سینیٹ انتخابات کے حوالے سےعمران خان کےخدشات درست ثابت ہونے لگے
ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملہ میں پی ٹی آئی کا ہم خیال گروپ سینیٹ انتخابات میں اپنےساتھیوں پر اعتماد کرنے کےلیے تیار نہیں
سینیٹ انتخابات میں ارکان صوبائی اسمبلی کے ووٹ خریدنے کے حوالے سے عمران خان کے خدشات درست نظر آنے لگےہیں۔
سینٹ انتخابات کے قریب آنے پر تحریک انصاف کے اندر موجود ہم خیال واپس اپنی پرانی پوزیشن میں آگئے ہیں جہاں پر مورچہ زن ہوتے ہوئے انہوں نے واضح کر دیا ہے کہ ''اگر پارٹی قیادت پارٹی کے وفادار اور نظریاتی کارکنوں کی بجائے دیگر کو سینٹ کا ٹکٹ دیا تو وہ ایسے امیدوار کو ووٹ نہیں دیں گے اور یہی سلوک پیراشوٹ کے ذریعے اترنے والے امیدواروں کے ساتھ بھی کیا جائے گا''۔
ہم خیالوں نے سینٹ الیکشن کے حوالے سے اپنی پالیسی واضح کر دی ہے جس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ پارلیمانی بورڈ میں بھی ان کو نمائندگی دی جائے اور بات یہیں تک محدود نہیں ہے بلکہ ساتھ ہی انہوں نے اپنی ہی حکومت کے تین وزراء کی جانب سے مختلف محکموں میں بھرتیوں کے خلاف بھی علم بغاوت بلند کر دیا ہے جو ایک ہزار سے زائد تعداد میں ہیں ، اس معاملہ کی حساسیت کو محسوس کرتے ہوئے نہ صرف سپیکر نے اسمبلی اجلاس ایک روز ایجنڈا مکمل کیے بغیر ختم کردیا بلکہ بعد ازاں ملتوی شدہ اجلاس کے التواء میں اجلاس کیے بغیر مزید ایک ہفتے کی توسیع بھی کردی۔
تحریک انصاف کی قیادت نے خیبرپختونخوا میں سینٹ کے ٹکٹوں کی تقسیم کے لیے جو پارلیمانی بورڈ تشکیل دیا ہے اس کے سربراہ شاہ محمود قریشی ہیں جبکہ اس کے دیگر ارکان میں صوبائی وزراء عاطف خان اور شاہ فرمان کے علاوہ خاتون رکن صوبائی اسمبلی نسیم حیات شامل ہیں۔ تاہم ہم خیالوں کا مطالبہ ہے کہ اس میں ان کی جانب سے امتیاز شاہد قریشی کو بھی شامل کیاجائے تاکہ ٹکٹوں کی تقسیم منصفانہ طریقہ سے کی جاسکے۔
پی ٹی آئی ہم خیالوں کی جانب سے یہ بیان ان کی پالیسی کو واضح کرتا ہے کہ وہ ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملہ میں اپنی ہی پارٹی کے دیگر ساتھیوں پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں اور ان کی خواہش ہے کہ اس سلسلے میں جو بھی فیصلہ کیا جائے اس میں ان کی رائے شامل ہونی چاہیے اور اگر ایسا نہیں کیاجاتا تو اس صورت میں یقینی طور پر سینٹ انتخابات میں ہم خیال گروپ مسلہ پیدا کرسکتا ہے کیونکہ مذکورہ گروپ میں اب بھی بارہ سے پندرہ افراد شامل ہیں۔
تحریک انصاف کے مرکزی جنرل سیکرٹری جہانگیر ترین کو خیبرپختونخوا سے بطور امیدوار لانے کی باتیں تو خود ان کی جانب سے تردید کیے جانے کے بعد ختم ہوگئی ہیں تاہم فوزیہ قصوری سمیت کئی دیگر کے نام ا ب بھی زیر گردش ہیں ۔ اسی وجہ سے ہم خیال گروپ پوری طرح متحرک ہے جو ایسی کسی بھی کوشش کی راہ روکنے کا تہیہ کیے ہوئے ہے، کئی ارکان پارٹی کے صوبائی صدر اعظم سواتی کو بھی ٹکٹ دینے کے مخالف ہیں کیونکہ ان کے بقول اعظم سواتی پارٹی کے نظریاتی ورکر نہیں جبکہ کئی دیگر کے حوالے سے بھی ایسے ہی خیالات پائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے تحریک انصاف کو مشکلات کا سامنا ہے یہی وجہ ہے کہ کہا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف جو اپنے حصہ میں آنے والی ایک جنرل نشست جماعت اسلامی کو دینے کا اعلان کرچکی ہے جس پر امیر جماعت اسلامی سراج الحق امیدوار ہوسکتے ہیں۔
وہ اب مزید ایک نشست کی قربانی دینے کے لیے تیار ہو چکی ہے جو عوامی جمہوری اتحاد کو دی جائے گی جس پر ممکنہ طور پر سینئر وزیر برائے صحت شہرام ترکئی کے والد لیاقت ترکئی امیدوار ہوسکتے ہیں، یہ اقدام اسی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ تاکہ معاملات کو اپنے کنٹرول میں رکھا جاسکے۔ تاہم اس بارے میں ابھی گرد بہت ہے اور آنے والے دنوں میں یہ گرد جب بیٹھے گی تو تب ہی امیدواروں کے چہرے واضح طور پر نظر آئیں گے اور جب یہ چہرے واضح طور پر نظر آنا شروع ہوں گے تو تب ہی ہم خیالوں کے ترکش میں چھپے تیر بھی سامنے سامنے آئیں گے جنھیں دیکھ کر تحریک انصاف کی قیادت کو اپنی صف بندی کرنی پڑی گی۔ تاہم یہ بات واضح ہے کہ اگر ہم خیال اپنی پارٹی کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں تو پی ٹی آئی بھلے الیکشن کے بعد آئین کے آرٹیکل 63A کا استعمال کرے ، الیکشن میں اسے اپنے تمام امیدواروں کو کامیاب کرانا مشکل ہو جائے گا۔
اپوزیشن جماعتوں کی صورت حال اس سے زیادہ کشیدہ ہے کیونکہ ابتدائی طور پر یہ فارمولا سامنے آیا تھا کہ اپوزیشن کے حصہ میں آنے والی 5 نشستوں کو ہر پارٹی کو ایک ، ایک دیتے ہوئے پانچوں جماعتوں کو متحد رکھا جائے گا تاہم اب یہ فارمولا کہیں دور جاکر چھپ گیا ہے کیونکہ اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد بڑی پارٹیوں کی جانب سے زیادہ سے زیادہ نشستیں خود لینے کی خواہش کی وجہ سے پارہ، پارہ ہوگیا ہے۔
اپوزیشن میں شامل دو بڑی جماعتوں، جمعیت علماء اسلام(ف) اور مسلم لیگ (ن)دونوں کی کوشش ہے کہ وہ اپوزیشن کے حصہ میں آنے والی پانچ میں سے دو سے تین نشستیں خود لے اور باقی دیگر پارٹیوں میں تقسیم کردے، اسی مقصد کے لیے جمعیت علماء اسلام (ف)، مسلم لیگ (ن) اور قومی وطن پارٹی کے آپس میں مل جانے اور اے این پی و پیپلزپارٹی کو کھڈے لائن لگانے کی باتیں بھی زیر غور ہیں اور یہ فارمولا بھی زیر غور ہے کہ بڑی دو پارٹیوں یعنی جے یو آئی اور مسلم لیگ (ن) میں سے ایک کو اس مرتبہ دو نشستیں دے دی جائیں اور دوسری کو 2018ء میں اور دو چھوٹی پارٹیوں یعنی اے این پی اور پیپلزپارٹی میں سے ایک کو ایک نشست دے دی جائے اور دوسری کو 2018ء کے وعدے پر ٹرخا دیا جائے۔
