ہارو ۔۔۔ مگر پُر وقار طریقے سے

میں حیران ہوتا ہوں ان کھلاڑیوں کی غیرت پر جو ہر ہار کے بعد پریس کانفرنس میں کہتے ہیں کہ ہار جیت تو کھیل کا حصہ ہے۔

یہ قوم اِس کھیل سے اِس قدر محبت کرتی ہے کہ اگر آپ تمام تر کوشش کے باوجود بھی ہار جائیں تو یہ پھر بھی تالیاں بجاکر آپ کا حوصلہ بڑھائے گی۔ فوٹو: اے ایف پی

پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم اس وقت آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں ہے اور اس کا ورلڈ کپ کا سفر رسوائیوں کی داستان رقم کرتے ہوئے جاری و ساری ہے۔ ورلڈ کپ شروع ہونے سے پہلے ہرگز ہمیں زیب نہیں دیتا کہ قومی ٹیم کے رہے سہے جذبوں پہ بھی قدغن لگائیں۔ لیکن کوتاہیوں و غلطیوں سے سبق حاصل کرنا نہ صرف زندہ قوموں کا خاصہ ہوتا ہے بلکہ خلوصِ نیت کو بھی ظاہر کرتا ہے۔

پاکستان کا قومی کھیل تو ہاکی ہے لیکن دیوانے کرکٹ کو ہی قومی کھیل کا سا درجہ دیتے ہیں۔ لیکن اس کھیل کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جاتا ہے جو ساستدان پاکستان کے ساتھ کر رہے ہیں۔ بہر حال اس وقت سیاست پہ بحث ہرگز مقصود نہیں ہے۔ لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اختیارات کی کھینچا تانی کی وجہ سے عوام سے تفریح کا یہ ذریعہ بھی چھین لیا گیا ہے۔ کھینچا تانی اس لیے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ سونے کی چڑیا کا درجہ رکھتی ہے شاید اسی لیے ریٹارئرڈ بیوروکریٹس، فارغ العقل سیاستدان، یا پھر ریٹائرڈ جرنیل، ہر کوئی اس ادارے کی کمان ''قومی خدمت'' کے جذبے سے سرشار ہوکر سنبھالنے کے لیے تن من دھن ایک کیے نظر آتا ہے۔ نہ جانے یہ کون سی قومی خدمت ہے جو بلا معاوضہ نہیں ہوپاتی۔ یاد رہے کہ اگر کوئی کرکٹ بورڈ سربراہ یہ دعویٰ بھی کرے کے وہ تنخواہ وصول نہیں کررہا یا نہیں کی تو اس کے بطور کرکٹ بورڈ سربراہ بیرونی دوروں پہ ضرور نگاہ ڈالیے گا۔

جیسے کسی بھی سرکاری ادارے کے ملازم اسلامی جمہوریہ پاکستان کے خدمت گار تصور کیے جاتے ہیں، بیوروکریٹس کو سرکاری ملازم تصور کیا جاتا ہے، سیاستدانوں کو عوامی ٹیکسوں سے تنخواہ وصول کرنے والا تنخواہ دار تصور کیا جاتا ہے بالکل اسی طرح کھیلوں میں تنخواہ اور مراعات لینے ولے کھلاڑیوں اور کوچز کو بھی پاکستان کا وفادار ملازم ہی تصور کیا جاتا ہے( تصور کیے جانے کے لفظ اس لیے استعمال کرنے کی ضرورت پیش آئی کیوں کہ یہ صرف ایک تصور ہی رہ گیا ہے اور کوئی اس حقیقت کو ماننے کو تیار ہی نہیں کہ اسے مراعات و تنخواہ کوئی اور نہیں بلکہ عوام اپنے ٹیکسوں کے ذریعے ادا کررہے ہیں) ۔

اس وقت قومی کرکٹ ٹیم کے 5 کھلاڑی معاہدے کی پہلی درجہ بندی یعنی 'کیٹیگری A' میں شامل ہیں۔ جن میں کپتان مصباح الحق، محمد حفیظ، سعید اجمل، جنید خان اور شاہد آفریدی شامل ہیں۔ قارئین کی معلومات کے لیے عرض کرنا نہایت ضروری ہے کہ پہلی درجہ بندی میں آنے والے پانچوں کھلاڑی بنیادی ماہانہ تنخواہ چار لاکھ پچیس ہزار (4,25,000/-) وصول کرتے ہیں۔ جبکہ ساتھ ہی ساتھ 4 لاکھ ٹیسٹ میچ فیس، 3 لاکھ 30 ہزار ایک روزہ میچ فیس اور 1 لاکھ 25 ہزار ٹی ٹونٹی میچ فیس اس کے علاوہ ہے۔


