لوجہاد سے سودھان

کیا مسلم نوجوان اتنا خوبرو ہے کہ ہندو لڑکی اس کے عشق میں مبتلا ہو کر مسلمان ہو جاتی ہے کیا ہندو لڑکے خوبرو نہیں ہوتے۔

qakhs1@gmail.com

بھارت میں کٹر ہندوؤں کا دعویٰ ہے کہ ملک بھر میں مسلمان، درجنوں ہندو لڑکیوں کو اغوا کرنے کے بعد انھیں محبت کے جال میں پھنسا رہے ہیں اور ان کا واحد مقصد انھیں ہندو سے مسلمان بنانا ہے۔

ایسا لگا جیسے پاکستان کے اندرون سندھ کی بات کی جا رہی ہو۔ لیکن غیر جانبدار ہو کر جب فرانسیسی نیوز اے ایف پی کے ایک جائزے کو پڑھا، جس میں لکھا ہے کہ ''حال ہی میں قومی میڈیا پر شمالی ریاست اُتر پردیش کی ایک بیس سالہ لڑکی کو دکھایا گیا، جس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور جو یہ بتا رہی تھی کہ اُسے اغوا کرنے اور زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد زبردستی اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا گیا۔ اگرچہ گزشتہ ہفتے اسی خاتون نے ہنگامہ خیز انداز میں اپنے تمام الزامات یہ کہتے ہوئے واپس لے لیے کہ اُس کے گھر والوں نے اس پر دباؤ ڈال کر من گھڑت کہانی سنانے کے لیے کہا تھا۔

''لو جہاد'' کی اصطلاح 2009ء میں اُس وقت سامنے آئی جب ایک ہندو انتہا پسند تنظیم نے دعویٰ کیا تھا کہ ریاست کرناٹک میں تیس ہزار خواتین کو مسلمان بنا لیا گیا ہے۔ سوا ارب کی آبادی کے حامل بھارت میں مسلمانوں کی تعداد 150 ملین کے لگ بھگ ہے اور کٹر ہندوؤں کا الزام ہے کہ مسلمان اپنی اس ''خفیہ مہم '' کے ذریعے سیکولر بھارت کو ' اپنا 'ملک بنانا چاہتے ہیں۔''اینٹی لو جہاد فرنٹ'' نے ایک پمفلٹ شایع کیا جس کا متن کچھ ایسا ہے کہ''ہندو بھائیوں سے اپیل۔ جاگو ہندو جاگو! لوجہاد سے سودھان، مسلم لڑکے ہندو نام رکھ کر اور ٹیکا لگا کر ہندو لڑکیوں کو جال میں پھنساتے ہیں۔

ان کا دھرم پرورتن (بدل) کر کے شادی کرتے اور بچے پیداکرتے ہیں، ایوم (نیز) شریرک ومانسک سوشن (جسمانی و ذہنی استحصال) کر کے انھیں چھوڑ دیتے ہیں۔ (ادھارن) مثال کے طور بالی وڈ فلم ابھینیتا (ایکٹر) سیف علی خان و عامر خان نے ہندو لڑکیوں سے شادی کرنے کے بعد بچے پیدا کر کے انھیں چھوڑ دیا۔ اپنے دھرم اور اپنی بہن، بیٹوں کی رکشا (حفاظت) کے لیے سترک ( مستعد) رہیں، یدی (اگر) آپ کے پاس کچھ ایسا لگے تو ہماری ہیلپ لائن سے سمپرک (رابطہ ) کریں۔ اس کے بعد موبائل نمبر، ای میل اور فیس بک ایڈریس لکھا ہوا ہے۔