اس صورت حال کے باعث پیپلزپارٹی اور اے این پی بھی سینٹ الیکشن میں چاروں کیٹگریز کے لیے اپنے امیدوار میدان میں لانے کے چکروں میں ہیں جن میں یقینی طور پر وہ امیدوار بھی شامل ہوں گے کہ جن کے حوالے سے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے خدشے کا اظہار کیا تھا کہ خیبرپختونخوا اسمبلی میں ایم پی ایز کے ووٹ دو ،دو کروڑ میں خریدے جائیں گے حالانکہ بعض حلقوں کی اس حوالے سے رائے ہے کہ اگر میدان سجا تو یہ ریٹ دو کروڑ نہیں بلکہ ممکنہ طور پر ڈھائی سے تین کروڑ روپے فی ووٹ ہوگا۔
حکمران اتحاد اور متحدہ اپوزیشن میں جاری مذکورہ بالا صورت حال کی وجہ سے وہ خواب جو گورنر خیبرپختونخوا سردار مہتاب اور وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے دیکھا تھا اسے تعبیر ملتی مشکل نظر آرہی ہے، صوبہ کے دونوں بڑوں نے خواہش کا اظہار کیا تھا کہ حکومت و اپوزیشن مل کر سینٹ امیدواروں کا بلامقابلہ انتخاب کرلے تاکہ الیکشن میں پیسہ کا استعمال روکا جاسکے اور اسی مقصد کے لیے سردار مہتاب اور پرویز خٹک کے درمیان باضابطہ طور پر رابطہ بھی ہوا تھا تاہم اگر پرویز خٹک وزیراعلیٰ ہوکر بھی اپنی پارٹی کے اندر موجود ہم خیالوں کو راضی نہ کر پائیں اور سردار مہتاب اپوزیشن کے سابق کپتان ہونے کے ناطے کھانے کی میز پر اپوزیشن رہنماؤں کو اکھٹا کرنے کے باوجود اس بات پر تیار نہ کرسکیں کہ وہ سارا کیک خود کھانے کی بجائے اس کے ٹکڑے کرتے ہوئے تمام پارٹیوں کو اس سے لطف اندوز ہونے کا موقع دیں تو پھر خیبرپختونخوا سے سینیٹرز کا بلامقابلہ انتخاب خواب ہی قرار دیا جاسکتا ہے اور ایسے معاملات پر گہری نگاہ رکھنے والے اس صورت حال کا تقابلی جائزہ صوبہ میں 2003ء اور 2006ء میں منعقد ہونے والے سینٹ انتخابات سے کررہے ہیں جس میں کھلے عام خریدوفروخت دیکھنے کو ملی تھی اور اگر وہی صورت حال دوبارہ پیدا ہوتی ہے تو پھر بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے بھی بہت سے نظر آئیں گے۔
سینٹ انتخابات کے قریب آنے پر تحریک انصاف کے اندر موجود ہم خیال واپس اپنی پرانی پوزیشن میں آگئے ہیں جہاں پر مورچہ زن ہوتے ہوئے انہوں نے واضح کر دیا ہے کہ ''اگر پارٹی قیادت پارٹی کے وفادار اور نظریاتی کارکنوں کی بجائے دیگر کو سینٹ کا ٹکٹ دیا تو وہ ایسے امیدوار کو ووٹ نہیں دیں گے اور یہی سلوک پیراشوٹ کے ذریعے اترنے والے امیدواروں کے ساتھ بھی کیا جائے گا''۔
ہم خیالوں نے سینٹ الیکشن کے حوالے سے اپنی پالیسی واضح کر دی ہے جس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ پارلیمانی بورڈ میں بھی ان کو نمائندگی دی جائے اور بات یہیں تک محدود نہیں ہے بلکہ ساتھ ہی انہوں نے اپنی ہی حکومت کے تین وزراء کی جانب سے مختلف محکموں میں بھرتیوں کے خلاف بھی علم بغاوت بلند کر دیا ہے جو ایک ہزار سے زائد تعداد میں ہیں ، اس معاملہ کی حساسیت کو محسوس کرتے ہوئے نہ صرف سپیکر نے اسمبلی اجلاس ایک روز ایجنڈا مکمل کیے بغیر ختم کردیا بلکہ بعد ازاں ملتوی شدہ اجلاس کے التواء میں اجلاس کیے بغیر مزید ایک ہفتے کی توسیع بھی کردی۔