دوسری درجہ بندی میں 4 کھلاڑی شامل ہیں ۔ فاسٹ باولر عمر گل، عمر اکمل، یونس خان اور احمد شہزاد دوسری درجہ بندی میں شامل ہیں جو ماہانہ 3 لاکھ 15 ہزار 5 سو 62 روپے (3,15,562/-) روپے وصول کرتے ہیں۔ سنٹرل کنٹریکٹ کی تیسری درجہ بندی میں 6 کھلاڑی آتے ہیں جن میں اسد شفیق، اظہر علی، عدنان اکمل، خرم منظور، ناصر جمشید اورعبدالرحمٰن شامل ہیں۔ یہ کھلاڑی ماہانہ 1 لاکھ 75 ہزار 7 سو 50 روپے (1,75,750/-) حاصل کرنے کے حقدار ہیں۔ ان تین بنیادی درجہ بندیوں کے بعد ایک خاص کیٹیگری بھی بنائی گئی ہے جسے D کیٹیگری کہا جاتا ہے اس میں 15 کھلاڑی شامل ہیں۔ جو ماہانہ 1 لاکھ روپے تنخواہ وصول کرتے ہیں۔ یہ تنخواہ ان اضافی مراعات کے علاوہ ہے جو اچھی کارکردگی یعنی کسی اپنے سے اچھی رینکنگ کی ٹیم کو شکست دینا، سینچری بنانا، زیادہ وکٹیں لینے پر ملتا ہے۔ یہ رقم بونس کہلاتی ہے اور اگر اس بونس کو بھی تنخواہ میں شامل کر لیا جائے تو تنخواہ سے کئی گنا زیادہ رقم بن جاتی ہے۔ یوں کیٹیگری A کا ایک کھلاڑی سالانہ پچاس لاکھ سے زیادہ تنخواہ وصول کرتا ہے۔ B کیٹیگری کا ایک کھلاڑی سالانہ 35 لاکھ اور C کیٹیگری کا کھلاڑی سالانہ 20 لاکھ روپے سے زائد کماتا ہے۔

دو سال پہلے اقوام متحدہ کی انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے ایک جائزے کے مطابق پاکستان میں اوسط ماہانہ آمدن 20 سے 25 ہزار روپے ہے۔ یہ اعدادو شمار 72 ملکوں کے جائزے کے بعد ترتیب دیے گئے تھے۔ اس کے علاوہ یہ بھی ذہن نشین رکھیے کہ 16 سالہ تعلیم مکمل کرنے والوں کی ایک بری تعداد 20 ہزار سے بھی کم تنخواہ پر ملازمت کرنے پر مجبور ہیں اور پاکستان کرکٹ ٹیم کے تمام کھلاڑیوں میں اس وقت مصباح الحق واحد ماسٹرز ڈگری ہولڈر ہیں۔ کیا پاکستانی قوم اپنے عظیم اور تجربے کار کھلاڑیوں سے یہ سوال کرنے کا حق نہیں رکھتی کہ جس ملک میں مزدور کی ماہانہ تنخواہ 10,000 روپے (کم از کم) ہو اس ملک میں تعلیم نہ ہونے کے باوجود لاکھوں روپے لیے جارہے ہیں اور کام صرف کھیلنا ہو تو کیا آپ اس کھیل سے انصاف کررہے ہیں؟ میں حیران ہوتا ہوں ان کھلاڑیوں کی غیرت پر جو ہر ہار کے بعد پریس کانفرنس میں کہتے ہیں کہ ہار جیت تو کھیل کا حصہ ہے۔ تو جناب اگر آپ بلا معاوضہ کھیل رہے ہوں تو یہ منطق سمجھ میں آتی ہے لیکن جب آپ لاکھوں روپے وصول کررہے ہیں تو خلوص نیت سے کھیلنا آپ کا فرض بنتا ہے کیوں کہ آپ کو پیسے مل رہے ہیں۔ جسے تنخواہ کہا جاتا ہے۔

مجھے مکمل یقین ہے کہ اگر آپ جیت کی لگن کے ساتھ میدان میں اتریں اور اپنی مکمل صلاحیتوں کے مطابق کھیلیں تو یہ عوام پاگل نہیں ہے۔ یہ جب دیکھے گی کہ آپ نے جیت کے لیے تن من کی بازی لگا دی لیکن جیت مقدر نہیں ہوسکی تو یہ قوم آپ کی ہار پر بھی تالیاں بجا کر آپ کا حوصلہ بڑھائے گی لیکن شرط یہ ہے کہ آپ اپنی صلاحیتوں کے مطابق خلوص نیت کے ساتھ اپنی ذمہ داری ادا کریں اور کڑی باتیں سن کر عمل کرنے کی عادت ڈالیے۔ بے شک میچ ہار جائیں۔ لیکن اس ہار میں بھی ایک وقار ہونا چاہیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story