بی جے پی نے ''لوجہاد'' کا نام لیے بغیر انتخابی مہم کے دوران اپنی سیاسی قرارداد کی منظور میں حیرت انگیز دعوی کیا تھا کہ ''ایک مخصوص مذہب سے تعلق رکھنے والی خواتین کو ریپ کا شکار بنایا جا رہا ہے اور ریپ کرنے والوں کا تعلق ایک خاص مذہب سے، یاتو یہ محض اتفاق ہے یا یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے اور اس پر پارٹی کو تشویش ہے۔'' پوری قرارداد میں''لوجہاد'' کا نام شامل نہیں کیا گیا لیکن معنی خیز و مبہم انداز میں بتانے کی کوشش ضرور کی گئی۔ ہندو انتہا پسند تنظیموں 'آر ایس ایس' ہندو جن جاگرن سمیتی وغیرہ کے مسلمانوں کے ساتھ بغض کا اندازہ ''لو جہاد'' نامی ایک کتاب سے بھی لگایا جا سکتا ہے، جو انتہائی قابل اعتراض اور نفرت انگیز ہے، جس کے ذریعے بھارت ہی میں نہیں دنیا بھر میں ہندو اور مسلمانوںکے درمیان نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

مسلم لڑکی، ہندو لڑکا شادی کے تصورکو بھارتی فلموں کے ذریعے اس قدر پھیلایا جا رہا ہے کہ، مسلم نوجوان کسی ہندو لڑکی کی کے مذہب کی تبدیلی کے بغیر بھی شادیاں کرنے لگے ہیں اور اسے معیوب نہیں سمجھتے، نوجوان 'دین اسلام' کی واضح ہدایت کے باوجود کسی بھی مشرک لڑکی کو بطور بیوی، اپنانے اور اس سے بچے پیدا کرنے کو معیوب اور خلاف اسلام نہیں سمجھتا، لیکن جب کوئی ہندو لڑکی مسلمان ہو کر کسی مسلمان لڑکے سے شادی کر لیتی ہے تو اسے ہندو دھرم کے خلاف سازش اور''لوجہاد'' ' کا نام دیکر بھارتی معاشرہ مسلمانوں کے خلاف ننگی تلوار بن جاتا ہے۔ مشہورکرکٹر عرفان پٹھان جو ایک موذن کا بیٹا ہے اس نے ایک ہندو لڑکی سے اس کا مذہب تبدیل کیے بغیر شادی کی اور ازدواجی زندگی گزار رہا ہے، شاہ رخ خاں کے گھر میں مندر بھی ہے اور نماز کے لیے مختص جگہ بھی۔ سیف علی خان اقرار کرتے ہیں کہ کرینہ کپور نے اسلام قبول نہیں کیا وہ اب بھی ہندو ہیں۔

