خیر تم نے تو بے وفائی کی
بھارت دراصل سوا ارب لوگوں کی آبادی کا ملک ہے اور یہی وجہ اس کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے
بلاشبہ صدر اوباما کا دورہ ہند اس جوش و جذبے سے معمور ہے جو دونوں حکومتوں کے درمیان کچھ عرصے سے محسوس کیا جارہا تھا۔ نتیجہ کار بہت سے دفاعی معاہدوں پر دستخط ہوگئے۔ بظاہر دونوں اطراف سے تعلقات کے شاندار مستقبل کے دعوے بھی کیے جا رہے ہیں۔ جن کی تکمیل کی امید علاقائی،جغرافیائی اور بین الاقوامی صورتحال سے کی جاسکتی ہے۔
میرا خیال ہے کہ اب اس امرمیں کسی کو شبہ نہیں ہوناچاہیے کہ امریکا علاقے میں بھارت کی بالادستی کا خواہش مند ہے اورچائنا کے مقابلے میں یا اس کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت کے مقابل بھارت کوکھڑا کرنا چاہتا ہے۔ لہٰذا اپنے ایک بیان میں امریکی صدر کا پاکستان کو ہدف تنقید بنانا بعید از قیاس نہیں تھا۔ کیونکہ بھارت کو خوش کرنے کا کسی کے بھی پاس اس سے عمدہ حربہ ہو ہی نہیں سکتا کہ آپ پاکستان کی برائی شروع کردیں۔
وہ راضی ہوجاتے ہیں۔ صدر اوباما اپنی شخصیت اور ملکی پالیسیوں کے تناظر میں خاصے محتاط شخص ہیں۔ لیکن کیا کریں؟ جب دوسرا سننا ہی صرف ایک بات چاہتا ہو لہٰذا انھیں کہنا پڑا۔ دہشت گردی کے حوالے سے، ممبئی حملوں کے حوالے سے اور سانحہ پشاور کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے پاکستان پر کڑی تنقید کی۔ بھارت کے سلامتی کونسل کا رکن بننے پر اپنی حمایت کا اعادہ کیا، لیکن مسئلہ اس گھوڑے کا ہے جسے گھڑ دوڑ میں دوڑنا ہے۔ آپ لاکھ اس پر شرط لگالیں۔ اسے کھلا پلا لیں۔ دوڑنا اور جیتنا تو اس کو پڑے گا۔ اور اس حوالے سے میں صدر اوباما کے دورہ بھارت سے حاصل ہونے والے مثبت نتائج پر حکومتی حلقوں کی طرح زیادہ بے چین نہیں۔
بھارت دراصل سوا ارب لوگوں کی آبادی کا ملک ہے اور یہی وجہ اس کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔یہ مان لینے کے باوجود بھی کہ اب بھارت ترقی کی دوڑ میں ہم سے کہیں آگے ہے اور IMFکی حالیہ رپورٹ کہ بھارت 2015 میں اپنی تیزی سے بڑھتی ہوئی جی ڈی پی کی شرح سے چین کو کراس کر جائے گا میری بات کے حق میں دلیل ہے۔ لیکن میں پھر بھی اصرار کرتا ہوں کہ بھارت میں رہنے بسنے والے لوگ ایک مثالی Nationalismسے محروم ہیں بلکہ وہ بہت سے تحفظات کا شکار ہیں۔
میں نے کئی مرتبہ بھارت کا دورہ کیا اور مہینوں تک اس کی ترقی، معیشت، انڈسٹری، انڈسٹری لسٹ، تعلیم، صحت، انصاف، میونسپل سروسز کا قریب سے جائزہ لیا اور مجھے صاف محسوس ہوا کہ وہاں اگر ترقی کی رفتار بہتر ہوئی ہے تو بہت سے صوبوں میں احساس محرومی، ذات پات کے الجھے ہوئے نظام اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم پر بے چینی کی رفتار میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے بلکہ کئی علاقے دیکھنے کے بعد تو احساس ہوا کہ ترقی شاید رک گئی ہے۔
بہرحال یہ اتفاق کہ ایک ہی وقت میں چینی فوج کے سربراہ پاکستان کے دورے پر ہیں۔ اور امریکی صدر اوباما بھارت کے دورے پر بھی خوب ہے اور شاید مستقبل کی ایک جھلک بھی۔ معاملہ نازک ہے۔ حکومت کو بہت دیکھ بھال کر قدم اٹھانے ہوں گے اور بھائی ایک موٹی سی بات تو یہ ہے کہ ''امریکا قابل بھروسہ دوست نہیں۔'' لیکن کوئی دانا دشمن قرار دے یہ بھی درست نہیں۔ دراصل اپنے مفادات اور معاملات کو مدنظر رکھ کر خارجہ پالیسی تشکیل دینی چاہیے۔
