مرگ انبوہ ہولوکاسٹ دوسرا حصہ
تاریخ سے شغف ہونے کے سبب میری دلچسپی ان واقعات و اقوام یا شخصیات پر مرکوز رہتی ہیں جوغیرمعمولی ہوں،
مرگِ انبوہ (ہولوکاسٹ) کو مکمل سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس کے تمام تاریخی پہلوؤں کا غیرجانبدار ہوکر مطالعہ کریں ۔تاریخ کے طالب علم کے لیے مرگِ انبوہ (ہولو کاسٹ) نیا نہیں ہے لیکن اخبارات ومیڈیا جس میں خاص طور پرالیکڑونک میڈیا، مرگِ انبوہ (ہولو کاسٹ) پر معلومات کی فراہمی وآگاہی میں کم توجہ دیتا ہے ۔
تاریخ سے شغف ہونے کے سبب میری دلچسپی ان واقعات و اقوام یا شخصیات پر مرکوز رہتی ہیں جوغیرمعمولی ہوں،اس لیے تاریخی حوالے جات پر اپنی رائے مسلط کرنے کے بجائے زیادہ مناسب سمجھتی ہوں کہ قارئین تاریخ کے اُن ابواب سے واقف ہوسکیں جن کے بارے وہ سنتے تو رہے ہیں لیکن مکمل آگاہ نہیں ہیں، ہمارے بیشتر سیاست دان ومذہبی رہنما بھی اپنی تقاریر میں مرگ انبوہ (ہولو کاسٹ) کے حوالے سے مغرب پر تنقید ضرور کرتے ہیں کہ اظہار رائے کی آزادی میں مغربی میڈیا اور مملکتیں دہرے معیار اختیارکرتی ہیں لیکن دراصل ہولوکاسٹ ہے کیا ، اس کے لیے صرف تاریخ کے طالب علم دلچسپی رکھتے ہیں۔
عام عوام ہولوکاسٹ سے قطعی واقف نہیں ہوتے ، حالانکہ ہمیں ان خطوط و آرا پر رائے قائم کرنی چاہیے جس کے بارے میں کچھ ''پوشیدہ '' رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہو۔ مسلم ممالک بھی اپنے سرکاری یا غیرسرکاری میڈیا میں ایسے مواد کو شایع کرنے میں محتاط نظرآتے ہیں، شاید اس کی وجہ سفارتی ڈر و خوف ہو، جوممکنہ طور پر انھیں سرکاری سطح پر حقائق لانے سے روکتا ہو،جب معاملہ کشمیر یا فلسطین کا ہو تو سرکاری میڈیا اسے مکمل پوائنٹ اسکورنگ کے طور پراستعمال کرتا ہے لیکن جب معاملہ مسلم امہ کا ہو،مجموعی مفادات آڑے آجاتے ہیں۔دشنامی جریدے کی جانب سے گستاخانہ خاکوں پر ہولوکاسٹ کا پہلا بیان تحریک انصاف کی جانب سے عمران خان نے دیا ،کیونکہ وہ مغرب میں پڑھے ہوئے ہیں اس لیے وہ ہولوکاسٹ کو سمجھتے ہیں لیکن انھوں اوران کی جماعت نے اس کی مکمل تشریح نہیں کی،ہرایشو پر بات کرنے والی متحدہ قومی موومنٹ نے بھی اس لیے چپ سادھ لی کیونکہ ان کے سربراہ برطانیہ میں ہے اور ہولوکاسٹ پر بات نہیں کی جاسکتی ۔
اصل اظہار رائے یہی ہے کہ آپ کھل کر کسی پر دلائل کے ساتھ تنقیدکریں یا کسی کے کام کی غیر جانبدارہوکر تعریف کریں ۔مرگ انبوہ (ہولو کاسٹ) ایک بہت وسیع مضمون ہے ، ہم انسانوں کو پڑھتے ہیں، ان کے دماغ اپنے پروفیشن کی وجہ سے میرے لیے ایک کھلی کتاب کے مانند ہوتا ہے ، ہم زندہ انسانوں کے ساتھ دماغی طور پر مرنے والوں کا مطالعہ کرنے کے باوجود ہمیں اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ ہم نے جتنا بھی پڑھا وہ انسان کی زندگی کی کتاب کی پہلی سطر بھی نہیں ہے۔