ہمارے بعض معترضین اور دانشور یہ اعتراض کرتے رہتے ہیں کہ کیا مسلم نوجوان اتنا خوبرو ہے کہ ہندو لڑکی اس کے عشق میں مبتلا ہو کر مسلمان ہو جاتی ہے کیا ہندو لڑکے خوبرو نہیں ہوتے۔ عام لڑکی لڑکوں کے بجائے مشہور مثالیں ہمارے سامنے ہیں نہ جانے معتصب دانش وروں کو یہ کیوں نظر نہیں آتیں۔ مثال کے طور پر سنیل دت نے نرگس سے شادی کی، کرشن چندر نے سلمی صدیقی سے، ریتک روشن نے سوزانے خان سے، اتل اگنی ہوتری نے الویرا خان سے، روہت راجپال نے لائیلہ خان سے، اجیت اگارکر نے فاطمہ دھندلی سے، سچن پائیلٹ نے سارا عبداللہ سے، ارون آہوجہ (گویندہ کے والد) نے نجمہ سے، شرش کندر نے فرح خان سے، ارون گاؤلی نے عائشہ سے، منوج واجپائی نے شبانہ رضا سے، پنکج کپور نے نیلما عظیم سے، گنودینشین راؤے نے تبسم سے، ششی ریکھی نے وحیدہ رحمان سے، راج ببر نے نادرہ ظہیر سے، کرنل سودھی نے نفیسہ علی سے، میورواد دھونی نے ممتاز سے، رندھاوا نے لیکا خان سے، وشنو بھاگوت نے نیلوفر سے، کشور کمار نے مدھو بالا ( ممتاز) سے، وی ایس نائیپال نے نادرہ سے، کبیرسومن نے سبینہ یاسمین سے، بی آر اشارہ نے ریحانہ سلطانہ سے، سمیر بیرورکر نے تسنیم شیخ سے، انوراگ مودی نے شہناز سے، ایم ایس ستھو نے شمع زیدی سے، روی شنکر نے روشن آراء سے، پردیب چیرین نے فوزیہ فاطمہ سے، پنکج ادھاس نے فریدہ سے، کے این سہائے نے زاہدہ حسین سے، بریج سدانا نے سعیدہ خانم سے، نرمل پانڈے نے کوثر منیر سے، وجے گوئل نے تبسم سے، امیت موئترا نے ناہیدکریم سے، روپ کے شوری نے شمشاد بیگم سے، کے ٹی سپرو نے تاجور سلطانہ سے، رمیش باگوے نے زینب سے، منیش تیواری نے نازنین سے، سیتا رام پوری نے سیما چشتی سے، سمیت سہگل نے شاہین سے شادیاں کیں، لمبی چوڑی مزید فہرست بھی ہے، اصل بات یہ ہے کہ ا ن شادیوں کو تو یہ لوگ رزشٹر ایکا تمتا (قومی یکجہتی) کا نام دیتے ہیں لیکن جب ہندو لڑکی کسی مسلمان سے شادی کر لے تو اسے 'لوجہاد' قرار دیا جاتا ہے۔ آپ کی دلچسپی کے لیے یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ بی جے پی کے نام نہاد مسلم چہرہ شاہنوازحسین اور مختارعباس نقوی کی بیویاں بھی ہندو ہیں، اس پر کبھی بے جے پی نے واویلا نہیں کیا۔

دراصل یہ برصغیرکی تاریخ کا حصہ رہا ہے، جس کی سب سے بڑی مثال اکبر اعظم اور ان کی ہندو بیوی، ملکہ جودھا کو ہم کیوں بھول جاتے ہیں۔ دراصل یہ برصغیر ( پاک و ہند) میں سیاسی مقاصدکے تحت زہریلا عنوان بنا کر کی جانے والی سازش ہے۔ بعض افراد اور دانشور یہ کہتے ہیں کہ ایسا غریب ہندوؤں کے ساتھ کیوں ہوتا ہے تو اس کا جواب ماضی میں راجھستان کے وزیر کا ایک مسلمان لڑکی سے شادی کر کے خود مسلمان بن جانے کی مثال موجود ہے، یہ عشق ومحبت کے نام رچایا جانے والا جذباتی کھیل ہے جیسے نہ کوئی روک سکا ہے اور نہ روک سکے گا، عشق ومحبت کے نام پر بے راہ روی اختیارکرنے والے مذاہب کی حدود و قیود سے تجاوزکرتے رہیں گے ۔

وہ اس عشق کی بازی کو مذہب کے نام پر نہیں روک سکتے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ کسی بھی مذہب کی لڑکی یا لڑکے ساتھ، اغوا یا زیادتی کے واقعات ،کسی بھی جانب سے نہیں ہو سکتے۔ یقینی طور پر ایسے واقعات بھی ہوتے ہونگے جس کی بیخ کنی حقائق کی روشنی میں ضروری ہے، لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ برصغیر (پاک و ہند) کے بٹوارے کو ابھی صرف 68 سال ہی ہوئے ہیں، صدیوں کی بنی روایتوں کو چند سالوں میں ختم نہیں کیا جا سکتا۔ بہرحال یہ ایک جذباتی و بے راہ روی کا معاملہ ہے جس میں ہندو یا اسلام مذہب کا کوئی تعلق نہیں۔ جس طرح' شہید کی اسلامی' اصطلاح غیر مسلم استعمال کرنے لگے ہیں ویسا ہی تمام مذاہب والوں کو بے راہ روی کے نام پر آزادی خیالی کے ''لوجہاد'' سے سودھان (ہوشیار) رہنے کی ضرورت ہے۔
Load Next Story