تحریک انصاف کی قیادت نے خیبرپختونخوا میں سینٹ کے ٹکٹوں کی تقسیم کے لیے جو پارلیمانی بورڈ تشکیل دیا ہے اس کے سربراہ شاہ محمود قریشی ہیں جبکہ اس کے دیگر ارکان میں صوبائی وزراء عاطف خان اور شاہ فرمان کے علاوہ خاتون رکن صوبائی اسمبلی نسیم حیات شامل ہیں۔ تاہم ہم خیالوں کا مطالبہ ہے کہ اس میں ان کی جانب سے امتیاز شاہد قریشی کو بھی شامل کیاجائے تاکہ ٹکٹوں کی تقسیم منصفانہ طریقہ سے کی جاسکے۔
پی ٹی آئی ہم خیالوں کی جانب سے یہ بیان ان کی پالیسی کو واضح کرتا ہے کہ وہ ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملہ میں اپنی ہی پارٹی کے دیگر ساتھیوں پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں اور ان کی خواہش ہے کہ اس سلسلے میں جو بھی فیصلہ کیا جائے اس میں ان کی رائے شامل ہونی چاہیے اور اگر ایسا نہیں کیاجاتا تو اس صورت میں یقینی طور پر سینٹ انتخابات میں ہم خیال گروپ مسلہ پیدا کرسکتا ہے کیونکہ مذکورہ گروپ میں اب بھی بارہ سے پندرہ افراد شامل ہیں۔
تحریک انصاف کے مرکزی جنرل سیکرٹری جہانگیر ترین کو خیبرپختونخوا سے بطور امیدوار لانے کی باتیں تو خود ان کی جانب سے تردید کیے جانے کے بعد ختم ہوگئی ہیں تاہم فوزیہ قصوری سمیت کئی دیگر کے نام ا ب بھی زیر گردش ہیں ۔ اسی وجہ سے ہم خیال گروپ پوری طرح متحرک ہے جو ایسی کسی بھی کوشش کی راہ روکنے کا تہیہ کیے ہوئے ہے، کئی ارکان پارٹی کے صوبائی صدر اعظم سواتی کو بھی ٹکٹ دینے کے مخالف ہیں کیونکہ ان کے بقول اعظم سواتی پارٹی کے نظریاتی ورکر نہیں جبکہ کئی دیگر کے حوالے سے بھی ایسے ہی خیالات پائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے تحریک انصاف کو مشکلات کا سامنا ہے یہی وجہ ہے کہ کہا جا رہا ہے کہ تحریک انصاف جو اپنے حصہ میں آنے والی ایک جنرل نشست جماعت اسلامی کو دینے کا اعلان کرچکی ہے جس پر امیر جماعت اسلامی سراج الحق امیدوار ہوسکتے ہیں۔
وہ اب مزید ایک نشست کی قربانی دینے کے لیے تیار ہو چکی ہے جو عوامی جمہوری اتحاد کو دی جائے گی جس پر ممکنہ طور پر سینئر وزیر برائے صحت شہرام ترکئی کے والد لیاقت ترکئی امیدوار ہوسکتے ہیں، یہ اقدام اسی وجہ سے ہو سکتا ہے کہ تاکہ معاملات کو اپنے کنٹرول میں رکھا جاسکے۔ تاہم اس بارے میں ابھی گرد بہت ہے اور آنے والے دنوں میں یہ گرد جب بیٹھے گی تو تب ہی امیدواروں کے چہرے واضح طور پر نظر آئیں گے اور جب یہ چہرے واضح طور پر نظر آنا شروع ہوں گے تو تب ہی ہم خیالوں کے ترکش میں چھپے تیر بھی سامنے سامنے آئیں گے جنھیں دیکھ کر تحریک انصاف کی قیادت کو اپنی صف بندی کرنی پڑی گی۔ تاہم یہ بات واضح ہے کہ اگر ہم خیال اپنی پارٹی کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں تو پی ٹی آئی بھلے الیکشن کے بعد آئین کے آرٹیکل 63A کا استعمال کرے ، الیکشن میں اسے اپنے تمام امیدواروں کو کامیاب کرانا مشکل ہو جائے گا۔
اپوزیشن جماعتوں کی صورت حال اس سے زیادہ کشیدہ ہے کیونکہ ابتدائی طور پر یہ فارمولا سامنے آیا تھا کہ اپوزیشن کے حصہ میں آنے والی 5 نشستوں کو ہر پارٹی کو ایک ، ایک دیتے ہوئے پانچوں جماعتوں کو متحد رکھا جائے گا تاہم اب یہ فارمولا کہیں دور جاکر چھپ گیا ہے کیونکہ اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد بڑی پارٹیوں کی جانب سے زیادہ سے زیادہ نشستیں خود لینے کی خواہش کی وجہ سے پارہ، پارہ ہوگیا ہے۔
