’’تھری ان ون‘‘

وزیرستان میں بیرونی عناصر کے علاوہ مقامی جرائم پیشہ افراد بھی اپنی اپنی مارکیٹیں لگائے ہوئے ہیں

Abbasather@express.com.pk

عمران خان کی جنوبی وزیرستان مہم کو اس حوالے سے ''تھری ان ون '' کہا جا سکتا ہے کہ وہ بیک وقت لانگ مارچ بھی ہے، ایڈونچر بھی اور سیاست بھی ہے۔

جس راستے پر عمران خان جانے کا ارادہ رکھتے ہیں، وہ سیکیورٹی فورسز کی حفاظت میں ہے لیکن اس کے باوجود ''پرخطر'' ہے اور یہ عمران خان کے بڑے بڑے سیاسی معرکوں میں لکھا جائے گا۔ اس مہم کو خطرہ بھی تھری ان ون قسم کا ہے جس کی نوعیت خود عمران خان نے یہ کہہ کر بیان کی ہے کہ ان کے اس مارچ پر طالبان کو اعتراض ہے نہ فوج کو۔ کوئی ''دھڑکا سا'' لگا ہوا ہے تو وہ صرف صدر آصف زرداری کا ہے۔ صدقے اس زرداری فوبیا کے کہ جسے عمران نے جنوبی وزیرستان کے حوالے سے بھی فراموش نہیں کیا۔

عمران خان بھی اپنے ہمعصر سیاسی لیڈروں کی طرح خبر بنانے میں ماہر ہو چکے ہیں۔ پاکستان میں بیان اور جلوس کو خبر کہتے ہیں۔ صرف بیان اور خبر ہی کو نہیں، خبر کی تردید اور کسی بیان پر جواب آں غزل کو بھی خبر کہتے ہیں اور خبر کا دائرہ صرف یہیں تک محدود نہیں۔ خبر چھپوانے کے شوقین جب اور کچھ نہیں دیکھتے تو کیمپ لگا کر خبر بنوا لیتے ہیں اور ملک کے مختلف مقامات پر ایسی کئی خبریں دھرنا دیے بیٹھی ہیں۔ ایسی خبر بنوانا عام شہریوں کا بھی حق ہے تو بڑے لیڈروں کا حق تو اور بھی فائق ہوجاتا ہے۔ عمران خان اور نواز شریف صرف بڑے ہی نہیں بہت بڑے لیڈر ہیں۔ اس حوالے سے دونوں بہت بڑے خبر ساز بھی ہیں۔

انھیں خبر بنوانے کیلیے خاص تردد نہیں کرنا پڑتا، کوئی بیان دے دیں یا کہیں کا سفر کر لیں یا پھر پریس کانفرنس میں صحافیوں سے گفتگو کر لیں، میڈیا کو بنی بنائی خبر مل جاتی ہے۔ بلاناغہ بیان عمران خان کی روٹین ہے۔ لیکن جلسہ کیے انھیں کئی مہینے گزر گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اگلی پچھلی کمی پوری کرنے کیلیے جنوبی وزیرستان جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہ ایک بڑا قافلہ لے کر 6 اکتوبر کو اسلام آباد سے جنوبی وزیرستان روانہ ہوں گے۔ اس جلوس میں 100سے زائد امریکی بھی شامل ہوں گے۔ یہ وہ امریکی ہیں جو جنوبی وزیرستان میں آپریشن کے علاوہ ڈرون حملوں کے سخت مخالف ہیں اور ان کی سو فیصد ہمدردیاں عمران خان کی طرح وزیرستان کے قبائلیوں کے ساتھ ہیں۔

جنوبی وزیرستان میں مصروف عمل طالبان عالمی اور قومی اخبارات نہیں پڑھتے، اس لیے یہ سوچ کر ڈر لگتا ہے کہ انھوں نے مہمان امریکیوں کو جارح امریکی سمجھ لیا تو کیا ہو گا ۔ امن مارچ ایک آزمائش والی بات ہے۔ وزیرستان میں امریکی ڈرون حملے تو ہوتے ہی رہتے ہیں لیکن وہاں صرف امریکا مخالف طالبان ہی سرگرم عمل نہیں بلکہ ''را'' اور ''خاد'' کے سیکڑوں ایجنٹ بھی پگڑی پہنے اورچادر اوڑھے گھومتے ہیں، پھر اغوا برائے تاوان کے گروہ بھی طالبان کی آڑ میں اپنا کاروبار جمائے ہوئے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی گروہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔


اغوا برائے تاوان والا گروہ اس لحاظ سے زیادہ خطرناک ہے کہ اسے معلوم ہے کہ ''امریکی مغوی '' کتنا قیمتی ثابت ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے عمران خان نے سارے پہلو نگاہ میں رکھنے کے بعد یعنی خوب سوچ سمجھ کر ہی مارچ کا فیصلہ کیا ہو لیکن اگر انھوں نے ان پہلوؤں پر غور نہیں کیا تو اب مشورہ دینے کا فائدہ کچھ نہیں، اس لیے کہ وہ سیاستدان ہی کیا جو فیصلے کے بعد مشورہ لے اور پھر اپنے فیصلے میں ردو بدل کرے۔ چلیے ان سب اندیشوں کو بے کار وسوسے سمجھ کر نظر انداز کر دیجیے۔ سوال یہ ہے کہ اس مارچ سے کیا ملے گا؟ امریکا ڈرون حملوں پر کسی کی نہیں سنتا، عمران خان سے کیوں ڈرے گا۔

عمران خان کے جلوس اس آپریشن کو نہیں روک سکتے کیونکہ وہ اسے اپنی جنگ اور عین قومی مفاد میں سمجھتے ہیں۔ قومی سطح کے فیصلے مارچوں سے متاثر نہیں ہوتے۔ وزیرستان میں بیرونی عناصر کے علاوہ مقامی جرائم پیشہ افراد بھی اپنی اپنی مارکیٹیں لگائے ہوئے ہیں جو عمران خان کے کہنے پر بند نہیں ہوسکتیں۔ گویا سارے مارچ کا حاصل وصول کچھ بھی نہیں، بس خبریں بنوانے کی مہم ہے ۔ اسے سیاسی مہم جوئی نہیں کہنا چاہیے، انسانی ہمدردی کی مہم جوئی کہنا مناسب ہے۔ لیکن نتیجہ ایک بڑی سرخی کے سوا کچھ نہیں۔ دوسری طرف میاں نواز شریف نے یہ بیان دے کر ایک بڑی خبر بنوادی کہ بلوچستان سے فورسز کو واپس بلا لیا جائے۔

اس بیان سے بلوچ قوم پرست رہنما جو پہلے ہی نواز شریف کے قریب ہیں قریب تر ہو جائیں گے۔ نواز شریف جیسے صاحب فہم وفراست رہنما کے بارے میں ایسی بدظنی کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ وہ اپنے مطالبے کے قابل عمل ہونے کے بارے میں کچھ نہ جانتے ہوں۔ یقیناً انھیں پتا ہو گا کہ یہ مطالبہ قابل عمل نہیں ہے۔ بلوچستان کے بارے میں ابھی اسی ہفتے کسی شخصیت کے حوالے سے یہ خبر آئی تھی کہ صوبے کے بیشتر علاقے پر حکومتی کنٹرول ختم ہو چکا ہے، یہ کڑوا سچ بتائے بغیر چارہ نہیں کہ جن علاقوں میں حکومتی کنٹرول قائم ہے، وہ ایف سی یا اس قسم کے دوسرے سیکیورٹی اداروں کی وجہ سے قائم ہے۔

ان علاقوں میں فورسزکے دستے واپس بلا لیے جائیں تو وہاں کیا حال ہو گا، نواز شریف اچھی طرح جانتے ہیں۔ بلوچستان کی تصویر پیش کرنے میں میڈیا اور سیاستدان دیانتداری نہیں برت رہے۔ اس بات پر سبھی احتجاج کرتے ہیں اور سو فیصد درست کرتے ہیں کہ ایجنسیوں کے ہاتھوں بلوچ نوجوان اغوا اور قتل ہو رہے ہیں، بالکل درست کہ ایک بے گناہ انسان کا قتل انسانیت کے قتل کے مترادف ہے لیکن کوئی بھی یہ نہیں بتا رہا کہ جتنے نوجوان ایجنسیوں کے لوگ مبینہ طور پر اٹھاتے ہیں، اس سے زیادہ تعداد میں دوسرے لوگ قتل ہو رہے ہیں، ان میں زیادہ تعداد پنجابی آباد کاروں کی ہے۔ بلوچوںکا اغوا اور ''قتل عام '' تو قومی مسئلہ ہے لیکن پنجابیوں کے''قتل خاص'' کو اس لیے اہمیت نہیں دی جاتی کہ وہ انسانیت کے قتل کے زمرے میں نہیں آتے۔

بلوچستان کے فساد کا ایک تیسرا پہلو ہزارہ آبادی کا قتل عام بھی ہے لیکن وہ صوبائی سے زیادہ ملک گیر مسئلے یعنی فرقہ وارانہ قتل وغارت گری کا حصہ ہے۔ یہ قتل بھی اتنے ہی قابل مذمت ہیں لیکن چونکہ ان کا تعلق اس مسئلے سے نہیں ہے جسے ''مسئلہ بلوچستان'' کہا جاتا ہے، اس لیے نہ صرف قومی قیادت بلکہ سپریم کورٹ بھی اس کا نوٹس نہیں لیتی۔

دنیا کے ہر ملک میں قومی انصاف کے ساتھ ساتھ قومی مصلحتیں بھی ہوتی ہیں، اس لیے بلوچستان کے مسئلے کا وہی ایک پہلو سامنے رکھنا چاہیے جسے تسلیم کیا جاتا ہے اور جسے حل کیے بغیر بلوچستان راضی نہیں ہو سکتا۔
Load Next Story