بجائے اس کے کہ کوئی وزیر اعظم یہ دعویٰ کرے کہ اس کی اور بل کلنٹن کی Families میں تعلقات قریبی نوعیت کے ہیں یا کوئی صدر، صدر امریکا سے گہرے اور ذاتی مراسم کے قصے سنائے۔آپ ایک ملک کے سربراہ ہیں۔ 20 کروڑ عوام کے نمایندے ہیں تو آپ کو سوچنا بھی سبھی کے اذہان سے ہوگا۔ دیکھنا بھی سبھی کی بینائی سے ہوگا اور فیصلے بھی سبھی کے مفاد کو لے کر کرنے ہوں گے۔شاید وقت آگیا ہے کہ آپ امریکا یا چائنا میں سے کسی ایک کو مستقبل کے شریک سفر کی حیثیت سے منتخب کرلیں۔؎
کیسے عجیب لوگ تھے جن کے یہ مشغلے رہے
میرے بھی ساتھ ساتھ تھے غیروں سے بھی ملتے رہے
والی بات ممکن نہ ہوگی اور کم ازکم چین ایسے قریبی اور محسن دوست کا استعمال تو فی الفور ترک ہونا چاہیے۔ آخر کب تک ہم مصیبت میں چین کو اپنا بہترین اور قابل بھروسہ دوست اور مشکل دور ہونے کے بعد امریکا کو اپنا محسن قرار دیتے رہیں گے۔ صدر اوباما کا دورہ بھارت! اور پاکستان سے صرف نظر،کیا آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی نہیں؟ کیا یہ امر قابل یقین ہے کہ حکیم اللہ محسود اور اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنیوالے امریکیوں کا نشانہ ملا فضل اللہ کو مارتے وقت چوک گیا؟ ہر گز نہیں بلکہ وہ ان کا قیدی ہے۔ جسے مارنے کے لیے وہ مناسب وقت کے منتظر ہیں اور وہ مناسب وقت اب آنے ہی والا ہے۔ ''امریکی انتخابات'' جس میں "Democrates" کی شکست یقینی دکھائی دے رہی ہے۔ چنانچہ امریکی عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ملا فضل اللہ سمیت کچھ معروف طالبان رہنماؤں کو ڈرامائی انداز میں نمٹا دیا جائے گا اور الیکشن میں خاطرخواہ نتائج حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
میں نے تاریخ غلامان کا کسی قدر مطالعہ کیا ہے۔ جس کے دوران کہیں کہیں ایسے واقعات بھی نظر سے گزرے جب کسی غلام نے جرأت کرتے ہوئے اپنے آقا کے جبر و استبداد کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ لہٰذا اگر مان لیا جائے کہ ہم ہمیشہ سے امریکی غلامی کا طوق اپنی گردنوں میں پہنے ہوئے ہیں تب بھی بحیثیت انسان ہمیں اسے اتارنے کے بارے میں سوچنا ضرور چاہیے۔ ارے بھائی! جنرل ضیا الحق جس فضائی حادثے کا شکار ہوئے۔
اس کے پس منظر سے آج کون واقف نہیں؟ اپنی جان کی حفاظت کرنا اگرچہ فطری امر ہے۔ لیکن ایک قوم اور ایک ملک کی حفاظت اس سے افضل تر ہے۔ کم ازکم پچھلے 50 برسوں سے ایک مداری آپ کو اپنی ڈگڈگی پر نچا رہا ہے اور آپ ناچ رہے ہیں۔کبھی تو مداری سے کہیں کہ آپ تھک گئے ہیں اک ذرا سستانا چاہتے ہیں۔ یہ مسلسل تماشا کیا ہے؟ جو رکتا ہی نہیں۔ ہر بننے والی حکومت اسے جاری رکھنے پر مصر ہے! ذرا اپنے فہم کو آواز دیجیے۔ اپنی غیرت و حمیت جس کا ذکر آپ کی زبان کرتے نہیں تھکتی سے کام لیجیے۔ ورنہ تو موت برحق ہے۔ بچ تو آپ پھر بھی نہیں پائیں گے۔کیونکہ (کل نفس ذائقۃ الموت)
ادھر توہین آمیز خاکوں کو بنانے والے، ان کے ممالک اور مسلمان اب بالکل آمنے سامنے ہیں۔ مسلمانوں کا غم و غصہ بڑھ رہا ہے ۔مسلم دنیا بے چین ہے۔ فساد فی الارض صاف دکھائی دے رہا ہے۔ آپ کی ترقی نے جو ہتھیار ایجاد کیے ہیں۔ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ آپ ان کے استعمال کرنے پر بھی نہیں جیت پائینگے کیونکہ سامنے جو جذبہ موجزن ہے قبل اس کے کہ وہ آپ کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے، تاریخ بدل جائے اور مورخ اہل یورپ کی بدترین تباہی و بربادی کے فسانے لکھے۔ پہلی اور اولین فرصت میں باز آجائیں۔
