کو سماجی و ثقافتی پس منظر میں ہی طے کیا جاسکتا ہے، نہ کہ یہ دیکھا جائے کہ فرانس اور امریکا کی جامعات میں کونسا اصول تشکیل دیا جارہا ہے اورکب اسے ادھوری تفہیم کے ساتھ مستعار لینا ہے!
کسی بھی نظریے کے حوالے سے گمراہی کے پھیل جانے کا سلسلہ اس وقت طول اختیار کرتا ہے جب اسے اس کے تناظر سے منقطع کرکے پیش کیا جاتا ہے۔ مابعد جدید مفکر مابعد جدیدیت کے حق میں جوازکے طور پر1950 کے بعد کے مغرب کے سماجی، سیاسی اور روشن خیالی نظریات میں وحشت وبربریت اورجنگ و جدل جیسے عوامل کوپیش کرتے ہیں۔ فرانسیسی فلسفی لیوٹارڈ نے 1979 میں جب ''دی پوسٹ ماڈرن کنڈیشن'' شایع کی تو اس کے پہلے ہی فقرے میں یہ واضح کردیا کہ یہ رپورٹ ''انتہائی ترقی یافتہ'' ممالک کے متعلق لکھی جارہی ہے، جس میں چند بنیادی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ ہمارے ہاں نظریات کی قبولیت کا کوئی جواز پیش کرنے کی بجائے انھیں محض فیشن کے طور پر اختیار کرلیا جاتا ہے۔جس سے خود نمائی کے احساس میں مبتلا چند افراد کو ذہنی تسکین تو ملتی ہے مگر نئی نسل میں گمراہی کا احساس شدید تر ہوتا رہتا ہے۔
مابعد جدیدیت دوسری جنگِ عظیم، ہولوکاسٹ، ہیروشیما اور ناگا ساکی پر سامراجی بموں کی برپا کی گئی تباہی کے بعد تمام ''عظیم بیانیوں'' (روشن خیالی اور مسیحیت وغیرہ) کی جانب تشکیک کا اظہار کرتی ہے۔اسی پس منظر میں تشکیل پائے گئے نظریات کی روشنی میں سماجی، سیاسی اور ادبی و شعری متون کو پرکھے جانے کے رجحان کو تقویت ملی ہے۔ واضح رہے کہ یہ سارا عمل مغرب ہی میں طے پایا تھا۔روشن خیال''عظیم بیانیوں'' میں مرکزیت 'انسان' کی تھی۔ فن وادب کے حوالے سے دیکھیں تو یہی مرکزیت 'مصنف' کی تھی۔ ادبی و فنی متن کی تمام تشریحات' مصنف' کے حوالے سے کی جاتی تھیں۔مصنف کے حوالے سے تمام تر تشریحات کا مطلب یہ ہے کہ مصنف 'موجود' ہے، وہ 'مرکز' بھی ہے، وہ معنی پر قادر بھی ہے، معنی پر قدرت کا مطلب یہ ہوا کہ اس میں طاقت مجتمع ہے، شعور اور طاقت ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔
مصنف اور سیاسی رہنما ایک ہی درجے پر فائز تھے۔اس روشن خیال 'انسان' نے جب بیسویں صدی کی ہولناکی اور وحشت برپا کی اور فسطائیت کو پروان چڑھایا تو ان تمام فلسفوں اور نظریات کی جانب تشکیک کا رجحان سامنے آنا لازمی امر تھا۔ یہی تشکیک ہے جومابعد جدیدیت کو اس کے تناظر سے مربوط کرتی ہے۔ ادبی و شعری متن جس میں مصنف کی مرکزیت ہو جو ہر نوعیت کے معنی کو خود تک محدود رکھے وہ ہٹلر اور مسولینی ہی کا مترادف ہے، جو سماجی اور سیاسی متون کی تشریح و تفہیم کا جارحانہ اور متشدد طریقہ کار تشکیل دیتے ہیں۔ یہی وہ پس منظر ہے جس کے تحت مابعد جدیدیت تمام روشن خیال فلسفوں کی تنقید پیش کرتی ہے۔ تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ مابعد جدیدیت کو مغرب میں ہر سطح پر قبول کرلیا گیا ہے۔ لیوٹارڈ کے ''عظیم بیانیوں کی جانب تشکیک'' کے تصور کو امریکا میں ہی فریڈرک جیمی سن اپنی کتاب ''سیاسی لاشعور'' میں مسترد کردیتا ہے۔ اس طرح مابعد جدیدیت کی تفہیم و تشریح کے تعلق سے مباحث کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔
اردو زبان و ادب کی حیثیت اس 'دوسرے' کی ہے جو 'روشن خیالی' میں اپنے 'جوہر' کے تحت داخل نہیں ہوتا ہے،جس کو اس طرح جانا اور سمجھا ہی نہیں گیا جیسا کہ وہ خود میں ہے۔ تناظر سے منقطع مابعد جدید تنقیدی نظریات کااطلاق بھی اسی سلسلے کی ہی ایک کڑی ہے، 'دوسرے' کو اس کی 'شناخت 'سے محروم رکھنے کا ایک وسیلہ اس لیے ہے کہ مابعد جدیدیت جب 'شناخت' کے فلسفے کو چیلنج کرتی ہے تو 'دوسرا' خود بخود اس کے حصار میں آجاتا ہے۔اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے تناظر سے ربط میں رہ کر سماجی، سیاسی اور ادبی و فنی پرتوں کو کھولا جائے۔ خارجی اثرات کا انکار نہیں کیا جاسکتا، مگر اول حیثیت اس شعور کو عطا کی جائے جو ابھی تشکیل کے مرحلے میں ہے اور اپنے اظہار کا خواہاں ہے۔ لاتشکیل کا مرحلہ تو تشکیل کے بعد ہی آتا ہے۔
اردو شاعری کا ایک بڑا حصہ اپنے تناظر سے جڑا ہوا ہے۔ ایسی شاعری جس میں بے چینی واضطراب،احتجاج، معنی کی تشکیل کا احساس،شناخت کے قیام کی خواہش، مغرب سے مختلف ہونے کا احساس اور تعقلاتی ، فلسفیانہ اورآئیڈیولاجیکل ترجیحات میں فرق جیسے عوامل موجود ہوں، اس پر تجریدی نوعیت کے مابعد جدید تنقیدی نظریات کا اطلاق کرنا، بغیر اس کا جواز پیش کیے،کسی بھی صورت ایک صحت مند اقدام نہیں ہے۔''اوریجنل'' رجحانات اور نظریات صرف اسی صورت میں سامنے آسکتے ہیں اور تفہیم کا عمل بہتر طریقے سے صرف اسی وقت طے پاسکتا ہے جب کسی بھی سماج کی ساخت یا بنیاد اوراس کی آئیڈیولاجیکل اشکال کا اس سماج کی متضادباطنی حرکت کے پیشِ نظر انتہائی محتاط انداز میں مطالعہ کرتے ہوئے نتائج اخذ کیے جائیں۔
کسی ایسے پس ماندہ علاقے کی شاعری کہ جس میں اپنی ثقافت کے مٹ جانے کا المیہ بیان کیا جائے اس کی تفہیم کے لیے ''ترقی یافتہ'' معاشرے میں تشکیل پائے ہوئے کسی ایسے نظریے کا اطلاق کردیا جائے جو شناختوں کے مٹ جانے کے احساس پر فخر محسوس کررہا ہو، کسی صورت بھی ایک عقل مندانہ اقدام نہیں ہے۔ نظریات کو ان کے ظہور کے پس منظر میں پیش کرنے ہی سے ان معاشروں کے اجزائے ترکیبی کی تفہیم کا عمل طے پاسکتا ہے ۔
اردو میں ابھی تک کوئی ایک بھی ایسی تحریر سامنے نہیں آسکی جو اس سوال کا جواب پیش کرتی ہوکہ مابعد جدید شاعری کے خدوخال کیا ہیں اور یہ جدید شاعری سے کیسے مختلف ہے؟نہ ہی اس سوال کا جواب ہی کہیں موجود ہے کہ جب جدید اور مابعد جدید فن و ادب میں تفریق ہی نہیں کی گئی تو مابعد جدید نظریات کے تجریدی اطلاق کا کیا جواز بنتا ہے؟ کیا اردو میں مابعد جدید شاعری لکھی جارہی ہے؟ اس کا جواب بھی بلاشبہ نفی میں ہی دیا جاسکتا ہے۔