مشہور امریکی قلم کار لکھتے کہ جرمنی ایک 'قتل گاہ' بن چکا ہے ان کے نزدیک ملک کی تمام افسر شاہی اس قتل عام میں کسی نہ کسی طرح ملوث تھی، بستی کے کلیساؤں اور وزرات داخلہ کے ریکارڈ سے یہ پتہ لگا لیا جاتا تھا کہ یہودی کون ہے ؟مائیکل بیر ینبون لکھتا ہے کہ'' یہودیوں کے سوال کا حتمی حل'' جرمنی کی نظر میں یہودیوں کی نسل کشی 'جرمنی کا عظیم ترین کارنامہ' ہے۔امریکن نژاد یہودی مورخ ساؤل فرائیڈر لکھتا ہے کہ ''کسی ایک سماجی گروہ ، مذہبی جماعت،تعلیمی ادارے یا پیشہ ورانہ اتحادیوں نے اس موقعے پر یہودیوں سے باہمی تعاون کا اظہار نہیں کیا۔
وہ مزید لکھتا ہے کہ علاقائی مسیحی کلسیاؤں نے یہ اعلان کیا کہ وہ یہودی جو کہ اپنے دین کوچھوڑ چکے ہیں، اُن کو مسیحیوں میں شمارکیا جائے لیکن وہ بھی ایک حد تک۔اس موضوع پر فرائیڈر لینڈر لکھتا ہے کہ مرگِ انبوہ کی ہولناکی بڑھنے کی وجہ یہودی سے نفرت پر مبنی حکمت عملی تھی جس کی بدولت امدادی ٹیموں اور تنظیموں کی مداخلت ( جوکہ تقریباً ہر مہذب معاشرے میں ہوتی ہے) کے بغیر تمام صنعتوں ، چھوٹے تجارتی اداروں، کلیساؤں کے اشتراک سے یہودیوں کے خلاف اتنی بڑی کارروائی ممکن ہوسکی۔''
یہودا باؤ ر( 2002 ء) مرگ ِانبوہ پر ایک نظر، نیوہون ناشر جامعہ یالے کے صفحہ 48 میں لکھا ہے کہ'' مرگِ انبوہ(ہولوکاسٹ) کا محرک خالصتاً نظریاتی تھا ، جس کی بنیاد نازیوں کی تصوراتی دنیا تھی،جہاں ایک عالمی یہودی سازش دنیا پرحکومت کرنے کے درپے تھی اور نازی اس کے مقابلے میں ایک مقدس جنگ لڑرہے تھے ۔نسل کشی کی تاریخ میں آج تک کوئی بھی نسل کشی فرضی حکایات اور فریب خیالات کی بنیاد پر نہیں کی گئی ، انتہائی بے بنیاد،کبیدہ خاطر نظریہ،جس پر بڑے منظم انداز میں نتائج سے بے نیاز ہوکر عمل کیا گیا۔اب اس حوالے سے مرگِ انبوہ(ہولوکاسٹ) میں ہلاک کیے جانے والوں کے دعوے کو دیکھتے ہیں ، جس کے تئیں ، نازیوں کے زیر نگیں تما م علاقوں میںمذبح خانے تھے ، جہاں انسانی ذبیحہ کیا جاتا تھا اب ان علاقوں میں 35 مختلف یورپی ممالک موجود ہیں ۔
وہ وسطی اور مشرقی یورپ کے لیے بدترین وقت تھا ، 1939 یورپ میں تقریباََ ستر لاکھ یہودی آبادی بتائے جاتے تھے ، جن میں تقریباََ پچاس لاکھ یہودیوں کے مارے جانے کا دعوی کیا گیا۔جس میں سے تیس لاکھ پولینڈ میں ، دس لاکھ سوویت یونین میں ، اس کے علاوہ لاکھوں یہودیوں کونیدرلینڈز، فرانس،بلجیئم ، یوگوسلاویہ اور یونان میں قتل کیے گئے ، وانسی پروٹوکول نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ وہ''یہودیوں کے سوال کا حتمی جواب'' کا یہ مشن انگلینڈ اور آئرلینڈ میں بھی کرنا چاہتے تھے۔