میرا خیال ہے کہ اب اس امرمیں کسی کو شبہ نہیں ہوناچاہیے کہ امریکا علاقے میں بھارت کی بالادستی کا خواہش مند ہے اورچائنا کے مقابلے میں یا اس کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت کے مقابل بھارت کوکھڑا کرنا چاہتا ہے۔ لہٰذا اپنے ایک بیان میں امریکی صدر کا پاکستان کو ہدف تنقید بنانا بعید از قیاس نہیں تھا۔ کیونکہ بھارت کو خوش کرنے کا کسی کے بھی پاس اس سے عمدہ حربہ ہو ہی نہیں سکتا کہ آپ پاکستان کی برائی شروع کردیں۔
وہ راضی ہوجاتے ہیں۔ صدر اوباما اپنی شخصیت اور ملکی پالیسیوں کے تناظر میں خاصے محتاط شخص ہیں۔ لیکن کیا کریں؟ جب دوسرا سننا ہی صرف ایک بات چاہتا ہو لہٰذا انھیں کہنا پڑا۔ دہشت گردی کے حوالے سے، ممبئی حملوں کے حوالے سے اور سانحہ پشاور کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے پاکستان پر کڑی تنقید کی۔ بھارت کے سلامتی کونسل کا رکن بننے پر اپنی حمایت کا اعادہ کیا، لیکن مسئلہ اس گھوڑے کا ہے جسے گھڑ دوڑ میں دوڑنا ہے۔ آپ لاکھ اس پر شرط لگالیں۔ اسے کھلا پلا لیں۔ دوڑنا اور جیتنا تو اس کو پڑے گا۔ اور اس حوالے سے میں صدر اوباما کے دورہ بھارت سے حاصل ہونے والے مثبت نتائج پر حکومتی حلقوں کی طرح زیادہ بے چین نہیں۔
بھارت دراصل سوا ارب لوگوں کی آبادی کا ملک ہے اور یہی وجہ اس کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔یہ مان لینے کے باوجود بھی کہ اب بھارت ترقی کی دوڑ میں ہم سے کہیں آگے ہے اور IMFکی حالیہ رپورٹ کہ بھارت 2015 میں اپنی تیزی سے بڑھتی ہوئی جی ڈی پی کی شرح سے چین کو کراس کر جائے گا میری بات کے حق میں دلیل ہے۔ لیکن میں پھر بھی اصرار کرتا ہوں کہ بھارت میں رہنے بسنے والے لوگ ایک مثالی Nationalismسے محروم ہیں بلکہ وہ بہت سے تحفظات کا شکار ہیں۔
میں نے کئی مرتبہ بھارت کا دورہ کیا اور مہینوں تک اس کی ترقی، معیشت، انڈسٹری، انڈسٹری لسٹ، تعلیم، صحت، انصاف، میونسپل سروسز کا قریب سے جائزہ لیا اور مجھے صاف محسوس ہوا کہ وہاں اگر ترقی کی رفتار بہتر ہوئی ہے تو بہت سے صوبوں میں احساس محرومی، ذات پات کے الجھے ہوئے نظام اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم پر بے چینی کی رفتار میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے بلکہ کئی علاقے دیکھنے کے بعد تو احساس ہوا کہ ترقی شاید رک گئی ہے۔
بہرحال یہ اتفاق کہ ایک ہی وقت میں چینی فوج کے سربراہ پاکستان کے دورے پر ہیں۔ اور امریکی صدر اوباما بھارت کے دورے پر بھی خوب ہے اور شاید مستقبل کی ایک جھلک بھی۔ معاملہ نازک ہے۔ حکومت کو بہت دیکھ بھال کر قدم اٹھانے ہوں گے اور بھائی ایک موٹی سی بات تو یہ ہے کہ ''امریکا قابل بھروسہ دوست نہیں۔'' لیکن کوئی دانا دشمن قرار دے یہ بھی درست نہیں۔ دراصل اپنے مفادات اور معاملات کو مدنظر رکھ کر خارجہ پالیسی تشکیل دینی چاہیے۔