مابعد جدید شاعری کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے مابعد جدید تنقید کو سمجھا جائے، کیونکہ مابعد جدید شاعری وہی ہوسکتی ہے جو مابعد جدید تنقید کے وضع کردہ معیار پر پوری اترتی ہو۔ مابعد جدیدیت جن عوامل کا انکارکرتی ہے،اگر شاعری میں ان کا اقرار کیا جارہا ہے تو اسے مابعد جدید شاعری نہیں کہا جا سکتا۔ مابعد جدید تنقید مرکز کی بجائے لامرکز، مآخذ کی جگہ غیر مآخذ، معنی کے برعکس معنی کے التوا اور موجودگی کی بجائے غیر موجودگی پر انحصارکرتی ہے۔ اگر مرکز، مآخذ، معنی اور موجودگی کے اقرارکا عنصر شاعری میں غالب ہے تو اسے مابعد جدید شاعری نہیں کہا جا سکتا۔ مابعد جدید شاعری ان تمام اصول و قواعد (عروض و بحور)سے انحراف کرتی ہے جس سے کلاسیکی، رومانوی یا جدید شاعری کی تشکیل ہوئی تھی۔اس لیے غزل ، پابنداورآزاد نظم وغیرہ کبھی بھی مابعد جدید شاعری کے زمرے میں نہیں آسکتیں۔وجہ یہ کہ مابعد جدید شاعری ہر صورت میں نئے سانچوں میں ڈھلنے کو ترجیح دیتی ہے۔ڈھلنے کا عمل اگر اصول کی تشکیل کررہا ہو ، ایک ایسا اصول جو پہلے سے موجود نہ ہو تو اسے بھی مابعد جدید شاعری کہا جاسکتا ہے۔
لیکن کسی اور تخلیق میں اس اصول کی پیروی نہیں کی جاسکتی ہے۔اصول کی پابندی کسی نہ کسی سطح پر 'غلبے' کو برقرار رکھنے کی خواہش سے جڑی ہوتی ہے۔مابعد جدید شاعری اپنی تفہیم کے لیے وضع کیے گئے ان تمام پیمانوں کے لیے مزاحمت کو جنم دیتی ہے جن میں خیال، تصور اور معنی کی اہمیت پر زور دیا جائے یا علامتوں، تشبیہات اور استعارات کے پس منظر میں سگنی فائڈ کی تشکیل کا احساس موجود ہو۔گمراہی سے بچنے کے لیے معنی کی احتیاج یا اس کے التوا کے احساس کو مغرب کی جدید جامعات میں تشکیل پائے گئے نظریات میں نہیں بلکہ سماجی و ثقافتی پس منظر میں دیکھنا زیادہ ضروری ہے۔ مابعد جدید شاعری میں ترکیبی استعارات اور تصورات سے انحراف کیا جاتا ہے۔ ترکیب کا مطلب ہی ایک سے زیادہ خیالات یاتصورات کو یکجا کرکے ایک اور سطح پر معنی کی تشکیل کرنا ہوتا ہے۔
ارتباط وتشکیل جیسے مقولات میں مابعد جدیدیت کو کوئی دلچسپی نہیں ہے ، ماسوائے اس کے کہ ان کو 'التوا' میں رکھنے کا جواز تلاش کرسکے۔یہی وجہ ہے کہ مابعد جدید شاعری ترکیبی (Synthetic) کے برعکس تحلیلی(Analytic) طریقہ کار اختیار کرتی ہے۔ مابعد جدید شاعری میں بائنری(Binary) کی تشکیل نہیں کی جاتی، کیونکہ بائنری کی تشکیل میں دو متخالف اقدار، خیالات اور تصورات اپنے روایتی پس منظر میں آمنے سامنے ہوتے ہیں، جن میں سے ایک کا احساس بہرحال زیادہ گہرا ہوتا ہے۔معی کی تشکیل کی احتیاج کے قضیے کو سماجی و ثقافتی پس منظر میں ہی طے کیا جاسکتا ہے، نہ کہ یہ دیکھا جائے کہ فرانس اور امریکا کی جامعات میں کونسا اصول تشکیل دیا جارہا ہے اورکب اسے ادھوری تفہیم کے ساتھ مستعار لینا ہے!