یہ دعوی بھی کیا جاتا ہے کہ ہر انسان کی نسل کشی کردی جاتی تھی کس کی تین نسلوں میں کوئی یہودی رہ چکا تھا ، نسل کشی کے دوسرے واقعات میں لوگوں کی جان بچانے کے لیے مذہب تبدیل کردینے یا کسی دوسرے مذہب کو قبول کرنے پر جان بخشی کردی جاتی لیکن مرگِ انبوہ(ہولو کاسٹ) کے دوران مقبوضہ یورپ کے یہودیوں کے لیے یہ گنجائش بھی نہیں تھی۔جرمنی کے زیر تسلط علاقوں میں یہودیوں سے نسب کے حامل تمام اشخاص کو نسل کشی کے نام پر قتل کیے جانے کے دعوے کیے جاتے ہیں۔
عام طور پر ساٹھ لاکھ یہودیوں کی ہلاکت کا اندازہ بھی ایڈولف اچمین ( نازیوں کے اہم افسر، جن کو مرگِ انبوہ(ہولو کاسٹ) کا منصوبہ ساز کہا جاتا ہے ) کے بیان کو بنیاد بنا کر لگایا جاتا ہے۔امریکی مورخ اور سائنس دان راؤل ہلبگ کے پیش ابتدائی اعداد وشمار کے مطابق یہ تعداد اکیاون لاکھ تھی،جوکہ بعد میں جیکب لیس کیسنکی کے پیش کردہ اعدادوشمار کے بعد انسٹھ لاکھ پچاس ہزارہوگئے۔ اس کے بعد یسرائیل گٹمین اور روبرٹ روزٹ نے مرگِ انبوہ(ہولو کاسٹ) کا ایک دائرۃ المعارف مرتب کیا اور اس میں یہودیوں کی ہلاکتیں پچپن لاکھ انسٹھ ہزار سے اٹھاون لاکھ ساٹھ بتائی گئی،تاہم ٹیکنکل جامعہ برلن کے وولف غینگ بینز کی تحقیق کے مطابق باون لاکھ نوے ہزار سے باسٹھ لاکھ کے درمیان تھی ، یادوشم کے مطابق اس میں مرگِ انبوہ(ہولو کاسٹ) کا شکار ہونے والے تقریباََ چالیس لاکھ افراد کے نام ہیں ، ہلبرگ کے مطابق یورپی یہودیوں کی تباہی کے تیسرے حصے میں یہ تعداد اکیاون لاکھ تک پہنچ گئی ۔
تاہم ہلبرگ کے مرتب کردہ ان اعداد وشمار کو قدامت پسندانہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس میں صرف اُن اموات کو شمار کیا گیا ہے جن کے متعلق ریکارڈز موجود ہیں ، تاہم مارٹن کے مطابق ہلاک ہونے والوں یہودیوں کی تعداد ستاون لاکھ پچاس ہزار تھی ، لوسی ڈیوڈاش نے جنگ سے پہلے کی مردم شماری کے اعداد وشمار کی مدد سے اُس وقت اسی لاکھ چونتیس یہودیوں کی ہلاکت کا اندازہ لگایا۔تاہم اس حوالے سے مرگِ انبوہ(ہولو کاسٹ) کے دوران ہونے والی ہلاکتوں کے صیحح اعداد و شمار تو دستیاب نہیں ہوسکے تاہم اس وقت کے اعداد وشمار کے مطابق اندازوں کی بنیاد پر متاثرین و ہلاکتوں کو شمارکیا گیا اگر یہودیوں کو مرگِ انبوہ(ہولو کاسٹ) کا نشانہ تسلیم کرلیا جائے تو مختلف اعداد وشمار ملاکر ہلاکتوں کا تخمینہ تقریباََ ایک کروڑ دس لاکھ بتایا جاتا ہے جب کہ مرگِ انبوہ(ہولو کاسٹ) کی وسیع تر تعریف کرکے اگر اس مین سوویت یونین کے عام شہریوں کی ہلاکت کو بھی شامل کرلیا جائے تو یہ تعداد ایک کروڑ ستر لاکھ تک چلی جاتی ہے۔