بجائے اس کے کہ کوئی وزیر اعظم یہ دعویٰ کرے کہ اس کی اور بل کلنٹن کی Families میں تعلقات قریبی نوعیت کے ہیں یا کوئی صدر، صدر امریکا سے گہرے اور ذاتی مراسم کے قصے سنائے۔آپ ایک ملک کے سربراہ ہیں۔ 20 کروڑ عوام کے نمایندے ہیں تو آپ کو سوچنا بھی سبھی کے اذہان سے ہوگا۔ دیکھنا بھی سبھی کی بینائی سے ہوگا اور فیصلے بھی سبھی کے مفاد کو لے کر کرنے ہوں گے۔شاید وقت آگیا ہے کہ آپ امریکا یا چائنا میں سے کسی ایک کو مستقبل کے شریک سفر کی حیثیت سے منتخب کرلیں۔؎
کیسے عجیب لوگ تھے جن کے یہ مشغلے رہے
میرے بھی ساتھ ساتھ تھے غیروں سے بھی ملتے رہے
والی بات ممکن نہ ہوگی اور کم ازکم چین ایسے قریبی اور محسن دوست کا استعمال تو فی الفور ترک ہونا چاہیے۔ آخر کب تک ہم مصیبت میں چین کو اپنا بہترین اور قابل بھروسہ دوست اور مشکل دور ہونے کے بعد امریکا کو اپنا محسن قرار دیتے رہیں گے۔ صدر اوباما کا دورہ بھارت! اور پاکستان سے صرف نظر،کیا آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی نہیں؟ کیا یہ امر قابل یقین ہے کہ حکیم اللہ محسود اور اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنیوالے امریکیوں کا نشانہ ملا فضل اللہ کو مارتے وقت چوک گیا؟ ہر گز نہیں بلکہ وہ ان کا قیدی ہے۔ جسے مارنے کے لیے وہ مناسب وقت کے منتظر ہیں اور وہ مناسب وقت اب آنے ہی والا ہے۔ ''امریکی انتخابات'' جس میں "Democrates" کی شکست یقینی دکھائی دے رہی ہے۔ چنانچہ امریکی عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ملا فضل اللہ سمیت کچھ معروف طالبان رہنماؤں کو ڈرامائی انداز میں نمٹا دیا جائے گا اور الیکشن میں خاطرخواہ نتائج حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
میں نے تاریخ غلامان کا کسی قدر مطالعہ کیا ہے۔ جس کے دوران کہیں کہیں ایسے واقعات بھی نظر سے گزرے جب کسی غلام نے جرأت کرتے ہوئے اپنے آقا کے جبر و استبداد کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ لہٰذا اگر مان لیا جائے کہ ہم ہمیشہ سے امریکی غلامی کا طوق اپنی گردنوں میں پہنے ہوئے ہیں تب بھی بحیثیت انسان ہمیں اسے اتارنے کے بارے میں سوچنا ضرور چاہیے۔ ارے بھائی! جنرل ضیا الحق جس فضائی حادثے کا شکار ہوئے۔
اس کے پس منظر سے آج کون واقف نہیں؟ اپنی جان کی حفاظت کرنا اگرچہ فطری امر ہے۔ لیکن ایک قوم اور ایک ملک کی حفاظت اس سے افضل تر ہے۔ کم ازکم پچھلے 50 برسوں سے ایک مداری آپ کو اپنی ڈگڈگی پر نچا رہا ہے اور آپ ناچ رہے ہیں۔کبھی تو مداری سے کہیں کہ آپ تھک گئے ہیں اک ذرا سستانا چاہتے ہیں۔ یہ مسلسل تماشا کیا ہے؟ جو رکتا ہی نہیں۔ ہر بننے والی حکومت اسے جاری رکھنے پر مصر ہے! ذرا اپنے فہم کو آواز دیجیے۔ اپنی غیرت و حمیت جس کا ذکر آپ کی زبان کرتے نہیں تھکتی سے کام لیجیے۔ ورنہ تو موت برحق ہے۔ بچ تو آپ پھر بھی نہیں پائیں گے۔کیونکہ (کل نفس ذائقۃ الموت)
ادھر توہین آمیز خاکوں کو بنانے والے، ان کے ممالک اور مسلمان اب بالکل آمنے سامنے ہیں۔ مسلمانوں کا غم و غصہ بڑھ رہا ہے ۔مسلم دنیا بے چین ہے۔ فساد فی الارض صاف دکھائی دے رہا ہے۔ آپ کی ترقی نے جو ہتھیار ایجاد کیے ہیں۔ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ آپ ان کے استعمال کرنے پر بھی نہیں جیت پائینگے کیونکہ سامنے جو جذبہ موجزن ہے قبل اس کے کہ وہ آپ کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے، تاریخ بدل جائے اور مورخ اہل یورپ کی بدترین تباہی و بربادی کے فسانے لکھے۔ پہلی اور اولین فرصت میں باز آجائیں۔