کسی بھی نظریے کے حوالے سے گمراہی کے پھیل جانے کا سلسلہ اس وقت طول اختیار کرتا ہے جب اسے اس کے تناظر سے منقطع کرکے پیش کیا جاتا ہے۔ مابعد جدید مفکر مابعد جدیدیت کے حق میں جوازکے طور پر1950 کے بعد کے مغرب کے سماجی، سیاسی اور روشن خیالی نظریات میں وحشت وبربریت اورجنگ و جدل جیسے عوامل کوپیش کرتے ہیں۔ فرانسیسی فلسفی لیوٹارڈ نے 1979 میں جب ''دی پوسٹ ماڈرن کنڈیشن'' شایع کی تو اس کے پہلے ہی فقرے میں یہ واضح کردیا کہ یہ رپورٹ ''انتہائی ترقی یافتہ'' ممالک کے متعلق لکھی جارہی ہے، جس میں چند بنیادی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ ہمارے ہاں نظریات کی قبولیت کا کوئی جواز پیش کرنے کی بجائے انھیں محض فیشن کے طور پر اختیار کرلیا جاتا ہے۔جس سے خود نمائی کے احساس میں مبتلا چند افراد کو ذہنی تسکین تو ملتی ہے مگر نئی نسل میں گمراہی کا احساس شدید تر ہوتا رہتا ہے۔
مابعد جدیدیت دوسری جنگِ عظیم، ہولوکاسٹ، ہیروشیما اور ناگا ساکی پر سامراجی بموں کی برپا کی گئی تباہی کے بعد تمام ''عظیم بیانیوں'' (روشن خیالی اور مسیحیت وغیرہ) کی جانب تشکیک کا اظہار کرتی ہے۔اسی پس منظر میں تشکیل پائے گئے نظریات کی روشنی میں سماجی، سیاسی اور ادبی و شعری متون کو پرکھے جانے کے رجحان کو تقویت ملی ہے۔ واضح رہے کہ یہ سارا عمل مغرب ہی میں طے پایا تھا۔روشن خیال''عظیم بیانیوں'' میں مرکزیت 'انسان' کی تھی۔ فن وادب کے حوالے سے دیکھیں تو یہی مرکزیت 'مصنف' کی تھی۔ ادبی و فنی متن کی تمام تشریحات' مصنف' کے حوالے سے کی جاتی تھیں۔مصنف کے حوالے سے تمام تر تشریحات کا مطلب یہ ہے کہ مصنف 'موجود' ہے، وہ 'مرکز' بھی ہے، وہ معنی پر قادر بھی ہے، معنی پر قدرت کا مطلب یہ ہوا کہ اس میں طاقت مجتمع ہے، شعور اور طاقت ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔
مصنف اور سیاسی رہنما ایک ہی درجے پر فائز تھے۔اس روشن خیال 'انسان' نے جب بیسویں صدی کی ہولناکی اور وحشت برپا کی اور فسطائیت کو پروان چڑھایا تو ان تمام فلسفوں اور نظریات کی جانب تشکیک کا رجحان سامنے آنا لازمی امر تھا۔ یہی تشکیک ہے جومابعد جدیدیت کو اس کے تناظر سے مربوط کرتی ہے۔ ادبی و شعری متن جس میں مصنف کی مرکزیت ہو جو ہر نوعیت کے معنی کو خود تک محدود رکھے وہ ہٹلر اور مسولینی ہی کا مترادف ہے، جو سماجی اور سیاسی متون کی تشریح و تفہیم کا جارحانہ اور متشدد طریقہ کار تشکیل دیتے ہیں۔ یہی وہ پس منظر ہے جس کے تحت مابعد جدیدیت تمام روشن خیال فلسفوں کی تنقید پیش کرتی ہے۔ تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ مابعد جدیدیت کو مغرب میں ہر سطح پر قبول کرلیا گیا ہے۔ لیوٹارڈ کے ''عظیم بیانیوں کی جانب تشکیک'' کے تصور کو امریکا میں ہی فریڈرک جیمی سن اپنی کتاب ''سیاسی لاشعور'' میں مسترد کردیتا ہے۔ اس طرح مابعد جدیدیت کی تفہیم و تشریح کے تعلق سے مباحث کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔
اردو زبان و ادب کی حیثیت اس 'دوسرے' کی ہے جو 'روشن خیالی' میں اپنے 'جوہر' کے تحت داخل نہیں ہوتا ہے،جس کو اس طرح جانا اور سمجھا ہی نہیں گیا جیسا کہ وہ خود میں ہے۔ تناظر سے منقطع مابعد جدید تنقیدی نظریات کااطلاق بھی اسی سلسلے کی ہی ایک کڑی ہے، 'دوسرے' کو اس کی 'شناخت 'سے محروم رکھنے کا ایک وسیلہ اس لیے ہے کہ مابعد جدیدیت جب 'شناخت' کے فلسفے کو چیلنج کرتی ہے تو 'دوسرا' خود بخود اس کے حصار میں آجاتا ہے۔اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے تناظر سے ربط میں رہ کر سماجی، سیاسی اور ادبی و فنی پرتوں کو کھولا جائے۔ خارجی اثرات کا انکار نہیں کیا جاسکتا، مگر اول حیثیت اس شعور کو عطا کی جائے جو ابھی تشکیل کے مرحلے میں ہے اور اپنے اظہار کا خواہاں ہے۔ لاتشکیل کا مرحلہ تو تشکیل کے بعد ہی آتا ہے۔