(جاری ہے)
تاریخ سے شغف ہونے کے سبب میری دلچسپی ان واقعات و اقوام یا شخصیات پر مرکوز رہتی ہیں جوغیرمعمولی ہوں،اس لیے تاریخی حوالے جات پر اپنی رائے مسلط کرنے کے بجائے زیادہ مناسب سمجھتی ہوں کہ قارئین تاریخ کے اُن ابواب سے واقف ہوسکیں جن کے بارے وہ سنتے تو رہے ہیں لیکن مکمل آگاہ نہیں ہیں، ہمارے بیشتر سیاست دان ومذہبی رہنما بھی اپنی تقاریر میں مرگ انبوہ (ہولو کاسٹ) کے حوالے سے مغرب پر تنقید ضرور کرتے ہیں کہ اظہار رائے کی آزادی میں مغربی میڈیا اور مملکتیں دہرے معیار اختیارکرتی ہیں لیکن دراصل ہولوکاسٹ ہے کیا ، اس کے لیے صرف تاریخ کے طالب علم دلچسپی رکھتے ہیں۔
عام عوام ہولوکاسٹ سے قطعی واقف نہیں ہوتے ، حالانکہ ہمیں ان خطوط و آرا پر رائے قائم کرنی چاہیے جس کے بارے میں کچھ ''پوشیدہ '' رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہو۔ مسلم ممالک بھی اپنے سرکاری یا غیرسرکاری میڈیا میں ایسے مواد کو شایع کرنے میں محتاط نظرآتے ہیں، شاید اس کی وجہ سفارتی ڈر و خوف ہو، جوممکنہ طور پر انھیں سرکاری سطح پر حقائق لانے سے روکتا ہو،جب معاملہ کشمیر یا فلسطین کا ہو تو سرکاری میڈیا اسے مکمل پوائنٹ اسکورنگ کے طور پراستعمال کرتا ہے لیکن جب معاملہ مسلم امہ کا ہو،مجموعی مفادات آڑے آجاتے ہیں۔دشنامی جریدے کی جانب سے گستاخانہ خاکوں پر ہولوکاسٹ کا پہلا بیان تحریک انصاف کی جانب سے عمران خان نے دیا ،کیونکہ وہ مغرب میں پڑھے ہوئے ہیں اس لیے وہ ہولوکاسٹ کو سمجھتے ہیں لیکن انھوں اوران کی جماعت نے اس کی مکمل تشریح نہیں کی،ہرایشو پر بات کرنے والی متحدہ قومی موومنٹ نے بھی اس لیے چپ سادھ لی کیونکہ ان کے سربراہ برطانیہ میں ہے اور ہولوکاسٹ پر بات نہیں کی جاسکتی ۔
اصل اظہار رائے یہی ہے کہ آپ کھل کر کسی پر دلائل کے ساتھ تنقیدکریں یا کسی کے کام کی غیر جانبدارہوکر تعریف کریں ۔مرگ انبوہ (ہولو کاسٹ) ایک بہت وسیع مضمون ہے ، ہم انسانوں کو پڑھتے ہیں، ان کے دماغ اپنے پروفیشن کی وجہ سے میرے لیے ایک کھلی کتاب کے مانند ہوتا ہے ، ہم زندہ انسانوں کے ساتھ دماغی طور پر مرنے والوں کا مطالعہ کرنے کے باوجود ہمیں اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ ہم نے جتنا بھی پڑھا وہ انسان کی زندگی کی کتاب کی پہلی سطر بھی نہیں ہے۔