اپوزیشن میں شامل دو بڑی جماعتوں، جمعیت علماء اسلام(ف) اور مسلم لیگ (ن)دونوں کی کوشش ہے کہ وہ اپوزیشن کے حصہ میں آنے والی پانچ میں سے دو سے تین نشستیں خود لے اور باقی دیگر پارٹیوں میں تقسیم کردے، اسی مقصد کے لیے جمعیت علماء اسلام (ف)، مسلم لیگ (ن) اور قومی وطن پارٹی کے آپس میں مل جانے اور اے این پی و پیپلزپارٹی کو کھڈے لائن لگانے کی باتیں بھی زیر غور ہیں اور یہ فارمولا بھی زیر غور ہے کہ بڑی دو پارٹیوں یعنی جے یو آئی اور مسلم لیگ (ن) میں سے ایک کو اس مرتبہ دو نشستیں دے دی جائیں اور دوسری کو 2018ء میں اور دو چھوٹی پارٹیوں یعنی اے این پی اور پیپلزپارٹی میں سے ایک کو ایک نشست دے دی جائے اور دوسری کو 2018ء کے وعدے پر ٹرخا دیا جائے۔
اس صورت حال کے باعث پیپلزپارٹی اور اے این پی بھی سینٹ الیکشن میں چاروں کیٹگریز کے لیے اپنے امیدوار میدان میں لانے کے چکروں میں ہیں جن میں یقینی طور پر وہ امیدوار بھی شامل ہوں گے کہ جن کے حوالے سے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے خدشے کا اظہار کیا تھا کہ خیبرپختونخوا اسمبلی میں ایم پی ایز کے ووٹ دو ،دو کروڑ میں خریدے جائیں گے حالانکہ بعض حلقوں کی اس حوالے سے رائے ہے کہ اگر میدان سجا تو یہ ریٹ دو کروڑ نہیں بلکہ ممکنہ طور پر ڈھائی سے تین کروڑ روپے فی ووٹ ہوگا۔
حکمران اتحاد اور متحدہ اپوزیشن میں جاری مذکورہ بالا صورت حال کی وجہ سے وہ خواب جو گورنر خیبرپختونخوا سردار مہتاب اور وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے دیکھا تھا اسے تعبیر ملتی مشکل نظر آرہی ہے، صوبہ کے دونوں بڑوں نے خواہش کا اظہار کیا تھا کہ حکومت و اپوزیشن مل کر سینٹ امیدواروں کا بلامقابلہ انتخاب کرلے تاکہ الیکشن میں پیسہ کا استعمال روکا جاسکے اور اسی مقصد کے لیے سردار مہتاب اور پرویز خٹک کے درمیان باضابطہ طور پر رابطہ بھی ہوا تھا تاہم اگر پرویز خٹک وزیراعلیٰ ہوکر بھی اپنی پارٹی کے اندر موجود ہم خیالوں کو راضی نہ کر پائیں اور سردار مہتاب اپوزیشن کے سابق کپتان ہونے کے ناطے کھانے کی میز پر اپوزیشن رہنماؤں کو اکھٹا کرنے کے باوجود اس بات پر تیار نہ کرسکیں کہ وہ سارا کیک خود کھانے کی بجائے اس کے ٹکڑے کرتے ہوئے تمام پارٹیوں کو اس سے لطف اندوز ہونے کا موقع دیں تو پھر خیبرپختونخوا سے سینیٹرز کا بلامقابلہ انتخاب خواب ہی قرار دیا جاسکتا ہے اور ایسے معاملات پر گہری نگاہ رکھنے والے اس صورت حال کا تقابلی جائزہ صوبہ میں 2003ء اور 2006ء میں منعقد ہونے والے سینٹ انتخابات سے کررہے ہیں جس میں کھلے عام خریدوفروخت دیکھنے کو ملی تھی اور اگر وہی صورت حال دوبارہ پیدا ہوتی ہے تو پھر بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے بھی بہت سے نظر آئیں گے۔