مشہور امریکی قلم کار لکھتے کہ جرمنی ایک 'قتل گاہ' بن چکا ہے ان کے نزدیک ملک کی تمام افسر شاہی اس قتل عام میں کسی نہ کسی طرح ملوث تھی، بستی کے کلیساؤں اور وزرات داخلہ کے ریکارڈ سے یہ پتہ لگا لیا جاتا تھا کہ یہودی کون ہے ؟مائیکل بیر ینبون لکھتا ہے کہ'' یہودیوں کے سوال کا حتمی حل'' جرمنی کی نظر میں یہودیوں کی نسل کشی 'جرمنی کا عظیم ترین کارنامہ' ہے۔امریکن نژاد یہودی مورخ ساؤل فرائیڈر لکھتا ہے کہ ''کسی ایک سماجی گروہ ، مذہبی جماعت،تعلیمی ادارے یا پیشہ ورانہ اتحادیوں نے اس موقعے پر یہودیوں سے باہمی تعاون کا اظہار نہیں کیا۔
وہ مزید لکھتا ہے کہ علاقائی مسیحی کلسیاؤں نے یہ اعلان کیا کہ وہ یہودی جو کہ اپنے دین کوچھوڑ چکے ہیں، اُن کو مسیحیوں میں شمارکیا جائے لیکن وہ بھی ایک حد تک۔اس موضوع پر فرائیڈر لینڈر لکھتا ہے کہ مرگِ انبوہ کی ہولناکی بڑھنے کی وجہ یہودی سے نفرت پر مبنی حکمت عملی تھی جس کی بدولت امدادی ٹیموں اور تنظیموں کی مداخلت ( جوکہ تقریباً ہر مہذب معاشرے میں ہوتی ہے) کے بغیر تمام صنعتوں ، چھوٹے تجارتی اداروں، کلیساؤں کے اشتراک سے یہودیوں کے خلاف اتنی بڑی کارروائی ممکن ہوسکی۔''
یہودا باؤ ر( 2002 ء) مرگ ِانبوہ پر ایک نظر، نیوہون ناشر جامعہ یالے کے صفحہ 48 میں لکھا ہے کہ'' مرگِ انبوہ(ہولوکاسٹ) کا محرک خالصتاً نظریاتی تھا ، جس کی بنیاد نازیوں کی تصوراتی دنیا تھی،جہاں ایک عالمی یہودی سازش دنیا پرحکومت کرنے کے درپے تھی اور نازی اس کے مقابلے میں ایک مقدس جنگ لڑرہے تھے ۔نسل کشی کی تاریخ میں آج تک کوئی بھی نسل کشی فرضی حکایات اور فریب خیالات کی بنیاد پر نہیں کی گئی ، انتہائی بے بنیاد،کبیدہ خاطر نظریہ،جس پر بڑے منظم انداز میں نتائج سے بے نیاز ہوکر عمل کیا گیا۔اب اس حوالے سے مرگِ انبوہ(ہولوکاسٹ) میں ہلاک کیے جانے والوں کے دعوے کو دیکھتے ہیں ، جس کے تئیں ، نازیوں کے زیر نگیں تما م علاقوں میںمذبح خانے تھے ، جہاں انسانی ذبیحہ کیا جاتا تھا اب ان علاقوں میں 35 مختلف یورپی ممالک موجود ہیں ۔
وہ وسطی اور مشرقی یورپ کے لیے بدترین وقت تھا ، 1939 یورپ میں تقریباََ ستر لاکھ یہودی آبادی بتائے جاتے تھے ، جن میں تقریباََ پچاس لاکھ یہودیوں کے مارے جانے کا دعوی کیا گیا۔جس میں سے تیس لاکھ پولینڈ میں ، دس لاکھ سوویت یونین میں ، اس کے علاوہ لاکھوں یہودیوں کونیدرلینڈز، فرانس،بلجیئم ، یوگوسلاویہ اور یونان میں قتل کیے گئے ، وانسی پروٹوکول نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ وہ''یہودیوں کے سوال کا حتمی جواب'' کا یہ مشن انگلینڈ اور آئرلینڈ میں بھی کرنا چاہتے تھے۔
یہ دعوی بھی کیا جاتا ہے کہ ہر انسان کی نسل کشی کردی جاتی تھی کس کی تین نسلوں میں کوئی یہودی رہ چکا تھا ، نسل کشی کے دوسرے واقعات میں لوگوں کی جان بچانے کے لیے مذہب تبدیل کردینے یا کسی دوسرے مذہب کو قبول کرنے پر جان بخشی کردی جاتی لیکن مرگِ انبوہ(ہولو کاسٹ) کے دوران مقبوضہ یورپ کے یہودیوں کے لیے یہ گنجائش بھی نہیں تھی۔جرمنی کے زیر تسلط علاقوں میں یہودیوں سے نسب کے حامل تمام اشخاص کو نسل کشی کے نام پر قتل کیے جانے کے دعوے کیے جاتے ہیں۔
عام طور پر ساٹھ لاکھ یہودیوں کی ہلاکت کا اندازہ بھی ایڈولف اچمین ( نازیوں کے اہم افسر، جن کو مرگِ انبوہ(ہولو کاسٹ) کا منصوبہ ساز کہا جاتا ہے ) کے بیان کو بنیاد بنا کر لگایا جاتا ہے۔امریکی مورخ اور سائنس دان راؤل ہلبگ کے پیش ابتدائی اعداد وشمار کے مطابق یہ تعداد اکیاون لاکھ تھی،جوکہ بعد میں جیکب لیس کیسنکی کے پیش کردہ اعدادوشمار کے بعد انسٹھ لاکھ پچاس ہزارہوگئے۔ اس کے بعد یسرائیل گٹمین اور روبرٹ روزٹ نے مرگِ انبوہ(ہولو کاسٹ) کا ایک دائرۃ المعارف مرتب کیا اور اس میں یہودیوں کی ہلاکتیں پچپن لاکھ انسٹھ ہزار سے اٹھاون لاکھ ساٹھ بتائی گئی،تاہم ٹیکنکل جامعہ برلن کے وولف غینگ بینز کی تحقیق کے مطابق باون لاکھ نوے ہزار سے باسٹھ لاکھ کے درمیان تھی ، یادوشم کے مطابق اس میں مرگِ انبوہ(ہولو کاسٹ) کا شکار ہونے والے تقریباََ چالیس لاکھ افراد کے نام ہیں ، ہلبرگ کے مطابق یورپی یہودیوں کی تباہی کے تیسرے حصے میں یہ تعداد اکیاون لاکھ تک پہنچ گئی ۔
تاہم ہلبرگ کے مرتب کردہ ان اعداد وشمار کو قدامت پسندانہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس میں صرف اُن اموات کو شمار کیا گیا ہے جن کے متعلق ریکارڈز موجود ہیں ، تاہم مارٹن کے مطابق ہلاک ہونے والوں یہودیوں کی تعداد ستاون لاکھ پچاس ہزار تھی ، لوسی ڈیوڈاش نے جنگ سے پہلے کی مردم شماری کے اعداد وشمار کی مدد سے اُس وقت اسی لاکھ چونتیس یہودیوں کی ہلاکت کا اندازہ لگایا۔تاہم اس حوالے سے مرگِ انبوہ(ہولو کاسٹ) کے دوران ہونے والی ہلاکتوں کے صیحح اعداد و شمار تو دستیاب نہیں ہوسکے تاہم اس وقت کے اعداد وشمار کے مطابق اندازوں کی بنیاد پر متاثرین و ہلاکتوں کو شمارکیا گیا اگر یہودیوں کو مرگِ انبوہ(ہولو کاسٹ) کا نشانہ تسلیم کرلیا جائے تو مختلف اعداد وشمار ملاکر ہلاکتوں کا تخمینہ تقریباََ ایک کروڑ دس لاکھ بتایا جاتا ہے جب کہ مرگِ انبوہ(ہولو کاسٹ) کی وسیع تر تعریف کرکے اگر اس مین سوویت یونین کے عام شہریوں کی ہلاکت کو بھی شامل کرلیا جائے تو یہ تعداد ایک کروڑ ستر لاکھ تک چلی جاتی ہے۔
(جاری ہے)